نظریے کی شکست - پروفیسر بیگ احساس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-07-20

نظریے کی شکست - پروفیسر بیگ احساس

india-mix-culture-theory

مہاتما گاندھی نے دو قومی نظریے کی سخت مخالفت کی تھی۔ وہ ملک کی تقسیم کے خلاف تھے۔ انہوں نے کانگریس اور مسلم لیگی لیڈروں کو سمجھانے کی بےحد کوشش کی۔ انگریزوں نے مذہبی جنون کو اتنی ہوا دی تھی کہ ملک تقسیم ہو گیا تقسیم میں جو خوں ریزی ہوئی وہ زخم آج تک مندمل نہ ہو سکا۔ پاکستان نے اپنے ملک کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا تب سے شدت پسند ہندو چاہتے تھے کہ ہندوستان کو ہندو راشٹریہ قرار دیا جائے۔ اس میں گاندھی جی سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ ناتھو رام گوڈسے نے ان پر گولی چلا دی اور بابائے قوم کو راستے سے ہٹا دیا۔ بہت سے مسلمان بھی ملک کی تقسیم کے خلاف تھے، انہوں نے ہندوستان میں رہنا پسند کیا۔ گاندھی جی نے جس سیکولر ہندوستان کا خواب دیکھا تھا، کانگریس نے اسے پورا کیا اور ایسا دستور بنایا گیا جس میں ہر مذہب اور فرقے کو برابری کا درجہ حاصل ہو سکے۔
تقسیم ایک سیاسی سانحہ تھی۔ عام ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہتے تھے۔ تقسیم کے بھیانک فسادات میں ہندو مسلمان اور سکھوں نے انسانیت کے ایسے مظاہرے کیے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ نہرو اور لال بہادر شاستری تک تو سب کچھ ٹھیک تھا۔ ملک کے بعض حصوں میں فسادات ہوتے اور پولیس یک طرف کاروائی کرتی۔ مرار جی دیسائی کی پی۔اے۔سی بھی مسلمانوں کو نشانہ بنایا کرتی۔ جب تک گاندھی جی زندہ رہے انہوں نے فسادات کو روکنے کے لیے مرن برت رکھا۔ فسادات کو روکنے کی کوشش کی۔ ان کے بعد ایسی کوشش کسی نے نہیں کی۔
شاستری بتی کے بعد اندرا گاندھی ایک طاقت ور لیڈر کے روپ میں ابھریں۔ انہوں نے کئی انقلابی اقدامات کیے۔ عوام نے ان کا بھر پور ساتھ دیا۔ کانگریس کو تقسیم کر کے انہوں نے "انڈین نیشنل کانگریس" کی جگہ "اندرا کانگریس" بنائی۔ انہوں نے خالصتان کی تحریک کو کچلنے کے لیے "آپریشن بلو اسٹار" کیا۔ مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے الگ کرنے میں مدد کی اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔

ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ ہوا۔ اپوزیشن اور مخالفت کرنے والے جیلوں میں بھر دیئے گئے۔ یہیں سے آر۔ایس۔ایس کی سیاسی شاخ جن سنگھ، بھاجپا میں تبدیل ہو گئی۔ سکھوں نے 'آپریشن بلیو اسٹار' کا انتقام اندرا گاندھی کے قتل کے ذریعہ لیا۔ پھر بھیانک فسادات میں سکھوں کا قتل عام ہوا۔ آر۔ایس۔ایس بڑے صبر کے ساتھ اپنی شاخیں ملک بھر میں پھیلاتی رہی۔ جنتادل حکومت میں بھاجپا بھی شامل ہوئی۔
اندرا گاندھی کے قتل سے پہلے ہی سنجے گاندھی حادثہ کا شکار ہو گئے۔ ایک ناتجربے کار پائلٹ راجیو گاندھی کے ہاتھوں ملک کی باگ ڈور سونپ دی گئی۔ راجیو گاندھی پہلے تو "مسٹر کلین" کہلائے پھر پے در پے کئی غلطیوں کے مرتکب ہوئے۔ جس میں سب سے فاش غلطی شاہ بانو کیس میں دستور میں ترمیم اور اس کے جواب میں بابری مسجد کا تالا کھولنا تھی۔
ہندوتوا کا جن اسی وقت آزاد ہوا۔ پھر تو اکثریت کے خوف سے نہ رتھ یاترا روکی گئی، نہ ان کے حوصلوں کو پست کیا گیا۔ نرسمہارا وزارت عظمی عہدے پر فائز ہوئے تو انہوں نے بابری مسجد کے انہدام کا موقع فراہم کر کے سیکولرازم کے تابوت میں آخری کیل جڑ دی۔
کانگریس اپنے نظریات سے دور ہونے لگی اور آر۔ایس۔ایس اپنے نظریات پر سختی سے جمی رہی۔ بابری مسجد کا انہدام کرنے والے مجرمین کو سب نے ٹی وی پر دیکھا۔ انہیں گرفتار تک نہیں کیا گیا۔ انھیں مجرمین نے نہ صرف اقتدار حاصل کیا بلکہ اعلی وزارتوں پر فائز بھی ہوئے۔
بابری مسجد کے انہدام کے بعد ملک بھیا نک فسادات کی آگ میں جلنے لگا۔ کانگریس نے فسادات پر قابو پانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ایک کمیشن بٹھا دیا۔ اس کی سفارشات کور وبہ عمل لانے کا کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ سنیل دت جیسے شریف النفس ممبر پارلیمنٹ کے بیٹے سنجے دت کو ٹاڈا میں پھنسا دیا گیا۔ کانگریس نے کوئی مدد نہیں کی۔ فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوتے گئے اور کانگریس تماشہ دیکھتی رہی۔
گجرات میں اقلیتوں کی نسل کشی کی گئی۔ کانگریس نے کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ احسان جعفری مدد کے لیے چیختے چیختے مر گئے کانگریس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ گجرات کے فسادات کے بعد عوام نے دوبارہ کانگریس کو اقتدار سونپا۔ کانگریس نے اپنے نظریات کا عملی مظاہرہ نہیں کیا۔ آر ایس ایس نے بڑی چالاکی سے کانگریس کو مسلم نواز ثابت کرنے کی کوشش کی اور کامیاب رہی حالانکہ عملاً اور حقیقتاً ایسا کچھ بھی نہ تھا۔
ایک خیالی دشمن ابھارا گیا۔ گجرات کے فسادات کے بعد مودی کی صورت میں کٹر ہندوؤں کو ایک ہیرو مل گیا۔ 2014ء میں وہ چیف منسٹر سے راست وزیراعظم بن گئے۔ مودی نے کانگریس کے نام نہاد سیکولرازم کو طشت از بام کیا۔ کانگریس، مسلم نوازی کے الزام کو غلط ثابت کرنے کی کوشش میں لگ گئی، جو تصور قائم ہوا تھا کہ مسلمان 'بادشاہ گر' ہیں مودی نے اسے ذہنوں سے نکال پھینکا۔ دوسری طرف کانگریس نرم ہندوتوا کے تحت اکثریت کو خوش کرنے کے جتن کرنے لگی۔ راجیو گاندھی نے بابری مسجد سے انتخابی مہم شروع کی تھی۔ راہول بھی مندروں میں آشیرواد لینے لگے، پرینکا گاندھی کی کشتی گنگا میں چلنے لگی اور سفرکا اختتام ایک مندر پر ہوا۔ نہ فیروز گاندھی ہندو تھے نہ ان کا بیٹا اور نہ پوتا پوتی ہندو ہیں، یہ ساری دنیا جانتی ہے۔

مودی جی اور امیت شاہ نے ڈنکے کی چوٹ پرسادھو پرگیہ ٹھاکر کو پارٹی کا ٹکٹ دیا۔ راہول گاندھی کے مقابل سمرتی ایرانی اور کنہیا کے مقابل گری راج سنگھ!!
مودی بھی جانتے تھے وہ کسی گدھے کو بھی امیدوار بنائیں گے تو وہ جیت جائے گا۔ لوگوں نے مودی جی کو ووٹ دیا، امیدواروں کو نہیں۔ تب ہی بی جے پی کے ٹکٹ پر 116 مجرمین نے جیت درج کروائی۔ ممبر پارلیمنٹ بننے کے بعد بھی پرگیہ ٹھاکر کو عدالت میں حاضری دینی پڑی۔ لیکن یہ بس کچھ ہی دن کی بات ہے بعد میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔
جیسے امیت شاہ پر قتل کے چھ الزام ہیں اور وہ ملک کے وزیر داخلہ ہیں۔ ملک کو ہندو راشٹریہ بنانے کی تمنا میں عوام نے مودی حکومت کی ساری غلطیاں نظر انداز کر دیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ الیکشن ملک کی ترقی اور منصوبوں کے نام پر نہیں، نظریات کے سہارے لڑا گیا۔ میڈیا، الیکشن کمیشن سب پر مودی جی کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ مودی جی اپنے نظریات عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے اور عوام کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ مودی ہی نجات دہندہ ہیں اور ایک اوتار ہیں۔ اب وہ مودی مودی کی مالا جپتے ہیں۔

انتخابات میں گوڈسے کے ماننے والے ستر برس کے انتظار کے بعد جیت گئے۔ گاندھی جی کا قتل گوڈسے نے کیا اور نظریات کا قتل بی جے پی نے ۔۔۔!
ایک نئے ہندوستان کا جنم ہوا ہے۔
گلوبلائزیشن کے اس دور میں ہر قوم یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ عالمی پس منظر میں اس کا مقام کیا ہے، وہ کہاں کھڑی ہے، اس کی شناخت کیا ہے؟ اب تک تو ہندوستان کی شناخت کثرت میں وحدت رکھنے والے ملک کی تھی، تو کیا اب اسے ہندو راشٹر یہ مان لیا جائے گا؟
دستور میں تبدیلی کر کے جمہوریت کا نظام ختم کر دیا جائے گا؟ ایک ایسا ملک جس میں 24 زبانوں کو تسلیم کیا گیا دوسری بولیوں پر بھی توجہ دی جارہی ہے، جہاں ہر 200 کیلو میٹر پر زبان اور کلچر بدل جاتے ہیں کیا اسے ایک رنگ میں رنگ دیا جائے گا۔۔۔؟ کیا یہ ممکن ہے؟
مودی ہے تو ممکن ہے۔۔۔!!

لیکن مودی جی ایک دور اندیش جہاں دیدہ وزیراعظم ہیں۔ انھیں بہت عجلت بھی نہیں ہے۔ وہ جانتے ہیں دیش اور اقلیتیں کیا سوچ رہی ہیں؟ وہ جو بھی کریں گے دھیرے دھیرے کریں گے۔ اس مہان جیت کے بعد انہوں نے اپنے نعرے "سب کا ساتھ سب کا وکاس" میں 'سب کا وشواس' کا اضافہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا :
"جن لوگوں نے مجھے ووٹ دیا وہ میرے ہیں اور جنہوں نے ووٹ نہیں دیا وہ بھی میرے ہیں"۔ وزیر اعظم نے دستور کی برتری کی بات کی ، امبیڈکر کو یاد کیا، اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی سے آشیرواد لیا گاندھی اور واجپائی کی سمادھی پر گئے۔
وزیراعظم نے عید کے موقع پر مسلمانوں کو مبارک باد پیش کی، انہوں نے ٹویٹر پر اردو میں تحریر کیا ؛
"خدا کرے یہ خصوصی دن ہمارے معاشرے میں ہم آہنگی ، رحم دلی کو فروغ دے ہرکس و ناکس کی زندگی مسرتوں سے ہم کنار رہے"۔

یہ ایک نیک شگون ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی ایک طاقت ور لیڈر ہیں، جن کا آر۔ایس۔ایس میں بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ہماری دعا ہے کہ وزیر اعظم نے جو کچھ کہا، اس پر عمل پیرا ہونے کی بھگوان انہیں توفیق عطا کرے۔
پچھلے پانچ برس کو ہم ایک بھیانک خواب سمجھ کر بھول جائیں گے، ان کی سرپرستی میں ایک ایسا طاقت ور ہندوستان وجود میں آئے جس کو دیکھ کر دنیا رشک کرے۔

***
بشکریہ:
اداریہ (ماہنامہ "سب رس" ، جون-2019)

***
Prof. Baig Ehsas
8-1-398/PM/416, Yaser Enclave, Flat No. 401, Paramount Hills, Toli Chowki, Hyderabad - 500008
Mob.: 09849256723
Email: baig_ehsas[@]yahoo.co.in
Facebook : Mohammed Baig Ehsas
پروفیسر بیگ احساس

The defeat of a theory. Article: Prof. Baig Ehsaas

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں