گونگا بولنا چاہتا ہے - افسانہ از حسین الحق - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-08-06

گونگا بولنا چاہتا ہے - افسانہ از حسین الحق

goonga-bolna-chahta-hai-short-story-by-hussainul-haque

گونگے نے بڑی بے چینی سے پہلو بدلا۔
دوسروں نے شاید اس کی بے چینی محسوس نہیں کی یا اس کی بے چینی شاید قابل توجہ ہی نہیں تھی۔ جو بھی ہو مگر وہاں موجود لوگوں پر اس کی بےتابی کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیا۔ معاملہ ہی اتنا اہم تھا کہ اس کے سامنے ایک گونگے کی بے چینی کیا معنی رکھتی۔
جنوری کی انتہائی سرد رات، تقریباً 9 بجے کا عمل، محلے کے بیچوں بیچ "ماشاءاللہ" ہوٹل میں بالکل کنارے، ایک گول میز پر جس کے چاروں طرف آٹھ دس کرسیاں ۔۔۔ ایک پر پھدو مستری، دوسری پر جلیل خان ٹھیکیدار، تیسری پر بیچو ٹیلر، چوتھی پر محلے کی مسجد کا موذن عید محمد، پانچویں پر حبو جراح، چھٹی پر ہارہوا وارڈ کمشنر کھدر پوش پہلوان نما سوشل ورکر عبد الرؤف ، ساتویں پر قوالوں اور رمضان میں "قافلہ" والوں کو "سحری" لکھ کر دینے والا دو چار محلے میں مشہور شاعر جمال غوغائی، آٹھویں پر چراغ دین بیٹری ساز ۔۔۔۔۔۔ اور نویں پر بےچینی سے پہلو بدلنے والا گونگا!

گونگا بےچینی سے پہلو بدل رہا تھا مگر گونگا جو ٹہرا، بولتا کیا، البتہ اس کی اپنی مصیبت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ بول نہیں سکتا تھا مگر سن سکتا تھا اور سمجھ سکتا تھا۔ یہ کیسے ہوا یہ ایک الگ کہانی ہے جس کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے۔
تب تو بس ایک ہی مسئلہ سامنے تھا کہ امریکہ کیسے ہارے گا؟
جب سے عراق نے کویت کو بادشاہت سے آزادی دلائی ، اس وقت سے جنگ شروع ہونے اور خطرناک ہو جانے تک تقریباً پانچ چھ مہینے کی مدت تو ضرور گزری، ان پانچ چھ مہینوں کے درمیان ماشاء اللہ ہوٹل کی گول میز کبھی خالی نہیں رہی۔ ہوٹل کھلنے سے بند ہونے تک باری باری سے گروپ پر گروپ آتا رہتا اور ایک پیالی چائے میں امریکہ کے اسکڈ میزائیل بیڑے ، ہوائی جہاز اور ٹینک ڈبوتا رہتا۔ شروع شروع میں تو ہوٹل کا مالک رمضان علی خاں خاصا چیں بچیں ہوا :
"سالے ایک پیالی چائے پئیں گے اور ایک گھنٹہ تک بقراطی جھاڑیں گے"۔ اس نے بڑے بڑے حرفوں میں لکھوا کر چاروں طرف دیواروں پر چسپاں کر دیا:
"سیاست پر گفتگو منع ہے"۔
مگر ہر دن اور ہر وقت وہی بات ، وہی موضوع ، تنگ آ کر ایک گروپ کو ٹوک دیا: "بھائی د یکھتے نہیں؟ سیاست پر گفتگو منع ہے"۔
تو ان میں سے ایک نے ہنس کر کہا: "اجی سیاست پر گفتگو کون کر رہا ہے؟ یہاں تو جنگ پر بات ہو رہی ہے"۔
رمضان علی گڑ بڑا کر رہ گئے۔۔۔ "سیاست اور جنگ کے فرق کا مسئلہ!"
دوسرے گروپ سے انہوں نے دو ٹوک کہا: "ہوٹل کھانے پینے کی جگہ ہے، خوش گپی کی نہیں"۔ اس پر ایک من چل بول اٹھا: "رمضان بھائی ! کربلا اور نجف پر بمباری کے تذکرے کو آپ خوش گپی کہتے ہیں؟"

رمضان علی کے پاس اپنے دفاع کے لئے کچھ نہیں رہ گیا مگر وہ کاؤنٹر پر بیٹھے مسلسل کھولتے رہتے اور کبھی آہستہ کبھی زور سے بگڑتے رہتے۔ تب ایک دن ان کے بیٹے نے انہیں سمجھایا:
"ابا! اگر دس آدمی ایک پیالی چائے پر ایک گھنٹہ بیٹھتے ہیں تو گویا ایک گھنٹے میں دو پیالی۔ ہوٹل صبح سات بجے سے رات دس بجے تک کھلا رہتا ہے یعنی 15 گھنٹے ۔۔۔ اس طرح ایک دن کی صرف چائے کی کمائی 75 روپئے ہوتی ہے تو پھر بحث سے ہمارا کیا نقصان ہو رہا ہے؟
یہ نکتہ رمضان علی کی سمجھ میں آ گیا اور بحث جاری رہی۔

اس رات بھی بحث جاری تھی اور ایک ہی مسئلہ سامنے تھا کہ امریکہ کیسے ہارے گا۔ کچھ دیر پہلے ریڈیو خبر نشر کر چکا تھا کہ امریکی فوجیوں نے بغداد کے ایک بنکر پر ایسا حملہ کیا کہ اس کے اندر چھپے ہوئے ہزاروں افراد پل بھر میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ اس خبر سے کچھ دیر کے لئے سب پر سکتہ طاری ہو گیا۔ مانو سب کو سانپ سونگھ گیا، کوئی کچھ بول نہیں پا رہا تھا، چاروں طرف ایک عجیب سی ہے بس خموشی پسری تھی۔ پھر ٹیبل پر پسری خموشی کے سینے میں جیسے چاقو سا کھب گیا۔۔۔۔ شاعر جمال غوغائی کی آواز گونجی:
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا۔
جمال غونائی کی آواز پر جیسے عبدالرؤف چونک اٹھا اور ٹیبل پر ایک زور دار مکا مار کر چیخا: "ایک مردہ لوممبا ایک زنده لوممبا سے زیادہ طاقت ور ہے"۔
اس پر عید محمد موذن بہت بھاری اور گمبھیر آواز میں بولا:
"بھائی ! یہ ساری خبریں تو اسی شیطان اعظم امریکہ کی دی ہوئی ہیں۔ عراق کی خبریں کہاں آ پا رہی ہیں جو ہم یقین کر لیں کہ واقعی اتنے لوگ مارے گئے"۔
یہ سنتے ہی چراغ دین بیٹری ساز کچھ اس طرح اسٹارٹ ہو گیا جیسے کسی فلیتے کو آگ دکھا دی ہو :
"ارے عراقیوں نے تو ان کے چھکے چھڑا دیئے ہیں۔ اسرائیل کو کیا مار رہا ہے ۔۔۔ دے ٹھس پر ٹھس ۔۔۔۔ اور اسرائیل امریکہ کی مجال نہیں ہو رہی ہے کہ عراقیوں کو چھوویں ، اور وہ سالا، نجدی کی اولاد الگ بلبلاتا پھر رہا ہے، کبھی دہران سے بھاگ رہا ہے کبھی ریاض سے، اور یہ شیطان بش کہتا ہے کہ ہم نے ہزاروں کو مار ڈالا ۔۔۔ جھوٹا لاغی ۔۔۔"

ٹھیک اس وقت جمال غوغائی کا بیٹا ہوٹل میں داخل ہوا: "بابا۔ بایو کو پھر دورہ پڑ گیا ہے۔ اماں بلا رہی ہیں"
"ارے تو اماں سے کہہ کہ او دوا دے دے جو طاق پر رکھی ہے"۔ جمال غوغائی کے لہجے سے اکتاہٹ ٹپک رہی تھی۔
"او دوا تو دے دیہن"۔
"اچھا تیں چل۔ ہم آویں ہیں"
"جمال بھائی۔ شادی بھی سالی مصیبت ہے"۔ پھدو مستری بولا۔
"یار مصیبت میں مجا بھی تو ہے" بیچو درزی کھی کھی کر کے ہنسا۔ اس کے سارے دانت پیلے ہو رہے تھے۔
"ہنسو مت" عبدالرؤف چیخا۔ "یہ ہنسنے کا وقت نہیں ہے۔ فیصلے کی گھڑی ہے۔ تم کو یاد نہیں ، خلافت کے زمانے میں کیا ہوا تھا۔۔۔ بولیں اماں محمد علی کی ، جان بیٹا خلافت پہ دے دو۔ پھر جان دینے کی باری آئی ہے"۔
"مگر یار عبدالرؤف" جمال غوغائی بہت مدہم آواز میں بولا: "خلافت پر جان دے کر ملا کیا؟"
عبدالرؤف آنکھیں نکال کر غرایا: "تم شاعر لوگ کی یہی بہت خراب عادت ہے۔ عمل کے وقت پیچھے ہٹ جاتے ہو"۔
"نہیں یار۔ پیچھے ہٹنے کی کیا بات ہے؟ اور میرے آگے رہنے سے بھی کیا ہو جائے گا۔ میں تو بس یونہی پوچھ رہا تھا"۔

جمال غوغائی اتنا بول کر چپ ہو گیا، گونگا پہلو پر پہلو بدلتا رہا اور ماشاء اللہ ہوٹل میں بھانت بھانت کی آوازیں گونجتی رہیں۔۔۔
"صدام تو مرد مجاہد ہے۔ پھر ایک نئی کربلا درپیش ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اب کے صدام بیت المقدس کو آزاد کرا کے دم لے گا۔ مگر کویت پر اسے قبضہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ کویت اور سعودی کے حکمراں تو ایک نمبر کے عیاش ہیں ، صدام نے اپنی دولت کا صحیح استعمال کیا ۔۔۔"

عین اس وقت کسی اسٹیشن سے خبریں آنے لگیں۔۔۔
"بنکر پر حملہ اتنا شدید تھا کہ بم آٹھ فٹ موٹی چھت پھاڑ کر اندر گھس گیا۔ اندازے کے مطابق اس بنکر میں سترہ سو (1700) اشخاص نے پناہ لے رکھی تھی۔
اطلاعات مظہر یہ ہیں کہ پناہ لینے والوں میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی۔ امریکہ نے اس بنکر کو فوجی تنصیب کیا ہے"۔
اسی وقت عید محمد موذن جلیل خاں کو بتا رہا تھا کہ میری مسجد کا جو صدر ہے وہ بہت جھوٹ بولتا ہے مگر مقامی تبلیغی جماعت کا امیر ہے اور محلے میں تبلیغی جماعت کا اثر دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اس لئے اس کی حمایت کو بھی لوگ مل جاتے ہیں۔

عراق پر امریکی حملہ جاری تھا۔
گونگے نے بےچینی سے پہلو بدلا ، ٹھنڈ کچھ اور بڑھ گئی تھی۔ اس نے اپنے بیٹے کی، کلکتہ سے بھیجی گئی کمبل اپنے اردگرد کس کر لپیٹ لی اور جمال غوغائی کو گھر جانے کا اشارہ کیا جس کے بیٹے پر کھانسی کا دورہ پڑا ہوا تھا۔
جمال غوغائی نے گونگے کے اشاروں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس وقت تو وہ وہاں موجود لوگوں کو کل کے مظاہرے میں پڑھی جانے والی نظم سنا رہا تھا۔
"ہم مردِ مجاہد ہیں / ہم عدل کا ساماں ہیں / ہم عزم کا عنواں ہیں / ہم نے ہی زمانے کو / اخلاق سکھایا ہے / ہم جب بھی اٹھے / تب تب / ہر فتح ہماری ہے / ہر ملک ہمارا ہے / ہم مردِ مجاہد ہیں۔۔۔۔۔"
گونگے کو پھر وہ بچہ یاد آیا۔۔

آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے لوگ اٹھتے گئے۔ رات گہری ہوتی جا رہی تھی۔ ٹھنڈ اور پڑھ گئی تھی۔ عید محمد موذن کا سب سے برا حال تھا، ایک ہاف سوئٹر اور اس پر ایک سوتی چادر۔ جمال غوغائی کے بدن پر پرانی ہی سہی مگر گرم چادر تو تھی۔ پھدو مستری پرانا فل سوئٹر پہنے تھا اور کمبل اوڑھے ہوئے تھا۔ سرد ہوا سب کے بدن چیرتی ریڑھ کی ہڈی میں اترتی چلی جا رہی تھی۔ بس جنگ کی باتیں کچھ گرمی پیدا کر سکتی تھیں مگرخبریں بھی تو نہیں آ پا رہی تھیں!

"لوگوں پر بم گرتا ہوگا تو کیسا تڑپ کر دم توڑتے ہوں گے؟" جمال غوغائی بدبدایا۔
گونگے نے چھٹپٹا کر اسے دیکھا۔۔۔ "یہ اب تک گھر نہیں گیا۔ اس کا بیٹا بیمار ہے"۔
"بھائی اللہ کی مرضی میں کس کا دخل؟" پھدو مستری نے ٹھنڈا سانس لیا اور اچانک ایسا لگا جیسے سردی دوگنی ہو گئی۔
"برف گرنے لگی"۔ گونگے نے آسمان کی طرف دیکھ کر سوچا۔۔۔۔ آسمان بالکل صاف تھا مگر گونگے کو ایسا محسوس ہوا جیسے آسمان گدلا گیا ہے۔ گاڑھا مث میلا دھواں۔۔۔۔ اسے لگا اس کا دم گھٹ جائے گا۔

"دیکھو، یاد رکھنا کل جلسے میں سب لوگ آنا"۔ جمال غوغائی نے یاد دلایا۔
"ہاں بھائی کل ہمارے شاعر کو خوب داد ملنی چاہیئے"۔ عبدالرؤف ہنسا۔ پھر سب آہستہ آہستہ کسی نہ کسی موڑ مڑتے گئے۔

جمال غوغائی جب اپنے گھر پہنچا تو ساڑھے دس بج چکے تھے۔ سب بچے سو گئے تھے۔ صرف بیوی بیمار بچے کو لئے جاگ رہی تھی۔ دروازه اسی نے کھولا مگر کچھ بولی نہیں۔ جمال غوغائی اس کا چہرہ دیکھ کر جھینپ گئے۔ "ذرا دیر ہو گئی، بابو کیسا ہے؟"
بیوی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ گود میں لئے بچے کے منہ پر سے آنچل ہٹا دیا۔ ہڈیوں کا پنجر ، ستا ہوا بےجان چہرہ جیسے کسی نے کپڑے کو کس کر نچوڑ دیا ہو۔ کمزوری کے سبب آنکھ پوری طرح نہ کھل رہی تھی نہ بند ہو رہی تھی۔ پیاس کے غلبے کے سبب منہ کھلا ہوا۔۔۔ خشکی سے زبان کانٹے کی طرح کھدکھدی!
"کھانسی رک گئی ہے نا؟"
"پندرہ منٹ سے تو رکی ہوئی ہے"۔

اچانک جمال غوغائی چونکے۔ "بی بی سی کا وقت ہو رہا ہے"۔
بی بی سی سے خبریں نشر ہونے لگیں۔
"دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑا ہوائی حملہ!"
بچے پر پھر کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔
"ہم آخری دم تک جنگ کریں گے"۔
بچے کا بدن اینٹھنے لگا۔
"ہم مردِ مجاہد ہیں"۔ جمال غوغائی نے اپنی نظم یاد کی اور کل کے جلسے کے بارے میں سوچا۔
بیوی بچے کی تکلیف دیکھ کر رونے لگی۔

"عراق کا آسمان امریکی طیاروں سے بھرا ہوا ہے"۔ خبریں مسلسل آ رہی تھیں۔
"اللہ کی مرضی میں کس کا دخل؟" پھدو مستری کا حملہ یاد آیا۔
"بیوقوف عورت کیوں روتی ہے؟ اللہ چاہے گا تو بابو کو کچھ نہیں ہوگا"۔ جمال غوغائی نے بیوی کو ڈانٹا۔

"نئی دنیا" کا تازہ شمارہ سامنے پڑا تھا۔۔۔
نوسٹریڈمس کی پیش گوئی ۔۔۔!
"امریکہ کی کامیاب جنگی حکمت عملی کے سبب جنگ کا پلڑا امریکہ کے حق میں جھک چکا ہے"۔ مبصر اپنی رائے پیش کر رہا تھا۔

بچہ کھانستے کھانستے دم توڑنے کی منزل میں آ گیا مگر مرا نہیں۔
عراق اور امریکہ کی جنگ جاری تھی۔ اللہ کی مرضی میں کسی کا دخل؟
جمال غوغائی کے بصری اور بی بی سی کے صوتی منظر نامے میں گونگا کہیں فٹ نہیں ہوتا ۔۔۔ اس لئے نظر بھی نہیں آتا۔ مگر وہ کہیں تو ہوگا۔ اور جہاں ہوگا وہاں پہلو پر پہلو بدل رہا ہوگا۔ بولنے کی خواہش رکھنے والے گونگے کا یہی تو اصل مسئلہ ہے کہ وہ دوسروں کی باتیں سمجھ لیتا ہے مگر دوسرے اس کی بات نہیں سمجھ پاتے۔۔۔!!

ماخوذ از کتاب:
نیو کی اینٹ (افسانوی مجموعہ)
مصنف : حسین الحق
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی۔ (سن اشاعت اول: 2010)

Goonga bolna chahta hai. Short Story: Hussain-ul-Haque

2 تبصرے:

  1. بصد احترام سلام پیش خدمت ہے
    افسانہ پڑھا سب سے پہلے آپ کو اس افسانے کی مبارکباد پیش کرتا ہوں آپ نے اس افسانے کے حوالے سے تقریباً صحیح صحیح چیزیں پیش کیں ہیں آج بھی مسلمانوں کی بالکل یہی حالت ہے ایک گلگلے اور ہاف چائے میں سوپر پاور ہستی کو دھول چٹا دیتے ہیں عمل سے کوسوں دور رہتے ہے ہمہ وقت کسی آفاقی مدد کی امید لگائے رہتے ہیں زبان تو بڑی لمبی لمبی چلتی ہے پر عمل بالکل نہیں ،
    جہاں تک آپ نے گونگ کے حوالے سے جو بات تحریر فرمائی ہے کی گونگا تو گونگا ہے بیچارہ بولتا کیسے پر سن سکتا ہے تو اس ضمن میں مجھے عرض کرنا ہے کی قدرت کی طرف سے تقریباً سبھی گونگے بہرے ہوا کرتے ہیں آج کی میڈیکل سائنس بھی یہی مانتی ہے بلکہ اس کے لئے سائنس نے ایک جملہ وضع کیا ہے *Deaf and Dumb* گونگ اور بہرہ خیر ۔
    مجموعی طور پر یہ افسانہ بالکل سچ کے قریب ہے آپ نے مسمانوں کی ڈوبتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے اس کے لئے ایک بار پھر سے مبارکباد قبول فرمائیں ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بصد احترام سلام پیش خدمت ہے
    افسانہ پڑھا سب سے پہلے آپ کو اس افسانے کی مبارکباد پیش کرتا ہوں آپ نے اس افسانے کے حوالے سے تقریباً صحیح صحیح چیزیں پیش کیں ہیں آج بھی مسلمانوں کی بالکل یہی حالت ہے ایک گلگلے اور ہاف چائے میں سوپر پاور ہستی کو دھول چٹا دیتے ہیں عمل سے کوسوں دور رہتے ہے ہمہ وقت کسی آفاقی مدد کی امید لگائے رہتے ہیں زبان تو بڑی لمبی لمبی چلتی ہے پر عمل بالکل نہیں ،
    جہاں تک آپ نے گونگ کے حوالے سے جو بات تحریر فرمائی ہے کی گونگا تو گونگا ہے بیچارہ بولتا کیسے پر سن سکتا ہے تو اس ضمن میں مجھے عرض کرنا ہے کی قدرت کی طرف سے تقریباً سبھی گونگے بہرے ہوا کرتے ہیں آج کی میڈیکل سائنس بھی یہی مانتی ہے بلکہ اس کے لئے سائنس نے ایک جملہ وضع کیا ہے *Deaf and Dumb* گونگ اور بہرہ خیر ۔
    مجموعی طور پر یہ افسانہ بالکل سچ کے قریب ہے آپ نے مسمانوں کی ڈوبتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے اس کے لئے ایک بار پھر سے مبارکباد قبول فرمائیں ۔

    جواب دیںحذف کریں