شیواجی کے خاندان کے ایک مندر کا تحفظ - عہد آصفجاہی میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-06-20

شیواجی کے خاندان کے ایک مندر کا تحفظ - عہد آصفجاہی میں

grishneshwar-temple-aid-hyderabad-estate

ریاست حیدرآباد کے فرماں رواؤں اور حکومت نے رواداری، انصاف اور مساوات کے اصولوں اور اقدار کو سر بلند کیا تھا، تب ہی اس ریاست کی رواداری، یہاں کے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے بھائی چارہ اور ہم آہنگی کا شہرہ نہ صرف سارے برصغیر (غیر منقسم ہندوستان) میں تھا بلکہ اس کی گونج ہندوستان کے باہر بھی سنی جاتی تھی اور اب بھی سنی جاتی ہے۔ یہ خصوصیات حقیقی اور سچی تھیں۔
اس ریاست سے تعلق رکھنے والوں نے اپنی ان خصوصیات کے تعلق سے دعوے نہیں کئے، رواداری اور یک جہتی کے نعرے نہیں لگائے کیونکہ انہیں اس کی ضرورت نہیں تھی۔ نعروں کے زور و شور پر وہ ان خصوصیات کو منوانا نہیں چاہتے تھے۔ یہ خصوصیات روز روشن کی طرح واضح حقائق کا درجہ رکھتی تھیں۔ پھر بھی آج کے دور میں جب کہ تعصب اور تنگ نظری کے اندھیرے پھیلتے جا رہے ہیں ان خصوصیات کو ناقابل تردید بیانات کی شکل میں پیش کرنے کی بڑی ضرورت ہے تاکہ ان حقائق اور سچائیوں کی روشنی آج ان تاریکیوں کو دور کرے جو قلب و ذہن پر چھاتی جا رہی ہیں۔

ریاست حیدرآباد کے سلاطین اختیار کل رکھنے والے مسلمان تھے اس لئے آج وہ لوگ جنہیں اس ریاست کے حالات اور واقعات کا اچھی طرح علم نہیں ہے ضرور سوچتے ہوں گے کہ اس ریاست کے حکمرانوں اور حکومت نے دیگر مذاہب کے تعلق سے کیا رویہ اختیار کیا ہوگا؟ خاص کر عبادت گاہوں کے تعلق سے ان کی حکمت عملی کس قسم کی رہی ہوگی؟ دیگر مذاہب کے معبدوں کا انہوں نے کیا اتنا ہی احترام کیا ہوگا جتنا کہ وہ اپنے مذہبی مقامات کا احترام کرتے ہیں؟
ان ذہنوں میں پیدا ہونے والے ان سوالات کا جواب آج سابق ریاست حیدرآباد کے ضلع اورنگ آباد کے موضع ورول میں واقع ایک کنڈ اور مندر کے تحفظ سے متعلق ساری کارروائی سے ملتا ہے۔
آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز میں محفوظ اس کارروائی سے متعلق سرکاری ریکارڈز سے صرف یہ ظاہر ہی نہیں ہوتا بلکہ ہر طرح ثابت ہوتا ہے کہ سابق ریاست حیدرآباد کی حکومت منادر اور مذہبی آثار کا نہ صرف احترام کرتی تھی بلکہ ان کے تحفظ کا پورا خیال رکھتی تھی۔ وہ اس معاملہ میں آج کی کسی بھی سیکولر حکومت سے پیچھے نہیں تھی بلکہ اس کے انداز فکر اور طرز عمل کو آج کی سیکولر مملکت اور اس کے سیکولر نظام حکومت کے لئے لائق تقلید مثال سمجھا جا سکتا ہے۔
یہی نہیں کہ سابق ریاست حیدرآباد میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی عبادت گاہوں کی صیانت کا ہر طرح خیال رکھا جاتا تھا بلکہ ان کے تحفظ کے لئے درکار اقدامات کے موقع پر یہ احتیاط بھی ملحوظ رکھی جاتی تھی کہ مذہبی رسومات اور طور طریقوں کی انجام دہی میں کسی قسم کی مداخلت دانستہ یا غیر شعوری طور پر بھی سرزد نہ ہو۔

مہارانی اہیلیا بائی ہولکر کے تعمیر کردہ کنڈ اور شیواجی کے آباد و اجداد کے تعمیر کروائے ہوئے مندر کے تحفظ کی کارروائی کی ساری تفصیلات ذیل میں دی جا رہی ہیں۔

حیدرآباد رزیڈنسی کے ایک عہدیدار تھامپسن نے ایک مراسلہ مورخہ 16/سپٹمبر 1943 ، مہدی یار جنگ، صدر المہام صیغہ سیاسیات حکومت حیدرآباد کے نام روانہ کیا جس کے ساتھ ریاست اندور کے وزیر اعظم کے مراسلہ مورخہ 13/اگسٹ 1934ء کی ایک نقل منسلک تھی۔
ریاست اندور کے وزیر اعظم کا مراسلہ گورنر جنرل ہندوستان کے ایجنٹ کے نام تحریر کیا گیا تھا۔ تھامپسن نے اپنے مراسلہ کے آخر میں درخواست کی تھی کہ اگر کوئی اعتراض نہ ہو تو حکومت ریاست حیدرآباد کچھ ایسے اقدامات کرے جن کی وجہ سے گیریشنیشور مندر کے تحفظ کا یقین ہو جائے۔

رزیڈنسی کے عہدیدار تھامپسن کے مراسلہ کے ساتھ وزیر اعظم ریاست اندور کا جو مراسلہ منسلک تھا اس میں گیریشنیشور (Grishneshwer) مندر کے بارے میں تفصیلات درج کئے جانے کے ساتھ ہی ساتھ اس مندر کے تحفظ کے لئے درخواست بھی کی گئی تھی۔
اس مراسلہ میں لکھا گیا تھا کہ ریاست حیدرآباد کے موضع ورول [Verul] (ضلع اورنگ آباد) میں غار ہائے ایلورا کے بالکل نیچے مہارانی اہیلیا بائی ہولکر [Ahilyabai Holkar] کا تعمیر کردہ کنڈ موجود ہے۔ اس کنڈ سے ربع میل کے فاصلے پر ایک مندر ہے جو 'گیریشنیشور مندر' کے نام سے مشہور ہے۔ اس مندر کو شیواجی کے آباء و اجداد نے تعمیر کروایا تھا، بعد ازاں مہارانی اہیلیا بائی ہولکر کی جانب سے اس مندر کو نہ صرف مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کروایا گیا بلکہ خوب صورت طریقہ سے اس مندر کی آرائش و زیبائش بھی کی گئی تھی۔
جہاں تک تحفظ اور حفاظت کا معاملہ ہے یہ مندر اچھی حالت میں ہے لیکن کنڈ کے ایک جانب کے حروف مٹ گئے ہیں۔ اس مندر کے پجاری نے مندر کے اندر چولھا بنا لیا ہے اور چولھے کے دھویں نے قیمتی مزین چھت کو خراب کر دیا ہے، علاوہ ازیں مندر کے سامنے کے حصہ میں چاروں جانب جو ستون ہیں ان کے ایک حصۃ پر صندل لگایا گیا ہے۔ حکومت ریاست اندور بہت ممنون ہوگی اگر یہ واقعات حکومت ریاست حیدرآباد کے علم میں لائے جائیں اور اس حکومت تک ایسے اقدامات کرنے کے لئے حکومت اندور کی درخواست پہنچائی جائے جن سے مندر کا تحفظ یقینی ہو جائے۔

رزیڈنسی کے عہدیدار تھامپسن کا مراسلہ صیغہ سیاسیات حکومت ریاست حیدرآباد میں وصول ہونے کے صرف چند روز بعد صیغہ سیاسیات کی جانب سے ایک مراسلہ مورخہ 15/سپٹمبر 1934ء معتمد 'صیٖغہ امور مذہبی' کے نام جاری کیا گیا جس میں ضروری کارروائی کرنے اور جلد جواب روانہ کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔
صیغہ امور مذہبی میں اس کارروائی پر فوراً توجہ دی گئی۔ چونکہ ایک قدیم مندر کے تحفظ کا معاملہ تھا اس لئے اس بارے میں ضروری کارروائی کرنے کے لئے صیغہ امور مذہبی کی جانب سے سر رشتہ آثار قدیمہ کو لکھا گیا۔ کاروائی کا آغاز اور ابتدائی اقدامات کئے جانے کے بعد صیغہ امور مذہبی نے ایک مراسلہ مورخہ 24/اکتوبر 1934ء صیغہ سیاسیات کو روانہ کیا جس میں تحریر کیا گیا:

اس بارے میں سر رشتہ آثار قدیمہ کی جانب سے ضروری کارروائی کی جا رہی ہے۔ پجاری نے مندر میں جو چولھا بنا لیا ہے اور دھویں سے عمارت کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اس کا انسداد کیا جائے گا۔ بیان کیا گیا ہے کہ ستونوں کو صندل لگانے سے منبت کاری کا کام چھپ گیا ہے۔ اس عمل کی نسبت دریافت کرنے کے بعد مناسب تجویز پیش کی جائے گی۔ چونکہ اس مندر میں عمل پوجا وغیرہ جاری ہے ایسی حالت میں اس امر پر غور کرنا ضروری ہے کہ کوئی ایسی پابندی عائد نہ کی جائے جو مراسم دیول میں رکاوٹ کا باعث ہو۔ مکمل کارروائی کے نتیجہ سے متعاقب اطلاع دی جائے گی۔

ناظم سر رشتہ آثار قدیمہ نے ضروری اقدامات کرنے کے بعد اس کی اطلاع صیغہ امور مذہبی کو روانہ کر دی جس پر ناظم صیغہ امور مذہبی نے اپنے ایک مراسلہ مورخہ 25/نومبر 1934ء کے ذریعہ معتمد صیغہ سیاسیات کو اطلاع دی کہ ناظم آثار قدیمہ کے مطابق کنڈ کی مشرقی دیوار میں جو سرخ پتھر کا کتبہ نصب ہے اس کے حروف پتھر میں کندہ ہیں اور ان میں سنگ مرمر کے ٹکڑے نصب کئے گئے ہیں۔ یہ ٹکڑے کتبہ کی لوح کی کھلی جگہ نصب کئے گئے تھے اور بارش کی وجہ سے بعض جگہوں سے گر پڑے ہیں لیکن حروف تاہم نمایاں ہیں اور کتبہ کے پڑھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ سر رشتہ آثار قدیمہ اس کتبہ میں سنگ مرمر کے ٹکڑے دوبارہ نصب کرنے کا انتظام کر رہا ہے۔
اس مراسلہ کے ذریعہ یہ اطلاع بھی دی گئی کہ پجاری نے مندر کے ایک حصہ میں جو چولھا بنا لیا تھا اس کو اٹھوا دیا گیا ہے۔ ان اطلاعات کے علاوہ مراسلہ میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ ستونوں کو صندل لگانے سے منبت کاری میں کوئی تغیر یا خرابی پیدا نہیں ہوئی ہے۔ مورتیوں پر پانی چھڑکنا اور صندل و سیندور لگانا پرستش میں داخل ہے تاہم اس بارے میں پجاری کو ہدایت دے دی گئی ہے۔

صیغہ سیاسیات کو مکمل کارروائی کی اطلاع ملنے پر نواب مہدی یار جنگ بہادر صدر المہام صیغہ سیاسیات نے تھامپسن کو اپنے ایک مراسلہ مورخہ 5/ڈسمبر 1934ء کے ساتھ صیغہ امور مذہبی کا مذکورہ بالا مراسلہ منسلک کرتے ہوئے لکھا کہ منسلک کردہ مراسلہ سے معلوم ہو جائے گا کہ گیریشنیشور مندر کے تحفظ کے سلسلہ میں حکومت ریاست حیدرآباد کی جانب سے کیا ضروری اقدامات کئے گئے ہیں۔
اس مراسلہ کے جواب میں تھامپسن نے اپنے مراسلہ مورخہ یکم فبروری 1935ء کے ذریعہ نواب مہدی یار جنگ کو اطلاع دی کہ حکومت ریاست اندور نے ان سے خواہش کی ہے کہ وہ گیریشنیشور مندر کے تحفظ کے لئے کئے گئے اقدامات کے لئے حکومت اندور کا شکریہ حکومت ریاست حیدرآباد تک پہنچا دیں۔ صیغہ سیاسیات نے اپنے مراسلہ مورخہ9 /فبروری 1935ء کے ذریعہ تھامپسن کے مراسلہ کی نقل صیغہ امور مذہبی کو بطور اطلاع روانہ کر دی۔

اس کارروائی کی مندرجہ بالا تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ متذکرہ مندر اور کنڈ کے تحفظ سے متعلق ساری کارروائی انتہائی تیزی کے ساتھ دو ماہ بیس یوم کے اندر مکمل کر لی گئی تھی۔ اس کارروائی کے لئے قانونی طور پر حکومت ریاست حیدرآباد پر کسی طرح کا کوئی لزوم عائد نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اسے اخلاقی فریضہ اور حکومت کی ذمہ داری گردانتے ہوئے پایہ تکمیل کو پہنچایا گیا۔ بادی النظر میں شیواجی کے نام سے اس مندر کی وابستگی کسی ذہنی تحفظ یا تعصب کے لئے گنجائش پیدا کر سکتی تھی لیکن اس قسم کی باتوں کو حاشیہ خیال کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا گیا، اور انصاف، مساوات اور رواداری کے جذبہ ہی کو پیش نظر رکھا گیا۔ اس کارروائی سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مندر اور کنڈ کے ارباب مجاز پجاری وغیرہ کو جو نہ صرف ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے بلکہ لائق احترام سمجھے جاتے ہیں اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اپنی لاپرواہی، من مانی اور بدسلیقگی کے ذریعہ مندر اورکنڈ کی آرائش و زیبائش اور استحکام کو نقصان پہنچائیں۔

***
ماخوذ از کتاب: نقوش تاباں (عہدِ آصف سابع)
مصنف: ڈاکٹر سید داؤد اشرف (اشاعت: دسمبر 1994)

Grishneshwar Temple Aid by Hyderabad Estate.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں