آشفتہ بیانی میری - رشید احمد صدیقی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-05-26

آشفتہ بیانی میری - رشید احمد صدیقی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

aashufta-bayani-meri-rasheed-ahmad-siddiqui
علی گڑھ کے بارے میں رشید احمد صدیقی کہتے ہیں کہ اس نے اردو شعر و ادب کو بہت سی نامناسب پابندیوں سے نجات دلا کر زندگی اور زمانے کے نئے تقاضوں سے آشنا، مربوط و مستحکم کیا۔ "آشفتہ بیانی میری" اسی علی گڑھ کے بارے میں رشید احمد صدیقی کے ذاتی خیالات اور تاثرات ہیں جو کتابی شکل میں پہلی بار فروری 1958 میں شائع ہوئی اور بعد میں جس کے متعدد ایڈیشن منظر عام پر آئے۔
زیرنظر ایڈیشن جون 1962 میں شائع شدہ تیسرا ایڈیشن ہے اور تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔
تقریباً ڈیڑھ سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 8 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

رشید احمد صدیقی (پ: 24/دسمبر 1892 - م: 15/جنوری 1977) اترپردیش کے علاقے جونپور قصبہ مڑیاہو میں پیدا ہوئے۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ علی گڑھ ہی میں گزرا۔ آپ علی گڑھ میں درس و تدریس سے جڑے رہے لہذا ان کی تحریروں میں علی گڑھ کا عکس نظر آتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی تحریروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے اردو کے کلاسیکی سرمائے سے گہری واقفیت ضروری ہے۔
رشید احمد صدیقی کی ایک کتاب "مضامینِ رشید" کی پی۔ڈی۔ایف فائل تعمیر نیوز پر پیش کی جا چکی ہے۔

"آشفتہ بیانی میری" کے اولین ایڈیشن کے دیباچے میں رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں:
جہاں جائیں وہاں تیرا فسانہ چھیڑ دیتے ہیں
کوئی محفل ہو تیرا رنگِ محفل یاد آتا ہے
علی گڑھ مجھے عزیز ہے، اس کی کوتاہیوں کے باوجود اگر وہ قابل اعتنا ہوں۔ یقیناً ان عزیزوں اور بزرگوں کو بھی عزیز ہوگا جن کو اس نے اپنے فیضِ تربیت سے اخلاص و افتخار سے رہنے سہنے اور دوسروں کو رکھنے کا سلیقہ اور حوصلہ دیا اور انسانی زندگی جن قیمتی اقدار و روایات کے سہارے نمو و نمود پاتی اور برگ و بار لاتی ہے ان سے آشنا کیا۔ بیالیس سال تک مسلسل جس کو علی گڑھ نے اپنی ان نعمتوں سے بہرہ مند رکھا ہو، علی گڑھ کے بارے میں اس کے تصورات و تاثرات اگر
بےربطیِ شیرازۂ اجزائے "حواس"
کی حد تک پہنچتے ہوں تو کیا تعجب۔

علی گڑھ سے میری یہ عقیدت ذاتی ہی نہیں ہے اس اعتبار سے کہ مسلمانوں کا یہ ادارہ جب سے قائم ہے، جس کو آج کم و بیش بیاسی سال ہونے کو آئے ، اس کے دروازے بلاامتیاز مذہب و مسلک، رنگ و نسل، امارت و افلاس، ہر طالب، ہر معلم، ہر اہلکار اور اہلِ حرفہ کے لیے کھلے رہے۔ آج ہندوستان میں کوئی سرکاری یا غیرسرکاری تعلیم گاہ علی گڑھ کے سوا نظر نہ آئے گی، جہاں اتنے اور اس طرح کے لوگ جن کا ذکر اوپر آیا ہے، یکساں فراغت و فخر سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے سہتے کام کرتے اور خوش رہتے ہوں جتنے علی گڑھ میں۔ علی گڑھ کی اس نمایاں و بےنظیر خدمت و خصوصیت کو ان لوگوں نے خاص طور پر نہیں پہچانا جن کو سب سے پہلے اور سے بعد تک پہچاننا چاہیے تھا، اس لیے کہ وہ اپنے میں یہ امتیاز پیدا کر کے ملک کی بڑی مبارک خدمت کر سکتے تھے!
علی گڑھ کی یہ خدمت بھی ہمشیہ فخر سے یاد رکھی جائے گی کہ اس نے اردو شعر و ادب کو بہت سی نامناسب پابندیوں سے نجات دلا کر زندگی اور زمانے کے نئے تقاضوں سے آشنا، مربوط و مستحکم کیا۔ جدید اردو کے بیشتر اسالیب اور صحت مند رجحانات و روایات علی گڑھ کے دیے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اردو کے تحفظ و ترقی میں جیسی بروقت اور بیش بہا خدمات ، براہ راست یا بالواسطہ ، قیامِ کالج سے آج تک علی گڑھ نے انجام دی ہیں وہ ایک گراں بہا ورثہ اور قابلِ قدر روایت کی حیثیت سے ہم تک پہنچی ہیں، جن کی نگہداشت و احترام بہر گونہ ہم پر لازم آتی ہے۔
زمانہ اور زندگی بےاندازہ تیزی اور شدت سے منقلب ہو رہے ہیں جیسے:
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں
مسلمہ اقدار و قابل قدر روایات زد میں ہیں۔ ان کے وزن اور وقعت میں تذبذب اور تزلزل راہ پانے لگا ہے۔ علی گڑھ بھی اس دور سے گزر رہا ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ زندگی کے نت نئے مسائل اور مطالبے علی گڑھ کے "شب و روز و ماہ و سال" پر کس حد تک اثرانداز ہوں گے۔ اس لیے اندیشہ گزرا کہیں ایسا نہ ہو کہ اس شاندار اور فیض بخش ادارے کے کارناموں سے آئیندہ نسل ناآشنا رہ جائے اور کچھ اس طرح کا سانحہ پیش آئے جس کی طرف حالی نے اشارہ کیا ہے ع
بھول جائیں گے کہ تھے کن ڈالیوں کے ہم ثمر !
آیندہ صفحات میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے وہ علی گڑھ کے بارے میں میرے ذاتی خیالات اور تاثرات ہیں اور زیادہ تر مجھی سے متعلق ہیں۔ ان میں کہیں دراز نفسی ملے گی ، کہیں ژولیدہ بیانی ، کہیں خود کلامی یا حدی خوانی۔ ایک آدھ جگہ خام خیالی بھی۔ جابجا "رندانِ درِ میکدہ" کی گستاخی نظر آئے گی۔ فقیہ شہر یا ملائے مکتب کے فیصلے یا فضیحتے سے بھی سابقہ ہو تو عجب نہیں، لیکن ان سب پر بھاری وہ منطق ہے جو اس شعر میں ملے گی:
حدیث دلکش و افسانہ از افسانہ می خیزد
دگر از سرگرفتم قصۂ زلفِ پریشاں را

"قصۂ زلفِ پریشاں" میں یہ سب (اکثر ان سے زیادہ بھی) انگیز کرنا پڑتا ہے۔ اس سے اپنی ہی کوتاہیوں کی جواب دہی مقصود نہیں ہے، ان سطور کے پڑھنے والوں کے بھی کسی نہ کسی قصۂ زلف پریشاں کی جواب دہی مدنظر ہے! اگر ان خیالات و تاثرات سے کسی کو اتفاق ہو تو مجھے بڑی خوشی ہوگی۔ اختلاف ہو تو تعجب نہ ہوگا۔ علی گڑھ سے متعلق بعض دوستوں اور عزیزوں کے خیالات یقیناً ویسے نہ ہوں گے جیسے کہ میرے ہیں۔ وہ علی گڑھ کو اس رنگ میں اور اس طرح پر دیکھنا چاہتے ہوں گے جو ان کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ لاریب یہ بھی علی گڑھ کی خیر اندیشی میں ہوگا۔
لیکن جیسا کہ وقتاً فوقتاً اعتراف کرتا رہا ہوں میں بذات خود کچھ "مقامی" سا آدمی واقع ہوا ہوں، "آفاقی" یا "ماورائی" قسم کا ہونے کی نہ صلاحیت رکھتا ہوں نہ حوصلہ نہ ہوس۔ اس لیے میری فکر و نظر بھی محدود اور "آنی و فانی" قسم کی چیز ہے۔ ہر شخص کی ہمت اس کی طبعی اور ذہنی صلاحیتوں کے مطابق ہوتی ہے، اس لیے اگر میں علی گڑھ کو اصغر مرحوم کے اس شعر سے تطبیق دیتا آیا ہوں یا دے لیا کرتا ہوں تو کیا ہرج:
یہی تھوڑی سی مے ہے اور یہی چھوٹا سا مےخانہ
اسی سے رند رازِ گنبدِ مینا سمجھتے ہیں !

میری "ہمت" یقیناً بلند نہیں ہے ، اس لیے ممکن ہے "پیش خدا و خلق" میرا اعتبار کچھ زیادہ نہ ہو، بایں ہمہ خود اپنی نظر میں کچھ ایسا نامعتبر بھی نہیں ہوں۔

- رشید احمد صدیقی
15/فروری 1958ء

***
نام کتاب: آشفتہ بیانی میری
مصنف: رشید احمد صدیقی
تعداد صفحات: 151
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 8 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Aashufta Bayani Meri_Rasheed Ahmad Siddiqui.pdf

Direct Download link:

Aashufta Bayani Meri. by Rasheed Ahmad Siddiqui, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں