ملبے میں دبا موسم - کا شاعر : اعظم راہی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-06-29

ملبے میں دبا موسم - کا شاعر : اعظم راہی

malbe-mein-daba-mausam-azam-rahi

میں جاگتا رہوں تنہا سفر کی راتوں میں
تھکے بدن کسی خیمے میں لیٹ جائے چاند

والد ماجد (رؤف خلش ) کے مندرجہ بالا شعر کی جب بھی قرأت کی جائے تو نئی نسل کے قاری کے ذہن کے گوشے میں بے اختیار جو شبیہہ ابھر آتی ہے اسے ادبی دنیا میں "اعظم راہی" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جہاں اعظم راہی کا ذکر ہو وہاں بے ساختہ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں شہر دکن حیدرآباد کے ادبی افق پر ابھرنے والے رجحان ساز ادبی جریدے "پیکر " کا تذکرہ ضروری قرار پائے گا اور پھر "پیکر" کے حوالے سے جدید لب و لہجے کے ادیب و شعراء کا تذکرہ بالکلیہ ناگریز امر ہے۔
یہ بات باعث فخر و افتخار ہے کہ اعظم راہی صاحب کو قریبی طور پر نہ صرف رؤف خلش ، حسن فرخ و مسعود عابد کے اولین ساتھیوں میں سے ایک اور "پیکر" کے مدیر کی حییثت کے علاوہ ان کی شریک حیات محترمہ ہادیہ شبنم (معروف افسانہ نگار و صدر شعبہ تاریخ،انوارالعلوم کالج، حیدرآباد) کے حوالے سے میں جانتا ہوں۔ اس کے علاوہ بیشمار ادبی جریدوں اور صحافتی اداروں کے لئے ان کی خدمات کے بطور بھی ایک دنیا ان سے واقف ہے۔
میری زندگی کا ایک یادگار موقع یہ بھی رہا ہے کہ کم سنی ہی میں بتدریج سماعت سے محرومی کے سبب علاج کی خاطر اعظم راہی صاحب نے میرے والدین پر زور دے کر اس وقت کے مشہور ہومیوپیتھی ڈاکٹر ٹی۔ایس۔ٹھاکر (جو ایک زمانے میں ملک کے اولین وزیراعظم پنڈت نہرو کے معالج رہ چکے ہیں) سے رجوع کروایا تھا۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اعظم راہی کا علم طبِ یونانی بھی خوب ہے۔ تادم تحریر جب کبھی ہمارے بنگلے "داؤد منزل"واقع جدید ملک پیٹ ،حیدرآباد میں آمد ہوتی، وہ تمام تر ادبی امور سے فراغت کے بعد چند ایک معجون و سفوف وغیرہ کی جانکاری اور ان کی اہمیت و افادیت سے ہمیں روشناس ضرور کرواتے۔ اس ضمن میں راہی صاحب کی شریک حیات محترمہ ہادیہ شبنم نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:
"انھیں یونانی حکمت سے غیر معمولی لگاؤ اور واقفیت ہے۔ دوست احباب میں اس محبت سے ان دواؤں کا پرچار کرتے ہیں کہ کبھی کبھی شک ہوتا ہے کہ یہ ہمدرد لباریٹریز کے ایجنٹ تو نہیں!!"

جہاں تک راقم الحروف کے مطالعے اور یادداشت کا تعلق ہے اعظم راہی نے 1958ء میں ماہنامہ "پیکر"کا اجراء کیا تھا۔ ابتداء ہی میں بدر افسر اور خان معین اور 1962ء میں رؤف خلش، ہادیہ شبنم ، حسن فرخ اور مسعود عابداس سے وابستہ ہوئے۔ انہی دنوں "ادارہ مصنفین نو" کی بنیاد ڈالی گئی اور اس گروپ سے وابستہ معروف ادیب و شعراء میں قابل ذکر مخدوم محی الدین، سلیمان اریب، عاتق شاہ، عوض سعید، مجتبیٰ حسین، تاج مہجور، نور محمد نور حکیم یوسف حسین خان، احمد جلیس، محمود انصاری، شاہد عظیم، رؤف خلش، غیاث متین، حسن فرخ، مسعود عابد، علی الدین نوید، بشر نواز، رفعت صدیقی وغیرہ ہیں۔ اس فہرست کے ابتدائی چند ایک ناموں کو چھوڑ کر بقیہ سبھی ادیب وشعراء کی ادبی تصانیف کے تفصیلی مطالعے کا موقع مجھے حاصل رہا ہے۔

جدید لب و لہجے کے مشہور شاعر مسعود عابد اکیلوی نے اپنے ایک مضمون کی ابتداء میں اعظم راہی کے تعارف کا کم ترین لیکن جامع الفاظ میں کچھ یوں نقشہ کھینچا ہے:
"اعظم راہی نام ہے ایک تربیت یافتہ ذہن کا، کشادہ دلی ، وسیع النظری کا،اخلاص کا، تدبر ومحبت کا، خوش باشی و خوش پوشی کا، خوش اسلوبی اور شگفتہ مزاجی کا"۔
اس مختصر لیکن پراثر تعارف میں ان کے بعد کی نسل کا فرد اور قریبی واقف کار ہونے کے سبب، راقم کی جانب سے اعظم راہی کا تعارف اگر مزید کچھ اوراضافے کا متقاضی ہے تو وہ یہ کہ:
"بچوں سے انتہائی محبت و الفت رکھنے والی اور بطور خاص نسلِ نو کو ادب و ثقافت کے زرین ماضی کے حوالے سے ہر دم ہمہ وقت روشناس کرانے اور آگہی بخشنے والی کوئی شخصیت اگر ہے تو وہ 'اعظم راہی' ہی کی ہے "۔

تادم تحریر اعظم راہی کی مندرجہ ذیل تخلیقات منظر عام پر آکر قبولیت کی سند حاصل کرچکی ہیں:
1۔ ملبے میں دبا موسم(نثری شاعری) 1980ء
2۔ انتخابِ پیکر (ماہنامہ "پیکر" کے بیس سالہ اشاعتی ریکارڈ کی چنندہ تخلیقات)
3۔ بصیرت کا عذاب (افسانوں کا مجموعہ)2013ء
4۔ منظر کا انجماد (نثری شاعری)2013ء
5۔ عزیز احمد : فن اور شخصیت (چھ ضخیم جلدیں)

اعظم راہی فلم و ٹی وی میڈیا سے بھی دیرینہ وابستگی رکھتے ہیں۔ ہندی
اردو فلمیں مثلاً انکوش، یاروں کا یار، اگنی ریکھا، بندی اور بھون شوم کے لئے کہانی، اسکرین پلے اور ڈائیلاگ لکھنے کے علاوہ بطور معاون قلمکار بھی انہوں نے خدمات انجام دی ہیں۔
علاوہ ازیں 1958ء میں کچھ عرصہ انھوں نے ممبئی و حیدرآباد سے بیک وقت شائع ہونے والے اردو ہفتہ وار"فنکار" کے جوائنٹ ایڈیٹڑ کی حیثیت سے اورماہنامہ "پیکر" کے ساتھ ساتھ سیاسی و ثقافتی پندرہ روزہ "تیشہ" حیدرآباد کے پبلیشر اور چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔

ہندوستان و کینڈا سے بیک وقت شائع ہونے والے میگزین "فراست" کے منیجنگ ایڈیٹر کی ذمہ داری بھی 2003 تا 2005 کے درمیان انھوں نے بحسن و خوبی نبھائی ہے۔
1980-84ء کے درمیان آندھرا پردیش حکومت کے اردو نصابی کتابوں کے ڈیویژن میں بحیثیت سوپر وائزر بھی خدمات انجام دی ہیں۔ تادم تحریر وہ روزنامہ "رہنمائے دکن" حیدرآباد کے ہفتہ واری اشاعتوں کے ایڈیٹر کی ذمہ داری 1995ء سے نبھا رہے ہیں۔

اعظم راہی کے ابتدائی شعری مجموعہ کلام "ملبے میں دبا موسم" میں ان کی نثری نظموں کے حوالے سے حسن فرخ کا مضمون بعنوان "اعظم راہی"، "نئی آواز" کے عنوان سے رؤف خلش اور "یہ شاعری ہے!" کے عنوان سے عزیز قیسی کے تفصیلی مضامین شامل ہیں۔ جب کہ دوسرے مجموعہ کلام "منظر کا انجماد" میں اعظم راہی کے فن اور شخصیت پر رؤف خلش کا مضمون بعنوان "اعظم راہی" اور "اعظم راہی اور پیکر زادے" کے عنوان سے مسعود عابد کے مضمون کے علاوہ اعظم راہی کی شریک حیات محترمہ ہادیہ شبنم کا "اعظم راہی کی رفاقت" عنوان سے ایک شخصی خاکہ ابتداء ہی میں شامل ہیں۔ ان تمام مضامین کے تفصیلی مطالعے سے قاری کواعظم راہی کی شخصیت بلکہ انکی نثری نظموں (جو بطور مثال ان سبھی مضامین میں دئیے گئے ہیں) کے حوالے سے ان کے فن سے متعلق مکمل آگاہی ہوجاتی ہے۔

بیسویں صدی کے آخری دو دہوں کے دوران جدیدیت کے رجحان کا بہ نفس نفیس مشاہدہ کرنے اور اردو زبان و ادب کے اس لازوال عہد و ورثہ سے آگاہی و شناسائی رکھنے والے نئی نسل کے ایک قاری کے نقطہ نظر سے بھی اعظم راہی کی شاعری پر کچھ تاثرات اس مضمون کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش میں نے کی ہے۔

شہر دکن حیدرآباد کے ادبی افق پر 1960ء کی دہائی سے متعارف ہونے والے افسانہ نگار و صحافیوں کی صفوں میں اعظم راہی ایک معتبر نام رہا ہے۔ ابتداء میں ان کے افسانوں نے فن کو اگر جلا بخشی ہے تو بتدریج ادبی رویوں کے تئیں عصری رجحان کی نبض شناسی کے تحت جدید لب و لہجے کے ترجمان رسالے "پیکر" کی اجراء نے انھیں بام عروج پر پہنچایا۔ اسی دوران وجود میں آنے والی ان کی شاعری بھی ابتداء ہی سے اپنے تیکھے و چبھتے لب و لہجے سے ہوتے ہوئے تبدریج اظہار بیان میں رمز و ایمائیت سے بھرپور، معنویت کی تہہ داری اور زبان و بیان کے بندھے ٹکے اصولوں سے انحرافی کے رویے کو اپناتی ہوئی نئی و تازہ آواز محسوس ہوتی ہے۔

نثری نظم کی تمام تر خصوصیات یعنی الفاظ کا فطری آہنگ، تنوع، پہلو داری اور حالات کی عکاسی و پیشکشی کے تناظر میں رنگا رنگی اعظم راہی کی نظموں میں بخوبی محسوس کی جاسکتی ہے۔ عصری زندگی کے اتار چڑھاؤ اور تلخ حقائق کا سامنا کرتے ہوئے امڈ پڑنے والے جذبات کو انسانی نفسیات و احساسات کے چوکھٹے میں پیش کرنے کے معاملے میں واضح طور پر راہی کامیاب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی نثری نظموں میں موجود تخلیقی حس، انھیں ترقی پسند عہد سے ہٹ کر جدید بیانیہ طرز اظہار کے حوالے سے پہچان دلوانے میں کامیاب رہی ہے۔

ماہرین ادب کے مطابق ایک کڑوی لیکن تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ " نظم" بطور خاص "نثری نظم" کے حوالے سے کسی شاعر کا اپنی علحدہ شناخت و انفرادیت قائم کرنا بہت مشکل کام رہا ہے۔ "نثری نظم" کو اس کے ابتدائی دور میں عدم مقبولیت بھی حاصل رہی تھی جس کی دو وجوہات قرار دی گئیں:

پہلی یہ کہ ابتداء میں نثری نظم کے عنوان سے جو نظمیں عالم وجود میں آئی تھیں اس میں نظم تو کیا اچھی نثربھی نہ ہونے کا الزام لگا تھا ۔
دوسرے یہ کہ اس عہد کا سامع و قاری بھی بحر و وزن پر مشتمل آہنگ سے بھر پور شاعری (جس کا ملکہ ابتداء ہی سے غزل کی صنف کو حاصل رہا ہے) ہی کو سنتا و پڑھتا رہا تھا۔

ان وجوہات سے پرے اعظم راہی نے اپنی نظموں میں جدید علامتوں، استعاروں کے علاوہ ہئیتی اختلافات سے ہٹ کر عام موضوعات اور معاشرتی مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے "نثری نظم" کو اک نئی و کامیاب جہت سے روشناس کیا ہے۔ الغرض شعری دنیا میں اعظم راہی اپنے ہاں برتی گئی روایت سے انحرافی اور بلند حوصلے کے ساتھ جدیدیت کے رجحان کے زیر اثرعالم وجود میں لائی گئی تقریباً تمام تخلیقات کے سبب "نثری شاعری" کے حوالے سے اہم نام باور کیے جاتے ہیں۔

اعظم راہی کے دوسرے مجموعہ کلام "منظر کا انجماد" (جن میں اولین تصنیف "ملبے میں دبا موسم" کی بیشتر تخلیقات بوجہ دوبارہ شامل کی گئی ہیں ) کی تقریباً نظمیں ان کی منفرد شناخت و پہچان کے پیمانے پر پوری اترتی ہیں۔ اس مجموعہ کو اگر شاعری کی صنف "نثری نظم" کے حوالے سے "اعظم راہی کی کلیاتِ نثری نظم" کا عنوان دیا جائے تو شاید بےجا نہ ہوگا۔

اعظم راہی کے ابتدائی دو شعری مجموعہ جات "ملبے میں دبا موسم" اور "منظر کا انجماد" میں شامل کلام کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے کسی حساس قاری کو ابتداء ہی میں راغب و متاثر کرنے والی اگر کوئی تخلیق ان کے ہاں نظر آئے گی تو وہ ہے نظم بعنوان "اَنا"۔ معاشرے میں پھیلے جھوٹ، بددیانتی اور گندگی کے سبب پیدا شدہ مایوسی کے عناصر کے بیچ ایک حساس شخص کی اَناکس طرح اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے جتن کرتی ہے ، اس کی منظر کشی اس مختصر لیکن پر اثر نظم میں ملاحظہ ہو:

وہ
مرے کان سے
سنتی ہے
اور نہ
مری آنکھ سے
دیکھتی ہے
نہ مرے منہ سے بولتی ہے
پھر بھی
وہ مری ہے
خاموش
مرے ساتھ چل رہی ہے
دھیرے دھیرے جل رہی ہے ... !

بدلتے وقت کے ساتھ زندگی کتنی ارزاں ہوگئی ہے ، اعظم راہی کے ہاں نظم بعنوان "سلسلہ " میں دیکھئے:

موت کی سیہ ڈوری
اپنے گلہ میں ڈال کر
میں یہاں آئی ہوں
مرا نام ہے
زندگی ... !

شاعر نے مذہب کی جو تشریح کی تھی، تین دہوں سے زائد عرصہ بعد یعنی عہد حاضر میں اس کی گونج برقرارہے ، نظم بعنوان"تاویل" ملاحظہ ہو:

مذہب
اس نے بھیجا
مذہب وہ لے آیا
آج
وہ مذہب
ہماری جیب میں ہے ... !

اعظم راہی کے ہاں لاعلمی سے علم و حکمت کے مرتبے تک پہنچنے والے مرحلوں کو جن الفاظ میں برتا گیا ہے اسے نظم بعنوان "مطالعہ" میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:

مرے اندر
جھانک کے دیکھو
اس کونے سے اس کونے تک
پوشیدہ ادوار ہیں کتنے
نادانی سے دانائی تک
مرے اندر
زنگ آلود کتبے بھی ہیں
پڑھ جو سکو تو پڑھ لو ان کو ... !

خود غرضی و مادہ پرستی کے عہد میں ایک گھر کے سربراہ کی جو قیمت ہوتی ہے اسے اعظم راہی نے نظم بعنوان "قیمتی صفر"میں بخوبی بیان کیا ہے:

جب
گھر میں عورت آئی
میں تقسیم ہوا
پھر بچے آئے
اور تقسیم ہوا
پھر ایک دن میں
صفر بن گیا
اب
ہر تقسیم شدہ عدد کے لئے
بس اتنا ہی اہم ہوں
کہ
وقت پڑتا ہے تو
اپنی طاقت بڑھانے کے لئے
میرا سہارا لیتے ہیں
پھر
صفر کہہ کر
خود سے الگ کر دیتے ہیں... !

ازدواجی زندگی میں مرد کی جانب سے معاشرتی طور پر اپنائے جانے والے غیر ذمہ دارنہ رویہ کے سبب پیدا شدہ صورتحال کو نظم بعنوان"غلط فہمی" میں راہی نے یوں پیش کیا ہے:

اس کی بیوی
قرض خواہوں کے
مسلسل تقاضوں کے باعث
ہسٹیریا میں متبلا ہوگئی
اور
وہ اپنا علاج کرواتا رہا... !

"ریا کاری" کے بڑھتے عفریت کا سماجی رشتوں سے بلند ہو کر مذہب کی چوکھٹوں کو پار کرنے کے المیہ کو اعظم راہی نے جس طرح نمایاں کیا ہے اسے نظم "نئی تشریح " کی آخری چند سطروں میں محسوس کیا جا سکتا ہے:

پنکھا سستا ہے، ریڈیو سستا
گھڑیاں سستی ہیں، لائٹر سستے
مال تازہ
ہر اک شئے سستی
جب وہ واپس ہوا
حج کی تشریح
اس طرح سے کی... !

مختصر سی نظم بعنوان"یاد":
ایک شعلے کی
عیاشی نے
سارے شہر کو
آگ لگا دی ... !

تین دہائیوں قبل عروس البلاد بمبئی(ممبئی) پر کہی گئی چار متاثرکن نظموں میں سے ایک نظم بعنوان "فہمائش (بمبئی 3:)" آج بھی اس لیے پراثر لگتی ہے کہ اس میں مشینی شہروں کی اس تیزرفتار زندگی کے پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے جو بتدریج انسان و حیوان کے درمیان کاخطِ فاصل ہی مٹانے کی جانب گامزن ہے ، ملاحظہ ہو:

صبح اٹھو تو
یہاں
خود کو پرنام کرو
پھر
چل پڑو
لمبی سڑکوں پر
مگر احتیاط شرط اول ہے
کہ
یہاں کُتے بھی
سائڈ سے چلتے ہیں ... !
یہ شہر
بمبئی ہے ... !

نظم "ملبے میں دبا موسم" کی ابتدائی و اختتامی سطریں بھی قابل غور و فکر ہیں:

بے کراں مخملی وادیوں میں
سفید کالے سبک سے گھوڑے
ایالیں اپنے اڑا رہے ہیں
بدن سے نکلتے پسینے کی
مست جھاگ مہکاتے
قدم ملا رہے ہیں
حسین یادوں کے صندلی در بھی
نیم وا ہیں
چمن چمن مرا ہم سفر اب
کلی کلی رازداں ہے
خزاں کے ننگے بدن پر
اب اک نئی قبا ہے ... !

اعظم راہی کے ہاں ماضی اور حال کو جس خوبصورت انداز میں بطور تازیانہ عبرت برتا گیا ہے اسے نظم بعنوان "کل اور آج" میں دیکھئے:

وہ زمانہ بھی
کیا زمانہ تھا
جب
لوگوں کے سر سفید ہوجاتے تھے
لیکن خون سرخ ہی رہتا تھا
آج
سر بھی سفید
اور خون بھی سفید ... !

نظم "آج کا فلسفہ" میں، ابن آدم کی خود غرضی کے عہد کو "ایک کی فناتو دوسرے کی بقا" کے معنوں میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:
تم
زندہ رہو
نہ رہو
مجھے
اس کی نہیں ہے پرواہ
تمھاری موت ، میری زندگی ہے... !

نظم بعنوان"تدّبُر" منفی حالات میں بھی مثبت انداز فکر کی جانب رجوع کرتی ہے:

اپنے پیروں میں
ضبط کی زنجیر ڈالو
اور
زبان کو لگام دو
صبر کا سہارا لو
حالات کے آگے
سپر نہ ڈالو
چلتے رہو قلم ساتھ لئے
سربستہ راز کے پرت
خودبخود کھلتے جائیں گے... !

نثری نظموں کے حوالے سے پیش کردہ اعظم راہی کی شاعری کی بالا مثالوں کے مطالعہ کے بعد ماضی قریب کی جدیدیت کے روشن و پہلو دار ادبی افق کی یادیں جب مجھ جیسے قاری کے ذہن کے کواڑوں سے یکایک جھانکنے لگیں تو بے ساختہ رؤف خلش کا مندرجہ ذیل شعر یاد آ جانا کوئی غیرفطری امر نہیں لگتا:

وقفہ ہے نہ ٹھہراؤ ، دل کے گھر پہ پتھراؤ
روز کے چھناکے ہیں کیوں لرز اٹھی کھڑکی

***
سید معظم راز
16-8-544, New Malakpet, Hyderabad-500024.
mzm544[@]gmail.com

سید معظم راز

Azam Rahi an eminent poet of Hyderabad. Article by: Syed Moazzam Raaz

1 تبصرہ: