شمع میگزین - اب یادیں ہی باقی ہیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-05-27

شمع میگزین - اب یادیں ہی باقی ہیں

shama-magazine
شمع اپنے وقت کا نیم ادبی اور فلمی اردو رسالہ تھا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ انگریزی میں "فلم فئیر" کا اشاعتی سلسلہ، شمع کی ابتدا کے 15 سال بعد 1952 میں شروع ہوا تھا۔ شمع والوں نے "شمع سشما ایوارڈ" شروع کیا۔ اس کی نقل بعد میں دوسروں نے کی۔ اس ایوارڈ کی تقریب میں بڑی بڑی ہستیاں مدعو کی جاتی تھیں۔ کئی بار دیگر ملکوں کے صدور نے شرکت کی۔ آج یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اردو رسالے کی تقریب میں کسی ملک کا صدر شریک ہوگا۔ شمع کے مالکان نے اسے معیاری، جاذب نظر اور بڑا رسالہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اس میں اس وقت کے بڑے رائٹروں کی کہانیاں شائع ہوتی تھیں، کہانی کے مرکزی خیال کے مطابق تصویریں بنوائی جاتی تھیں۔ اس کے لیے اچھے آرٹسٹوں کی خدمات شمع کو دستیاب تھیں۔ کاغذ اچھا استعمال کیا جاتا تھا۔ بلیک اینڈ وائٹ تصویر بھی ایسی ہوتی تھی کہ جیسے اس میں جان ہو۔ ایسی بولتی تصویریں آج کم ہی رسائل میں نظر آتی ہیں۔ قابل ذکر یہ ہے شمع والوں کی طرف سے اور بھی معیاری رسائل شائع کیے جاتے تھے۔ خواتین کے لئے بانو، بچوں کے لیے کھلونا ، اس کے علاوہ 'شبستاں'، 'مجرم' ، ہندی میں سشما اور سشمیتا۔ لیکن دھیرے دھیرے یہ تمام رسائل بند ہو گئے۔ ان کی بس یادیں رہ گئی ہیں۔ ان پر بات کرتے ہوئے جہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ رسائل کیوں بند ہوئے، فلمی میگزین شمع کی صبح کیوں آ گئی وہیں اس پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ کیا ایسے اچھے رسائل اردو میں دستیاب نہیں کرائے جا سکتے؟

محمد یونس دہلوی 60 سے 90 کے دوران کی بےحد مقبول میگزینوں شمع اور سشما کے ایڈیٹر اور پبلشر تھے۔ یہ دونوں میگزینیں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوتی تھیں۔ دہلوی صاحب کی بیٹی سعدیہ دہلوی بھی ایک مصنفہ ہیں اور ان کے بیٹے وسیم فلم پروڈیوسر ہیں۔ دہلوی صاحب نے اپنی میگزینوں کی اشاعت کو صرف فلموں تک محدود نہیں رکھا تھا۔ ان میں وہ کرشن چندر ، عصمت چغتائی اور راجندر سنگھ بیدی جیسے عمدہ افسانہ نگاروں کی کہانیوں کی اشاعت کرتے تھے۔ مشہور مصنفہ اور مورخ رخشندہ جلیل بتاتی ہیں کہ نرگس اور مینا کماری بھی شمع، سشما کے لئے بیچ بیچ میں لکھا کرتی تھیں۔ حالانکہ یہ بات سمجھ سے دور ہے کہ اتنے کامیاب رسائل نکالنے والا پبلشر آہستہ آہستہ کس طرح گوشۂ گمنامی میں چلا گیا؟
در اصل شمع پبلشر کے پودے کو یوسف دہلوی نے لگایا تھا، اسے گھنا درخت بنایا ان کے بیٹے محمد یونس دہلوی نے۔ انہوں نے شمع پبلشر کو ایک بڑی صنعت بنایا۔ ایک دور میں اس کا ایک وقت میں آصف علی روڈ پر مقامی دفتر گلزار ہوا کرتا تھا۔ وہاں پر مشہور فلم اداکار یوسف صاحب ملاقات کے لئے پہنچے تھے تاکہ ان کا انٹرویو شمع اور سشما میں شائع ہو۔
حالانکہ بعد میں دھیرے دھیرے شمع اور سشما دونوں اپنی اپنی پکڑ کھوتے چلے گئے۔ محمد یونس دہلوی صاحب کے سردار پٹیل مارگ پر واقع بنگلے "شمع گھر" میں مسلسل مشاعرے اور دوسری ادبی محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ گھر آنے والوں کی بہترین طریقے سے مہمان نوازی ہوا کرتی تھی۔ اس گھر کو بعد میں بی ایس پی لیڈر مایاوتی نے خرید لیا تھا۔

پچھلے پچاس سالوں سے دہلوی صاحب کے دوست رہے نواب ظفر جنگ بتاتے ہیں کہ یونس بھائی بہت نفیس اور روایتی شخصیت کے حامل تھے۔ وہ اپنے پرانے دوستوں کو بھولتے نہیں تھے۔ پرانی دہلی سے سردار پٹیل مارگ منتقل ہونے کے بعد بھی انہوں نے اپنے پرانے یاروں کو بھلایا نہیں تھا۔ وہ ان کے خراب وقت میں مدد کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ دہلوی صاحب کے خاندان کے بزرگوں نے تقسیم ہند کے وقت پاکستان جانے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ اپنی برداری کے بزرگ اور سرپرست بھی تھے۔ سب کے غم اور خوشی میں شامل ہوتے تھے۔

ہم چوری چھے 'شمع' کا دیدار کرنے لگے۔ شمع سے کچھ ایسی محبت ہوئی کہ ہم اسے شریک حیات بنا بیٹھے۔ شمع کے ہم اکیلے عاشق نہ تھے۔ ہمارے جیسے لاکھوں تھے جو اس ایک شمع کی زلف گرہ گیر کے اسیر تھے۔ ماہنامہ "شمع" کو جو غیرمعمولی شہرت ملی، وہ پھر کسی اور اردو رسالے کو نصیب نہیں ہو سکی۔ شمع کی بہن 'سشما' بھی جو ہندی کو اپنائے ہوئے تھی، اپنی بڑی بہن شمع کو قابل رشک نظروں سے دیکھتی تھی لیکن یہ حقیقت ہے کہ سشما کبھی شمع پر فوقیت حاصل نہ کر سکی۔ اسی شمع کے گھر سے لڑکیوں اور خواتین کے لئے "بانو" سامنے آئی جسے کافی پسند کیا گیا۔ پھر اسی خاندان سے ایک "مجرم" نے بھی جنم لیا۔ مجرم سے یوں تو سبھی ڈرتے ہیں لیکن اس مجرم نے ایک پوری خلقت کو اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا۔ اسی خاندان میں ایک اور خوبصورت بچہ پیدا ہوا جس نے اس زمانے کے شکاریوں اور ایڈونچر پسند لوگوں کو کافی لبھایا تھا۔ اس کا نام خیر سے "شبستاں" تھا۔ ہمارے حاجی یوسف دہلوی نے ان سب رسالوں کو اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے نہ صرف سینچا بلکہ اپنا خون جگر پلا کر جوان کیا۔ لیکن جوں ہی حاجی صاحب نے آنکھیں بند کیں، ان سب رسائل پر گویا خزاں چھا گئی۔

"شمع ایک مکمل فیملی میگزین تھی۔ اس میں قارئین کی دلچسپی کا خیال سب سے زیادہ رکھا جاتا تھا، یہی اس کی سب سے بڑی خوبی اور اسی وجہ سے شمع میں چھپی ہوئی ساری چیزیں پڑھی جاتی تھیں"۔
یہ کہنا ہے مشہور ناول نگار، افسانہ نگار اور شاعرہ صادقہ نواب سحر کا۔ انہوں نے بتایا کہ میگزین شمع میرے گھر میں میری پیدائش سے پہلے سے آیا کرتی تھی، اس لیے آنکھ کھولتے ہی اس سے وابستگی ہو گئی تھی۔ میں بڑی ہوئی، رسائل پڑھنے لگی تو سب سے پہلے شمع ہی پڑھا کرتی تھی۔ شمع میں شائع ہونے والی غزلوں سے میری زیادہ دلچسپی رہتی تھی لیکن میں افسانے بھی پڑھا کرتی تھی، البتہ گھر کے لوگ زیادہ تر افسانے پڑھا کرتے تھے۔
دو ناولوں ، دو افسانوی مجموعوں اور تین شعری مجموعوں کی مصنفہ اور شاعرہ صادقہ نواب سحر کا ماننا ہے کہ ادب اور زندگی ملا کر جو چیز بنتی ہے وہ زیادہ ہٹ رہتی ہے اور میگرین شمع اسی لیے ہٹ رہی۔ اس میں ادب بھی تھا اور فلمی خبریں بھی۔ فلموں کا کریز شروع سے رہا ہے، اس لیے بھی یہ میگزین ہٹ تھی۔ یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ نیم فلمی اور نیم ادبی میگزینوں میں شمع سب سے مختلف تھی۔

مقبول قلمکار اور جے۔این۔یو کے پروفیسر انور پاشا کا کہنا ہے کہ 'شمع' سنجیدہ ادبی رسائل کے مقابلے میں ایک مقبول نوعیت کا رسالہ تھا۔ اس میں ہلکی پھلکی ادبی تخلیقات کے ساتھ ساتھ سماج کے مختلف طبقات کے ذوق کے موافق مواد شامل کیا جاتا تھا۔ مثلاً فلم یا پھر ادب ، خاص کر وہ ادب جو کم پڑھے لکھے طبقات کے درمیان بھی دلچسپی کا سامان فراہم کر سکے اور اس کام کا اس رسالے نے بخوبی انجام دیا۔ 'شمع' کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اس نے اردو قارئین کا ایک بڑا حلقہ تیار کیا۔

'شمع' کے بارے میں این سی پی یو ایل کے سابق ڈائرکٹر اور جے این یو کے پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کا کہنا ہے کہ 'شمع' نے اردو صحافت میں ایک نئی ابتدا کی۔ اس سے پہلے اردو صحافت میں جو رسائل و جرائد تھے، وہ الگ منہاج و مقاصد کے تحت جاری و ساری تھے۔ مثلاً الہلال، زمانہ اور اس طرح کے جتنے بھی رسائل تھے، ان کا ایک الگ مقصد تھا۔ شمع نے بیک وقت ادب اور تفریحی ادب کو ایک رسالے میں پیش کرنے کی ابتدا کی۔ اسی لیے یہ بہت تیزی سے مقبول ہوا۔ شمع صرف فلمی رسالہ نہیں تھا۔

مشہور افسانہ نگار ابن کنول کا 'شمع' کے بارے میں کہنا ہے کہ فلمی و ادبی رسالہ شمع ادبا و شعرا میں بھی کافی مقبول تھا۔ اردو رسائل کے جو سب سے زیادہ قارئین ہوا کرتے تھے وہ 'شمع' ہی کے ہوا کرتے تھے۔ شمع محض ایک فلمی رسالہ نہیں تھا بلکہ اس میں ادب کے معیاری فن پارے شائع ہوتے تھے۔ بڑے بڑے افسانہ نگاروں کی تخلیقات نہ صرف اس میں شائع ہوئیں بلکہ اس میں شائع ہونے پر وہ فخر محسوس کرتے تھے۔ شمع کی صرف فلمی حیثیت نہیں بلکہ ادبی حیثیت بھی تھی۔

شمع کی یہ بڑی کامیابی تھی کہ اس کی مقبولیت جتنی قارئین میں تھی، اتنی ہی رائٹروں اور فلم والوں میں بھی۔ فلم والے یہ سمجھتے تھے کہ شمع میں ان کا نام چھپ گیا تو ان کی مقبولیت کو پر لگ جائیں گے، ان کی فلم کا ذکر مثبت انداز میں ہو گیا تو اس کی کامیابی یقینی سی ہو جائے گی، اس لیے اسے فلم والوں میں بڑی مقبولیت حاصل تھی۔ پرانے فلم والے ان دنوں کو آج بھی یاد کرتے ہیں کہ 'شمع' میں ان کے لیے کیا چھپا تھا، 'شمع' میں ان کا انٹرویو شائع ہونے کے بعد ان کی مقبولیت نقطۂ عروج پر پہنچ گئی تھی۔
شمع کے لیے افسانے بھیجنے والوں کا سوچنا یہ تھا کہ یہ رسالہ معقول رقم دیتا ہے اور اس کا ایک معیار بھی ہے، اس لیے اس میں شائع ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بلکہ کئی رائٹروں کے لیے شمع میں چھینا باعث فخر تھا لیکن یہ کم لوگ جانتے ہیں کہ شمع کے مدیروں نے اس کی امیج کا بڑا خیال رکھا تھا۔
منموہن تلخ کا ایک مضمون "اردو صحافت اور فلم" ماہنامہ 'آج کل' نومبر-دسمبر 1983 میں شائع ہوا تھا۔ اس میں تلخ نے لکھا ہے:
"شمع کو خریدا نہیں جا سکتا"۔
اردو ماہنامہ شمع کے لئے یہ الفاظ میں نے خود اپنے کانوں ایک ایسے فلم ساز کے منہ سے سنے جو بڑے فخر کے ساتھ یہ بھی دعوی کرتا تھا کہ فلم نقادوں کو تو میں جیب میں ڈالے گھومتا ہوں، تاہم کچھ اردو فلم نقادوں نے کئی ناقابل فراموش معرکے سر کیے ہیں، اصول پر ڈٹ کر اس بات کی پروا کیے بغیر کہ ملازمت رہے گی یا جائے گی۔

معموں کے پیچھے کی کہانی
روزنامہ راشٹریہ سہارا میں آرٹسٹ محمد شعیب نے بتایا کہ معموں کا کام دیکھنے کے شوق میں 1975 میں دو دن انہوں نے بھی شمع کے دفتر میں کام کیا تھا۔ وہاں ہر ماہ 50 سے 60 لوگ تین دنوں تک صحیح اور غلط معمے چھانٹا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ دس دن کا کام اور ہوتا تھا۔ ان کاموں کے لیے اکثر اینگلو عربک اسکول اور دہلی کالج کے طلبا رکھے جاتے تھے۔ ایک دن کے کام کا محنتانہ 60 روپے اور شام کو سموسے کے ساتھ ایک کپ چائے ملتی تھی۔ اس وقت 25 پیسے کپ چائے تھی۔ کئی لوگ گھر چلانے کے لیے معموں کی چھنٹائی کا کام کیا کرتے تھے۔ تقریباً 500 معموں کو ایک دھاگے میں پرویا جاتا تھا۔ اسے لاٹ کہتے تھے۔ ایک آدمی کو یہ لاٹ دیکھنے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگتا تھا۔ معمہ چیک کرنے والوں کو ایک پنسل دی جاتی تھی۔ اس کے ایک طرف لال رنگ ہوتا تھا، دوسری طرف نیلا رنگ۔ لال رنگ صحیح غلط کا نشان لگانے کے لیے، نیلا رنگ ٹک مارنے کے لیے۔ پنسل چھیلنے کے لیے کچھ لوگ مامور ہوتے تھے تاکہ وقت برباد نہ ہو۔ معمہ چیک کرنے والوں پر ایک سپروائزر ہوتا تھا۔ وہ معمہ چیک کرنے والوں سے نہایت بدتمیزی سے پیش آتا تھا۔ لوگ معموں کے ساتھ خط بھی بھیجا کرتے تھے۔ ایک خط پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ بجنور کی طرف کے کسی صاحب نے مدیر شمع سے التجا کی تھی کہ معموں کی وجہ سے تباہ ہو گیا ہوں۔ ایک انعام دے دیجیے لیکن ان کے بھیجے ہوئے 15-20 معموں میں سے ایک بھی صحیح نہیں تھا۔

***
بشکریہ:
روزنامہ راشٹریہ سہارا، 'امنگ' اتوار ایڈیشن۔ 26/مئی 2019

The Rise and fall of Shama magazine, Delhi. Article: Dr. Abrar Rehmani

1 تبصرہ:

  1. دلچسپ مضمون ہے - شمع پاکستان میں بھی بہت مقبول تھا- آج بھی پرانے رسالے فروخت کرنے والے بتاتے ہیں کہ شمع کی آج بھی بہت مانگ رہتی ہے- لوگ آج بھی پرانے رسالے فروخت کرنے والوں سے شمع کا تقاضا کرتے رہتے ہیں- ہو ٹیوب چینل Shahkarurdu پر بھی شمع کے متعلق کچھ مواد موجود ہے- شکریہ - سید وجییہ الحسن بخآری -سیالکوٹ پاکستان 3456748968+

    جواب دیںحذف کریں