ہندوستانی مسلمان - اپنی دنیا آپ پیدا کر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-07-13

ہندوستانی مسلمان - اپنی دنیا آپ پیدا کر

indian-muslims-self-development

ہندوستانی مسلمان اتر پردیش کے 2017 کے اسمبلی انتخابات کے بعد اتنے بڑے دوراہے پر نہیں کھڑا تھا جتنے بڑے دوراہے پر آج کھڑا ہے۔ بھونچکا، حیرت زدہ ان پارٹیوں کے لیڈروں کو امید سے دیکھتا جن پر اس کی منہ بھرائی کا الزام ہے؟ آج اس کی آنکھوں میں ایک ہی سوال ہے کہ یہ کہاں لا کر چھوڑ دیا ہمیں؟ 2017 کے انتخابات نے مسلم فرقہ کو اس کی حیثیت بتائی تھی تو 2019 کے انتخابات نے اسے سیاسی حیثیت کے حاشیہ پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔۔۔ اور وہ پارٹیاں جو اس کی خیر خواہ ہونے کا دم بھرتی تھیں، اپنے وجود کو بچانے کی لڑائی اور جگاڑ میں لگی ہوئی ہیں انہیں مسلم فرقہ کی پرواہ نہ پہلے تھی نہ آج ہے۔ تو ایسے دوراہے پر کھڑے مسلم فرقہ کے پاس کیا راستے ہیں جسے ایک پارٹی متاثرہ اور دوسری منہ بھرائی کا مرکز بتاتی ہے؟
مسلم سماج کے لیے یہ کوئی بہت اچھی صورت حال نہیں ہے۔ آخر آزادی کے 70 سالوں میں ایسا کیا ہوا کہ مسلم سماج کئی سماجی معیار پر نچلی سے نچلی سطح پر پہنچ گیا؟ اتنے سارے منہ بھرائی کے الزامات کے باوجود۔۔۔
میرا ایسا ماننا ہے کہ مسلم سماج کو ملک کی مین اسٹریم سے جوڑنے کے لیے گزشتہ 70 سالوں میں بہت کم پا نہ کے برابر کام کیا گیا ہے۔ عوام کے بچوں کے لیے مدرسے بنائے گئے اور لیڈروں کے بچے کانوینٹ اسکولوں میں پڑھتے رہے۔ مسلم سماج کے لیڈروں نے اپنی قوم کے لیے اتنا بھی کام نہیں کیا جتنا اس نے اپنے قریبی اور تاتے رشتے داروں کے لیے کیا۔ اگر انہوں نے کیا ہوتا تو آج رامپور، مراد آباد، علی گڑھ اور پرانا حیدرآباد بھی بارامتی یا چھندواڑہ جیسے نظر آتے؟

اپنے گریبان میں جھانکنے کا عمل شروع کرنے میں اب ہندوستانی مسلمانوں کو زیادہ دیر نہیں کرنی چاہیے اور وہ ساری غلطیاں سدھار لینی چاہئیں جنہیں سدھارنے کی سخت ضرورت ہے، اس سے پہلے کہ آپ خود کو دلت اور متاثرہ محسوس کرنے لگیں اپنا رویہ بدل لیجیے، حالانکہ یہ کہنا جتنا آسان ہے، کرنا اس سے کہیں مشکل۔ لیکن اگر ابھی یہ نہیں کیا تو شاید دو چار نسلوں کے بعد تو یہ موقع بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا۔
سماج میں اپنی مضبوط پکڑ بنائے رکھنے اور آگے بڑھنے کے لیے کسی بھی فرقہ کی پہلی ضرورت ہے اس کی اقتصادی اور تعلیمی حالت کا بہتر ہونا۔ مغربی بنگال سے لے کر مظفرنگر تک کے فسادات میں متاثرہ مسلمان ہوں یا روہنگیا مسلمان، آپ غور سے دیکھیں گے تو پائیں گے کہ ان سبھی کے کے بیچ کے کامن فیکٹر ہیں:
غربی اور ناخواندگی یا کم تعلیم۔

ہندوستان کی کسی بھی دستکاری کو لے لیں چاہے وہ کارپینٹری ہو، ویونگ ہو یا پھر چکن کاری اور کھانا پکانے جیسا فن۔ ان سب کے ماہر اور استاد لوگ مسلم فرقہ سے ہی آتے ہیں، پھر بھی مسلمان غربی اور ناخواندگی سے بدحال ہیں۔ کیوں؟
یہ سوال سب سے پہلے ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا، پھر ان لیڈروں سے جو 70 سال سے ہماری رہنمائی کر رہے ہیں۔
گزشتہ 20 برس میں بھینس کے گوشت کے ایکسپورٹ اور چمڑے کی صنعت نے نہ صرف مسلمانوں کی اقتصادی حالت میں سدھار کیا، بلکہ ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر کرنے میں بڑا تعاون دیا، ساتھ ہی ساتھ مویشی پروری کرنے والوں اور ملک کے چھوٹے کسانوں کی بھی بہت مدد کی۔ اب اگر آپ غور کریں تو پائیں گے کہ اس صنعت کے لیے گزشتہ کئی سال کافی مشکل بھرے گزرے کیوں کہ ایک منصوبہ بند طریقہ سے مسلمانوں کی اقتصادی حالت کو پٹری سے اتارنے کا کام زور شور سے کیا گیا۔ قانونی اور غیرقانونی مذبحوں کا سوال اٹھا کر آخر میں مویشی فروخت کرنے پر پابندی لگا دی گئی بغیر اس صنعت سے جڑے لوگوں سے کوئی صلاح مشورہ کیے ہوئے۔

مسلمانوں کی پریشانی ایک دودھاری تلوار کی طرح ہے۔ ایک طرف تو یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیاں سدھارنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور دوسری طرف ذرا ذرا سی بات پر بہکاوے میں آجاتے ہیں۔ ہمارا ذرا ذرا سی بات پر مشتعل ہو جانا اور مر مٹنے پر بےقابو ہو جانا ان لوگوں کے لیے بڑا فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے جو ایک فرقہ کے طور پر ہمیں بدنام کر دینا چاہتے ہیں۔
راجندر سچر کمیٹی کی رپورٹ کا حوالہ ایسے دیا جاتا ہے جیسے اگر اس کی ساری سفارشات نافذ ہو جائیں تو مسلمانوں کے ہر مسئلہ كا حل ہو جائے گا۔
برسوں پہلے راجندر سچر کمیٹی کی اس رپورٹ نے مسلمانوں کا بھلا تو کچھ نہیں کیا، ہاں برا بہت کر دیا۔ اسی رپورٹ کے سبب مسلم فرقہ شکوے شکایت کے جال میں پھنس گیا اور اسے نافذ کروانے کے چکر میں کبھی اس سیکولر پارٹی تو کبھی اس سیکولر پارٹی کے ہاتھوں کھلونا بنتا رہا۔

کچھ سیکولر ریاستی حکومتیں مدرسوں و اردو ٹیچروں کو سہولت دینے اور اماموں کی تنخواہ میں اضافہ کے لیے حد سے باہر چلی گئیں۔ ایک ریاستی حکومت نے تو اماموں کے لیے گھر بنوانے کا منصوبہ بھی شروع کر دیا۔ کیا ان سب سے مسلم فرقے کو زمینی طور پر کوئی فائدہ پہنچا؟ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی فائدہ پہنچا ہو۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ایک چھوٹے سے طبقے کو خوش رکھنے کے لیے پوری قوم کو نظر انداز کر دیا گیا لیکن منہ بھرائی کا الزام پوری قوم پر لگ گیا۔ عام مسلمان آج بھی غریبی اور ناخواندگی کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔

ہمیں یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ جب بابری مسجد گرائی گئی اور ممبئی فسادات کی آگ میں سلگ اٹھا تو صرف آن جہانی سنیل دت نے مذمت کرتے ہوئے استعفی کی پیش کش کی تھی۔ اس وقت کئی مسلم لیڈر پارلیمنٹ میں تھے، جنہوں نے کوئی آواز نہیں اٹھائی اور اپنی کرسی سے چپکے رہے۔ دلتوں پر ہو رہے مظالم کے خلاف مایاوتی نے راجیہ سبھا سے استعفی دے دیا تھا۔
کیا ہمیں ذرا بھی احساس ہے کہ عراق اور شام میں جو ہو رہا ہے اس سے سب سے زیادہ مسلمان ہی متاثر ہیں؟
ہندوستانی مسلمان اس ملک کی طاقت ہیں۔ کہنے کو کوئی کچھ بھی کہے لیکن یہ ثابت کوئی نہیں کر پائے گا کہ ہم اس ملک کے لیے کسی سے کم وفادار ہیں۔ ہم نے وقت وقت پر سخت امتحان دیے ہیں اور ان میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
ایسی کوئی بھی قوم/فرقہ جو اپنے آپ کو متاثر اور دلت محسوس کرتا ہے اس کو اس سے نجات دلانے والی لڑائی خود لڑنی پڑے گی۔ اس سے بڑھ کر اسے اپنی مشکلوں کا حل خود تلاش کرنا پڑے گا ورنہ تین طلاق جیسے بے معنی ایشوز کو کیش کرا کر سیاسی پارٹیاں ہمارے نام پر اقتدار حاصل کرتی رہیں گی اور ہم تباہ ہوتے چلے جائیں گے۔ مثال کے طور پر تین طلاق کا ایشو ہم آپس میں بیٹھ کر سلجھا سکتے تھے لیکن ہم نے خود اسے ایشو بنا کر دنیا کے سامنے پلیٹ میں پروس دیا اور انجام آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔

سچر کمیٹی کی رپورٹ کی بیساکھیوں کو اتار پھینکئے، 24 گھنٹے متاثر ہونے کا رونا بند کیجیے اور ذمہ داری اٹھاتے ہوئے آگے بڑھیے اور سوال کیجیے اپنے رہنماؤں سے اگر آپ کے پاس کوئی رہنما ہے تو۔ کیا ہماری قوم کے پاس ایک بھی ایسا مسلم لیڈر ہے جو قوم اور ملک دونوں کو ساتھ لے کر چلتا ہو؟
یہی وقت ہے جب ایک قوم کے طور پر ہم اپنی تکلیفوں اور مصیبتوں کو فائدے میں بدل سکتے ہیں۔ ایک اہم بات اور یاد رکھیے۔ عام زندگی والا آپ کا ہندو دوست ہو یا اونچے عہدے پر بیٹھا کوئی بڑا ہندو افسر، وہ آپ کی مدد کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے، بشرطیکہ آپ اس کے پاس جائیں تو۔
Marcus Aurelius نے ٹھیک ہی کہا ہے:
ان لوگوں کے لیے رکاوٹیں بھی راستہ بن جاتی ہیں جو آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

***
بشکریہ: روزنامہ "راشٹریہ سہارا" (13/جولائی 2019)
Fauzan Alavi, fauzanalavi[@]yahoo.com

Indian Muslims and their self development. Article: Fauzan Alavi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں