روسی ادیب چے خَف اور اردو افسانے کی نشو و نما - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-07-17

روسی ادیب چے خَف اور اردو افسانے کی نشو و نما

anton-chekhov

انتون پاولووِچ چےخَف
پیدائش: 29/ جنوری 1860
وفات : 15/جولائی 1904

افسانے، مضامین، طنزیے ، خاکے ، اسکٹ، ایکانکی اور ڈرامے، سب ملا کر گیاره سو (1100)، چھوٹے بڑے افسانے، جنہیں کتابوں میں جگہ ملی، آٹھ سو (800) سے کچھ کم۔ انتخاب ہوئے تقریباً 226۔ کئی ایک فرضی یا قلمی ناموں سے بھی لکھا ، اپنے نام سے بھی۔ 25 برس لکھا ، زیادہ تر اخبارات و رسائل کے لئے۔ عموماً قلم برداشتہ بعض اوقات تھم تھم کر۔ آخری اور مکمل اشاعت سے پہلے اپنے تمام ڈراموں پر اور خاص خاص افسانوں پر نظرثانی کی ، ان کے عنوان اور انجام بدلے۔ خود کو بدلا ، بدلتا رہا ، تمام کبھی مطمئن نہیں ہوا۔ ہمیشہ اپنی تحریروں دشمن کی نظر سے دیکھا کیا۔

آج اس کا قلم خشک ہونے ستر (70) برس ہونے کو آئے مگر عالمی ادب میں اس کا مقام برابر بلند ہوتا گیا ہے۔ مختصر افسانہ اس کے افسانے کے ساتھ اپنی معراج کو پہنچا اور ڈرامے کے فن نے اس کے ڈرامائی تجریوں کی میں آگے کی راہ تلاش کی۔
وحدتِ ثلاثہ (وقت، مقام اور عمل) کا تصور باطل ہو گیا، غیرمعمولی شخصیت کے ہیرو اسٹیج سے اٹھ گئے ، رفتہ رفتہ اٹھان اور کلائمکس کے پرانے نظریے طاق پر رکھ دئیے گئے۔

دنیا کی کوئی ترقی یافتہ زبان ایسی نہیں جس میں چےخف کے ترجمے اہمیت نہ پا چکے ہوں اور کوئی ذی علم ادیب یا فنکار ایسا نہیں جو چےخف سے بالکل ناآشنا رہ گیا ہو۔
اس کے مداحوں میں ۔۔۔ تالستائے، گورکی، سالتی کوف شچدرین، کورولینکو، الیکساندر کوپرن، میاکوفسکی، شولوخوف جیسے صف اول کے اہل قلم کے علاوہ دنیا کے مشاہیر میں لوہسون، کوموجو، ایزابیلا بلیوم، جان گالز وردی، جارج برنارڈ شا، مون ٹیگوٹر، ایڈورڈ گارنیٹ، اینڈرسن، کیتھرین میسفیلڈ، جے بی پریسٹلے، ڈبلیو ایچ بروفورڈ اور ٹیگور شامل ہیں۔ شا، سامرسٹ ماہام، ہیمنگوے، پریم چند اور منٹو نے اس کی سادگی اور پرکاری کے آگے سر جھکایا ہے۔
زبان، زمین، زمانے اور ذی روح کو چےخف نے کچھ یوں برتا کہ ہمارے دور کا افسانوی ادب اس کے بارِ احسان سے سبکدوش نہیں ہو سکتا۔

چے خف پر مختلف زبانوں میں لکھے ہوئے مضامین اور کتابوں سے الماریوں کے خانے بھرے پڑے ہیں۔ افسانوں اور ڈراموں کے علاوہ کم و بیش چار ہزار خطوط بھی نو (9) جلدوں میں سما چکے ہیں اور ان کے ترجمے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے چھپ رہے ہیں، ضخیم نوٹ بک چھپ چکی ہے۔ ٹائمز (لندن) کے ادبی ضمیمے میں اب بھی اس پرمضامین نکل جاتے ہیں۔ روسی صحافت میں آج تک کوئی نہ کوئی تازہ تحقیق سامنے آ جاتی ہے۔ یوروپ اور امریکہ میں آج بھی اس کی تحریروں پر بحث کے دفتر کھلے ہوئے ہیں۔

اس تمام انبار میں، دیکھا جائے تو تین مجلد چےخف کے بھر پور مطالعے کو کافی ہیں۔ سب سے مختصر، انگریزی میں مشہور مصنف جے۔ بی۔ پریسٹلے [J. B. Priestley] کی کتاب انتون چےخف، سب سے مفصل اسی نام کی ، روسی میں وی یرمی لوف (V. Ermilov) کی تصنیف اور پھر خود مصنف کے خطوط کا مجموعہ، جن سے اس کی تحریروں کا کردار بھی کھلتا ہے اور مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی ہم عصر زندگی کا وسیع منظر بھی۔ تب پتہ چلتا ہے کہ کہنے والے نے کچھ مبالغہ نہیں کیا جو یہ کہا :
چےخَف 1880 اور 1890 کی دہائی والے برسوں میں روس کی انسائیکلو پیڈیا ہے
جیسے الیکسانڈر پشکن 1820ء کی دہائی کے روس کی۔

اردو کا دامن غیرملکی ادب کے موتیوں سے خالی نہیں رہا، اس کے حصے میں جو تھوڑا بہت آیا، وہ قابل قدر ہے۔ 1920ء کے بعد سے اردو کے سنجیدہ ادبی رسالوں میں روسی ادبیات کے ترجمے، ماخوذے اور تبصرے چھپنے لگے تھے۔ سہ ماہی "اردو" (اورنگ آباد) ، "زمانہ" (کانپور) کے علاوہ "نیرنگ خیال" (لاہور) ، "ساقی" (دہلی) میں کئی مضمون اور ترجمے چھپے۔
1936 میں سعادت حسن منٹو نے "نیرنگ خیال" کا روسی ادب نمبر نکالا اور 1940 میں پروفیسر محمد مجیب کی کتاب "روسی ادب" دو جلدوں میں نکلی۔ واقعہ یہ ہے کہ پروفیسر مجیب کو شایان شان داد نہیں ملی، ورنہ روس کے کلاسیکی ادب کے درجنوں (اچھے اور برے) ترجمے ہو چکنے کے بعد آج بھی ہمارا مطالعہ اس مقام سے آگے نہیں بڑھا ہے جہاں پروفیسر موصوف نے اسے چھوڑا تھا۔
"چے خف کی چھوٹی بڑی کہانیاں"، ناولٹ "تین سال" اور "ادبیات کا استاد" اردو میں واحد مستند ترجمے ہیں جن میں اصل کی کیفیت برقرار ہے۔ ان کے علاوہ بھی وقتاً فوقتاً انگریزی ترجموں سے چند افسانے اردو لباس اختیار کرتے رہتے ہیں اور بعض افسانہ نگاروں نے چےخف کے ہاں سے خیال یا واقعات لیے ہیں۔ بعض کو افسانے کی تحریک وہیں سے ملی ہے اور یوں اردو افسانے کی نشو و نما میں چےخَف کا ہاتھ بالواسطہ شریک رہا ہے۔

***
ماخوذ از کتاب: چے خَف (انتون پاولووِچ چےخَف کی زندگی اور فن کا مطالعہ)
مصنف: ڈاکٹر ظ۔ انصاری

Anton Chekhov and its impact on Urdu literature.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں