قحط الرجال - از مختار مسعود - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-05-29

قحط الرجال - از مختار مسعود

mukhtar-masood-awaz-e-dost
قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔ مرگ انبوہ کا جشن ہو تو قحط، حیاتِ بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔ ایک عالم موت کی ناحق زحمت کا دوسرا زندگی کی ناحق تہمت کا۔ ایک سماں حشر کا دوسرا محض حشرات الارض کا۔ زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط سے زیادہ قحط الرجال کا غم کھاتے ہیں۔
بستی، گھر اور زبان خاموش۔ درخت، جھاڑ اور چہرے مرجھائے۔ مٹی، موسم اور لب خشک۔ ندی، نہر اور حلق سوکھے۔ جہاں پانی موجیں مارتا تھا وہاں خاک اڑنے لگی، جہاں سے مینہ برستا تھا وہاں سے آگ برسنے لگی۔ لوگ پہلے نڈھال ہونے پھر بےحال۔ آبادیاں اجڑ گئیں اور ویرانے بس گئے۔ زندگی نے یہ منظر دیکھا تو کہیں دور نکل گئی، نہ کسی کو اس کا یارا تھا نہ کسی کو اس کا سراغ۔ یہ قحط میں زمین کا حال تھا۔

ابر دل کھول کر برسا، چھوٹے چھوٹے دریاؤں میں بھی پانی چڑھ آیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا جل تھل ہوا کہ سبھی تر دامن ہو گئے۔ دولت کا سیلاب آیا اور قناعت کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا۔ علم و دانش دریا برد ہوئے اور ہوش و خرد مئے ناب میں غرق۔ دن ہوا و ہوس میں کٹنے لگا اور رات ناؤ نوش میں۔ دن کی روشنی اتنی تھی کہ آنکھیں خیرہ ہو گئیں، رات کا شور اتنا بلند تھا کہ ہر آواز اس میں ڈوب گئی۔ کارواں نے راہ میں ہی رختِ سفر کھول دیا۔ لوگ شاد باد کے ترانے گانے لگے، گرچہ منزل مراد ابھی بہت دور تھی۔ زندگی نے یہ منظر دیکھا تو کہیں دور نکل گئی، نہ کسی کو اس کا یارا تھا نہ کسی کو اس کا سراغ۔ یہ قحط الرجال میں اہل زمین کا حال تھا۔ شاعر نے جو یہ حال دیکھا تو نوحہ لکھا:
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں

دل گرفتگی نے کہا ایسی شادابی اس ویرانی پر قربان جہاں مادر ایام کی ساری دختران آلام موجود ہوں مگر وبائے قحط الرجال نہ ہو۔ اس وبا میں آدمی کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ مردم شماری ہو تو بےشمار، مردم شنای ہو تو نایاب۔ دل کی خاطر مجھے منظور تھی کہ اس کو آزردہ رکھنا کفر ہے۔ اس کی کشادگی کے بہت سے طریق ہیں جو موقع کی مناسبت سے اختیار کرتا ہوں۔
مجھے یاد آیا کہ دل جوئی کے لیے ایک بادشاہ چھپ کر اپنی پرانی پوستین سر آنکھوں سے لگاتا تھا۔ ہر شخص کے پاس اس کی پوستین ہوتی ہے مگر اکثر اس سے منکر ہو جاتے ہیں کیونکہ اسے قبول کرنے کے لیے جس جرات کی ضرورت ہوتی ہے اس کی کمیابی قحط الرجال کی پہلی نشانی ہے۔ خود فراموشی کے فریب سے بچنے کے لیے پوستین ہمیشہ سنبھال کر رکھنی چاہے اور جب دل تنگ ہو جائے یا سنگ بن جائے تو اس سے کشادگی اور گداختگی مستعار لینی چاہیے۔ میرے پاس سر و چشم پر رکھنے کے لیے چند چیزیں ہیں جو میں نے ایک بے رنگ آہنی صندوقچی میں رکھی ہوئی ہیں۔ پرائمری اسکول میں یہ میرا بستہ ہوا کرتا تھا۔ اب اس سے بہت سے کام لیتا ہوں۔ یہ کبھی پوستین ہے، کبھی چراغ اور کبھی جامِ مے۔ میں اس کی رعایت سے کبھی سبکتگین بن جاتا ہوں کبھی الہ دین اور کبھی جمشید یعنی کبھی خودشناس، کبھی دم بخود اور کبھی خود مختار۔ میرے اس بستے میں تحریروں، تصویروں اور تمغوں کے ساتھ ایک چھوٹی سی البم رکھی ہوئی ہے۔

13/ ستمبر 1938 کا ذکر ہے، میں مسلم یونیورسٹی ہائی اسکول میں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ والد محترم نے فرمایا کہ آج ایک چینی مسلمان عالم ہمارے گھر چائے پر آئے گا، مجھے چاہیے کہ اس سے ملوں اور اس کے آٹو گراف حاصل کروں۔ مہمان کی آمد کی وجہ سے گھر میں سب مصروف تھے مگر اس تجویز کے بعد میری مصروفیت دوسروں سے کچھ زیادہ بڑھ گئی۔ نہ میرے پاس آٹو گراف البم تھی، نہ آٹو گراف حاصل کرنے کا تجربہ۔
میں اس کے آداب سے بالکل ناواقف تھا اور واقفیت حاصل کرنے کے لیے صرف دو گھنٹے ملے تھے۔ میں بازار گیا۔ ورما فوٹوگرافر کے یہاں بہت سے البم پڑے تھے۔ مجھے نیلے رنگ کی یہ چھوٹی سی آٹوگراف البم پسند آئی، جس میں مختلف رنگوں کے صفحات لگے ہوئے تھے اور جلد پر البم کا لفظ سنہرا چھپا ہوا تھا۔ اس کی قیمت صرف چھ آنے تھی۔ اس وقت بھی وہ البم مجھے قیمتی لگی اور میں آج بھی اسے بیش قیمت سمجھتا ہوں، البتہ ان دنوں وجہ کچھ اور تھی اور ان دنوں کچھ اور۔
سہ پہر جب میں نے نامانوس خال و خط کے مہمان کے سامنے اسے پیش کیا تو بڑی مانوس مسکراہٹ اور شفقت سے انہوں نے میری طرف دیکھا، کچھ باتیں ابا جان سے کیں اور قلم ہاتھ میں لے کر چینی زبان میں تین سطریں لکھیں پھر ان کا لفظی ترجمہ انگریزی میں کر دیا اور دستخط کر کے البم مجھے واپس کردی۔ میں بہت خوش ہوا حالانکہ نہ چینی سمجھ میں آئی نہ انگریزی۔ ہر اچھے آدمی کے گرد ایک ہالہ ہوتا ہے، اس کے نزدیک جائیں تو دل خود بخود منور ہو جاتا ہے۔
آج میں روشنی کے اس حلقے میں پہلی بار داخل ہوا، اپنے اندھیرے چھٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔ یہ خوشی کے ساتھ تعجب کی بات بھی تھی۔ اس چینی پروفیسر نے چینی زبان میں لکھنا شروع کیا تو مجھے حیرت ہوئی کہ سطریں اوپر سے بچے کی طرف آتی ہیں۔ چیرت اس وقت دور ہوئی جب یہ سمجھ آیا کہ ہر اچھی بات الہامی ہوتی ہے اور الہام نازل ہوا کرتا ہے۔ معزز مہمان نے چینی زبان میں میری البم میں جو کچھ لکھا تھا اس کی قدر و قیمت مجھے بہت دنوں کے بعد معلوم ہوئی اور یہ بہت سے دن میں نے ایک تلاش میں صرف کیے ہیں۔

محمد ابراہیم شاکیوچن تو دستخط کرنے اور چائے پینے کے بعد رخصت ہو گئے۔ وہ ایک طویل سفر پر نکلے ہوئے تھے اور ان کے دستخط کی بدولت میں بھی ایک طویل سفر پر نکل کھڑا ہوا۔ میرا یہ سفر آج بھی جاری ہے۔
شروع میں یہ بات بڑی آسانی لگی کہ کسی بڑے آدمی کے دستخط حاصل کیے جائیں گے مگر جونہی میں نے دوسرا ورق الٹا اور سوچنے لگا کہ اب کس کے آٹو گراف لیے جائیں تو بات ہاتھ سے نکل گئی۔ میں نے والد محترم سے رہنمائی چاہی تو ہدایت ملی کہ آٹو گراف البم کے صفحات ہوں یا زندگی کا ورق سادہ، انہیں یونہی نہیں بھرنا چاہیے۔ جاؤ نگہ انتخاب کو کام میں لاؤ، بڑے آدمی زندگی میں کم اور کتابوں میں زیادہ ملیں گے۔ ان سے تعارف کے لیے کارلائل سے مدد مانگو، ان سے ملاقات کے لیے پلوٹارک کے پاس جاؤ۔ ان کو سمجھنے کے لیے سعدی سے لے کر سیموئل سمائل تک سب کے دروازے پر دستک دو۔

راہ کا نشان اتنا واضح ملا تو سفر شروع ہو گیا۔ پہلی منزل نہ عظیم مصنف تھے نہ ضخیم کتاہیں۔ یہ سفر تو بچوں کی کہانیوں کی چھوٹی سی پگڈنڈی پر شروع ہوا۔ اسکول میں انعام تقسیم ہوئے تو ایک کتاب جس کا عنوان "بہادر لڑکا" تھا، میرے حصے میں آئی۔ یہ ایک ولندیزی بچے کی کہانی تھی جو سرما کی ایک شام سمندری پشتے پر جا رہا تھا کہ اس کی نظر ایک چھوٹے سے سوراخ پر پڑی۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ گاؤں جا کر اس کی خبر کرے گا تو اتنی دیر میں پانی کے زور سے پشتے میں شگاف ہو جائے گا اور پھر وہ ساری بستیاں اور وہ سارے کھيت جو سطح سمندر سے نیچے ہیں، غرق ہو جائیں گے۔
وہ اس سوراخ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا۔ رات آئی تو وہ اسی حالت میں سو گیا۔ پہلے سردی اور پھر موت سے اس کا جسم اکڑ گیا مگر ننھا سا ہاتھ جوں کا توں پشتے کے چھوٹے سے سوراخ پر رکھا رہا۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے دیکھا کہ ان کا محسن ایک بہادر لڑکا ہے۔

میرے سفر کی یہ پہلی منزل تھی۔ اس کا نقش دوسری ساری منزلوں سے گہرا اور روشن ہے۔ یہ منزل جرات اور قربانی کی منزل تھی، اس کے بہت سے نام ہیں اور وہ نام جس سے اس کی ساری عظمتیں عیاں ہوتی ہیں، شہادت کہلاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

***
ماخوذ از رسالہ:
اردو بک ریویو (اکتوبر/نومبر/دسمبر/2018)

Qaht-ur-Rajaal. Article by: Mukhtar Masood

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں