(اقبال کی نظم "شکوہ" کی پیروڈی)
کیوں زیاں کار بنوں ، نطق فراموش رہوں |
فکرِ فردا نہ کروں، غافل و بے ہوش رہوں |
طعنے اپنوں کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں |
کوئی پیدائشی گونگی ہوں کہ خاموش رہوں |
. |
جرات آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو |
شکوہ تجھ سے ہی بہت خاک وطن ہے مجھ کو |
. |
ہے بجا شعبۂ تعلیم میں مشہور ہوں میں |
پھر بھی اسکول سے کالج سے بہت دور ہوں میں |
اب مکانوں سے دکانوں سے بھی کافور ہوں میں |
ایک زندانِ سیاست ہی میں محصور ہوں میں |
. |
اے وطن میری تباہی کی کتھا بھی سن لے |
ایک مجبور سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے |
. |
تیری تہذیب و تمدن ہیں زمانے میں عظیم |
تیری دھرتی پہ ہیں کب سے کئی اقوام مقیم |
یوں تو موجود یہاں کتنی زبانیں تھیں قدیم |
مجھ سے پیدا ہوا لوگوں میں مگر ذوق سلیم |
. |
مجھ سے بس اہل تعصب کو پریشانی تھی |
ورنہ دنیا مرے اسلوب کی دیوانی تھی |
. |
مجھ سے پہلے تھا عجب تیری زبانوں کا اثر |
کہیں اظہار کے پتھر، کہیں لہجہ کنکر |
کہیں الفاظ پہ رک جاتی تھی لنگڑا کے نظر |
سیکھتا پھر کوئی معذور زبانیں کیونکر |
. |
آکے میں نے ہی تغزل سے بھرا جام ترا |
میں نے پھولوں کی زبانوں سے لیا نام ترا |
. |
محفل خورد و کلاں میں صفتِ جام پھری |
لے کے آسان قواعد سحر و شام پھری |
لکھنؤ ، دلی و پنجاب تا آسام پھری |
کیا کبھی کام سے اپنے کہیں ناکام پھری |
. |
شہر تو شہر ہیں قریے بھی نہ چھوڑے میں نے |
دور، دیہات میں دوڑا دئیے گھوڑے میں نے |
. |
فتنہ پرداز یہ کہتے ہیں غزل خواں گئے |
طنز کرتے ہیں کہ اردو کے نگہبان گئے |
میرؔ و غالبؔ سے سخنور بھی پریشان گئے |
اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے دیوان گئے |
. |
ان کے طعنوں کا بھی احساس تجھے ہے کہ نہیں |
ان بزرگوں کا بھی کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں |
. |
ریختی میرؔ کی اور فیضؔ کی اردو بھی وہی |
میرے تیور بھی وہی حسن کا جادو بھی وہی |
اے مرے پیارے وطن میں بھی وہی تو بھی وہی |
تیری مٹی کی مری روح میں خوشبو بھی وہی |
. |
پھر یہ بیزارگی یہ چشمِ غضب کیا معنی |
مجھ سے غیروں کا سا برتاؤ یہ اب کیا معنی |
. |
میں تو پیدا ہوئی بھارت میں محبت کے لیے |
سب برتتے ہیں مگر اپنی ضرورت کے لیے |
مہرۂ خاص ہوں اربابِ سیاست کے لیے |
نعرۂ زود اثر ہوں میں حکومت کے لیے |
. |
جب بھی آتا ہے الیکشن تو میں یاد آتی ہوں |
ورنہ پھر سب کے دماغوں سے نکل جاتی ہوں |
. |
سرپرستی رہی نیتاؤں کی مانندِ سراب |
مجھ پہ ٹوٹا ہے بہت ان کی عنایت کا عذاب |
ان کے حیلوں کی کوئی حد نہ بہانوں کا حساب |
میں نے دیکھے ہیں بہت ان کے دکھائے ہوئے خواب |
. |
فطرتاً ان کی طبیعت میں اداکاری ہے |
ان کے وعدوں سے بہلنا مری بیماری ہے |
. |
اک زمانے سے جنہیں گھاس نہ ڈالی دنیا |
کر رہی ہے انہیں لہجوں کی جگالی دنیا |
ہر طرف اور زبانوں نے سنبھالی دنیا |
رہ گئی میرے لیے صرف خیالی دنیا |
. |
اے وطن میرا ٹھکانہ بھی کہیں ہے کہ نہیں |
تیری وسعت میں کوئی میری زمیں ہے کہ نہیں |
Shikwah Urdu ka, apne watan se. Satiric poem by: Talib Khundmiri
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں