میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:39 (آخری قسط) - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-06-13

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:39 (آخری قسط)


سورج غروب ہورہا ہے۔ سورج غریب ہو چکا ہے۔ جلسہ کبھی کام ختم ہو چکا۔ لیکن ہزاروں اور لاکھوں افراد ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اپنے قائدین کا انتظار کرتے ہوئے۔ سب چپ ہیں۔ دیکھیں ابکیا ہوتا ہے۔ قائدین کا ایک وفد سرکار سے بات کرنے گیا تھا اور ابھی ابھی وہ وفد واپس آیا ہے۔ سب بڑی بے چینی اور تشویش کے ساتھ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا ہوا؟ کیا ہوا؟ جیسے مریض کے رشتہ دار اور احباب آپریشن تھیٹر کے سامنے دم سادھے ہوئے کھڑے رہتے ہیں۔ اور ڈاکٹر کے باہر آتے ہی سب اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ یہی کیفیت میں نے دیکھی اور محسوس بھی کی ہے۔ کنوینر جلسہ نے کہا، دوستو! ہم نے اپنی طویل یادداشت اور اس کی کاپیا متعلقہ وزیروں اور سرکار کے ذمہ دارع ہدہ داروں کو دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت فی الوقت دہشت پسندوں سے نبٹ رہی ہے۔ اس کے بعد اپنی پہلی فرصت میں وہ ہمارے میمورنڈم پر ہمدردانہ غور کرے گی۔
اس کے ساتھ ہی ہجوم میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ کنوینر جلسہ کو مائیک کے سامنے سے ہٹا کر کسی ذمہ دار قائد نے کہا دوستو! ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اس وقت تک ہماری لڑائی جاری رہے گی جب تک ہمیں ہمارا حق نہ مل جائے ہمیں ایک نہیں ایسے کئی جلسوس نکالنے ہوں گے۔ یہ جلوس ہماری لڑائی کی ابتدا ہے۔ ہمیں صرف آپ کا ساتھ چاہئے۔ آپ کا ساتھ ہماری کامیابی ہے۔ اس لئے اپنی صفوں کو درست رکھئے اور منافقوں سے ہوشیار رہئے !
اس وقت آپ سے یہی درخواست ہے کہ پرسکون اندازمیں اپنے اپنے گھروں کو جائیں اور کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے اردو تحریک پر حرف آئے۔ خدا حافظ!
اور میں کھڑا ہواہوں، میں کھڑا ہوا تھا۔ میں اس وقت تک کھڑا رہا جب سکنڈ شو کی پبلک اپنی اپنی اسکروٹوں، موٹر کاروں آٹو رکشاؤں اور سائیکلوں پر تیز تیز گھروں کو واپس ہونے لگی۔ اس کے بعد سڑکوں پر ایک آسیبی سناٹا چھا گیا۔ اور میں گہری نیند سے جیسے چونکا، اور چونک کر اردو کے قریب گیا اوراس سے میں نے کہا، چلو گھر چلو۔
اردو چیخی اور اس کی چیخ سے جیسے سناٹوں کا کلیجہ چھید گیا اور ساتھ ہی میرے کانوں میں کئی چیخوں کی آوازیں آئیں۔ اردو نے کہا نہیں تم جاؤ یہاں سے، میں یہیں کھڑی رہوں گی۔ میرا کوئی گھر نہیں ہے !
اس کی چیخ کی گونج کو، ایک میں ہی کیا، سارے شہر نے سناہو گا۔ پھر یہ چیخ چند ثانیوں کے بعد اپنا سر تینوں مجسموں سے ٹکرا کر فضامیں تحلیل ہو گئی۔ میں نے دیکھا بڑی حیرت اور تعجب کے ساتھ دیکھا کہ تینوں مجسموں میں حرکت ہورہی ہے۔
باپو جی نے مجسمے کے پلیٹ فارم سے نیچے اتر کر اپنی لاٹھی کو زمین پر ٹکایا اور عینک کو درست کرتے ہوئے اردو کو دیکھنے لگے۔ اسی طرح پنڈت جی کے ہاتھوں میں کبوتر پھر پھڑایا اورانہوں نے مڑ کر اردو کودیکھا۔ اندرا جی مسکراتے مسکراتے چپ ہو گئیں اور انہوں نے چونک کر اپنے سرکو گھمایا اور بڑے غور سے اردو کو دیکھا، جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہوں، پھرمسکرائیں جیسے کہہ رہی ہوں، آخر آخر سن لی ناتم سب نے میری بات۔ میں نہ کہتی تھی کہ یہ بات ملک کے ور کرس اور کسانوں کی طرف سے آنی چاہئے۔
میں خوش ہو گیا، خوش کیا ہوا، اپنی جگہ سے اچھل گیا۔ یقیناً اب مزہ آئے گا۔ تینوں قائدین اب ان سب کی خبر لیں گے جو اردو کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، شاید وہ ڈیمو کریٹک سوشلزم کا دور آ گیا ہے جس کابرسوں سے انتظار تھا۔ اب بات بنے گی، ناچو۔ کودو، شور مچاؤ اور گھر گھر چراغاں کرو۔
بتکما بتکما ایالو، سدولہ، بتکما ایالو۔
فصلیں کٹ چکی ہیں۔ عورتیں مست ہو کر ایک دائرے کے اطراف ایک دوسرے کے پیچھے ایک ساتھ ہاتھ کو آگے کی طرف لے جا کرتالی بجاتی ہوئیں ناچ رہی ہیں۔ تھرکتے ہوئے جسم، بل کھاتی ہوئی کمریں اور بھری بھری باہیں فضائیں ایک نشے کی سی کیفیت پیدا کر رہی ہیں۔ دائرے کے بیچوں بیچ پھول ہیں اور کھیتوں سے کٹا ہوا مٹھی بھر اناج بھی۔
بتکمابتکما ایالو۔۔ ۔ ایالو۔
اردو کی فصل بھی تیارہو چکی ہے۔ اب صرف کاٹنا باقی ہے۔ ناچو۔۔ کودو، شورمچاؤ، اردو بتکما ایالو۔۔ ۔ سدولہ بتکما ایالو۔
لیکن بات کچھ بنی نہیں۔ یہ میرا صرف وہم تھا، تینوں بت پہلے کی طرح خاموش اور بے حس کھڑے تھے۔ میں اس حقیقت کوبھول ہی گیا تھا کہ بت کبھی نہیں بولتے۔
میں ایک مجرم کی طرح رات کے گہرے اندھیرے اور سنسناتے ہوئے سناٹے میں سہما سہما خود سے خوچ کو چھپاتا ہوا گھر پہنچا۔ لیکن راستہ بھر یہی سوچتا رہا اوراب بھی یہی سوچتا ہوں کہ آخر کب تک اردو چورا ہے پر کھڑی رہے گی!


A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-39

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں