ابن صفی کا شکرال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-06-15

ابن صفی کا شکرال

ibne-safi-shakraal

ابن صفی پر ہمیشہ سے لکھا جاتا رہا ہے اور بڑے بڑے نامور ادیب بھی اپنی تحریروں میں اس عہد ساز شخصیت، نثر نگاری کے شہنشاہ اور سری ادب میں استادوں کے استاد ابن صفی کی صلاحیتوں، ان کی جہاں بینی، دور اندیشی، ان کے ناولوں میں بے مثال کردار نگاری، منظر کشی، ان کی علمی و ادبی بصیرت اور شاعری و نثر نگاری میں مہارت کا اعتراف کرتے آئے ہیں۔

کتابوں میں، رسالوں میں، فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر سوشیل میڈیا ویب سائٹس کے فین کلبز میں اور ان کے سالانہ سلسلوں، اجلاسوں میں آج بھی پرستاران ابن صفی اپنے محبوب مصنف کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں، اس بار میں نے بھی اپنی سی کوشش کی ہے، یہ ابن صفی کے لٸے میری پہلی تحریر ہے، گروپ میں پوسٹ کرنا الگ بات ہے مگر خصوصیت سے باقاعدہ طور پر ابن صفی کے لٸے لکھنا وہ بھی "ابن صفی ۔ ایک عہد ایک رجحان" جیسے منفرد اور کامیاب سلسلے کے لیے لکھنا کم از کم میرے لٸے تو آسان نہیں تھا، میں کوٸی قلمکار تو ہوں نہیں، مگر ابن صفی سے محبت اور چند دوستوں کی حوصلہ افزائی سے ایک کوشش کی ہے۔

شکرال کا موضوع ایسا نہیں ہے کہ اسے ایک مختصر سی تحریر میں مکمل کیا جاسکے، اس پر تو کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، ابن صفی نے شکرال اور اس کی پڑوسی ریاستوں پر بہت کچھ لکھا، عمران سیریز اور جاسوسی دنیا میں اس موضوع پر ناول لکھے اور ان دونوں سیریز کے علاوہ بھی چند ناول پیش کیے جنہیں "شکرال سیریز" اور "ایرج و عقرب سیریز" بھی کہا جاتا ہے۔

جاسوسی دنیا کے ناول "شعلوں کا ناچ، پہلا شعلہ، دوسرا شعلہ، تیسرا شعلہ اور جہنم کا شعلہ" میں شکرال سے زیادہ اس کی پڑوسی ریاستوں مقلاق و کراغال کا ذکر ملتا ہے، شعلوں کا ناچ ایک مکمل ناول ہے جبکہ پہلا شعلہ سے لے کر جہنم کا شعلہ تک ایک ہی سلسلے کے چار ناول ہیں، یہ چاروں ناول ایک ہی سلسلہ کی کڑی ہونے کے باوجود شعلوں کا ناچ سے ہی ماخوذ ہیں، اس سیریز میں "طاقت" نام کی جو تنظیم سرگرم عمل دکھائی گئی ہے وہ ناول جہنم کا شعلہ میں اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔

عمران سیریز میں ابن صفی نے شکرال پر دو سیریز پیش کیں جن میں سے ایک کی کہانی "کالے چراغ" سے شروع ہوکر "خون کے پیاسے" اور "الفانسے" سے ہوتی ہوئی "درندوں کی بستی" میں اختتام پذیر ہوئی، یہ مکمل شکرال سیریز کہلاتی ہے حالانکہ ان میں شکرال کا ذکر صرف "درندوں کی بستی" میں ہی ملتا ہے۔

دوسرے سلسلے کی کہانی "خطرناک ڈھلان" سے شروع ہوتی ہے پھر "ریشوں کی یلغار، جنگل میں منگل" اور "تین سنکی" میں اس کہانی کا اختتام ہوتا ہے، یہ پہلے ناول سے ہی مکمل شکرال سیریز ہے، بنیادی طور پر اگر دیکھا جائے تو اس سیریز کو لکھنے کا محرک ناول "شہباز کا بسیرا" ہے، جس کا اختتام شکرال کی وادی کے قریب ہی ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ ایرج، عقرب، شرجیل اور شارق جیسے بہترین شکرالی کرداروں پر لکھے گٸے چند ناولوں "معزز کھوپڑی، گلترنگ، شکرال کے جیالے، شمال کا فتنہ اور بلدران کی ملکہ" میں ہمیں شکرال کے باشندوں سے متعلق بڑی عجیب و غریب داستانیں اور ان کے طرز زندگی کی بڑی حیران کن باتیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔

شکرال.... ابن صفی کے جادو اثر قلم کا شاہکار ایک ایسی دنیا ہے جسے تصوراتی کہا جاتا ہے لیکن یہ اتنی حقیقی دنیا ہے کہ اس پر لکھے ناولوں میں رونما ہونے والے واقعات، اس کے کردار اور ماحول سب کچھ ہمیں دیکھا بھالا سا لگتا ہے، ایک انوکھی اور منفرد دنیا جو ہمارے لٸے نئی ہوتے ہوئے بھی نٸی نہیں ہے، شکرالی اکھڑ مزاج لوگ ہمارے لٸے اجنبی نہیں ہیں، شکرالیوں کا مخصوص پہاڑی لہجہ اور انداز گفتگو، ان کی روز مرہ زندگی کے معمولات، ان کا رہن سہن، شکرال کے تہوار، رسم و رواج اور ان کے طور طریقے سب کچھ جانا پہچانا ہے۔

ابن صفی نے تقریباً ہر موضوع پر لکھا، ابتدا متفرق کہانیوں سے کی، اپنی پہلی کہانی ابن صفی نے اس وقت لکھی جب وہ صرف ساتویں جماعت کے طالب علم تھے ان کا یہ افسانہ ہفت روزہ "شاہد" بمبٸی میں شائع ہوا جس کے ایڈیٹر جناب عادل رشید تھے، انہوں نے ابن صفی کو معمر آدمی سمجھ کر کچھ اس طرح ان کا نام کہانی کے ساتھ شاٸع کیا تھا۔
"نتیجہ فکر مصور جذبات حضرت اسرار ناروی"

ابن صفی نے جب طنزیہ مضامین لکھنے شروع کیے تو اس وقت کے بڑے نامور مضمون نگاروں کو بھی حیران کیا، لوگ اس شخص کو دیکھنا چاہتے تھے جو طغرل فرغان، سنکی سولجر اور عقرب بہارستانی کے قلمی ناموں سے مضامین لکھ کر بڑی بیباکی سے طنز کے تیر چلاتا تھا، انتہائی تلخ حقائق بھی طنز و مزاح کی چاشنی میں گھول کر روانی سے بیان کرجاتا تھا۔

ابن صفی نے شاعری بھی کی نوح ناروی جیسے مشہور شاعر ابن صفی کے نانا تھے جن کی نسبت سے ابن صفی نے بھی شروعات اسرار ناروی کے نام سے کی جبکہ ابتدا میں جگر مراد آبادی سے بھی متاثر رہے، ان کارناموں کے بعد ان کی شہرت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہا، مگر وہ مطمٸن نہیں تھے، وہ کچھ اور کرنا چاہتے تھے، انتہاٸی کم عمر میں ہی "طلسم ہوشربا" اور "راٸیڈر ہیگرڈ" کو پڑھنے سے طلسم ہوشربا کے پراسرار ماحول اور راٸیڈر ہیگرڈ کے تاثرات نے مل کر جو ذہنی فضا مہیا کی تھی اس نے بعد میں ابن صفی سے ایسے بے مثال کردار اور شاہکار ناول تخلیق کروائے کہ کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی ان کو اسی طرح پڑھا جاتا ہے اور ان کی کتابیں آج بھی بالکل نٸی ہیں، اس پراسرار ماحول کی جھلک ہمیں عمران اور فریدی کے کچھ ناولوں اور شکرال کے ناولوں میں بھی نظر آتی ہے۔

متفرق کہانیاں، طنزیہ مضامین، شاعری، معاشرتی ناول، عمران سیریز اور جاسوسی دنیا میں جرم و سزا، سراغ رسانی، ساٸنس فکشن اور ایڈونچر ابن صفی نے تقریباً ہر موضوع پر لکھا، شکرال جیسی جانی پہچانی اور مانوس سی دنیا کی سیر بھی کراٸی، سینکڑوں ایسے کردار تخلیق کٸے جو ہمیں جیتے جاگتے معلوم ہوتے ہیں، ہر موضوع اور ہر کردار کے ساتھ انہوں بے پورا پورا انصاف کیا، ابن صفی کے صرف مزاحیہ کرداروں کی ہی بات کی جاٸے تو حمید ہو یا قاسم، عمران ہو یا جیمسن، سلیمان ہو یا ناشاد اور ہدہد، تزک دو پیازی کا ابوالحسن ہو، پرنس چلی کا شیخ چلی یا پھر شکرال کے عقرب اور خیرہ سر شارق، ہر کردار ایک دوسرے سے بالکل الگ، بالکل مختلف ہے، کہیں بھی ذرا سی مماثلت نظر نہیں آتی اور نہ ہی ان کے ناول کبھی یکسانیت کا شکار ہوئے، یقیناً ہر موضوع اور ہر کردار سے پورا پورا انصاف کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

ابن صفی کی زندگی میں بھی ان کے بیشمار قارئین رہے اور آج بھی پاکستان ہو یا ہندوستان یا جہاں بھی اردو پڑھنے والے ہیں ابن صفی کے قارٸین لاکھوں یا شائد کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں، دوسری طرف ابن صفی کی مخالفت کرنے والے بھی ہمیشہ سے موجود رہے ہیں جنہوں نے ہر دور میں ان کی مخالفت میں اپنا پورا زور صرف کیا مگر ابن صفی کی مقبولیت میں کبھی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی مقبولیت اور ان کے قارئین کی تعداد میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

ابن صفی نے نہ صرف لوگوں میں پڑھنے کا شوق پیدا کیا اور انہیں پڑھنا سکھایا بلکہ بہت سوں کو لکھنا بھی سکھایا، ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ کر بھی ابن صفی کو نہیں بھولے، ہمیشہ عقیدت و احترام سے ان کا نام لیا، دوسری جانب وہ لوگ بھی ہیں جو چوری چھپے ابن صفی کے ناول پڑھتے بھی رہے انہیں سے سیکھا بھی اور ہمیشہ انہیں کی مخالفت بھی کرتے رہے۔

سری ادب کو کبھی وہ مقام نہیں دیا جو اسے مغرب میں حاصل ہے، ان کے ناولوں کو وقت کی بربادی اور ذہنی فرار کا ذریعہ قرار دیا، ان کے ناولوں کو مغربی ناولوں کی نقل اور ان کے کرداروں کو شرلاک ہومز اور دوسرے مغربی کرداروں کا چربہ ثابت کرنے کی کوشش کی، حتٰی کہ شکرال کی کہانیوں کو بھی کاؤ بوائز فلموں کی نقل کہتے رہے، حالانکہ شکرال کے ناولوں میں شمالی علاقہ جات کے جانے پہچانے مناظر دکھاٸی دیتے ہیں۔

شکرال کے ناولوں میں کچھ واقعات اور مناظر یقیناً ایسے ہیں کہ بے اختیار کاؤ بوائز فلمیں یاد آجاتی ہیں مگر ان کہانیوں کو کاؤ بوائز فلموں کی نقل کہنا درست نہیں کیونکہ ان چند باتوں سے قطع نظر شکرال کی کہانیوں میں ایسا بہت کچھ ہے جو ان فلموں میں نہیں پایا جاتا، شکرال کے پہاڑی علاقے، میدانی راستے، شکرال کے باشندوں کے مخصوص لباس، گھڑ سواری، ہتھیار، ان کا اکھڑ مزاج اور ذرا ذرا سی بات پر لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجانا، ان کی آپسی جنگ کے طور طریقے، تیز و طرار عورتیں، عام حالات میں سست و کاہل نظر آنے والے مرد۔

یہ اور ایسی چند باتیں ان فلموں کی یاد دلاتی ہوں گی مگر حقیقتاً یہ ناول ان فلموں کی نقل نہیں بلکہ شمالی علاقہ جات کی اتنی شاہکار اور مکمل منظر نگاری کا منھ بولتا ثبوت ہیں کہ ناول پڑھتے ہوئے ہمیں تمام مناظر اپنی آنکھوں کے سامنے گھومتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، تمام واقعات کو رونما ہوتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔

یہاں میں شکرال کی کہانیوں سے اقتباسات پیش کرتا ہوں ملاحظہ فرماٸیے۔

"یہاں کے باشندے وجیہہ اور طاقتور ہوتے ہیں، اجتماعی نظام لاٹھی اور بھینس کے فارمولے پر چلتا ہے، جس کا لوہا سب مانیں سکّہ اسی کا چلے گا، اکثر دو طاقتوروں کی زور آزمائی پورے علاقے کو جہنم بنا کر رکھ دیتی ہے اور پھر ان میں سے ایک باقی رہ جاتا ہے، سب کی گردنیں اس کے آگے جھک جاتی ہیں، پھر اس وقت تک اس کی حکمرانی رہتی ہے جب تک کوئی دوسرا اس سے نہ ٹکرا جائے اگر اسے نیچا دیکھنا پڑا تو کھیل ختم ورنہ پھر اسی کا اقتدار۔" [معزز کھوپڑی]

اس مختصر سے اقتباس سے کسی کاؤبوائے فلم کا تصور ذہن میں ضرور ابھرا ہوگا، لیکن بقیہ مناظر اسے کاؤ بوائز فلموں سے ممتاز کرتے ہیں، اس کہانی میں ایک ایسی "معزز کھوپڑی" ہے جسے ایرج اپنے دشمن کے لٸے حاصل کرنے کے پر رضامند ہے، وہ دشمن جس نے اس کے باپ کو قتل کیا تھا، ایرج اور اس کی ماں کے درمیان مکالمے، جب اس کی ماں اسے سفر سے باز رکھنا چاہتی ہے بڑے عمدہ ہیں، ایرج، عقرب، شرجیل اور ضحاک فیلگرون جیسے کردار، شکرال، سرخسان، کملاک، مقلاق، کراغال اور گلترنگ جیسے نام شرجیل کا چنگیز خانی انداز، ایرج کی اصول پسندی اور دیانتداری، عقرب کی شرارتیں، ضحاک فیلگرون کی مکاری، رب عظیم اور زیارت گاہوں کے جا بہ جا تذکرے اور ایسی بہت سی باتیں مجھے آج تک کسی کاٶ بوائے فلم میں نہیں ملیں.... دوسرا اقتباس دیکھٸے۔

"اگر ایک ہی بستی کے دو فریق ٹکراتے ہیں تو بات زیادہ نہیں بڑھتی، آگ تو اس وقت لگتی ہے جب دو مختلف بستیوں کے افراد کا ٹکراؤ ہوجائے، گلترنگ لہوترنگ بن جاتا ہے، ساری بستیاں سرگرم کارزار ہوجاتی ہیں، کسی نے ایک بستی کا ساتھ دیا کسی نے دوسری کا.... جتنی دیر میں زیارت گاہ کا درویش اپنے حجرے سے باہر آتا ہے سینکڑوں لاشیں گر جاتی ہیں۔

پھر صرف تین چار گھنٹے تک ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے واقعی کوئی بڑا حادثہ ہوگیا ہو لیکن اس کے بعد.... وہی رنگ رلیاں.... جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔" [گلترنگ]

دو مختلف بستیوں کے افراد کے آپس میں ٹکرا جانے کے مناظر آپ نے ان فلموں میں ضرور دیکھے ہوں گے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فلمیں ہی کیوں؟ شمالی علاقہ جات کے قبائلی علاقوں میں بھی تو یہی سب ہوتا آیا ہے اور پھر کہانی میں گلترنگ کا میلہ، مشہور زیارت گاہ، بڑا عابد، درویش اور اس کے متعقدین، خیرہ سر، گلترنگ کے بازار، اور میلے کے دنوں میں سجائی گٸی دوکانیں، سرداروں کے خیموں میں رقص و سرور کی محفلیں، بڑے بڑے قبائل کے جنگجو و دلیر سردار مگر ایک شنگشت (چھ انگلیوں والے) خیرہ سر سے خوفزدہ رہنے والے، کیا یہ سب کسی کاؤ بوائے فلم میں دکھایا گیا ہے؟ چلیے ایک اور اقتباس دیکھٸے۔

"جیسے ہی اس کا گھوڑا گلی میں داخل ہوا باہر چبوترے پر بیٹھے ہوٸے لوگ بھی کزک میں داخل ہوگٸے، وہ کوئی اجنبی تھا لیکن اس کے تیور انہیں اچھے نہیں لگ رہے تھے، اس کے جسم پر بہت پرانا چرمی لباس تھا اور دونوں ہولسٹروں میں اعشاریہ چار پانچ کے ریوالور دور سے بھی دیکھے جاسکتے تھے، اس نے گھوڑا گلی میں باندھ دیا اور کزک میں داخل ہونے کے بجاٸے حجام کی دوکان میں گھس گیا، یہاں کچھ لوگ پہلے ہی سے موجود تھے جن میں اس کی موجودگی سے خاصی سراسیمگی پھیل گٸی، حجام بھی کسی قدر نروس نظر آنے لگا لیکن اجنبی اپنی باری کے انتظار میں بیٹھ گیا۔" [شکرال کے جیالے]

یقیناً اس اقتباس میں اس کردار کی آمد ایسی ہی ہے جیسی کاؤ بوائز ٹائپ فلموں میں ہیرو یا ولن کی ہوتی ہے جس کے آنے سے اسی طرح لوگوں میں سراسیمگی پھیل جاتی ہے لیکن شکرال کے ضعیف الاعتقاد لوگ، میدان کے شیر مگر بددعاٶں سے خوفزدہ رہنے والے، رب عظیم کے نام پر گردن کٹادینے والے اور اپنی بیویوں کے علاوہ دوسری عورتوں کا ہر حال میں احترام اور ان کی حفاظت کرنے والے ہمیں ان فلموں میں نہیں ملتے۔

ناول "بلدران کی ملکہ" کا مخصوص ماحول اور پس منظر، ایک پراسرار روح جو ہزاروں برس سے ایرج کے فراق میں تڑپ رہی تھی، اس کے علاوہ ابن صفی کی زندگی کی آخری تخلیق "شمال کا فتنہ" کے دل میں اتر جانے والے کردار، کہانی کا سسپنس، شکرال کا جادو اثر ماحول اور پھر ایک ایسا آدمی جس کی ایک ٹانگ لکڑی کی ہو اس کے لٸے "چوبی ٹنگا" کی اصطلاح تخلیق کرلینا ابن صفی کے زر خیز ذہن ہی کی پیدا وار ہو سکتا ہے، ایسی اصطلاحوں، کرداروں، مناظر، مخصوص ماحول، کرداروں کے مکالمے اور ایسی بیشمار باتوں کا تعلق بھلا کاؤ بوائز قسم کی فلموں سے کیسے ہوسکتا ہے؟

ابن صفی نے شکرال کی تمام کہانیاں شمالی علاقہ جات کو مدنظر رکھتے ہوئے تخلیق کیں، شکرالیوں کا شمالی باشندوں کا سا اکھڑ لہجہ، شکرالیوں کا طرزِ رہائش، معمولات و مشغولات سرداری نظام اور شکرال میں رونما ہونے والے واقعات قبائلی علاقوں کے ماحول کی بے مثال منظر نگاری ہے۔

ابن صفی نے شکرال کی کہانیوں میں جو کچھ لکھا وہ سب شمالی علاقوں میں ہوا اور آج تک ہورہا ہے، شمالی علاقہ اسی طرح مغربی سازشوں کا شکار رہا جس طرح شکرال، قبائلی علاقے آج بھی ان سازشوں کا شکار ہیں، وہاں کے سیدھے سادے لوگ مغربی چالوں میں آکر اپنے ہی علاقوں میں خون کی ندیاں بہا دیتے ہیں، ابن صفی یہ سب بہت پہلے لکھ چکے ہیں اور شکرال کی کہانیاں اسی طرح حقیقت کا روپ دھارتی رہی ہیں۔

اللہ تعالٰی نے ابن صفی کو انتہائی ذہنی وسعت، دور اندیشی اور جہاں بینی عطا کی تھی، انہوں نے سری ادب پر بطور چیلنج فحش نگاری کے متبادل کے طور پر لکھنا شروع کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے قلم کو وہ روانی عطا کی کہ ان کے قلم میں کبھی لغزش نہیں آئی، ان کے دوسو پینتالیس سے زائد ناولوں میں کسی ایک مکالمے میں بھی جرم یا مجرم کی حوصلہ افزائی نہیں ملتی، انہوں نے ہمیشہ قانون کی بالادستی پر لکھا بلکہ دوسروں کو بھی قانون کے احترام کا درس دیا۔

ابن صفی کی جہاں بینی اور علمی بصیرت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جس زمانٕے میں شکرال کی کہانیاں لکھی گئیں شمالی علاقوں کی داستانیں عام نہیں تھیں، اکثریت اس سے لاعلم تھی لیکن ابن صفی کتنی دور تک دیکھ سکتے تھے کہ اپنی تحریروں میں نہ صرف ان مخصوص علاقوں کی عکاسی کی بلکہ جو کچھ لکھ دیا وہ آج ان علاقوں میں ہورہا ہے، خصوصاً عمران سیریز کے شکرال پر لکھے گٸے ناولوں میں ابن صفی نے بہت کچھ بہت پہلے ہی پیش کردیا جو آج تک حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہا ہے۔

یقیناً ابن صفی ایک ایسے بے مثال انسان تھے جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ میری خواہش تھی کہ عمران سیریز اور جاسوسی دنیا کے شکرال اور کراغال وغیرہ پر لکھے گئے ناولوں سے بھی کچھ اقتباسات پیش کرتا مگر تحریر پہلے ہی کافی طویل ہوچکی ہے لہٰذا ابن صفی کے اس شعر کے ساتھ اس تحریر کا اختتام کرتا ہوں۔

مدتوں ذہن میں گونجوں گا سوالوں کی طرح
تجھ کو یاد آؤں گا گزرے ہوئے سالوں کی طرح
ڈوب جائے گا کسی روز جو خورشید انا
مجھ کو دہراؤ گے محفل میں مثالوں کی طرح

بشکریہ فیس بک گروپ: دی گریٹ ابن صفی فینز کلب

Ibn-e-Safi's Shakraal. Article: Mohsin Qazi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں