ماحولیات کی تباہی،کم بارش، زیرزمین آبی ذخائر میں کمی اور چرند پرند کی نسلوں کو تباہ کرنے کا ذمہ دار کون؟
موسموں کی تبدیلی، کنکریٹ کے جنگل، جنگلوں، تالابوں اور نالوں پر قبضہ، آنے والی نسلوں کا کیا ہوگا؟
چند سال قبل سال میں تین موسم ہوا کرتے تھے گرما، بارش اور سردی لیکن اب پتہ نہیں چل رہا ہیکہ کب موسم کا مزاج تبدیل ہو اور کب سخت چلچلاتی دھوپ ہو، کب موسم اچانک سر ہوجائے اور کب بارش ہونے لگے!
موسموں کی ایسی تبدیلی سے انسانی صحت پر بھی خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ماحولیات کے اس طرح بگڑنے سے دھرتی کا سارا نظام تبدیل ہوکر رہ جاتا ہے بدلتے موسموں کی سختیوں سے پریشان توسب ہیں اور ناکافی بارش کا شکوہ تو ہر کوئی کررہا ہے لیکن اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ کوئی طئے نہیں کرپارہا ہے۔
علحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل سے قبل سرکاری بدعنوانیوں کے ذریعہ جنگلوں کی بے دریغ کٹوائی، شہری علاقوں میں موجود درختوں کو ترقی کے نام پر سڑکوں کی توسیع کے نام پر کاٹ دیا جانا بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے۔ دوسری جانب عوام نے بھی بڑے پیمانے پر درخت لگانے اور پانی کے تحفظ کی جانب دھیان بھی نہیں دیا یا پھر انجان بننا ہی مناسب سمجھا، وہیں شہروں، ٹاونس اور دیہاتوں سے ندیاں، نالے اور تالاب غائب کردئیے گئے اور وہاں کنکریٹ کی عمارتیں پودوں کی طرح وجود میں لائی گئیں۔ حد تو یہ ہیکہ کئی مقامات پر یہ ندیاں، نالے اور تالاب سرکاری نقشوں میں اب بھی موجود ہیں!
جو ندیاں اور نالے موجود ہیں ان کا دائرہ تنگ کردیا گیا اورکئی مقامات پر ان میں سے ریت غائب کردی گئی اور افسوس تو یہ ہیکہ اب بھی ان خشک ندیوں سے ریت کی منتقلی جاری ہے جس کے ذریعہ ریت مافیا اور چند سیاسی اور سرکاری ذمہ داران نے اس سے کروڑہا روپئے کمالیے اور ماحول کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔
حضرت انسان نے ترقی کے نام پر خود اپنی اور اپنی آنیوالی نسلوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہر کوئی موٹرنشین ہوگیا جس سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی بھی انسانی صحت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ انسانی غلطیوں کا نتیجہ یہ نکلاکہ ہم نے جانوروں، چرند اور پرند کیلئے بھی مشکلات پیدا کردیں یہی وجہ ہیکہ چرند اور پرند کی مختلف نسلیں مفقود ہوتی جارہی ہیں۔
چند سال قبل تک بھی شہروں اور مواضعات میں خان چڑیوں اور کوؤں کی بہتات ہوا کرتی تھی لیکن اب یہ نسلیں بھی خال خال ہی نظرآتی ہیں کہا جاتا ہیکہ موبائل فونس کے آغازکیساتھ یہ نسلیں تباہ ہونے لگیں کیونکہ موبائل ٹاورس سے نکلنے والی شعائیں انکے لیے قاتل ہوتی ہیں۔ پھر بھی کچھ دیہی علاقوں میں ان خان چڑیوں اور کووں کودیکھ کر اطمینان ہوتا ہیکہ ماحولیات ابھی مکمل تباہ و برباد نہیں ہوئی ہیں۔ تاہم جاریہ سال ناکافی بارش کے باعث تالابوں اور ندی نالوں کے خشک ہوجانے سے ان چرند پرند کو بھی غذاء اور پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
کل جب وقارآباد کے ایک موضع میں جب بورویل سے پانی کا اخراج ہوکر جمع ہوگیا تو ان خان چڑیوں کا ایک غول پتہ نہیں کہاں سے آگیا اور اس پانی سے اپنی پیاس بجھانے کے بعد اس پانی میں ڈبکیاں بھی لگانے لگا جیسے برسوں بعد انہیں اتنی مقدار میں پانی نصیب ہوا ہے!! وہیں دوسری جانب ضلع کے مختلف مقامات پر خاطر خواہ بارش نہ ہونے سے جانوروں کو چارہ دستیاب نہیں ہے اور نہ جنگلاتی اور کھلے علاقوں میں گھاس ہی اُگی ہے جس سے یہ اپنا پیٹ بھر سکیں بتایا جاتا ہیکہ اس کے باعث ان جانوروں کی حالت قابل رحم ہوگئی ہے اور کسان انہیں فروخت کرنے پر مجبور بھی ہورہے ہیں!! اس پریہ ستم کہ کسان تخم ریزی کے بعد آسمان کی جانب اپنی آنکھیں لگائے بیٹھے ہیں کہ کب بارش ہو اور کب انکی خشک ہونے کے دہانے پر پہنچنے والی فصلوں میں نئی جان پیدا ہو۔
کسانوں کا کہنا ہیکہ اگر اب بھی بارش نہیں ہوئی تو انکی فصلیں مکمل خشک ہوجائیں گی لیکن افسوس تو تب ہوتا ہے جب ان سارے تباہ کن حالات سے واقف ہونے کے باوجود بھی ہم خاموش ہیں جبکہ حکومت تلنگانہ نے چار سال قبل ریاست کے 25فیصد جنگلاتی رقبہ کو 33 فیصد میں تبدیل کرنے کا مستحسن اقدام اٹھاتے ہوئے تاریخی ہریتا ہارم پروگرام کا آغاز کیا ان چار سالوں کے دوران ریاست کے تمام مقامات پر پودے لگائے گئے۔
جاریہ سال مانسون میں بھی حکومت تلنگانہ ہریتا ہارم کے تحت کروڑوں پودے لگانے کیلئے تیار ہے نرسریز میں کروڑہا مختلف اقسام کے پودے تیار ہیں لیکن مانسون کے آغاز کے دیڑھ ماہ بعد بھی حوصلہ افزاء بارش نہیں ہوپائی ہے اور امید ہیکہ ایک دو بارشوں کے بعد ریاست میں بڑے پیمانے پر ہریتاہارم پروگرام کا آغاز ہوگا۔2016ء میں ریاست کے کئی اضلاع میں سالانہ اوسط سے بھی زیادہ بارش ریکارڈ ہوئی تھی تاہم گزشتہ دو سالوں سے مانسون کی ناکامی حکومت اور عوام کیلئے پریشان کن ہے ایسے میں زیر زمین آبی ذخائر کی حالت بھی انتہائی تشویشناک قرار دی جارہی ہے اس کی اہم وجہ ندیوں، نالوں اور تالابوں کا خشک ہو جانا ہے وہیں بڑے پیمانے پر بناء کسی منصوبے کے بورویلس ڈالنا بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے۔
ماہرین اور ماحولیات کے تحفظ کیلئے فکر مند افراد عوام کو سوشیل میڈیا کے ذریعہ ویڈیوس وائرل کرکے یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ بارش کے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے اور اس پانی کو محفوظ کرنے کیلئے اپنے اپنے مکانات اور کالونیوں میں واٹر ہارویسٹنگ سسٹم کا نظم کرلیں ضرورت شدید ہیکہ آنیوالی نسلوں کو ان موسموں کی سختیوں سے بچانے، ایک پاک و صاف آلودگی سے پاک ماحول فراہم کرنے، انہیں پانی کی قلت سے بچانے کیلئے بڑے پیمانے پر شجر کاری کرتے ہوئے حکومت تلنگانہ کے ہریتاہارم پروگرام میں حصہ لیں، بارش کے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے اپنے اپنے مکانات اور کالونیوں میں واٹر ہارویسٹنگ سسٹم کا نظم کریں شاید اس سے ہماری ماضی کی غلطیوں کا کچھ ازالہ ہوجائے اور انسانوں کیساتھ ساتھ چرند پرند کی نسلیں بھی محفوظ ہوجائیں۔
Environmental degradation in Telangana.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں