شب خون - اردو ادبی دنیا کا وہ معرکۃ الآرا رجحان ساز و تاریخ ساز رسالہ ہے جسے جدیدیت کا پیش رو قرار دیا گیا۔ اردو ادب کے مشہور نقاد اور محقق شمس الرحمن فاروقی نے اس ماہنامے کا اجرا جون 1966 میں کیا تھا اور جس کی پرنٹ اشاعت کا اختتام 2006 میں عمل میں آیا۔ شب خون کے وسیلے سے فاروقی نے اردو میں ادب کے متعلق نئے خیالات اور برصغیر و دوسرے ممالک کے اعلیٰ ادب کی نہ صرف ترویج کی بلکہ لکھنے والوں کو نئی فکر نئے رجحان و احساس سے نہ صرف روشناس کروایا بلکہ ان کی فکری و تخلیقی تربیت بھی فرمائی۔
تعمیرنیوز پر پہلی بار اس یادگار رسالے کا ایک شمارہ (شمارہ:271 ، اگست-2003) پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش ہے۔ 82 صفحات کی اس فائل کا حجم صرف 14 میگابائٹس ہے۔
رسالہ کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
اس شمارے کے اندرونی صفحہ اول پر مدیر اعلیٰ نے مشہور اور ماہر شرحیات [Hermeneutics]، ہانس جارگ گیڈمر [Hans Georg Gadamer, 1900-2003] کے انتقال کی خبر دیتے ہوئے اسے خراج تحسین کے طور پر اس کے بعض اہم خیالات پیش کیے ہیں۔ چند اقتباسات ذیل میں درج ہیں ۔۔۔(1) تحریر محض ایک امر اتفاقی یا اضافۂ زائد نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے زبانی روایت کے ارتقا میں کوئی بنیادی تبدیلی ظہور میں نہ آئے۔ بے شک، لسانی معاشروں میں یہ ارادہ اور نیت ہو سکتی ہے کہ روایت کو جاری اور زندہ رکھا جائے، یعنی یہ نیت اور ارادہ ممکن ہے کہ تحریر کے بغیر ہی استقلال و استحکام حاصل ہو جائے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ صرف تحریری روایت کے لئے ممکن ہے کہ وہ ماضی کی زندگی کے باقی ماندہ ٹکڑوں اور تامکمل اجزا کی روائی و اجرائی سے خود کو الگ کر سکے۔ یعنی ایسے نامکمل حصوں بخروں سے، جن کی بنیاد پر ماضی کو دوبارہ زندگی مل سکتی ہے۔۔۔ ماضی سے جو کچھ ہم تک پہنچا ہے اس کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ استقلال و استحکام ہی کی نیت نے تواصل (continuity) کی وه وحید (unique) صورت پیدا کی ہے جسے ہم "ادب" کہتے ہیں۔ ادب ہمارے سامنے محض یادگاروں اور نشانیوں کا ایک نظام نہیں پیش کرتا۔ یوں کہنا چاہئے کہ ادب نے ہر حال (Present) کے ساتھ اپنی ہی طرح کی وحدت زمانی حاصل کرلی ہے۔
(2) فہم میں تعبیر ہمیشہ شامل ہوتی ہے۔ ادبی نقاد کا بھی کام یہی ہے کہ وہ متن کو قرأت پذیر اور مفہوم پذیر بنائے ، یعنی غلط فہمیوں کے سدباب کے ذریعہ متن کی درست فہم کا تحفظ کرے۔۔۔ تعبیر کا منشا کبھی نہیں ہوتا کہ وہ اس فن پارے کی جگہ لے لے جس کی تعبیر ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر، تعبیر اپنے سخن (utterance) کے شاعرانہ کردار کی بدولت قاری کی توجہ اپنی طرف منعطف کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔ [یعنی تعبیری سخن کتنا ہی شاعرانہ کیوں نہ ہو، وہ مقصود بالذات نہیں ہوتا۔]
***
نام رسالہ: شب خون - اگست 2003
بانی و مدیر: شمس الرحمٰن فاروقی
تعداد صفحات: 82
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 14 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Shabkhoon_271_Aug-2003.pdf
ماہنامہ 'شب خون' - اگست 2003 :: فہرست | |||
---|---|---|---|
نمبر شمار | تخلیق | تخلیق کار | صفحہ نمبر |
1 | گیڈمر کے خیالات | ادارہ | 2 |
2 | مردار خور | سید محمد اشرف | 3 |
3 | پاک ناموں والا پتھر | نیر مسعود | 17 |
4 | کشتی | انور قمر | 24 |
5 | مرد مجاہد مرد ناتواں | حبیب حق | 27 |
6 | پریمل اور پانچ دہائی پہلے الہ آباد کے شب و روز | بش ٹنڈن (ترجمہ: نجم فاروقی) | 52 |
7 | زندگی کے خواب اور جشن انبوہ | اقبال مجید | 60 |
8 | دو چار قدم | مقصود الہی شیخ | 64 |
9 | تین دن بعد | آنند لہر | 67 |
10 | قاضی سلیم سے گفتگو | رشید انصاری | 69 |
11 | سوانحی گوشے | ادارہ | 73 |
12 | کہتی ہے خلق خدا | ادارہ | 74 |
13 | اخبار و اذکار ، اس بزم میں | ادارہ | 80 |
Shabkhoon magazine Allahabad, issue: August 2003, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں