تجھ کو معلوم نہیں - فلمی نغمات - حمایت علی شاعر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-07-16

تجھ کو معلوم نہیں - فلمی نغمات - حمایت علی شاعر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

tujh-ko-maloom-nahi-himayat-ali-shayar

حمایت علی شاعر (پیدائش: 14/جولائی-1926 ، اورنگ آباد دکن) ، آج 16/جولائی 2019 کو ٹورنٹو (کناڈا) میں انتقال کر گئے۔ اردو دنیا کی اس ممتاز شخصیت نے مختلف شعبوں میں کام کیا ہے جن میں تدریس ، صحافت، ادارت، ریڈیو، ٹیلیوژن اور فلم کے علاوہ تحقیق کا شعبہ نمایاں ہے۔ حمایت علی شاعر نے پاکستانی فلمی نغمہ نگاری میں قتیل شفائی کی طرح شہرت بھی حاصل کی ہے۔ ان کے تحریر کردہ نغمات کا ایک انتخاب بعنوان "تجھ کو معلوم نہیں" 2003 میں شائع ہوا۔ تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔
تقریباً پونے دو سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 4 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

اس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے پیش لفظ میں مرتب لکھتے ہیں ۔۔۔
14/جولائی 1996 کو حمایت علی شاعر کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر مجلہ "شخصیت" کے "حمایت علی شاعر نمبر" (616 صفحات) کا اجرا ہوا تھا۔ اس نمبر میں حمایت صاحب کے مقبول فلمی نغمات کی ایک فہرست بھی دی گئی تھی جو نامکمل تھی، حمایت صاحب کے پاس بھی ان کے نغمات محفوظ نہیں تھے چنانچہ انہیں جمع کرنے کی کوشش کی گئی۔
"تجھ کو معلوم نہیں" انہی تلاش کیے ہوئے نغمات کا ایک انتخاب ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ فلم ہمارے معاشرے کے سبھی طبقات کی نمائندہ ہوتی ہے۔ ایک اچھا شاعر کہانی کے تقاضوں اور کرداروں کے ماحول کو نظر میں رکھتے ہوئے زبان و بیان کے ایسے قرینے اختیار کرتا ہے کہ ادب کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوٹتا اور حقیقت نگاری کا فرض بھی ادا ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں حمایت علی شاعر کے علاوہ جن شعرا نے فلمی نغمہ نگاری میں شہرت حاصل کی ان میں قتیل شفائی سے لے کر مسرور انور تک سبھی کا نام نہایت احترام اور محبت سے لیا جاتا ہے۔ مگر ان حضرات کے نغمات کا کوئی مجموعہ ابھی تک شائع نہ ہو سکا۔ اس کے برعکس ہندوستان میں ساحر لدھیانوی، مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی اور شکیل بدایونی کے فلمی نغمات کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں اور لوگ ان کا مطالعہ ادب ہی کے حوالے سے کرتے ہیں۔
ادب کے طالب علم جانتے ہیں کہ میر اور نظیر سے لے کر غالب و یگانہ تک کچھ ایسا کلام بھی ہے جس کے بارے میں "مخصوص ذہن" کے ناقدین اچھی رائے نہیں رکھتے ہیں۔ ان کے نقطہ نگاہ سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ یہ جمہوریت کی صدی ہے، اس لیے اب کوئی نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ نظیر کو "عوام کا شاعر" کہہ کر اس کی عظمت کو گھٹا نہیں سکتا۔
ادب کے معیارات بدلتے جا رہے ہیں ۔ فیض احمد فیض اور حبیب جالب ۔۔ دونوں محترم شاعر ہیں۔ دونوں کا اسلوب مختلف ہے مگر نظریہ حیات ایک ہے۔
فلمی نغمات کا مطالعہ بھی ہم سے ایک وسیع النظری کا مطالبہ کرنا ہے۔

حمایت علی شاعر نے اس کتاب میں اپنی فلمی شاعری کے پس منظر اور پیش منظر کو مضمون "میری فلمی شاعری" کے زیرعنوان بیان کیا ہے۔ چند دلچسپ اقتباسات اس مضمون سے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
میری قلمی شاعری کا آغاز 1951ء کے اوائل سے ہوتا ہے۔
اکتوبر 1950ء میں جب آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد (دکن) سے میری ملازمت ختم کر دی گئی اور میری بیگم معراج نسیم کو بھی ایک اسکول سے ہٹا دیا گیا تو میں نے احتجاجاً اخبار بیچنے شروع کر دیئے۔ چنانچہ کچھ اہل ادب (قمر ساحری اور وہاب حیدر) اور کچھ عوامی انجمنوں نے ریڈیو کی انتظامیہ کے خلاف آواز اٹھائی اور حیدرآباد اور بمبئی کے اردو اور انگریزی اخبارات نے احتجاجی کالم بھی لکھے۔ یہ سلسلہ دو ماہ تک چلتا رہا اور ایک ہفتہ وار رسالے "پرواز" نے مختلف اہل قلم کے بیانات اور رسائل کے اداریوں اور کالموں کو جمع کر کے 9/نومبر 1950ء کو ایک خصوصی شمارہ شائع کر دیا۔ حکومتی محکمے تو خاموش رہے لیکن مجھے بمبئی کے ایک رسالے "نیا محاذ" کی ادارت کی دعوت مل گئی اور میں اپنی بیگم اور ننھی سی بچی کو اورنگ آباد میں اپنے والدین کے پاس چھوڑ کر بمبئی چلا گیا۔

بمبئی میں میرے جانے والے کم تھے۔ اتفاق سے "اپٹا" (انڈین پیپلز تھیٹرز ایسوی ایشن) میں ایک دن مجھے اوشا مل گئی۔ اوشا میری ریڈیو کی ساتھی تھی۔ ان دنوں وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپٹا میں کام کر رہی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب کوریا پر امریکہ نے حملہ کر دیا تھا جسے لوگ تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ سمجھ رہے تھے۔ ساری دنیا میں امن تحریک چل رہی تھی۔ فرانسیسی مصور پکاسو نے عالمی امن تحریک کی علامت کے طور پر ایک فاختہ کی تصویر بنائی تھی جو امن کے پرچم پر ساری دنیا میں اڑ رہی تھی۔ امن تحریک میں ترقی پسند ادیب بھی شامل تھے۔ روسی اور چینی ادبیوں کے ساتھ فرانس میں لوئی اراگاں، برطانیہ میں ٹی ایس ایلیٹ، شمالی امریکہ میں ہاورڈ فاسٹ، جنوبی امریکہ میں پابلو نرودا اور ترکی میں ناظم حکمت ۔۔۔ سبھی یک زبان ہو کر اپنے اپنے انداز میں جنگ کے خلاف لکھ رہے تھے۔ ہند و پاک میں بھی یہی عالم تھا۔ میں نے بھی امن کی حمایت میں کالموں (ہفتہ وار "پرواز" حیدرآباد دکن 1950) کے علاوہ ایک طویل نظم "کوریا سے تلنگانے تک" (مطبوعہ آدمیت، حیدرآباد دکن) بھی لکھی تھی جو مشاعروں میں بھی مجھ سے بہ اصرار سنی جاتی تھی۔ خاص طور پر اس کا ایک مصرع:
تم اس جانب سے آؤ
ہم تلگانے سے آتے ہیں
زبان زد خاص و عام تھا۔ اوشا نے اسی مصرع کو پڑھتے ہوئے ایک دن مجھ سے فرمائش کی:
"حمایت، ایک سیاسی بھجن بھی لکھ دو، پھر ہم سب مل کر تلنگانے سے کوریا چلیں گے۔"
میں ہنس پڑا اور وعدہ کر لیا۔ امن تحریک کے سلسلے میں وہ "اپٹا" میں ایک بھجن اسٹیج کرنا چاہتی تھی۔ میں نے جو بھجن لکھا اس کا مکھڑا تھا۔
ڈالر دیس کے راجہ، او سب راجوں کے رکھوالے
کٹھن گھڑی ہے ہم بھگتوں پر، آ کر ہمیں بچالے
او سب راجوں کے رکھوالے

اسے اسٹیج اس طرح کیا گیا تھا کہ پس منظر میں ایک پردے پر بمباری سے تباہ شدہ شہروں کا ملبہ پینٹ کیا گیا تھا، اس کے سامنے ڈالروں کے ڈھیر پر امریکہ کے صدر ٹرومین کی مورتی، اس کے کئی ہاتھ اور ہر ہاتھ میں جنگی ہتھیار، مورتی کے اطراف امریکہ کے پٹھو حکمران (چنگ کائی شیک ، شاه ایران ، ہند و پاک کے کچھ لیڈر اور مشرق وسطی کے بعض بادشاہ) بیٹھے یہ بھجن گا رہے ہیں۔ "اپٹا" کے شاعر و موسیقار پریم دھون نے اس بھجن کی دھن ایسی پیاری بنائی تھی کہ جس نے سنا یا اسٹیج پر یہ منظر دیکھا اسے یاد ہوگیا۔
(یہ بھجن میرے پہلے مجموعہ کلام 'آگ میں پھول' کے دوسرے ایڈیشن [مطبوعہ 1980ء] میں "اپٹا" کے حوالے سے شامل ہے اور میں نے اپنی منظوم خودنوشت سوانخ حیات 'آئینہ در آئینہ' [مطبوعہ 2001ء] میں بھی اس واقعہ کا تفصیلی اظہار کیا ہے۔)

بھجن کے اسٹیج ہوتے ہی بمبئی کی سی آئی ڈی اوشا اور پریم دھون کو تلاش کرنے لگی ،وہ انڈر گراؤنڈ جا چکے تھے۔ اندیشہ تھا کہ میری بھی کوئی نشاندہی نہ کر دے اس لیے مسلم بھائی کے مشورے پر میں کچھ دنوں کے لیے اورنگ آباد چلا گیا۔
والد صاحب چونکہ پولیس میں رہ چکے تھے اس لیے انہیں فکر تھی کہ کہیں میں گرفتار نہ کر لیا جاؤں، اس لیے ان کے اور بعض دوسرے رشتہ داروں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنے دو ایک ہم عمر عزیزوں کے ساتھ میں کھوکھرا پار کے راستے جون یا جولائی 1951ء میں پاکستان آ گیا۔
ریڈیو پاکستان کراچی میں میرے کچھ پرانے ساتھی پہلے ہی کام کر رہے تھے۔ بزرگوں میں احمد عبدالقیوم اور مرزا ظفر الحسن اور دوستوں میں وراثت مرزا، جہاں آرا سعيد، عبد الماجد اور بدر رضواں وغیرہ۔ مجھے بھی کانٹریکٹ پر کام مل گیا اور میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ قائد اعظم کے مزار ( اس وقت تک مقبرہ نہیں بنا تھا) کے اطراف جیل تک جو جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں انہیں میں، ایک قائد آباد کے قریب اسلام آباد (موجودہ کشمیر روڈ ) کے پاس پچاس روپے میں ایک جھونپڑی خرید کر رہنے لگا۔ بعدازاں مجھے معلوم ہوا کہ ان جھونپڑیوں میں علم و ادب کی بعض بڑی بڑی شخصیتیں بھی آباد تھیں۔

***
نام کتاب: تجھ کو معلوم نہیں (فلمی نغمات)
از: حمایت علی شاعر
تعداد صفحات: 176
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 4 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Tujhko Maloom Nahi Himayat Ali Shayar.pdf

Direct Download link:

فہرست
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
1عرض مرتب (انور جبیں قریشی)9
2میری فلمی شاعری (حمایت علی شاعر)10
3شاعر کی فلمی شاعری (الیاس رشیدی)23
4نغمات (1 تا 66)27
5قوالی (67: یہ مکھڑے پہ آنچل کہ چندا پہ بادل)116
6شادی کے گیت (68 تا 70)117
7لوریاں (71 تا 75)122
8شوخ و مزاحیہ نغمے (76 تا 91)127
9قومی اور ملی نغمے (92 تا 98)154
10دعا (99: پیاری ماں دعا کرو میں جلد بڑا ہو جاؤں گا)166
11فہرست گلوکار (وہ گلوکار جنہوں نے حمایت علی شاعر کے نغمات گائے)168

Tujhko maloom nahi, Film songs by Himayat Ali Shayar, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں