شکوہ - اردو کا اپنے وطن سے - طالب خوند میری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-05-28

شکوہ - اردو کا اپنے وطن سے - طالب خوند میری

shikwah-urdu-ka-apne-watan-se
(اقبال کی نظم "شکوہ" کی پیروڈی)

کیوں زیاں کار بنوں ، نطق فراموش رہوں
فکرِ فردا نہ کروں، غافل و بے ہوش رہوں
طعنے اپنوں کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
کوئی پیدائشی گونگی ہوں کہ خاموش رہوں
.
جرات آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ تجھ سے ہی بہت خاک وطن ہے مجھ کو
.
ہے بجا شعبۂ تعلیم میں مشہور ہوں میں
پھر بھی اسکول سے کالج سے بہت دور ہوں میں
اب مکانوں سے دکانوں سے بھی کافور ہوں میں
ایک زندانِ سیاست ہی میں محصور ہوں میں
.
اے وطن میری تباہی کی کتھا بھی سن لے
ایک مجبور سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
.
تیری تہذیب و تمدن ہیں زمانے میں عظیم
تیری دھرتی پہ ہیں کب سے کئی اقوام مقیم
یوں تو موجود یہاں کتنی زبانیں تھیں قدیم
مجھ سے پیدا ہوا لوگوں میں مگر ذوق سلیم
.
مجھ سے بس اہل تعصب کو پریشانی تھی
ورنہ دنیا مرے اسلوب کی دیوانی تھی
.
مجھ سے پہلے تھا عجب تیری زبانوں کا اثر
کہیں اظہار کے پتھر، کہیں لہجہ کنکر
کہیں الفاظ پہ رک جاتی تھی لنگڑا کے نظر
سیکھتا پھر کوئی معذور زبانیں کیونکر
.
آکے میں نے ہی تغزل سے بھرا جام ترا
میں نے پھولوں کی زبانوں سے لیا نام ترا
.
محفل خورد و کلاں میں صفتِ جام پھری
لے کے آسان قواعد سحر و شام پھری
لکھنؤ ، دلی و پنجاب تا آسام پھری
کیا کبھی کام سے اپنے کہیں ناکام پھری
.
شہر تو شہر ہیں قریے بھی نہ چھوڑے میں نے
دور، دیہات میں دوڑا دئیے گھوڑے میں نے
.
فتنہ پرداز یہ کہتے ہیں غزل خواں گئے
طنز کرتے ہیں کہ اردو کے نگہبان گئے
میرؔ و غالبؔ سے سخنور بھی پریشان گئے
اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے دیوان گئے
.
ان کے طعنوں کا بھی احساس تجھے ہے کہ نہیں
ان بزرگوں کا بھی کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
.
ریختی میرؔ کی اور فیضؔ کی اردو بھی وہی
میرے تیور بھی وہی حسن کا جادو بھی وہی
اے مرے پیارے وطن میں بھی وہی تو بھی وہی
تیری مٹی کی مری روح میں خوشبو بھی وہی
.
پھر یہ بیزارگی یہ چشمِ غضب کیا معنی
مجھ سے غیروں کا سا برتاؤ یہ اب کیا معنی
.
میں تو پیدا ہوئی بھارت میں محبت کے لیے
سب برتتے ہیں مگر اپنی ضرورت کے لیے
مہرۂ خاص ہوں اربابِ سیاست کے لیے
نعرۂ زود اثر ہوں میں حکومت کے لیے
.
جب بھی آتا ہے الیکشن تو میں یاد آتی ہوں
ورنہ پھر سب کے دماغوں سے نکل جاتی ہوں
.
سرپرستی رہی نیتاؤں کی مانندِ سراب
مجھ پہ ٹوٹا ہے بہت ان کی عنایت کا عذاب
ان کے حیلوں کی کوئی حد نہ بہانوں کا حساب
میں نے دیکھے ہیں بہت ان کے دکھائے ہوئے خواب
.
فطرتاً ان کی طبیعت میں اداکاری ہے
ان کے وعدوں سے بہلنا مری بیماری ہے
.
اک زمانے سے جنہیں گھاس نہ ڈالی دنیا
کر رہی ہے انہیں لہجوں کی جگالی دنیا
ہر طرف اور زبانوں نے سنبھالی دنیا
رہ گئی میرے لیے صرف خیالی دنیا
.
اے وطن میرا ٹھکانہ بھی کہیں ہے کہ نہیں
تیری وسعت میں کوئی میری زمیں ہے کہ نہیں

Shikwah Urdu ka, apne watan se. Satiric poem by: Talib Khundmiri

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں