عطا الحق قاسمی اور اے۔ حمید کے سفرناموں میں مزاح - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-07-15

عطا الحق قاسمی اور اے۔ حمید کے سفرناموں میں مزاح


عطا الحق قاسمی
عطاء الحق قاسمی مزاح میں دھیمے رنگوں کو بھی اس قدر شوخ کر دیتے ہیں کہ ان کی کرچیاں آنکھوں میں چبھنے لگتی ہیں۔ "خند مکرر" میں ان کی پیروڈی "ایک غیر ملکی سیاح کا سفر نامہ لاہور" ایک ایسا سفر نامہ ہے جو سوچ کر لکھا گیا ہے۔ لیکن جس کی حقیقت اصلی اور غیر تراشیدہ ہے۔ قاسمی صاحب نے اس سفر نامے کا تمام مواد لاہور کے گلی کوچوں اور بازاروں سے جمع کیا ہے اور اپنی شدید حس مزاح سے انہیں بہجت آفریں بنا دیا ہے لیکن اس حقیقت کی صورت قدرے مضحک ہو گئی ہے۔ اقتباس ملاحظہ کیجئے:

"میں نے لاہور میں بیشتر لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ پیسہ ہاتھ کی میل اور عورت پاؤں کی جوتی ہے، تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ میں نے یہاں لوگوں کی کثیر تعداد کو اس جوتی اور میل کے لئے ذلیل و خوار ہوتے دیکھا ہے۔ یہ میل تو کچھ لوگوں کے ہاتھ آ جاتی ہے مگر بیشتر اس کے لئے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ البتہ شادی کی بدولت جوتی سب کا مقدر بنتی ہے بلکہ کئی ایک تو جوتی، کے بجائے جوتیوں کی خواہش کرتے ہیں اور یہ خواہش اس وقت پوری ہو جاتی ہے جب وہ مزید شادیاں کرتے ہیں۔ "

"لاہور کے بینکوں میں کیش کی وصولی کے دو طریقے ہیں۔ ایک چیک دے کر دوسرا کیشئر کو پستول دکھا کر! دوسرا طریقہ عوام میں زیادہ مقبول ہے، کیوں کہ یہاں بینکوں میں چیک دے کر رقم کیش کرانے میں فاضل وقت لگتا ہے۔ "

اس سفر نامے میں عطاء الحق قاسمی ایک اہم شخصیت بن کر سامنے آتے ہیں۔ واقعہ ان کے ہاتھ کے لمس سے اچانک کھلکھلا اٹھتا ہے۔ واقعے کو یہ لمس نصیب نہ ہو تو یہ آتش بازی کا نم آلود انار بن جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال حسب ذیل ہے:
"پاکستان میں مونچھیں رکھنے کا رواج عام ہے۔ بیشتر نوجوانوں کے چہروں پر مونچھیں سجی ہوتی ہیں جو انہیں اچھی لگتی ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی تو کئی لڑکیاں بھی مونچھیں رکھنے لگی ہیں۔ اس وبا یا رجحان کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔ "
عطاء الحق قاسمی کی یہ پیروڈی "ایک غیر ملکی سیاح کا سفر نامہ لاہور" اپنی طرز کا ایک نیا تجربہ ہے جس کی خاطر خواہ پذیرائی ہوئی ہے۔

اے حمید
اے حمید کا سفر نامہ لاہور سے لالیاں تک جو "دیہات کی بہاریں" کے عنوان سے ہفت روزہ 'نصرت' میں چھپا تھا، درحقیقت سفر کو ایک دشوار عمل کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ انہوں نے مزاح کو خارجی عمل سے کشید کیا اور اس کو ایسی فنکاری سے پیش کیا ہے کہ ایک مزاحیہ صورت واقعہ ہمیں قہقہہ لگانے کی دعوت دے ڈالتی ہے۔ اس سفر نامے کا ایک اقتباس حسب ذیل ہے:
"لالیاں سے ایک کچی سڑک چک بھڑانہ کی طرف جاتی ہے۔ چونکہ یہ سڑک اپنی مرضی کے خلاف جاتی ہے۔ اس لئے ہر قدم پر سفر کرنے والے کے راستے میں روڑے اٹکاتی ہے۔ سائیکل سوار کا ٹائر پنکچر کرتی ہے اور کوچوان کا یکہ الٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس سڑک پر جو یکے چلتے ہیں ان کا سب کچھ ہلتا ہے۔ مگر گھوڑا اپنی جگہ سے نہیں ہلتا۔ چنانچہ عام طور پر یہاں کوچوان گھوڑے کی لگام تھامے سواریوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ یہ دنیا کی پہلی سڑک ہے جس پر یکوں کے آگے گھوڑے اور گھوڑوں کے آگے کوچوان جتے ہوتے ہیں۔ "

مزاح نگاروں کے سفر نامے

***
ماخوذ از کتاب:
اردو ادب میں سفرنامہ
مصنف: ڈاکٹر انور سدید (اشاعت: اگست 1987)

Humorous travelogue of Ata-ul-Haq Qasmi & A.Hameed.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں