اک اور آواز - ٹیلی مِنی سیریز چرنوبل - تحریر-1 : قیصر نذیر خاور - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-08-07

اک اور آواز - ٹیلی مِنی سیریز چرنوبل - تحریر-1 : قیصر نذیر خاور

اِک اور آواز ؛ ٹیلی مِنی سیریز 'چرنوبل'
(One voice more : Tele Miniseries Chernobyl)
تحریر (سلسلہ نمبر:1) - از: قیصر نذیر خاور

chernobyl-tele-miniseries

امریکہ کی سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ کا زمانہ دہائیوں پر محیط رہا لیکن اس سرد جنگ کی ہیت 1991 ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے ساتھ ختم نہ ہوئی البتہ اس نے نئی شکل اختیار کرتے ہوئے روس کو ہدف بنا لیا جس کی بازگشت ٹرمپ والے انتخابات میں بھی سنی گئی کہ روس نے امریکی انتخابات میں دھاندلی کروانے کی کوشش کی تھی۔ امریکی حکومت اب چین کے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی اڑ پھَس میں ہے۔

ہمارے ہاں تو سیاست کا عکس فنون لطیفہ میں نظر آنے نظر کم ہی آتا ہے کہ ہمیں پاکستان بننے کے ساتھ ہی اس جبر کا عادی کر دیا گیا ہے جو ہمیں اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتا کہ ہم کسی بھی سیاسی موضوع کا عکس کسی بھی طرح فنون لطیفہ میں دکھا سکیں ؛
آپ ادب اٹھا کر دیکھ لیں ، مصوری دیکھ لیں یا دیگر اصناف پر نظر ڈالیں آپ کو خال خال ہی ایسا کچھ نظر آئے گا جس میں سیاسی رنگ ہوں۔ سلولائیڈ جو ستر سال سے فنون لطیفہ کا حصہ بنا ہوا ہے اور ٹیلی ویژن بھی جسے پاکستان میں لگ بھگ پچپن سال ہو چکے ہیں ، پر بھی ایسا ہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہمارے ہاں جب ریاض شاہد نے ' امن ' نامی فلم بنائی تو سنسر آڑے آیا ، فلم میں ترمیم کروائی گئی اور اسے ' یہ امن ' کے نام سے ریلیز ہونے دیا ،' مٹی کے پُتلے' بنی ، سنسر پھر آڑے آیا اور یہ بھی ترامیم کے بعد ہی ریلیز ہو پائی۔ ' انسان اور گدھا ' بنی تو اس کا بھی یہی حشر ہوا۔
پھر ضیاءالحق کا زمانہ آیا ، فلم سٹوڈیو ویران کر دئیے گئے اور سینما مالکان کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ سینما گِرا کر وہاں پلازے کھڑے کر دیں۔ یہ جبر ختم تو ہو گیا لیکن بعد میں جو فلمیں بنیں وہ اس مقصد کو سامنے رکھ کر بنائی جانے لگیں کہ وہ کسی نہ کسی طور ان عالمی اداروں کی نظر میں آ سکیں جو ایوارڈ عطا کرتی ہیں۔ ہمارے ٹیلی ویژن پر بھی زیادہ تر کچھ ایسا ہی رہا اور اب بھی ہے ؛ یہ ابھی تک ' ہیر مان جا ' جیسے فلمی ڈراموں میں ہی پھنسے ہوئے ہیں لیکن شاید دنیا میں ایسا نہیں ہے۔
بدیس میں سیاست چاہے مقامی ہو یا عالمی اس کا عکس فنون لطیفہ میں خاصا نظر آتا ہے۔ بڑی سکرین کے لئے بنائی جانے والی فلمیں دیکھ لیں یا ٹیلی ویژن کے لئے بننے والی سیریز ، کئی ایسی نظر آ جائیں گی جو کسی نہ کسی طور پر سیاست سے جڑی ہیں۔

ایچ بی او ( HBO ) ایک امریکی کیبل و سیٹلائیٹ ٹیلی ویژن نیٹ ورک ہے ، اسی طرح سکائی یوکے ( Sky UK ) بھی ایک ٹیلی ویژن کمپنی ہے جس کا مالک امریکی ادارہ ' کوم کاسٹ' ( Comcast ) ہے۔ جس طرح دیگر ٹیلی ویژن نیٹ ورکس اپنی اپنی ٹیلی سیریز بناتے ہیں اسی طرح ان دونوں نے مل کر 2017 ء میں ایک ایسے موضوع کو پھر سے زندہ کیا جو 31 سال پرانا تھا اور جس پر لکھی تحریروں و دیگر تحاریر پر بیلارس کی صحافی ' سویٹلانا ایلکسیوچ ' (Svetlana Alexievich) کو 2015 ء کا نوبل انعام برائے ادب دیا گیا تھا۔
شاید ' سویٹلانا ایلکسیوچ ' کی تحاریر اور اس کو ملنے والا نوبل انعام ہی تھا کہ' ایچ بی او' اور' سکائی یوکے ' کو اس سانحے پر پانچ اقساط پر مبنی مِنی سیریز بنانے کا خیال آیا جو 26 اپریل 1986 ء میں چرنوبل کے نیوکلیائی پاور پلانٹ کے نمبر 4 ری ایکٹرمیں پیش آیا تھا۔
' سویٹلانا ایلکسیوچ ' نے اس سانحے یا حادثے پر 1997/96 ء میں اپنی کتاب 'Chernobylskaya molitva: khronika budushchego' شائع کی۔ یہ پہلے 'چرنوبل سے اٹھتی آوازیں ؛ نیوکلیائی آفت کی زبانی تاریخ ' کے نام سے شائع ہوئی جسے ' کیتھ گیسن ' نے 2005 ء میں ، انگریزی میں ترجمہ کیا تھا۔ یہ 251 صفحات پر مشتمل تھی۔ بعد میں ' سویٹلانا ایلکسیوچ ' نے اس میں ترامیم کیں اور دوسرا ایڈیشن 2013 ء میں شائع کیا۔ یہ ' دعائے چرنوبل ؛ مستقبل کا کرونیکل ' کے نام سے سامنے آیا۔ اسے ' اینا گونِن اور ' آرک ٹیٹ ' نے انگریزی میں ترجمہ کیا جسے' پینگوئن ' نے 2016 ء میں شائع کیا۔ انگریزی میں یہ کتاب 292 صفحات پر مشتمل ہے۔

' ایچ بی او' اور' سکائی یوکے' کی بنائی اس مِنی سیریز کا بنیادی مواد ' سویٹلانا ایلکسیوچ ' کی اسی کتاب سے لیا گیا ہے جبکہ سیریز کے خالق ' کریگ میزن ' ( Craig Mazin) کا کہنا ہے کہ یہ سیریز اس کی اپنی تخلیق ہے۔ اس سیریز کے کریڈٹس میں کہیں بھی ' سویٹلانا ایلکسیوچ 'کے کام کا حوالہ نہیں دیا گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے اس سیریز کے حوالے سے 2014 ء سے ہی کام شروع کر دیا تھا اور کتابیں پڑھنے کے علاوہ سوویت یونین کی حکومتی دستاویزات کے علاوہ بیرونی ممالک میں موجود مواد سے بھی استفادہ کیا۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس نے نیوکلیائی سائنس دانوں سے انٹرویو بھی کیے تاکہ یہ جان سکے کہ ' ری ایکٹر' کیسے کام کرتے ہیں۔ اس کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ یہ جاننے کے لئے کہ 1986ء میں سوویت کلچر کیا تھا ، اس نے بہت سے سابقہ سوویت شہریوں سے بھی مکالمہ کیا۔ وہ اپنی تخلیق کی وضاحت کچھ یوں کرتا ہے :
"۔۔۔ جب آپ ان لوگوں کی ذاتی کہانیاں پڑھتے ہیں۔۔۔ لوگ جو پلانٹ کے نزدیک رہتے تھے ، لوگ جو پلانٹ پر کام کرتے تھے ، لوگ جو چرنوبل اس لئے بھیجے گئے کہ وہ وہاں ( تابکار مادے کی ) ' صفائی ' کے عمل کے لئے کوششیں کر سکیں۔۔۔ ان سارے انفرادی اور الگ الگ بیانیوں میں سے ہی اس سیریز کی کہانی ابھری اور اس نے فلم کو زندگی دی۔۔۔ "

آپ جب یہ سیریز دیکھیں گے اور اگر آپ نے ' سویٹلانا ایلکسیوچ 'کی کتاب ، جس کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں ، پڑھی ہے تو یہ باآسانی جان لیں گے کہ فلم کے آغاز میں ہی پہلے باب سے مواد لیا گیا ہے جو کتاب میں ' A Solitary Human Voice ' نام سے ہے جو آگ بجھانے والے کی بیوی ' لیوڈمِلا اگنیٹینکو' کا مونولاگ ہے۔ لیوڈمِلا اگنیٹینکو' کا کردار سیریز کے آخر تک موجود رہتا ہے اور اسی طرح موجود ہے جس کی تفصیل اس باب میں ہے۔

اس سیریز کی فلم بندی اور تکمیل 2018 ء میں ہوئی۔ اس کی پہلی قسط امریکہ میں 6 مئی 2019 ء کو ٹیلی ویژن پر پیش کی گئی جبکہ 5 ویں 3 جون کو دکھائی گئی۔ اسے 71 ویں ایمی ایوارڈز میں خوب سراہا گیا اور اس نے 19 نامزدگیاں حاصل کیں۔ یہ ان میں سے کتنے جیت پائے گی اس کا فیصلہ ستمبر 2019 ء میں منعقد ہونے والی تقریب میں سامنے آئے گا۔
اس سیریز کو برطانیہ اور امریکہ میں لگ بھگ تیس لاکھ لوگوں نے دیکھا۔ ایچ بی او کی ویب سائٹ پر ادائیگی کرکے دیکھنے والوں اور میرے جیسے ( ٹورنیٹس کے ذریعے دیکھنے والے ) کی تعداد اس میں شامل نہیں ہے۔ روس کے وزیر ثقافت ' ولادیمیر میڈنسکی' ( Vladimir Medinsky ) نے اس فلم کی تعریف کرتے ہوئے " مہارت سے بنائی گئی فلم " قرار دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ اس میں عام انسانوں کو باعزت طو ر پر زندگی گزارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
روس کے ' این ٹی وی ' ( NTV ) کا رد عمل ذرا مختلف تھا ؛
" ہم اسے اپنے نکتہ نظر سے بنا رہے ہیں۔ "
روس کے اخبار ' Komsomolskaya Pravda ' نے لکھا کہ یہ سیریز روسی نیوکلیائی کارپوریشن ' روساٹوم ' ( Rosatom) کے مقابلے میں کام کرنے والی جوہری کمپنیوں کے ایماء پر بنائی گئی ہے تاکہ ' روساٹوم' کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جا سکے۔
روسی اخبار ' Novaya Gazeta ' نے لکھا کہ اسے حیرت ہے کہ فلم میں جہاں سوویت حکومت پر جس بُری طرح سے تنقید کی گئی ہے ، اس کے برعکس عام لوگوں کی طرف ہمدردانہ رویہ رکھا گیا ہے جنہیں مغرب پہلے ' apparatchiks ' ( ریاستی ایجنٹ ) کہتے نہیں تھکتا تھا۔ سب سے منفی رد عمل روسی کمیونسٹ پارٹی کا تھا ؛ اس نے اعلان کیا کہ وہ اس فلم کے سکرپٹ رائٹر، ہدایت کار اور پروڈیوسروں کے خلاف عدالت میں جائیں گے۔ روسی کمیونسٹ پارٹی نے روسی ٹیلی ویژن ریگولیٹری اتھارٹی 'Roskomnadzor ' سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اسے روس میں ٹی وی پر نشر نہ کیا جائے۔

چرنوبل نامی اس مِنی سیریز کی فلم بندی یوکرائن اور لیتھونیا میں کی گئی ؛ اس ٹیم میں سینماٹوگرافر' جیکب اہری' ، پروڈکشن ڈئیزائنر' لیوک ہل ' ، تدوین کار' جنکس گوڈفرے ' اور' سائمن سمتھ ' ، کاسٹیوم ڈئیزائنر ' اوڈیل ڈکس۔ میراکس '، اداکار منتخب کرنے والے ڈائریکٹر' نینا گولڈ ' اور' رابرٹ سٹرنی' کے علاوہ موسیقار ' ہلڈر گڈنیڈوٹر' شامل تھے۔
اس سیریز میں مرکزی اداکار ' جیریڈ ہیرس ' ، ' جیسی بکلے ' ، ' آدم نیگیٹس '، ' سٹیلن سکارسگارڈ ' اور دیگر شامل ہیں ؛ جیریڈ ہیرس نے نیوکلیائی سائنس دان ' ولیری لیگاسوف ' کا کردار ادا کیا ہے جسے ' آپریشن کلین اپ ' میں مدد کے لئے بلایا جاتا ہے ؛ آدم نیگیٹس نے ' وسیلی اگنیٹینکو' نامی اس آگ بجھانے والے کا کردار ادا کیا ہے جو سب سے پہلے آگ بجھانے نیوکلیائی پلانٹ پر پہنچا اوربُری طرح تابکاری کا شکارہوا تھا ؛ جیسی بکلے نے اس کی بیوی ' لیوڈمِلا اگنیٹینکو' کا کردار ادا کیا ہے ؛ سٹیلن سکارسگارڈ نے سوویت یونین کی وزراء کونسل کے ڈپٹی چیئرمین ' بورس شچربینا ' کا کردار نبھایا ہے۔

تکنیکی لحاظ سے یہ سیریز ہر لحاظ سے ایک معیاری ' ڈاکو۔ ڈرامہ ' ہے جس میں مغرب کا وہ تعصب بہرحال اپنی جگہ برقرار ہے جو 1922ء سے قائم ہے جب سوویت یونین میں وجود میں آئی تھی لیکن اس سیریز میں وہ بھونڈا پن خاصا کم ہے جو مغرب کی سوویت یونین کے بارے میں بنائی گئی اکثر فلموں یا ٹیلی سیریز میں موجود رہا اور اب بھی ہوتا ہے ؛ جس کی تازہ مثال 2018 ء کی فلم ' Red Sparrow ' ہے۔
اداکاری بہت جگہوں پر معیاری ہے لیکن کچھ جگہوں پر اس کا معیار پست بھی دکھائی دیتا ہے۔ سویڈش ہدایت کار' جوہان رینک ' (Johan Renck ) نے فلم کو اچھے طریقے سے بنایا ہے لیکن سیریز کے خالق اور سکرپٹ رائٹر امریکی ' کریگ میزن ' (Craig Mazin) کے سکرپٹ میں شستہ زبان کی کمی بہت کَھلتی ہے اور یہ بھی ہے کہ اس نے ' سویٹلانا ایلکسیوچ ' کو کریڈٹ نہ دے کر ' انٹلیلکچوئل ڈِس اَونیسٹی ' کا بھی مظاہرہ کیا ہے جو کسی طور مناسب نہیں ہے۔ اس فلم میں کچھ کردار فِکشنل بھی ہیں جیسے نیوکلیائی طبیعات کی ماہر ' اولانا خومی یوک ' جسے اداکارہ ایملی واٹسن نے ادا کیا ہے۔

' ایچ بی او' اور' سکائی یوکے' کی بنائی یہ مِنی سیریز ہاتھ لگے تو ضرور دیکھیں۔ یہ مشورہ میں نے فلم کے اچھا ہونے ، متعصب ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے نہیں دیا ، صرف اس لئے دیا ہے کہ آپ یہ بات مد ِنظر رکھیں کہ جب کوئی نیوکلیائی ہتھیار ، کسی نیوکلیائی پاور پلانٹ یا تنصیب کا ایک یا زیادہ ری ایکٹر بے قابو ہو جائیں تو تباہی کیسی اور کس نوعیت کی ہوتی ہے۔
یاد رکھیں کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار رکھتا ہے اور اس میں دو نیوکلیائی پاور پلانٹ بھی ہیں ؛ ایک ' کنوپ ' ( KANUPP ) ، کراچی ، جبکہ دوسرا چشمہ کے مقام پر ' چشنوپ ' کے نام سے ، جس کے چار یونٹ فعال ہیں۔
پاکستان میں ' کنوپ ' ( KANUPP) ، کراچی بھی 18 ، اکتوبر 2011 ء کو ایک حادثے کا شکار ہو چکا ہے ؛ اس کا بھاری پانی ( Hydronium ) فیڈر پائپ سے رِس کر ری ایکٹر میں داخل ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں ' ایمرجنسی ' نافذ کرنا پڑی تھی ؛ مزید تفصیلات ' کلاسیفائیڈ ' ہونے کی بِنا پر عوام کے سامنے نہیں لائی گئیں۔


***
Qaisar Nazir Khawar
Lahore, Pakistan.
قیصر نذیر خاور

One voice more : Tele Miniseries Chernobyl. Review Article: Qaisar Nazir Khawar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں