منشی جی کی عیدی - مشرف عالم ذوقی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-06-05

منشی جی کی عیدی - مشرف عالم ذوقی

munshiji-ki-eidi
یہ دن خوشیوں کا ہے۔ یہ دن سیاست کا نہیں۔ نفرت کا نہیں۔
آپس میں بھید بھاؤ، چھوٹے بڑے کی تفریق کا نہیں۔ یہ دن دوستی کے نام ہے۔ دشمنی، کدورت، عداوت، بغض، حسد سے اس دن کا کوئی تعلق نہیں۔ ایک انگریز مفکر کا قول یاد آ رہا ہے۔ اس نے عید کے بارے میں کہا تھا:
"جب دو لوگ گلے ملتے ہیں تو یہ منظر جسمانی سے زیادہ روحانی ہوتا ہے۔"
دراصل یہ گلے ملنا ایک پیغام ہے کہ ہمارا جسم ایک ہے تو ہمارا دل بھی ایک ہے۔ اور سب سے پہلے ہم انسان ہیں۔ ہم میں کوئی فرق نہیں۔

یہ فرق کی سیاست کہاں سے ہمارے درمیان راستہ بناتی ہے؟ ایسے حالات سامنے ہی کیوں آتے ہیں کہ اپنوں، اپنوں کے درمیان دیوار حائل ہو جاتی ہے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ صدیوں کی گنگا جمنی تہذیب پر خطرے کے بادل منڈلانے لگتے ہیں؟ اور جب منڈلاتے ہیں تو کئی کہانیاں یاد آتی ہیں۔ ان میں کنور نارائن بھی ہیں عصمت آپا بھی اور منشی جی بھی۔
کنور نارائن نے دنیا کو الوداع کہنے سے قبل ایک نظم لکھی:
میں انگریزوں سے نفرت کرنے چلا
تو سامنے شیکسپیئر آ جاتے ہیں
میں مسلمانوں سے نفرت کرنے چلا
تو سامنے غالب آ جاتے ہیں

کہاں تک نفرت کیجیے گا؟ یہ وہ ملک ہے کہ نانک ، شری رام چندر، حضرت محمد مصطفیؐ پر عقیدت کا اظہار کرنے والے ہر مذہب کے ہیں۔ کوئی ہندو شاعر حمد، نعت اور منقبت لکھ رہا ہے، کوئی مسلمان بھگوت گیتا اور رامائن کا منظوم ترجمہ کر رہا ہے۔ عقیدت کیلئے مذہب نہیں جذبہ ہونا چاہیے۔
جب ملک تقسیم کی آگ میں سلگ رہا تھا، ہندوستانی ادیب اس وقت سب سے زیادہ محبت کی کہانیاں لکھ رہے تھے۔ عصمت چغتائی کی کہانی "جڑیں" کا ڈاکڑ روپ چند جو اپنے مرحوم دوست ڈپٹی صاحب کے بچوں کو پاکستان جانے نہیں دیتا اور اس رات جب ڈپٹی صاحب کے بچے پاکستان کی طرف کوچ کرتے ہیں، ڈاکڑ روپ چند دیکھتا ہے کہ مرحوم دوست کی اہلیہ نے جانے سے انکار کر دیا ہے۔ ڈاکٹر روپ چندگھر کے باہر آ کر نفرت پھیلانے والوں کو کوستا ہے، چیختا ہے پھر آدھے راستے سے مرحوم دوست کے بچوں کو واپس گھر لے کر آ جاتا ہے۔
کوئی غیر ہی کب ہے؟ ایک شعلہ اٹھا، آنکھیں بدل گئیں۔ وقت وقت کی بات ہے۔ یہ آنکھیں بھی روپ چند میں تبدیل ہو جائیں گی۔ یہ سچ ہے کہ ملک کے حالات ان دنوں بہتر نہیں:
خزاں رسیدہ نگار بہار رقص میں ہے
عجیب عالم بے اعتبار رقص میں ہے

یہ بھی سیاست ہے کہ خزاں رسیدہ نگار بہار کا رقص کچھ اس طرح ہے کہ ہم ہندو اور مسلمان بن گئے ہیں۔ انسان بننے کا عمل کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ خوف کی سیاست کا شکار سب سے زیادہ مسلمان ہیں۔ اس موقع پر منشی جی یاد آتے ہیں۔
آج کا یہ دن منشی جی کے نام ہے۔ منشی پریم چند۔
منشی جی کی ایک معرکۃ الآرا کہانی ہے "عید گاہ"۔ آج کے دن عید گاہ کے حامد کو یاد کر لیجیے تو یقین ہے منشی جی کی 'عیدی' حوصلے اور طاقت دینے کا کام کرے گی۔

حامد غریب بچہ ہے۔ یتیم ہے۔ دادی اماں پرورش کرتی ہیں۔ عید کا دن ہے۔ دادی پریشان ہیں کہ عید گاہ جانے والے تمام بچوں کے پاس زرق برق نئے نئے لباس ہوں گے اور حامد پرانے کپڑوں میں ہوگا۔ وہ دوسرے بچوں کی طرح کھلونا بھی نہیں خرید سکتا۔ حامد بوڑھی دادی کے بارے میں سوچتا ہے، روٹیاں پکاتے ہوئے جن کے ہاتھ جل جاتے ہیں۔ کیوں کہ دادی کے پاس دست پناه (چمٹا) نہیں ہے۔ حامد دوستوں کے ساتھ عیدگاه جاتا ہے۔ دادی کے دیے پیسوں سے وہ دست پناہ خریدتا ہے۔ اس کے دوست حامد پر ہنستے ہیں مگر حامد کا جواب انہیں خاموش کر دیتا ہے۔

حامد نے دست پناه کندھے پر رکھا، گویا بندوق ہے اور شان سے اکڑتا ہوا اپنے رفیقوں کے پاس آیا۔
محسن نے ہنستے ہوئے کہا: "یہ دست پناہ لایا ہے۔ احمق اس سے کیا کرو گے؟"
حامد نے دست پناہ کو زمین پر پٹک کر کہا: "ذرا اپنا ہستی زمین پر گرا دو ساری پسلیاں چور چور ہو جائیں گی بچو کی"
محمود: "تو یہ دست پناہ کوئی کھلونا ہے؟"
حامد: "کھلونا نہیں ہے؟ ابھی کندھے پر رکھا، بندوق ہو گیا، ہاتھ میں لے لیا فقیر کا چمٹا ہو گیا، چاہوں تو اس سے تمہاری ناک پکڑ لوں۔ ایک چمٹا دوں تو تم لوگوں کے سارے کھلونوں کی جان نکل جائے۔ تمہارے کھلونے کتنا ہی زور لگائیں، اس کا بال بیکا نہیں کر سکتے۔ میرا بہادر شیر ہے یہ دست پناه۔"
سمیع متاثر ہو کر بولا: "میری خنجری سے بدلو گے؟ دو آنے کی ہے"
حامد نے خنجری کی طرف حقارت سے دیکھ کر کہا: "میرا دست پناہ چاہے تو تمہاری خنجری کا پیٹ پھاڑ ڈالے۔ بس ایک چمڑے کی جھلی لگا دی، ڈھب ڈھب بولنے لگی۔ ذرا سا پانی لگے تو ختم ہو جائے۔ میرا بہادر دست پناه تو آگ میں، پانی میں، آندھی میں، طوفان میں برابر ڈٹا رہے گا"

ننھے حامد کی ذہانت کی اس دور کو ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو ضرورت ہے۔ احساس کمتری اور شکستگی کے جذبے کو حامد نے ایک لمحے میں طاقت میں تبدیل کر دیا اور دوستوں کو بتا دیا کہ جو اس کے پاس ہے، وہ کسی کے پاس نہیں۔
منشی جی کی یہ کہانی ہر ہندوستانی کے لیے عیدی کی حیثیت رکھتی ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کیلئے، جو حوصلہ ہارتے جا رہے ہیں۔ جو ذرا سی بات پر ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہ ملک جیسے ہندوؤں کا ہے، اسی طرح مسلمانوں کا بھی ہے۔
1857 کی بغاوت میں 'مادر وطن ہندوستان زندہ باد' کا نعرہ پہلی عظیم اللہ خان نے لگایا تھا، جو اس انقلاب کی ایک مضبوط کڑی تھے۔ اس نعرے کا ترجمہ ہندی میں 'بھارت ماتا کی جے' ہوتا ہے۔ ان متعصب شرپسندوں کو کیا معلوم کہ جس نعرے کی بنا پر ہماری صدیوں پرانی ملت کے شیرازے بکھیرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس کے پیچھے بھی ساجھی سنسکرتی کا ایک نمائندہ کھڑا تھا۔ یہ یوسف مہر علی تھے، جنہوں نے پہلی بار 'انگریزو کوئٹ انڈیا' (انگریزو بھارت چھوڑو) کا نعرہ دیا۔ 'سائمن گو بیک' کا نعرہ دینے والے بھی یوسف مہر علی تھے۔ اسی دور میں زین العابدین نے 'جے ہند' کا نعرہ دیا۔ 'انقلاب زندہ باد' کا نعرہ حسرت موہانی نے 1921میں دیا۔ بھگت سنگھ نے انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے یہی نعرہ لگایا تھا۔ مولاتا کو گنگادھر تلک کا نعرہ 'سوتنتر ہمارا جنم سدھ ادھیکار ہے' بہت پسند تھا۔ 'سرفروشی کی تمنا۔۔۔' کا نغمہ بسمل عظیم آبادی نے سنایا۔ قومی پرچم کا ڈیزائن حیدرآبادی خاتون ثریا طبیب جی نے تیار کیا۔ ہزاروں مثالیں گواہ ہیں کہ گنگا جمنی رشتوں نے اپنی شگفتگی، تازگی اور ہمہ جہتی کی بنیاد پر عالم کاری کے اس عہد میں ہندوستان کے ہر خطے میں اپنے نقوش چھوڑے ہیں۔

ملک کی تعمیر میں مسلمانوں کا بڑا کردار رہا ہے۔ اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ مولوی محمد باقر نے اردو صحافت کے لیے جام شہادت نوش کیا اور دیکھئے تو یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ تاریخ گواہ ہے کہ 1857 سے تقسیم ہند تک مسلمان انگریزوں کے خلاف جنگ میں آگے ہی آگے تھے، کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ مسلمانوں کا ہر لفظ انگریزوں کے لیے بغاوت تھا اور پھر تاریخ کی کتابوں میں وہ دن روشن ہوا، جو آزادی سے منسوب ہے اور غور کیچیے تو اس کے پیچھے بھی مسلمانوں کے ناقابل فراموش کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
یہ قومی یکجہتی ہی تھی کہ منشی پریم چند اور منشی نول کشور جیسے لوگوں نے آگے بڑھ کر حکومت برطانیہ کے خلاف جہاد چھیڑ دیا۔ اور اس ملک کے لیے جہاں صوفی سنتوں کی صداؤں نے وحدت کے گیت گائے ہوں، جس سرزمین کو خواجہ معین الدین چشتی، حضرت نظام الدین اولیا، قطب الدین بختیار کاکی، حضرت امیر خسرو نے اپنے لہو سے سینچا ہو، جہاں دلوں میں گونجنے والی شاعری نے بلاتفریق مذہب و ملت محبت کا درس دیا ہو، اس زمین پر رہنے میں خوف کیوں محسوس ہو؟

آج کا دن منشی جی کے حامد کے نام ہے، جس کے ہاتھ میں دست پناہ ہے۔ یہ دست پناہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس دست پناہ کو اپنا عزم، اپنا حوصلہ بنا لیجیے۔ حکومتیں، طاقتیں آتی جاتی لہریں ہیں۔ عید خوشیوں کا دن ہے۔ خوشیاں تقسیم کیجیے محبت کے لیے دلوں کے راستے کھول دیجیے۔ آج نہیں تو کل وہاں بھی راستے کھل جائیں گے جو ابھی نفرتیں جمع کر رہے ہیں۔

بشکریہ: اداریہ 'روزنامہ راشٹریہ سہارا' ، 5/جون- 2019
***
Zauqui2005[@]gmail.com
موبائل : 09310532452 , 09958583881
مشرف عالم ذوقی

Munshi jee ki Eidi. Column: Musharraf Alam Zauqi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں