غالب خستہ کے بغیر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-08-31

غالب خستہ کے بغیر


آج دل چاہنے لگا ہے کہ ان کاموں کی فہرست بنائی جائے جو چچا غالب کے بغیر بند ہیں ، یعنی اس شعر کی تفسیر تلاش کی جائے جس میں خود غالب نے یہ سوال کیا تھا کہ :
غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
اور جب کوئی کام بند نہیں ہے تو زار زار رونے اور ہائے ہائے کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ حالانکہ مرزا نوشہ نے اس مضمون کو اپنی زندگی میں ہی شعر میں ڈھال کرغزل کے حوالے کر دیا تھا اور پھر زندگی بھر ہائے ہائے کرتے اور اس شعر کی گردان کرتے گزار دی ، لیکن غالب اپنی زندگی میں بھی کوئی ایسا کام تلاش نہیں کر سکے جو ان کے بغیر بند ہوتا اور غالب کو اپنے ہی شعر کا جواب کسی اور شعر کے ذریعہ دینا پڑتا۔
ہم نے اپنی تحقیق کو وسعت دیتے ہوئے پہلے تو ان کاموں کی فہرست بنائی جو مرزا عام طور پر انجام دیتے تھے۔ ان میں شعر کہنا، شراب پینا، کوٹھے والیوں سے عشق لڑانا، پریشان رہنا، جوا کھیلنا، پکڑے جانا، مرغن غذائیں کھانا، دوستوں کو خط لکھنا، شاہ کے مصاحبوں پر طنز کرنا ، زندگی بھر بیوی کو پریشان رکھنا،خالقِ دو جہاں سے شکایتیں کرنا وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔ اس کے بعد ہم نے یہ تلاش شروع کی کہ ان میں سے کون سے کام ایسے ہیں جو مرزا غالب پر ہی ختم ہو گئے ہیں۔ لیکن افسوس باوجود انتہائی کو شش کے ایک بھی ایسا کام نہ مل سکا جس سے ہم اس شعر کو ذرا بہتر طریقہ سے سمجھ سکیں، بلکہ کئی کام تو ایسے بھی ملے جو ہماری زندگی کے ساتھی ہیں (اب تفصیل بتانے سے کیا فائدہ؟)۔۔

ہم نے ابتدا شعر گوئی سے کی اور پہلی ہی نظر میں اس موضوع سے آگے بڑھ گئے کیونکہ شاعروں کی تعداد میں غالب کے بعد اضافہ ہی ہوا ہے، کمی بالکل نہیں ہوئی ہے۔ شراب پینا پہلے عیب تھا، اب فیشن ہے۔ کوٹھے والیوں سے عشق لڑانے کے مسئلہ پر ہماری فکر ذرا ٹھٹکی تھی لیکن پھر یاد آیا کہ اب کو ٹھے والیاں کوٹھوں سے اتر آئی ہیں اور ہوٹلوں و کلبوں میں آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہیں۔ رہی ان سے عشق لڑانے کی بات تو عشق پہلے بھی دماغی خلل کا نام تھا ،آج بھی ہے۔ اللہ سے شکایتیں کرنے کی مہارت تو خاص و عام میں بخوبی پائی جاتی ہے اور شکایتیں بھی ایسے کہ بیماری پھیلی تو غریبوں کو شکایت اور نہیں پھیلی تو ڈاکٹروں اور حکیموں کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ پریشان رہنے کے معاملہ میں یہ دنیا اتنی آگے بڑھ چکی ہے کہ جو لوگ لاکھوں انسانوں کے لیے باعثِ پریشانی ہیں وہ خود بھی پریشان ہیں۔ جوا کھیلنا، پکڑے جانا، یہ معاملہ ایسا نہیں جس پر ہم کوئی رائے دے سکیں کیونکہ اخبار آپ سب ہی پڑھتے ہیں۔ رہی بات مرغن غذائیں کھانے کی تو چچا غالب کا یہ عیب ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔
کہتے ہیں کہ ایک جیل میں تین قیدی آپس میں بات کر رہے تھے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان میں سینئر کون ہے۔ ایک قیدی نے کہا میں جب اس جیل میں آیا تو ریل گاڑی نئی نئی ایجاد ہوئی تھی۔ دوسرا بولا میں جب آیا تھا تو لوگ گھوڑوں پر سفر کرتے تھے، تیسرے نے معصومیت سے پو چھا: یہ ریل گاڑی اور گھوڑے ہوتے کیسے ہیں؟
بس یہی حال ہمارا سمجھ لیجئے کہ ہم اب تک نہ سمجھ پائے کہ مرغن غذائیں کسے کہا جاتا ہے۔ لیکن ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ مرغن غذائیں آج بھی کھائی جاتی ہیں، لہٰذایہ معاملہ بھی نبٹا۔
دوستوں کو حالانکہ اب خط نہیں لکھے جاتے ، موبائل سے خیریت پوچھ لی جاتی ہے لیکن کچھ لوگ ابھی تک اس پرانی ترکیب سے خیریت پوچھتے اور بتاتے ہیں، اس لیے یہ سلسلہ بھی سراسر متروک نہیں ہوا ہے۔ شاہ کے مصاحبوں پر طنز کرنے کی عادت لوگوں میں اس لیے کم ہو گئی ہے کہ اب شاہ نہیں ہو تے۔ البتہ شاہوں کی وراثت پر قابض جو بھی لوگ میدان میں ہیں ان کی تکا بوٹی خوب ہوتی رہتی ہے۔ بیوی کو پریشان کرنے کے معاملے میں ہمیں یقین ہے کہ غالب پر ریسرچ کرنے والوں سے کہیں غلطی ہو ئی ہے،کیونکہ بیویوں کو پریشان کرنے والا سورما ہمیں تاریخ کے کسی صفحہ پر نظر نہیں آیا۔ لیکن بیویوں سے پریشان ہو نے والوں کی کبھی کمی نہیں رہی اور آج بھی یہ رسم کہن اپنی پوری آب و تاب سے جاری ہے۔

چونکہ غالب کے سلسلے میں ہم نے ان پر لکھی کتابیں پڑھنے سے تو اس لیے گریز کیا ہے کہ پتہ نہیں کتاب کے مصنف سے غالب کے تعلقات کیسے رہے ہوں۔ یا کہیں لکھنے والا ذوق صاحب کے گروپ کا نہ ہو۔ یا پھر پسِ مردن کسی دل جلے نے غالب کی قبر کھود کر اس کی مٹی سے کلہڑ بنا لیے ہوں اور شراب کی بھٹی لگا کر اس کی کمائی سے کتاب چھاپ لی ہو۔ اب غالب خود تو موجود نہیں ہیں کہ اپنے بارے میں کسی بات کی تصدیق یا تردید کر سکیں۔ ہم نے یہی بہتر سمجھا کہ غالب پر بنی فلمیں اور سیریل دیکھ کر اپنی معلومات میں اتنا اضافہ تو کر ہی لیں کہ ہمارا نام بھی غالب شناس افراد کی فہرست میں شامل ہو جائے، لیکن ایک دو کو چھوڑ کر باقی فلموں میں غالب اپنا ہی چربہ نظر آئے۔ یعنی ان فلموں کے ذریعہ غالب کے بارے میں غلط رائے تو قائم کی جا سکتی ہے غالب کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ پھر بھی جو کچھ ہاتھ لگا اسی کو غنیمت جانا۔

ہم نے غالب کے ہزاروں قدر دان دیکھے ہیں۔ ایسے لوگ بھی غالب کے چاہنے والوں میں ہیں جن کی زبان سے کبھی لفظ غالب ادا ہی نہیں ہوا۔ زندگی بھر گالب ہی کہتے رہے اور ان اشعار پر سر دھنتے رہے، جو اچھے اچھے اردو داں کے سر سے گذر جاتے ہیں۔ غالب کے نام پر سیمنار، مشاعرے وغیرہ ہوتے رہتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ کم از کم ہندوستان اور پاکستان میں اکثر اس طرح کی محفلیں جمتی ہیں لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ غالب صدی کے موقع پر پاکستان کے ارباب اقتدار نے سبھی اضلاع کے حاکموں کو خط بھیجا جس میں حکم دیا گیا تھا کہ غالب کی زمین میں مشاعروں کا انعقاد کرایا جائے۔ ایک حاکم نے جواباً عرض کیا کہ ہمارے ضلع کے گاﺅں گاﺅں کا ریونیو ریکارڈ چھان لیا گیا لیکن غالب کی زمین کا پتہ نہیں چل رہا ہے، اس لیے مشاعرہ کرانا ممکن نہیں ہے۔
غالب اگر آج زندہ ہوتے تو اس جواب پر یقینا عش عش کر اٹھتے۔ ویسے غالب آج اگر کہیں سے برآمد ہو جائیں تو زیادہ امکان تو یہ ہے کہ دہشت گرد سمجھ کر گرفتار کر لیے جائیں گے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کا انکاﺅنٹر کر کے ان کی جیب سے کوئی نامکمل غزل حاصل کر لی جائے اور اسے حکومت کے خلاف بغاوت کا پلان کہہ کر میڈیا کو دکھا دیا جائے۔
بات لوٹ پھیر کر اسی جگہ آجاتی ہے کہ غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں؟
اس معاملہ میں غالب خستہ کا معاملہ بھی کافی اہمیت رکھتا ہے، کیو نکہ مرنے کے بعد تو غالب خستہ ہو ہی گئے ہو ںگے۔ سنا ہے زندگی میں بھی اتنے خستہ تھے کہ ادھر ہاتھ لگایا ادھر بکھر گئے۔۔
ہم جب "غالب کے بغیر کون سے کام بند ہیں" کی تلاش سے مایوس ہو چکے تھے تو اچانک ہماری بیگم نے ہماری رہنمائی فرماتے ہوئے ہم سے پوچھا:
"یہ بتائیے کہ غالب کے بعد شاعری ہو رہی ہے یا بند ہو چکی ہے؟"
اور ہم نے اپنی تلاش میں کامیابی حاصل کر لی۔۔

بشکریہ:
ماہنامہ "شگوفہ" (حیدرآباد)۔ شمارہ: جنوری 2009۔

Ghalib khasta ke baghair. Humorous Essay: Shahid Mahmood Khan.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں