خلیج میں کشیدگی کیا جنگ کا پیش خیمہ ہے؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-07-29

خلیج میں کشیدگی کیا جنگ کا پیش خیمہ ہے؟

iran-uk-usa-cold-war

پچھلے چند ہفتوں سے مشرق وسطی میں جاری کشیدگی میں امریکہ اور ایران کے درمیان راست تنازعہ میں برطانیہ نے غیر جانبدارانہ موقف اختیار کیا لیکن پچھلے جمعہ کو ایران کی جانب سے خلیج عمان میں برطانوی پرچم کے حامل تیل بردار جہاز کو اس کے عملہ کے ساتھ حراست میں لئے جانے کے بعد ایران اور برطانیہ کے درمیان ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا جبکہ ایران اور امریکہ ایک دوسرے کے مقابل مختلف جارحانہ موقف اختیار کئے ہوہے ہیں۔

ایک جانب خادم حرمین شریفین ملک سلمان بن عبدالعزیز نے سعودی عرب میں مزید امریکی افواج کی آمد کی منظوری دے دی تو دوسری جانب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ہتھیار کی فروختگی کے خلاف امریکی کانگریس کی قرارداد کو ویٹو کرکے دونوں ممالک کو امریکی ہتھیار فروخت کرنے کی راہ ہموار کر دی۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپیو [Mike Pompeo] نے خلیج میں امریکی تنصیبات اور اس کے اتحادیوں کو ایران سے درپیش خطرات کی وجہ سے دونوں ممالک کے لیے 8.1 بلین ڈالر مالیتی ہتھیاروں کی فروخت کو ضروری قرار دیا۔ امریکہ کے مطابق خلیج کی موجودہ صورتحال میں خلیج کے حلیف ممالک کو ہتھیار فراہم نہ کرنے سے ایسے اشارے ملیں گے کہ امریکہ ان کے ساتھ نہیں ہے۔ پامپیو کے مطابق ان ہتھیاروں کی فروخت سے امریکہ اور اس کے خلیجی اتحادی ممالک کے اتحاد کو تقویت حاصل ہوگی۔

خلیج میں تیل بردار جہازوں کی آمد ورفت کے انتہائی اہم ترین علاقہ سے برطانوی پرچم کے حامل تیل بردار جہاز کو اپنے قبضہ میں لینے کے بعد ایران نے اسے دو ہفتہ قبل جبرالٹر میں ایرانی تیل بردار جہاز کو قبضہ میں لیے جانے کی جوابی کاروائی قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ ایران نے بین الاقوامی قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔
دو ہفتہ قبل جبرالٹر کے حکام نے ایرانی تیل بردار جہاز کو اپنے قبضہ میں لیتے ہوئے ایران پر الزام عائد کیا تھا کہ ایران یورپی یونین کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شام کو 2.1 ملین بیرل تیل سربراہ کر رہا تھا۔
جبرالٹر میں ایرانی تیل بردار جہاز کو قبضہ میں لیے جانے پر ایران نے برطانیہ پر امریکہ کے آلہ کار بننے کا الزام عائد کیا ۔ ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکہ کی معاشی دہشت گردی کا حصہ نہ بنے۔ جبکہ ٹرمپ انتظامیہ ایران پر دباؤ بڑھانے اور مزید تحدیدات کے ذریعہ ایرانی تیل برآمدات پر روک لگانے کی کوشش میں ہے۔

سویڈن کے سابق وزیراعظم اور یورپین کونسل آف فارن ریلیشن کے شریک چیرمین کارل بلٹ [Carl Bildt] نے ایرانی جہاز کے خلاف برطانوی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین عام طور پر غیر اراکین ممالک کے خلاف کارروائی کا مجاز نہیں ہے اور ایران یوروی یونین کا رکن بھی نہیں ہے۔
ایران کا ماننا ہے کہ برطانیہ نے امریکہ کی شہ پر ایرانی جہاز کے خلاف کارروائی کی ہے تاکہ ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکے۔

ایران کی جانب سے برطانوی پرچم بردار جہاز کو آبنائے ہرمز [Strait of Hormuz] میں حراست میں لئے جانے کی مذمت کرتے ہوئے امریکہ نے کہا کہ ایران نے صرف ایک ہی ہفتے میں برطانیہ کو دو مرتبہ اپنے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
برطانیہ نے آبنائے ہرمز میں تیل بردار جہازوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے یوروپی قیادت میں بحریہ مشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
برطانوی خارجہ سکریٹری جرمی ہنٹ [Jeremy Hunt] نے برطانوی پارلیمنٹ میں کہا کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایران کو خلیجی سمندر میں بحری جہازوں کی آمد و رفت میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ پیدا کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، جبکہ ایران نے برطانوی پرچم بردار جہاز کو اپنے قبضہ میں لے کر اپنی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کے لئے مجبور کیا۔ انہوں نے ایران کی اس کاروائی کو "قزاقی" قرار دیا۔ جبرالٹر کے حکام نے وضاحت کی کہ ایرانی تیل بردار جہاز کو قبضہ میں لینے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ایرانی تیل سے لیس تھا بلکہ اسے اس لئے روک لیا گیا کیونکہ یہ مشتبہ طور پر ملک شام کی جانب رواں تھا جو کہ یورپی یونین کی پابندی کی خلاف ورزی ہے۔

2015ء میں کئے گئے جوہری معاہدہ سے پچھلے سال امریکہ کی دستبرداری اور ایران پر اقتصادی پابندیوں کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات مسلسل کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔
اسی ہفتہ ایران نے یہ اعلان کیا کہ اس نے امریکی جاسوسی ادارہ سی آئی اے کے 17 جاسوسوں کو گرفتار کر کے مختلف سزائیں سنائی ہیں جس میں سزائے موت بھی شامل ہے۔ مارچ 2019ء تک ایک سال کے دوران عمل میں آئیں ان کارروائیوں کے ایرانی دعوے کو امریکہ نے جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے، جبکہ ایران نے سرکاری ٹیلی ویژن چینل کے ذریعہ سی آئی اے کے ان عہدیداروں کی تصاویر جاری کر دیں جن سے گرفتار شدہ جاسوس مسلسل رابطے میں تھے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ٹویٹر پر ایران کے دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے اسے محض ایرانی پروپیگنڈہ قرار دیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ ایران کی معیشت تنزلی کا شکار ہونے کی وجہ سے وہ تباہی کے دہانے پر آ چکی ہے۔ اسی لئے بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر ایسی حرکتوں پر اتر آیا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ نے ایران سے تحویل میں لئے گئے بحری جہاز کو چھوڑنے اور عملہ کو رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایران کو وارننگ دی کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں برطانیہ خلیج میں بڑی تعداد میں فوج تعینات کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔

ایران کے قبضہ میں موجود برطانوی پرچم بردار جہاز کی مالک سویڈن کی کمپنی سٹینا بلک [Stena Bulk] نے چہارشنبہ کو اس بات کی تصدیق کی کہ جہاز کا عملہ محفوظ ہے۔ کمپنی کے عہدیداروں نے جہاز میں موجود 23 اراکین میں چند سے فون پر راست بات چیت کی اور ان سب کی خیریت دریافت کی۔ کمپنی نے کہا کہ عملہ کے تمام اراکین بخیر اور صحت مند ہیں۔
ایرانی حکام ان سے تعاون اور بہتر برتاؤ کر رہے ہیں۔ کمپنی کے سی ای او ایرک ہانیل [Erik Hanell] نے امید ظاہر کی کہ عملہ کی رہائی کے سلسلہ میں عنقریب پیشرفت ہوگی۔ اتوار 28/ جولائی کو ویانا میں 2015ء کے جوہری معاہدہ کے فریق ممالک کے مندوبین کا اجلاس منعقد ہوگا۔ اس معاہدہ کے فریقین نے خلیج کی تازہ ترین صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس معاہدہ پر یورپی یونین کے ممالک برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس سے ایران مسلسل مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد کردہ معاشی تحدیدات میں نرمی پیدا کرنے اور خاص کر عالمی منڈی میں ایرانی تیل کو فروخت کرنے کے لئے امریکہ کو راضی کریں۔
ایران یورانیم کی افزودگی میں اضافہ کے علاوہ دیگر اقدامات کی بھی دھمکی دیتا رہا ہے۔ اب ایران نے دھمکی دی ہے کہ اگر خلیج کے پانی میں ایرانی تیل بردار جہازوں کی آمد ورفت کو روکا جائے گا تو پھر یہاں سے کسی اور جہاز کو بھی گزرنے نہیں دیا جائے گا۔

اس ہفتہ پیش آئے واقعات کے تناظر میں برطانیہ کا اگلا قدم کیا ہوگا اور یورپی یونین کے رکن ممالک برطانیہ کی تائید میں کھڑے ہوں گے یا مزید مصالحت کی کوشش کریں گے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم خلیج کی تازہ ترین صورتحال کشیدہ ہے۔ امریکہ کا جارحانہ موقف اور خلیجی ممالک کو ہتھیاروں کی فروختگی کی راہ ہموار کرنے کے بعد اس کا اگلا قدم کیا ہوگا اور اس پر ایران کا ردعمل کیا ہوگا؟ یہ بھی عنقریب پتا چل جائے گا۔

***
بشکریہ:
روزنامہ اعتماد ، اتوار ایڈیشن، 28/جولائی 2019۔
محمد سیف الدین (ریاض ، سعودی عرب)۔
mohdsaifuddin[@]gmail.com
محمد سیف الدین

Gulf crisis: story began with UK's seizure of Iranian-flagged ship in Gibraltar
UK-Iran crisis: British oil tanker seized in Strait of Hormuz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں