میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:38 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-06-06

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:38



مجاہدین کے اس جلوس میں عاشق بھی شامل ہیں۔ کم ہی سہی لیکن ہیں تو۔ ویسے مجاہد اور عاشق میں فرق نہ ہوتے ہوئے بھی بہت بڑا فرق ہے۔ مجاہد سر سے کفن باندھ کر گھر سے باہر نکلتا ہے اور عاشق پہلی ہی منزل پر کفن باندھ لیتا ہے۔ یہاں قطعی مقابلہ مقصود نہیں۔ دونوں اپنی اپنی جگہ اہم ہیں۔ اور آتش نمرود میں بے خطر کود پڑنے کا جذبہ دونوں میں موجود رہتا ہے۔ اس کی ایک اچھی اور روشن مثال سیدعبدالقدوس ایڈوکیٹ کے ہم جماعت اور قریبی دوست میجر سید غوث محی الدین قادری کی ہے۔ ہوایوں کہ انہوں نے اردو سے اس حد تک عشق کیا کہ اپنی ہونے والی دلہن کو صرف اس بنا پر ٹھکرادیا کہ اسے اردو لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا۔ سسرال والوں میں کھلبلی مچ گئی۔ بہت سے لوگ دوڑے دوڑے آئے کہ بھائی! عین موقع پر جب کہ نکاح کو چند دن باقی رہ گئے ہیں یہ کیا غضب کر دیا آپ نے ؟ قاضی انجم عارفی جیسے سنجیدہ اور با کمال حضرات بھی معاملے کو سلجھانے کے لئے آگے بڑھے۔ لیکن دلہا ٹس سے مس نہ ہوا! بعضوں نے اپنی عالمانہ رائے دی کہ زبان وبان کا تو محض ایک بہانہ ہے۔ اصل میں دلہا یا اس کے قریبی رشتہ دار چاہتے ہیں کہ جہیز یا جوڑے کی رقم میں اضافہ کیا جائے۔ سسر نے کہا کہ اس اس کے لئے ہم بہ خوشی تیار ہیں۔ لیکن دلہا والوں کی طرف سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں تھا۔ آخر میں جب رشتہ ٹوٹنے کی نوبت آئی اور گھر کے اور باہر کے افراد کا دباؤ بڑھنے لگا اور دوست بھی اس حرکت کا مذاق اڑانے لگے۔ تو دلہا کے رویے میں قدرے تبدیلی آئی اور اس نے شرط یہ رکھی کہ جب تک دلہن کو اچھی طرح اردو پڑھنا اور لکھنا نہ آ جائے عقد نہیں ہو گا۔ چنانچہ عقد ملتوی کر دیا گیا۔ اور سسرال والوں نے اس موقع کو غنیمت جان کر اطمینان کی ایک سانس لی اور اردو پڑھانے کے لئے دو دو استادوں کو مقرر کیا۔ ایک استاد صبح آتا تھا اور دوسرا شام کو۔ اس طرح سات آٹھ مہینوں میں دلہن اس قابل ہو گئی کہ اخبارات اور رسائل کا مطالعہ کر سکے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے چند چھوٹے بڑے شاعروں کے اشعار بھی یاد کر لئے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی، حد یہ کہ دلہن والوں نے دلہا کو دلہن کی وہ بیاضیں بھی دکھائیں جو اردو لکھنے پڑھنے کی نشاندہی کرتی تھیں۔ مطمئن ہو کر دلہا نے خوشی خوشی عقد کے لئے رضا مندی ظاہر کی اور پھر اس نے سیدھی سادھی ایک پر اثر تقریب میں دلہن کو اپنے نکاح میں لے لیا۔ اور دلہن والے حیران رہ گئے کہ یہ واقعی نیا دلہا ہے جس کا اپنا کوئی مطالبہ نہیں تھا۔ کوئی فرمائش نہیں تھی۔ سبھوں کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ شاید پچھلی اور آج کی موڈرن شادیوں میں یہ پہلا دلہا تھا جس نے جہیز کی بجائے اردو کام طالبہ کیا تھا۔
واہ، واہ۔۔ ۔ بھئی کمال ہے، میجر سید غوث محی الدین قادری واقعی تم اردو کے سچے عاشق نکلے۔ میں تمہیں سلوٹ کرتا ہوں۔ صرف سلوٹ نہیں بلکہ رائل سلوٹ!!!
میجر غوث کے دوست سیدعبدالقدوس بھی اس راز سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ جب تک آج کی لڑکی اردو سے واقف نہ ہو وہ کل ماں بن کر اپنی اولاد تک اردو کو منتقل نہیں کر سکتی، چنانچہ قدوس کی تینوں لڑکیاں سید ارم فاطمہ، سیدہ عظمی فاطمہ، اور سیدہ عائشہ فاطمہ نہ صرف اردو جانتی ہیں بلکہ روزناموں اور رسائل کو شوق سے پڑھتی ہیں حالانکہ اسکول میں اردو پڑھانے کا کوئی انتظام نہیں ہے لیکن سید عبدالقدوس نے گھر پر باقاعدہ ایک ٹیچر مقرر کر کے اردو پڑھوائی، کیا یہ ایک قابل تقلید مثال نہیں ہے ؟ اس لئے میں اپنے دوست سید عبدالقدوس کو سلام کرتا ہوں اور ان تمام گمنام دوستوں کوبھی جو بہت ہی توجہ اور مستعدی کے ساتھ اپنے اپنے گھروں میں بچوں کو اردو پڑھوار ہے ہیں۔ یہ اردو کی ایک نئی لہر ہے جو آگے بڑھ رہی ہے۔ اور گیلی گیلی سلگتی ہوئی لکڑیوں میں سے نکلتی ہوئی دھیمی آنچ کی طرح چاروں طرف پھیل رہی ہے۔
متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے لوگ بھی اس ہجوم میں شامل ہیں۔ ان کے آگے کی طرف اٹھتے ہوئے قدم اور محنت کشوں کے آسمان تک پہنچنے والے نعروں میں ان کا نعرہ بھی ملاہوا ہے۔ نعروں کے شور اور اٹھتے ہوئے قدموں کی دھپا چھپ سے یوں لگتا ہے جیسے بگل بجاتے ہوئے کوئی ملٹری کی بٹالین آ رہی ہے، اٹن شن،۔۔ ۔ رائل سلوٹ۔۔ ۔ قافلہ آگے بڑھ رہا ہے۔۔ ۔۔


A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-38

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں