تعلیم فرقہ وارانہ نہیں بنائی جا سکتی - نواب صاحب چھتاری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-05-09

تعلیم فرقہ وارانہ نہیں بنائی جا سکتی - نواب صاحب چھتاری

nawab-sahib-chatari
ہز اکسلنسی نواب صاحب چھتاری کا خطبہ افتتاحیہ پیش خدمت ہے جو انہوں نے بمبئی صوبائی مسلم تعلیمی کانفرنس منعقدہ پونہ (1944) میں دیا تھا۔ یہ خطبہ (سابق) ریاست حیدرآباد دکن کے محکمۂ اطلاعات کی طرف سے شائع کیے جانے والے سرکاری ماہنامے "معلوماتِ حیدرآباد" کے شمارہ اکتوبر-1944 میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔
لیفٹینٹ کرنل سعید الملک نواب سر محمد احمد سعید خان المعروف نواب صاحب چھتاری، سابق ریاست حیدرآباد دکن کی نظام حکومت میں دو مرتبہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے تھے (ستمبر-1941 تا اگست-1946 اور مئی-1947 تا نومبر-1947)۔ آپ کی پیدائش 12/دسمبر 1888 کو اور وفات سن 1982 میں ہوئی۔ آپ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے۔ 12/نومبر 1930 کو لندن میں ہونے والی پہلی گول میز کانفرنس کے مسلمان وفد میں آپ نے بھی محمد علی جناح، آغا خان سوم، سر ظفر اللہ خان اور مولوی فضل الحق کے ہمراہ شرکت کی تھی۔

اپنی مدد آپ کرنے کی ضرورت
"ہماری جدید تعلیم میں بعض ایسے عناصر کی افسوس ناک کمی پائی جاتی ہے جو دوسروں کے حقوق کا احترام سکھاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر انسانی زندگی سے محبت اور صحیح ترین مفہوم میں خدا کا خوف ہمارے دلوں میں پیدا کرتے ہیں۔"
یہ وہ خیال ہے جو ہز اکسلنسی نواب صاحب چھتاری صدر اعظم باب حکومت سرکار عالی (ریاست حیدرآباد دکن) نے بمبئی کی صوبائی مسلم تعلیمی کانفرنس کے اجلاس منعقدہ پونہ میں اپنے خطبہ افتتاحیہ کے دوران میں ظاہر فرمایا۔
ہز اکسلنسی نے عام تعلیم کی اہمیت کو گھٹائے بغیر ایک ایسا نظام قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا جس کی بدولت طلبا کے رجحانات آسانی سے بدل کر حرفتی یا پیشہ ورانہ تعلیم کی جانب رجوع ہو سکٰیں۔ آپ نے طلبا کے درمیان عام معلومات کی کمی پر افسوس ظاہر کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے ایسے رہ جاتے ہیں جو مسائل حاضرہ کو غلط سمجھتے ہیں یا ان پر صحیح نظر و بصیرت سے قاصر رہتے ہیں۔

ہر بات میں حکومت سے امداد کی توقع وابستہ کرنے کے رجحان پر اظہار ناپسندیدگی فرماتے ہوئے نواب صاحب نے اس بات کی سخت ضرورت ظاہر کی کہ ملک میں تعلیمی سہولتوں کی توسیع کے لئے اپنی مدد آپ کرنے کا ایک باقاعدہ نظام قائم کیا جائے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ :
"جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ وظائف کا ایک وسیع نظام ہے اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اسی ضمن میں اس عام غلطی کو جو حکومت سے اس قسم کی پوری امداد طلب کرنے میں کی جاتی ہے واضح کر دوں۔۔۔"

مرہٹوں کی سرگرمیوں کا محور
ہندوستان کی تاریخ میں پونہ کو جوا اہمیت حاصل ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے نواب صاحب نے فرمایا کہ :
"سب سے پہلے میں اس تاریخی مقام کو جہاں ہم آج جمع ہوئے ہیں، خراج تحسین ادا کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پونہ نے ہندوستان کی تاریخ بنانے میں ایک نہایت اہم حصہ لیا ہے اور بہت سے انقلابات دیکھے ہیں۔ یہ مقام دو صدی سے زیادہ مدت تک مرہٹہ روایات اور مرہٹہ زندگی کا محور رہ چکا ہے اور پیشواؤں کا دور حکومت ختم ہونے کے بعد بھی بیشتر سیاسی سماجی اور ذہنی سر گرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ آپ کی مجلس استقبالیہ کے صدر نے یہاں کئی کالجوں کی موجودگی کا ذکر کیا ہے جن میں ایک زرعی کالج بھی ہے۔ مزید برآں میں ان خصوصی کوششوں کا تذکرہ کروں گا جو چند فاضل اشخاص کی محنت و کاوش سے مرہٹہ تاریخ کی گتھیاں سلجھانے اور اس شعبے میں تحقیقات کو ترقی دینے کے لئے بروئے کار آئی ہیں۔ اسی طرح جو شمع اناڈے اور راج واڈے نے روشن کی تھیں اب دوسرے فاضلوں کے ہاتھ میں رہنمائی کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ میں اس موقع پر خصوصیت کے ساتھ پونہ اور حیدرآباد کے اس ادبی تاریخی ارتباط کا بھی ذکر کروں گا جو پونہ اور حیدرآباد کے درمیان قائم ہے اور اس واقعے کا بھی اظہار کروں گا کہ جو منصب میرے تفویض ہے اس کے فرائض میں بہت سی مرہٹہ آبادی کا نظم و نسق بھی شامل ہے۔ چنانچہ ماضی کے گہرے تعلقات آج تک قائم ہیں۔"

تاریخ کی تعلیم
"مجھے یقین ہے کہ اس موضوع پر اظہار خیال کرتے وقت آپ مجھے چند باتیں تاریخ اور اس کی تعلیم کے متعلق کہنے کی اجازت دیں گے۔ افسوس ہے کہ گزشتہ زمانے میں ہمارے درمیان جو لڑائیاں اور مخالفتیں رہ چکی ہیں ان کی بناء موجودہ زمانے میں بھی فرقہ وارانہ دشمنی قرار دی جاتی ہے اور جو تاریخیں لکھی گئی ہیں خواہ ان کے ماخذ دونوں میں سے کسی گروہ سے متعلق ہوں اکثر و بیشتر فرقہ وارانہ نقطہ نظر کی آئینہ دار ہوتی ہیں اور بسا اوقات ایسے معقول واقعات و حقائق سے خالی ہوتی ہیں جو بہت اہم اور زیادہ ضروری ہوتے ہیں۔ جنوب کے خلاف شمالی علاقوں کی آویزش نے مغلوں کو مسلم سلطنتوں سے بھی اسی طرح برسر پیکار رکھا جس طرح ان مرہٹوں سے جنہوں نے شیواجی کی قیادت میں ان مسلمان سلطنتوں سے دوستانہ تعلقات پیدا کئے اور ان سے مل کر مغلوں کے خلاف متحد ہو گئے۔ مرہٹوں نے بڑی آزادی سے مغل ادارات سے استفادہ کیا یہاں تک کہ اصطلاحات اور الفاظ بھی ان سے مستعار لئے جو آج بھی مرہٹی زبان میں موجود ہیں۔ دوسری طرف اورنگ زیب اعظم نے جو اسی فرقہ وارانہ تعبیر کا شکار رہ چکے ہیں ہندو معبدوں اور تیرتھوں کے لئے جاگیریں مقرر کیں جن کا احترام اس وقت سے اب تک جنوب کے رئیس اور فرمانروا کرتے آئے ہیں۔ مسلمان بادشاہوں کو اپنے ہندو وزیر رکھنے پر فخر رہا ہے۔ رواداری کی یہ روایت آج بھی ان رقمی امدادوں اور زمینوں کی صورت میں موجود ہے جو شاہان خانوادہ آصفیہ نے ہندو مندروں کو عطا کی تھیں اور یہ واقعہ بھی اس روایت کا شاہد ہے کہ حیدرآباد میں مسلمانوں کی کئی مسجدں اور درگاہوں کے متولی یا محافظ ہندو ہیں۔ حیدرآباد کے موجودہ فرمانروا نے اپنی ہندو رعایا کے مذہبی جذبات کو ٹھیس لگنے کے خیال سے جو فرمان بقر عید میں ذبیحہ گاؤ ممنوع قرار دینے کی نسبت صادر فرمایا اس میں بھی یہی جذبہ کار فرما ہے۔"

تعلیم کی غیر فرقہ وارانہ نوعیت
"یہ ضروری نہیں کہ یہ کانفرنس ایک مسلم تعلیمی کانفرنس ہونے کی بنا پر فرقہ وارانہ قرار پائے، صرف نام کے سوا اس کی اور کوئی معقول وجہ قرار نہیں دی جا سکتی۔ تعلیم کو فرقہ وارانہ یعنی ہندو تعلیم اور مسلمان تعلیم کے الفاظ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستان میں کسی ایک فرقے کی پستی اس کی تعلیم کے مسئلے کو نسبتاً زیادہ شدید اور اہم بنا دیتی ہے اور اس کی رفتار تیز تر کرنے کی جو کوششیں کی جاتی ہیں وہ مجموعی حیثیت سے ملک کی عام سطح بلند کرنے میں کام آتی ہیں۔ میں نے ہمیشہ اس کا خیال رکھا ہے اور میں یہ رائے ظاہر کرنے کی جرات کرتا ہوں کہ ایسی تعلیمی کانفرنسوں یا اداروں کے لئے جو کسی ایک فرقے کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیتی ہوں یہی چیز ایک معقول بنیاد ہو سکتی ہے۔ سچ پوچھئے تو میں اس سے بھی کچھ زیادہ سمجھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ جہاں کسی ملک کے ایک یا دو فرقے سماجی اقتصادیات کے لحاظ سے تعلیم میں پیچھے رہ جائیں تو دوسرے فرقوں کا بھی یہ فرض ہے کہ ان کی تعلیم کے مسئلے میں دلچسپی لیں اور اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ ان کی مدد کریں تاکہ ملک کے کُل کا کوئی حصہ نقصان اٹھا کر پیچھے نہ رہ جائے۔

جدید تعلیم سے مسلمانوں کی سرد مہری
"خواہ اس صوبے میں ہو یا کسی اور میں، مسلمانوں پر اس امر کی ذمہ داری بجا طور پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی قوم کو بیدار کرنے اور انہیں تعلیم دینے کی خاص جدوجہد کریں جو معاشی اور سماجی دونوں قسم کی ہو۔ انیسویں صدی کی تاریخ سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ مسلمان جدید تعلیم کی اہمیت محسوس کرنے میں نہ صرف پیچھے رہے بلکہ اسے ایک طرح کی بے دینی اور الحاد خیال کر کے اس کی مخالفت بھی کرتے رہے۔ سب سے پہلے ایک شخص کی مدبرانہ بصیرت نے قوم کو اس خواب گراں سے چونکا یا اور جدید تعلیم کی مخالفت پر قابو پایا۔ یہ سر سید احمد خاں مرحوم کی رہبرانہ کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان اپنا سب سے پہلا تعلیمی ادارہ ایک معتد بہ پیمانہ پر قائم کر سکے۔ یقیناً میرا اشارہ علی گڑھ کالج کی طرف ہے جس کے ممتاز بانی کی حمایت کے لئے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سے بڑے بڑے صاحب بصیرت اشخاص مجتمع ہو گئے۔ اس طرح مسلمان قوم اس ادارے کی تاسیس پر جو اس وقت سے ترقی کرتے کرتے جامعہ بن چکا ہے، سرسید احمد خان اور ان کے عالی حوصلہ حامیوں کی زیر بار احسان ہے۔ سب سے پہلے سر سید اور ان کے رفقاء ہی نے محسوس کیا کہ مسلمانان ہند کی ترقی خواہ مادی ہو یا اخلاقی جدید تعلیم سے وابستہ ہے۔ پھر جب ہم ان کے اس احساس کی تعبیر عمل اور جدوجہد کی صورت میں پاتے ہیں تو ان کے احسان کی قدر و وقعت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔"

منظم طریقہ پر خیرات
"عمومی خواندگی کے اعتبار سے ہماری پستی ان مسائل کی ایک روشن تصویر ہے جو عام ناخواندگی کی حالت سے پیدا ہوتے ہیں۔ نوشت و خواند اور حساب کی تعلیم کے لئے سہولتوں کی فراہمی وقت کی سب سے زیادہ آشکار اور قابل توجہ ضرورت ہے۔ مسلمانوں کی تعداد ثانوی تعلیم میں خصوصاً اعلی تعلیم میں جیسے جیسے درجہ بڑھتا جاتا ہے کم ہوتی جاتی ہے۔ اس حالت سے جہاں تعلیم کی خواہش موجود ہونے کا پتہ چلتا ہے اس کے حصول کے ذرائع مفقود ہونے کا بھی حال معلوم ہوتا ہے اس لئے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ وظائف کا ایک وسیع نظام ہے۔ اسی ضمن میں اس قسم کی پوری امداد کی جو توقع حکومت سے کی جاتی ہے وہ ایک عام غلطی ہے جسے میں پوری طرح واضح کر دینا چاہتا ہوں۔ جن صوبوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں ان میں آپ کا موقف دوسرے بہت سے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ قابل مسرت ہے اور جہاں تک اس صوبے کے شہری رقبوں میں مسلمانوں کی ایک قابل لحاظ جماعت کا تعلق ہے تجارت اور صنعت و حرفت وغیرہ میں مشغول رہنے کی حیثیت سے آپ خاصے مرفہ الحال ہیں۔
میں اس موقع پر اس مثال کو بیان کئے بغیر نہیں رہ سکتا جو آپ کے صوبے میں ہندوستان کے ایک سب سے چھوٹے فرقے نے قائم کی ہے۔ میری مراد پارسیوں سے ہے جنہوں نے ایک وسیع پیمانے پر عطیات و اوقاف قائم کئے جن میں سے بعض خود ان کے فرقے تک محدود نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ عطیات و اوقاف کسی نہ کسی شکل میں اپنے ابنائے جنس کی فلاح و بہبود کے لئے قائم کئے ہیں۔ نجی خیرات جو ایک منظم صورت میں ہو ترقی یافتہ معاشرے کی خصوصیت اور احساس شہریت کے زندہ ہونے کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ بے شبہ حکومتوں پر رعایا سے متعلق عموماً اور اقلیتوں سے متعلق خصوصاً چند ذمہ دارانہ فرائض عائد ہوتے ہیں کیونکہ اقلیتیں خواہ کسی ملک میں ہوں اپنے لئے خصوصی تحفظ کی خواہاں ہوتی ہیں اس لئے خاص معاملات کی بنیاد 'اپنی مدد آپ کرے' کے ایک باقاعدہ نظام پر قائم ہونی چاہئے۔"

پیشہ ورانہ تعلیم کا رجحان
"اگر عام تعلیم میں پیشہ ورانہ تعلیم کا رجحان خصوصی اس قسم کا، جس میں ہاتھ سے کام کرنے کا شوق شامل ہو ، پیدا کیا جائے تو نہ صرف اس سے جھوٹی تمکنت کا دعوائے باطل دور ہوتا ہے اور دستی محنت کرنے والوں کا احترام دل نشین ہوتا ہے بلکہ آگے چل کر ان طلبا کے انتخاب میں بھی مدد ملتی ہے جو عام تعلیم کی بہ نسبت پیشہ ورانہ تعلیم کے لئے زیادہ موزوں ہوتے ہیں۔ عام تعلیم کے حصول میں عمر کا قابل لحاظ حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ جو لوگ اس تعلیم کو ترک کر دیتے ہیں ان سے قطع نظر کیجئے کیونکہ اس طرح انہوں نے جو کچھ حاصل کیا تھا سب رائیگاں جاتا ہے۔ ان کے علاوہ بھی ایسے طلبا پائے جاتے ہیں جو اعلیٰ تعلیم کے لئے موزوں نہیں ہوتے اور لازمی طور سے درجہ اوسط سے بچے رہنے والے طلبا کی تعداد میں اضافہ کرتے ہیں۔ انجام کار انہیں کشمکش زندگی میں ناکام رہنا پڑتا ہے۔
جب میں صوبہ متحدہ میں تھا میں نے نہایت محتاط طریقہ انتخاب پیش کیا تھا تاکہ طلبا آزادی کے ساتھ عام تعلیم کو پیشہ ورانہ یا فنی تعلیم میں تبدیل کر سکیں۔ یہی وہ مقصد ہے جسے ہم حیدرآباد میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مقصود یہ ہے کہ پیشہ ورانہ تعلیم کی رہبری کے لئے ایک باقاعدہ ایجنسی قائم کر کے اس سے پورا فائدہ اٹھایا جائے۔ اس کی بدولت طلبا اور ان کے والدین کو انتخاب کی غلطی سے بچنے میں مدد ملے گی ۔۔۔ اگر مناسب رجحان طبیعت اور فطری صلاحیت سے قطع نظر کرلیں تب بھی معاشی میدان میں ہمیں ایسے تربیت یافتہ اشخاص کی سخت ضرورت ہے جو ملک میں پیشہ ورانہ اور فنی مدارس کے لئے تربیت یافتہ معلموں کے مہیا کرنے اور پورے ملک کی پیشہ ورانہ اور فنی ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی کاریگر پہنچانے کی غرض سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں آدمی تیار کریں۔
آج کل جب کہ منصوبہ بندی میں نئے معیار زندگی کو عمومی طور پر بلند کرنے کی ضرورت اور اسی مقصد کے حصول کے لئے صنعتی یا دوسری نوعیت کی ترقیوں کی واجبی اہمیت کو سب سے مقدم رکھا جاتا ہے، یہ ضرورت اور زیادہ شدید ہو گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کل یہ چیز زیادہ سے زیادہ توجہ کی مستحق ہے۔ صنعتی اور فنی تعلیم خواہ کسی زبان میں دی جائے، میری رائے ہے کہ مسلمان قوم کے طلبا کو ترغیب دی جائے کہ اس نوعیت کی تعلیم یا تربیت کے لئے جس قسم کی سہولتیں بھی میسر ہوں ان سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں استفادہ کریں۔ اسی مقصد کے لئے نیز مشرقی سرحدوں پر موجودہ خطرے کے وقت، جو خوش نصیبی سے تیزی کے ساتھ گھٹتا جا رہا ہے ملک کی مدافعت کے لئے، میں مشورہ دوں گا کہ آپ اپنے لڑکوں کو ان تمام فوجی اداروں میں روانہ کریں جو فنی تعلیم کے لئے آپ کے صوبے میں موجود ہوں۔"

ابتدائی تعلیم کی اہمیت
"فنی و حرفتی تعلیم کی ضرورت ابتدائی تعلیم کی اہمیت کو کسی طرح نہیں گھٹا سکتی۔ جو ہر شخص کے لئے تعلیم کا کم سے کم معیار سمجھی جانی چاہئے۔ اگر میں نے اپنی قوم کے لئے قوم کی معاشی پستی اور ملک کی معاشی ضروریات کے خیال سے خصوصیت کے ساتھ زور دیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہ سمجھنا چاہئے کہ میں کردار سازی اور اقدار کے صحیح احساس کی تخلیق کے لئے انسانیت کے جس علم کی ضرورت ہے، اس کی اور عام تعلیم کی اہمیت کو گھٹا رہا ہوں۔
درحقیقت میں اس سے بھی آگے بڑھوں گا اور مغرب کی اس ترقی یافتہ تعلیم کی طرف اشارہ کر تے ہوئے جو کسی حیثیت سے بھی کم از کم اس قسم کی زندگی اور استبداد سے دنیا کو بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکی، جس کا مظاہرہ اس نصف صدی کے دوران میں جرمنی جیسی قوم کی طرف سے دو بار ہو چکا ہے، یہ کہوں گا کہ بد بختی سے ہماری جدید تعلیم میں کوئی نہ کوئی ایسا عنصر ضرور مفقود ہے جو ہمارے دلوں میں دوسروں کا احترام اوراس سے بھی بڑھ کر انسانی زندگی کی محبت اور صحیح ترین معنوں میں خدا کا خوف پیدا کر سکے۔
اگر مذہبی تعلیم ہم میں اسی قسم کی حقیقی مذہبی روح کو فروغ نہ دے جس کے مغرب میں مفقود ہونے کا ذکر میں کر چکا ہوں تو مدارس میں مذہبی تعلیم کا عدم و وجود برابر بلکہ ان کی موجودگی حقیقتاً زیادہ نقصان رساں ثابت ہوگی۔
اخلاق کو ایک وسیع مفہوم میں فرد یا جماعت کی سب سے برتر کمائی یا حاصل زندگی سمجھنا چاہئے۔ اخلاق ہی ان تمام مختلف مذہبوں اور ثقافتوں کا مغز ہے ، جن کا واحد گھر بھی ہندوستان ہے۔
اسی اخلاق کو ساری تعلیم کا بنیادی تصور بننا چاہئے۔ مختصر یہ ہے کہ خواہ آپ ڈاکٹر بنائیں یا انجینئر میکانک تیار کریں یا دستکار معلم بنائیں یا وکیل اور کسان پیدا کریں یا سپاہی، قبل اس کے کہ وہ کچھ بنے اور کسی قوم سے بھی تعلق رکھتا ہو، اسے سب سے پہلے ایک بھلا آدمی بننا چاہئے۔"

عام معلومات کی کمی
عام تعلیم کی ضروریات میں سے ایک چیز جس پر میں زور دینا چاہتا ہوں 'عام معلومات' ہیں۔ ملازمتوں کے لئے جو مختلف انتخابی بورڈ بنتے ہیں ان کے تجربے سے میرے دماغ میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ عام طور سے اس قسم کی معلومات کو کافی اہمیت نہیں دی جاتی اور یہ اس کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان میں ہمارے بہت سے طلبا خواہ ہندو ہوں یا مسلمان دنیا کے تعلیم یافتہ شہریوں کی حیثیت سے عام معلومات سے بہت کم واقفیت رکھتے ہیں۔ اسی لئے مسائل حاضرہ سے متعلق ان کا ادراک اور بصیرت صحیح نہیں ہوتی۔ اس قسم کے طلبا خواہ کالجوں ہی کی پیداوار کیوں نہ ہوں اس کا الزام اسکول ہی کی تعلیم پر آتا ہے اس لئے مدرسوں کے طرز تعلیم اور اساتذہ کی نوعیت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔

مسلمانوں کا تعلیمی پس منظر
"ہندوستان کے ہر فرقہ یا قوم کی جداگانہ روایات مذہبی یا ثقافتی زبان اور چند خاص مضامین ہیں جو اس کے لئے مایہ ناز ہوتے ہیں اور اس کی تاریخ یا روایات سے اس طرح وابستہ ہوتے ہیں کہ انہیں علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔
مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی زبانیں عربی اور فارسی ہیں اور ان کے مضامین ہندوستان کی تاریخ کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ جیسے مضامین بھی ہیں جن سے ان کے عام ماضی کا پس منظر تشکیل پاتا ہے۔ اس لئے ثانوی اور اعلی مدارج تعلیم میں ایسی سہولتیں موجود ہونی چاہئیں جن کی بدولت ایک مسلمان طالب علم ان موضوعات میں سے جسے چاہے اختیار کر سکے۔ یونیورسٹیوں میں انتظام کی اور زیادہ ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ہی بغیر اس کے، کہ میں آپ کو آپ کی مقامی ضروریات پر متوجہ کرنے کی کوشش کروں جن سے متعلق آپ اور آپ کے مقامی ماہرین بخوبی فیصلہ کر سکتے ہیں، میں آپ کو دو باتوں کے متعلق متنبہ کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔
ایک تو یہ کہ اردو پر عموماً اس طرح زور دیا جاتا ہے گویا کہ وہ کسی ایک خاص فرقے کی زبان ہے۔
دوسرے علاقہ واری یا مقامی زبان سیکھنے سے نفرت کی جاتی ہے۔
نہ تاریخ سے اس کی شہادت ملتی ہے نہ اردو زبان کی موجودہ حیثیت سے کہ اس زبان کو صرف مسلمانوں کی زبان سمجھا جائے۔ آپ اسے اردو کہیں یا ہندوستانی اس کی ابتدا دونوں قوموں کی ایک دوسرے کو سمجھنے کے عزم صمیم سے ہوئی اور آج بھی فرقہ وارانہ فضا کے باوجود، جس میں مخالف جماعتیں اسے تنہا مسلمانوں ہی کی زبان سمجھنے پر مائل نظر آتی ہیں، یہ ایک کل ہند زبان ہے اور مختلف صوبوں اور ریاستوں میں اور مختلف فرقوں کے لوگ اسے بولتے اور سمجھتے ہیں۔
ایک علاقہ واری زبان کے مقابلے میں اگر آپ اردو کی اہمیت پر اس حیثیت سے زور دیں تو بالکل حق بجانب ہوں گے کہ وہ ہندوستان کی ایک بڑی زبان ہے اور اس کو اس لئے بھی سیکھنا ضروری ہے کہ مختلف صوبوں کے درمیان راہ و رسم اور تعلقات کے قیام کے لئے ایک غیر ملکی زبان ہی اظہار خیال کا تمام تر ذریعہ نہ بن جائے۔
جہاں تک علاقہ واری زبانیں سماجی یا معاشی حیثیت سے متعلق ہیں انہیں چھوڑ دینے کا بلکہ ان پر عبور حاصل نہ کرنے تک کا رجحان قوم کے بہترین مفاد کو خطرے میں ڈال دینے کا باعث ہوگا۔ خصوصاً دیہی علاقوں میں اس ذہنیت سے زیادہ نقصان پہنچے گا۔

عورتوں کی تعلیم
"اگر تعلیم نسواں کے مسئلے پر کافی توجہ مبذول نہ کی جائے تو تقریباً ہماری نصف قوم جاہل رہ جائے گی۔ میں اسی کے ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ اگر مائیں تعلیم یافتہ نہ ہوں تو جہالت ایک مرض متعدی کی حیثیت اختیار کر لے گی کیونکہ اس طرح وہ گھروں میں سرایت کر کے بچوں کو بھی متاثر کر دے گی۔ مسلمانوں کے نقطہ نظر سے دیکھئے یا عمومی طور سے ہندوستانیوں کے زاویہ نگاہ سے، ہمیں اپنی تعلیم یافتہ عورتوں کی تاریخ میں بہترین مثالیں نظر آتی ہیں۔ اگر اس خصوص میں قوم کی معاشی پستی پر نظر کی جائے تو بھی میں پیشہ وارانہ تعلیم کی اہمیت پر زور دوں گا۔ غرض یہ ماں ہی کی ذات ہوتی ہے جس سے بچہ وہ تمام صفات اور حقائق جو کردار کی تعمیر کر سکتے ہیں بچپن ہی میں سیکھ لیتا ہے۔ آپ کی کانفرنس مسلمان خواتین کو تعلیم دینے کی جو صحیح کوشش بھی کرے گی وہ اس دو چند جدو جہد کے مثل ہوگی جو ایک شخص کے ذریعے کسی ایسی جماعت کو تعلیم دینے کے لئے کی جاتی ہے جس کا اس کے زیر اثر آنا لازمی ہو۔

تعلیم کو جنگی حالات کا شکار نہ بنانا چاہئے
جنگ کے باوجود، جس کے انصرام کے لئے ہمیں اپنی پوری قوت اور تمام تر وسائل وقف کر دینے چاہئیں، ہم حیدرآباد میں اس کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ تعلیم پر حالات جنگ کا کوئی اثر نہ پڑے اور ہم نے زمانہ جنگ میں بھی امداد رقوم میں پیہم اضافے کر کے اس کی توسیع اور نشو و نما کو برقرار رکھا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ جس طرح دوسرے صوبوں میں اس پالیسی پر عمل ہوتا رہا ہے اسی طرح آپ کے صوبے میں بھی ہو رہا ہے۔ جو اسکیم سارجنٹ اسکیم کے نام سے مشہور ہے اس کی حالیہ اشاعت سے وہ عظیم الشان مسئلہ واضح ہو گیا ہے جو قومی تعلیم کی شکل میں مجموعی طور پر پورے ہندوستان اور اس کی ہر وحدت کے پیش نظر ہے۔ سوال صرف تعداد کا نہیں بلکہ نوعیت اور قابلیت کا بھی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم لوگوں کی ضروریات کے لئے موزوں اور مطابق ہو اور اس کے تعین میں ایک ترقی پذیر اور گوناگوں آبادی کی نہ صرف موجودہ ضروریات اور حالیہ رسوم و رواج بلکہ مستقبل کی ترقیات بھی پیش نظر رہیں۔

ہز اکسلنسی نے اپنی تقریر ختم کرتے ہوئے فرمایا کہ :
"مجھے یقین ہے کہ آئندہ مسلمان قوم، دماغی اور فنی تعلیم اور مہارت کے حصول میں ہندوستان کی دوسری قوموں کے دوش بدوش رہ کر ذمہ داری میں پورا پورا حصہ لے سکے گی جو اس ملک کی آئندہ ترقی و خوش حالی کے لئے ہر مرد عورت اور بچے پر عائد ہونا ضروری ہے۔"

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ "معلوماتِ حیدرآباد"، جلد:5 ، شمارہ:1۔ اکتوبر 1944۔
شائع کردہ: محکمۂ اطلاعات، حیدرآباد دکن۔

Education cannot be made communal. Article by: Sir Muhammad Ahmad Said Khan, Nawab of Chhatari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں