زندہ دلان حیدرآباد کی تاریخ - اداریہ شگوفہ جون 2019 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-06-13

زندہ دلان حیدرآباد کی تاریخ - اداریہ شگوفہ جون 2019

Shugoofa June 2019 , Zinda Dilaan Hyderabad

ماہنامہ رسالے "شگوفہ" کا درج ذیل اداریہ (شمارہ: جون 2019)، ایک تاریخی اداریہ ہے۔ اس میں زندہ دلانِ حیدرآباد کی وہ مستند تاریخ بیان کی گئی ہے جسے ڈاکٹر مصطفیٰ کمال صاحب نے خود تحریر کیا ہے۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب بانیانِ زندہ دلان میں سرِفہرست ہیں اس لئے لمحۂ قیام سے لے کر آج تک جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے وہی اس کے شاہد بھی ہیں۔
اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ مستقبل میں کئی افراد منظر عام پر وارد ہوں گے اور مختلف دعوے کریں گے (جیسا کہ حال میں کچھ لوگ کر بھی رہے ہیں)۔
اس لئے ایسے بے بنیاد دعوؤں کی حقیقت بے نقاب کرنے کیلئے ڈاکٹر مصطفیٰ کمال صاحب نے پوری تاریخ رقم کر دی ہے۔ یہ سلسلہ ابھی جاری رہے گا۔ دلچسپی رکھنے والے قارئین کیلئے یہ ایک تاریخی تحریر ہے جسے محفوظ کرلینے کی ضرورت ہے۔
ماخوذ : زندہ دلان فیس بک گروپ

غیر منقسم پنجاب کے شہر لاہور میں بسنے والے خوش مزاج، شوخ و طرار بذلہ سنج ادب دوست شہریوں کو زندہ دلان لاہور کہا جاتا تھا۔ یہ کس کی اختراع ہے اس تعلق سے کئی روایتیں ہیں۔ لوگ بڑی خوش دلی سے یہ اعزاز عطا کرتے یا قبول کرتے تھے لیکن لاہور کے کسی ادارے کو اس نام سے کبھی موسوم نہیں کیا گیا۔

آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد کے پروڈیوسر قاضی عیاذ انصاری نے پہلی بار ایک مزاحیہ مشاعرہ 1961ء میں زندہ دلان حیدرآباد کے عنوان سے سامعین کی موجودگی میں ریڈیو سے نشر کیا۔ جو اپنی انفرادیت اور انوکھے پن کی وجہ سے بے حد پسند کیا گیا۔ ان دنوں حیدرآباد میں ڈرامہ، موسیقی اور مزاحیہ خاکے، ممکری وغیرہ کے فروغ کے لیے ایک انجمن فائن آرٹس اکیڈیمی سرگرم عمل تھی اور اسے مابعد پولیس ایکشن ناموافق اور سرد ماحول میں بے حد مقبولیت حاصل ہوگئی تھی۔
اکیڈیمی کا ایک ادبی شعبہ تھا جسے زندہ دلان حیدرآباد کے نام سے موسوم کردیا گیا۔ جب کہ اس ادارے کے تمام ارکان زندہ دلی کے مظاہروں میں یکتا ہیں۔ اکیڈیمی کے ادبی شعبے کی سرگرمیوں میں مزاحیہ شعری محفلوں کا انعقاد خاص طور سے شامل تھا۔ فائن آرٹس اکیڈیمی (تشکیل 1953ء) کے ارکان نے کسی ایک شخص کی ادارے کے بانی کی حیثیت سے نشان دہی نہیں کی اور متفقہ خیال تھا کہ فائن آرٹس اکیڈیمی کی تشکیل کے موقع پر جو سینئیر اور فعال ارکان تنظیمی کاموں میں مشغول تھے وہی اس اکیڈیمی کے بانی کہلائیں گے۔ میں نے 1966ء میں روزنامہ رہنمائے دکن اور سیاست کے لیے سینئیر ارکان سے گفتگو کے بعد ان اداروں کا تعارف قلم بند کیا تھا جو بعد میں اختصار کے ساتھ شگوفہ (اپریل، مئی 1971ء) کے شمارے میں بھی شایع ہوا۔ اکیڈیمی کے ارکان میں بانی کے طور پر کسی ایک رکن کی عزت افزائی کے سلسلے میں سخت اختلاف تھا، اراکین نے بہ اصرار کہا تھا کہ تمام سینئیر اور فعال ارکان نے فائن آرٹس اکیڈیمی کی تشکیل میں حصہ لیا ہے۔
فائن آرٹس اکیڈیمی کے قدیم ارکان میں عزیز قیسی، اقبال قریشی، حمایت اللہ، ممتاز احمد، احمد رضوی، خورشید باورا، ایم اے رشید، سعید احمد اشرفین، سعید الحسن، مصطفی علی بیگ، مجید مقبول، قمر الدین احمد خاں، صفدر حسین، عبدالصمد خاں، محمد یوسف اور سعادت علی خاں کے نام مجھے یاد ہیں۔

عزیز قیسی نے مدیر شگوفہ کے نام ایک مراسلے میں لکھا تھا کہ:
"میرا تعلق فائن آرٹس اکیڈیمی سے اس کے آغاز سے ہی رہا۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ فائن آرٹس اکیڈیمی کے بنیاد کا پتھر رکھنے والے ہاتھوں میں میرا ہاتھ بھی تھا"۔
وہ زندہ دلان حیدرآباد کے بارے میں لکھتے ہیں:
"اکیڈیمی کے سرکردہ حضرات نے جس میں محمد حمایت اللہ کے ساتھ میں بھی شامل ہوں، اکیڈیمی کے ایک ادبی شعبے کے قیام کا منصوبہ بنایا۔۔
"اکیڈیمی کی جس میٹنگ میں ادبی شعبے کا نام زندہ دلان حیدرآباد رکھا گیا اس کی صدارت سینئیر مزاحیہ شاعر (جو اکیڈیمی کے نام سے برسوں پہلے سے مزاح اور طنز کی شاعری میں اپنا نام اور مقام بنا چکے تھے) علی صائب میاں کرنے والے تھے وہ کسی وجہ سے نہیں آسکے اور مجھے اس میٹنگ کی صدارت کرنی پڑی۔ اس میٹنگ میں ممتاز احمد، سرور ڈنڈا، س۔ ا۔ عشرت، رگھو بنسی نرمل، خواجہ بدیع الدین ماجد، مجید مقبول، حمایت اللہ، سعادت علی خاں، قمر الدین خاں، مصطفی علی بیگ، ولی محمد آرٹسٹ شریک تھے"۔
(دے کے خط، مطبوعہ اپریل 1992ء)

فائن آرٹس اکیڈیمی مقامی سطح کے مشاعرے وقتا فوقتاً منعقد کرتی رہی ہے۔ کل ہند صنعتی نمائش کے موقع پر بھی نمائش تھیٹر پر مشاعرہ منعقد کیا جاتا تھا۔ 6/نومبر 1963ء کو نمائش میں اور 4/نومبر 1965ء کو رویندرا بھارتی اور 11/نومبر 1968ء کو گاندھی بھون میں بڑے اہتمام کے ساتھ مشاعرے منعقد کئے گئے۔ اکیڈیمی نے زندہ دلان حیدرآباد کے نام سے چار سالانہ ریاستی سطح کے مشاعرے 1962، 1963، 1964 اور 1965ء میں منعقد کیے۔ اردو ہال حمایت نگر میں منعقدہ ریاستی سطح کے اولین مشاعرے کا افتتاح نریندر لوتھر نے کیا تھا، جو ان دنوں ڈائرکٹر محکمہ تعلقات عامہ تھے۔ شعبۂ ادب کے داعیان رگھو بنسی نرمل اور ببن لال یادو تھے۔ 17/مارچ 1962ء کو منعقدہ اس مشاعرے میں سلیمان خطیب، حمایت اللہ، سرور ڈنڈا، مصطفی علی بیگ، مسافر نلگنڈوی، گستاخ، سرپٹ حیدرآبادی، احمد اللہ قادری، فرید گردہ، گڑبڑ حیدرآبادی اور بدیع الدین ساجد، عبدالصمد خاں، ظریف حیدرآبادی، فریس، نصرت نے کلام سنایا۔

تاہم اس مشاعرے سے قبل چھوٹے پیمانہ پر بھی مزاحیہ مشاعرے منعقد ہوتے رہے۔ مزاحیہ مشاعروں کے تعلق سے اردو روزناموں کے مطبوعہ اشتہارات اور دعوت ناموں وغیرہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مشاعرے فائن آرٹس اکیڈیمی کے زیر اہتمام منعقد ہوتے تھے اور مشاعرے کو مستقلاً زندہ دلان حیدرآباد کا عنوان دیا جاتا تھا۔ گویا یہ بالکل ریڈیو کے مزاحیہ مشاعرے کی اتباع تھی۔ اخباروں نے لکھا کہ :
"حیدرآباد میں اب تک اتنا بڑا مزاحیہ مشاعرہ منعقد نہیں ہوا تھا"۔
مزاحیہ مشاعروں کے انعقاد کے موقع پر شعرا کی کمی کے باعث دو ایک ناشاعر فن کاروں کو کلام فراہم کیا جاتا اور وہ مشاعرے میں بڑی آن بان، اعلی شاعروں سے زیادہ اعتماد اور فن کارانہ انداز میں یوں کلام سناتے کہ اصلی شاعر اپنے کلام کی "ملکیت" سے دست بردار ہوجانے میں عافیت محسوس کرتے تھے!۔ اصلاح شعر کے کام رگھوبنسی نرمل انجام دیتے تھے۔ مزاحیہ مشاعروں کی ابتدائی شہرت کے متوازی اس دور میں مجتبیٰ حسین روزنامہ سیاست کے فکاہی کالم شیشہ و تیشہ لکھ رہے تھے اور ادبی حلقوں میں تیزی کے ساتھ متعارف ہورہے تھے۔ انہوں نے 1966ء کے آغاز پر ایک ادبی ادارے حلقہ ارباب ذوق کے معتمد حفیظ قیصر کے ساتھ مل کر طنز و مزاح نگاروں کی کل ہند کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا۔ فیصلے کے دو ایک مہینوں کے بعد انہیں خیال ہوا کہ حلقہ ارباب ذوق کے مقابلے میں زندہ دلان حیدرآباد موزوں اور پرکشش نام ہے اور فائن آرٹس اکیڈیمی کے تجربہ کار فن کاروں کی مدد سے تقاریب کو کامیاب بنایا جاسکتا۔ چنانچہ ایک مشترکہ میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ 14 اور 15/ مئی 1966ء کو مزاح نگاروں کی کل ہند کانفرنس زندہ دلان حیدرآباد کے زیر اہتمام منعقد ہوگی۔ بھارت چند کھنہ کی صدارت میں استقالیہ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ سیاست، رہنمائے دکن اور ملاپ کے مدیر نائب صدور ، مجتبیٰ حسین معتمد عمومی، حمایت اللہ اور حفیظ قیصر نائب معتمد، رحیم خاں خازن اور مصطفی کمال آفس سکریٹری منتخب ہوئے۔

طے ہوا کہ افتتاحی جلسہ، ادبی اجلاس، سمپوزیم اور بزنس سیشن کا انعقاد حلقہئ ارباب ذوق کے ذمے ہوگا۔ ناصر کرنولی، مصطفی کمال اور حفیظ قیصر کی ادارت میں ایک سووینر شایع ہوگا جس کے لیے حاصل کئے جانے والے اشتہارات کی رقم سے اخراجات کی پابجائی ہوگی۔ کل ہند مزاحیہ مشاعرہ کے انعقاد اور آمدنی و خرچ کی مکمل ذمہ داری فائن آرٹس اکیڈیمی کو دی گئی۔ کانفرنس بے حد کامیاب ہوئی۔ مشاعرے سے فائن آرٹس اکیڈیمی کو کافی آمدنی ہوئی جب کہ حلقہئ ارباب ذوق کوئی مالی فائدہ حاصل نہ کرسکا۔
مزاح نگاروں کی کانفرنس کے بعد حلقہئ ارباب ذوق نے زندہ دلان حیدرآباد سے دوری اختیار کرتے ہوئے اپنے طور پر دو روزہ "جشن مزاح" کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ مجتبیٰ حسین استقبالیہ کمیٹی کے معتمد عمومی مقرر ہوئے۔ طے ہوا کہ 12 اور 13/اگست 1967ء کو اس جشن کا گاندھی بھون میں انعقاد ہوگا۔ ان حالات میں فائن آرٹس اکیڈیمی نے اپنے طور پر 20/مئی 1967ء کو زندہ دلان حیدرآباد کا دوسرا کل ہند مزاحیہ مشاعرہ منعقد کرلیا۔ اس موقع پر ایک خوب صورت سووینر بھی شایع ہوا۔

طنز و مزاح نگاروں کی کانفرنس کے انعقاد سے میل ملاپ کا جو ماحول پیدا ہوا تھا۔ اس پر "جشن مزاح" نے کاری ضرب لگائی۔ کشیدگی اور دوریاں بڑھتی گئیں لیکن حالات کو سازگار بنانے کے لیے میں نے اکیڈیمی کے ادبی شعبہ کی ایک اڈھاک کمیٹی تشکیل دینے کی رائے دی جس کی معتمدی کے لیے مجتبیٰ حسین کو راضی کرلیا گیا۔ جناب بھارت چند کھنہ کمیٹی کے صدر اور جناب نریندر لوتھر نائب صدر تھے۔ 1968ء میں بڑے پیمانے پر تقاریب کا اہتمام کیا گیا۔ زندہ دلان حیدرآباد کی جانب سے طنز و مزاح کے دو اعلیٰ معیاری شعری مجموعے "نشتر و مرہم" (مجموعہ کلام رضا نقوی واہی) اور "گھوکرو کے کانٹے" (مجموعہ کلام علی صائب میاں) خوب صورت کتابت و طباعت سے آراستہ شایع کیے گئے۔
مطبوعات زندہ دلان حیدرآباد کی اشاعت کا شاندار پیمانے پر آغاز ہوا۔ پروفیسر مسعود حسین خاں نے کتابوں کی رسم اجرا کے جلسے کی صدارت کی۔ میری نگرانی میں اس پروجکٹ کا آغاز ہوا۔ طنزیہ و مزاحیہ کتابوں کی اشاعت اور نکاسی کا ایک نیا ماحول تیار ہوا۔ لیکن تلنگانہ تحریک کی شدت کے باعث پولیس نے 1969، 1970، 1971ء میں جلسوں اور کانفرنس کے انعقاد کی اجازت نہیں دی۔ 1972ء میں مجتبیٰ حسین دلی روانہ ہوگئے۔ حلقہ ارباب ذوق کے معتمد عمومی حفیظ قیصر بھی بیرون ملک میں جا بسے۔

یکم نومبر 1968ء میں میری ادارت میں دیڑھ ماہی "شگوفہ" کا پہلا شمارہ شایع ہوا۔ اس کے لیے فائن آرٹس اکیڈیمی کے سینئیر ارکان کی دستخطوں کے ساتھ ایک معاہدہ طئے پایا تھا جس کے بموجب ایڈیٹر، پرنٹر، پبلیشر مصطفی کمال کی ملکیت میں شایع ہونے والے رسالہ شگوفہ زندہ دلان حیدرآباد کا ترجمان ہوگا۔ 1973ء کے منظورہ قواعد و ضوابط میں اس معاہدہ کو ایک دفعہ کی صورت میں شریک کرلیا گیا۔
"جشن مزاح" گوکہ بڑے پیمانے پر منعقد ہوا لیکن اس جشن نے اردو طنز و مزاح کے فروغ کے لیے مل جل کر کام کرنے والوں کی پر خلوص متحدہ کوششوں کو سخت دھکا پہنچایا۔ تاہم زندہ دلان حیدرآباد کی سالانہ تقریبات بڑے اہتمام اور ڈسپلن کے ساتھ منعقد ہونے لگیں۔ حمایت بھائی اور فائن آرٹس اکیڈیمی کے دیگر سینئیر ارکان کو میں نے اس امر پر راضی کرلیا کہ ادبی شعبے زندہ دلان حیدراباد کو آزادانہ حیثیت دے دی جائے۔ اور فائن آرٹس کے موجودہ ارکان کے ساتھ طنز و مزاح نگاروں کو اس تنظیم میں شریک کیا جائے۔
اس ضمن میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے کنوینر موسیٰ کلیم برق آشیانوی تھے ۔ فائن آرٹس اکیڈیمی کے نائب صدر اور سابق مجسٹریٹ و ایڈوکیٹ دنیش چندر شاہ کی مدد سے قواعد و ضوابط تیار کیے گئے اور 10/جنوری 1962ء کو فائن آرٹس اکیڈیمی کی ایک قرار داد کے تحت تشکیل پائے ادبی شعبہ "زندہ دلان حیدرآباد" کو پبلک سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ کے تحت رگھوبنسی نرمل ، مصطفی کمال، سعادت علی خاں، ممتاز احمد اور حمایت اللہ کی تجویز اور وٹھل راؤ اور اسمعیل کی گواہی پر بہ طور ایک آزاد سوسائٹی 1973ء میں (No. 148/1973) رجسٹر کرلیا گیا۔
جس کے ساتھ ہی ادارہ زندہ دلان حیدرآباد کا نیا سفر شروع ہوا۔

نوٹ:
شگوفہ کے 51 ویں سال کے موقع پر عرصہ دراز سے مسلسل طنز و مزاح کی نگاری میں مصروف گلبرگہ کے ممتاز ادیب منظور وقار کے لیے ایک خصوصی گوشہ زیر نظر شمارے (جون 2019) میں شریک ہے۔ منظور وقار کے تخلیقی شجر کی جڑیں معاشرے کی زمین میں پیوست ہیں۔ دیہی ماحول نے ان کو کسی قدر معصوم اور صاف گو و بے باک بھی بنادیا ہے۔ ان کا اپنا ایک فطری اسلوب ہے۔ جس پر تکلف کا سایہ ڈالنے کی وہ کبھی کوشش نہیں کرتے۔


The history of Zinda Dilaan Hyderabad. By: Dr. Mustafa Kamal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں