اپنےحصےکی کوئی شمع جلاتےجاتے
تلنگانہ کےمختلف اضلاع میں ہرسال گرما کی شدت میں اضافہ
گرما کی شدت نے 50 سالہ ریکارڈ توڑ دیا
ہریتا ہرم کےتحت جنگی پیمانے پر شجر کاری کے لیے تمام افراد کو آگے آنا ہوگا ورنہ آنیوالے سال مزید بھیانک ہونگے!
ریاست تلنگانہ کے تقریباً تمام اضلاع، جاریہ موسم گرما میں بھی شدید گرمی کا شکار ہیں۔ کہا جارہا ہیکہ ریاست کےچند اضلاع میں گرمی کی شدت نےگزشتہ 50 سال کا اپنا ریکارڈ توڑدیا ہےدیگر ریاستوں سےآنےوالی گرم ہوائیں جہاں اس کی وجہ ہیں وہیں ریاست کےاضلاع میں موجود ندیوں سے ریت کی غیر قانونی منتقلی کےذریعہ ندیوں کو کھوکھلا کردینا ، جنگلات کی کٹوائی ، تالابوں پر قبضے، غیر منصوبہ بند طریقہ سےکنکریٹ جنگلات( عمارتوں) کی بےدریغ تعمیر ، تمام اقسام کی گاڑیوں کا بےتحاشہ استعمال اور انکے ذریعہ نکلنے ہوا دھواں ، صنعتوں سےنکلنےوالی فضائی آلودگی بھی ہر سال بڑھتی ہوئی گرما کی شدت میں اضافہ کی اہم وجوہات میں شامل ہیں۔
ہر سال بڑھتےہوئےدرجہ حرارت کیلئےحضرت انسان ہی ذمہ دار کہا جاسکتا ہےجس نےترقی کےنام پر جہاں اپنی آنیوالی نسلوں کی پریشانی کےسامان پیدا کردئیے وہیں اس نےاپنےساتھ ساتھ جانوروں اور چرند پرند کا بھی جینا مشکل کرکےرکھ دیا!
جب 2014ءمیں ریاست تلنگانہ کا وجود عمل میں آیا تھا اس وقت ریاست کا جنگلاتی علاقہ 24 فیصد پر محیط تھا جبکہ کسی بھی ریاست میں معتدل آب و ہوا زیر زمین آبی سطح میں اضافہ و برقراری میں معاون ثابت ہوتی ہے اسی طرح جن علاقوں میں درخت زیادہ ہوتےہیں وہاں سالانہ بارش کا اوسط بھی زیادہ ہوتا ہےجس سےبہترین کاشت کاری ممکن ہوتی ہےاور ان سب کےلیےلازمی ہوتا ہیکہ ریاست کا جنگلاتی علاقہ 33 فیصد ہو اسی کو دیکھتےہوئےریاستی وزیر اعلیٰ کےسی آر نےاس وقت 240 کروڑ کےابتدائی فنڈ سےتمام اضلاع میں شجرکاری کی غرض سے15جولائی 2015ءکو ریاست میں شجر کاری پر مشتمل "ہریتا ہرم" جیسا انتہائی منفرد پروگرام کا آغاز کیا تھا اور حکومت تلنگانہ نے2019ءتک ساری ریاست میں230کروڑ پودےلگانےکا منصوبہ تیار کیا تھا جن میں سے100کروڑ پودےجنگلات کے اندر اور 230 کروڑ پودےمختلف مقامات پر۔
اس وقت سےہرسال ریاست تلنگانہ کےتمام اضلاع کےجنگلات ، شہروں، ٹاؤن اور مواضعات میں سرکاری طورپر اور غیر سرکاری تنظیموں ، سماجی کارکنوں ، طلبہ کی جانب سےبڑےپیمانےپر پودےلگائےجاتےہیں تاہم بدقسمتی یہ رہی کہ مسلسل دو سال سےمانسون ناکام ہی رہا اور ریاست کےکئی اضلاع میں اوسط سےکم بارش ریکارڈ ہوئی اس پر چند مقامات پر جس جوش و خروش کیساتھ پودےلگائےگئےاسی جوش و خروش کیساتھ ان پودوں کی سیرآبی اور حفاظت کی جانب دھیان نہیں دیا گیا جبکہ کئی ایسےمقامات بھی ہیں جہاں پر آج یہ پودےدرختوں میں تبدیل ہوئےہیں۔
ہریتا ہرم پروگرام کےتحت جنگلات میں بھی بڑےپیمانےپر شجرکاری کی جاتی ہےجبکہ عوام میں مختلف پھلوں اور پھولوں کےپودےبھی مفت تقسیم کئےجاتےہیں تاکہ وہ انہیں اپنےمکانات میں لگائیں ۔
اس طرح ہریتا ہرم پروگرام کےتحت سال 2015-16ءمیں 15.86کروڑ مختلف اقسام کےپودےلگائےگئےجبکہ سال 2016-17ءمیں 31.67 کروڑ اور سال 2017-18ءمیں 30جولائی 2017ءتک جملہ 15.10کروڑ پودےلگائےگئےجبکہ جاریہ سال مانسون کےآغازسےقبل بھی کروڑ ہا پودےساری ریاست کےمختلف مقامات پر لگائےجائیں گےاور یہ پودےنرسریز میں اگائےجارہےہیں ۔ ریاست کےعوام کےلیےلازمی ہےکہ وہ درجہ حرارت میں کمی ، بہترین ماحولیات ، بہترین بارش اور صاف و ستھری آب وہوا چاہتےہیں تو انہیں جنگی پیمانےپر ہریتا ہرم پروگرام کےتحت پودےلگانا ہوگا ورنہ وہ آنیوالی نسلوں کو صرف کنکریٹ والےاونچی عمارتوں پر مشتمل جنگل ،خشک ندی نالےاور تالابوں کیساتھ ساتھ ایک سخت شدت والا موسم گرما دینےکیلئےہی یاد رکھےجائیں گےضروری ہیکہ اپنےگھروں سےپودےلگانےکا آغاز کریں پھر اپنی کالونیوں ، اپنےاپنےمحلہ جات میں شجر کاری کو خود پر لازم کرلیں ضروری ہیکہ مذہبی مقامات کیساتھ ساتھ اپنےشہروں اور ٹاؤن کی سڑکوں کی دونوں جانب پودےلگائےجائیں ۔
جنگلوں کی کٹوائی بھی حضرت انسان کا بھیانک اقدام ہی کہا جاتا ہےجس کےباعث جنگلات سےجنگلی جانوروں، چرند پرند کا بھی خاتمہ ہونےلگا ہےاس کےلئےدردمند اور ماحول دوست افراد یہ کرسکتےہیں کہ جب کبھی وہ اپنی کاروں کےذریعہ کہیں دوردراز کےمقامات کےسفر پر روانہ ہورہےہوں تو اپنےساتھ آم ، جام ، جامن ، سیتاپھل ، بیر سمیت مختلف موسمی پھلوں کےبیج اپنےساتھ رکھیں اور جہاں جنگلات کا حصہ نظر آجائےوہ بیج وہاں پھینکتےچلےجائیں کہتےہیں کہ جنگلات میں جو پھلوں کےدرخت ہوتےہیں وہ دراصل گلہریوں کی مرہون منت ہوتےہیں کیونکہ وہ ان بیجوں کو کہیں رکھ کر بھول جاتےہیں او رمانسون کےپانی سےیہ بیج پودہ اور پھر درخت میں تبدیل ہوجاتےہیں بالخصوص نوجوان طبقہ اس سلسلہ میں حکومت سےتعاون کرتےہوئےاپنےاپنےمقامات پر درختوں کو اگاتےہوئےساری ریاست کو گلزار بناسکتا ہےبس تھوڑی سی محنت اور اس جانب توجہ کی سخت ضرورت ہےکیونکہ مختلف اقسام کےپودےمحکمہ جنگلات کی جانب سےمفت فراہم کئےجاتےہیں۔
ورنہ آنےوالی نسلیں جب 50ڈگری سیلسیس درجہ حرارت سےدوچار ہونگی تو ہمیں ضرور مورد الزام قرار دیں گی اور اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی !
یہاں یہ تذکرہ لازمی ہیکہ " پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی نےفرمایا کہ جو کوئی درخت لگائے،پھر اس کی نگرانی اور حفاظت کرتا رہےحتیٰ کہ درخت پھل دینا شروع کردےتو وہ اس شخص کےلئےصدقہ کا سبب بنےگا "۔
اب ریاست تلنگانہ میں بڑھتےہوئےدرجہ حرارت کی بات کی جائےتو ریاست کےکئی اضلاع بشمول حیدرآباد آگ کےگولوں میں تبدیل ہوکر رہ گئےہیں اس پر مرکزی محکمہ موسمیات نےانتباہ دیا ہیکہ آنیوالےدنوں میں ریاست مزید گرما کی شدت اور گرام ہواؤں کی لپیٹ میں آسکتی ہےاور ریاست کےکئی اضلاع میں درجہ حرارت کا پارہ 48ڈگری سیلسیس کو بھی چھو سکتا ہےاور اگر ایسا ہوا تو یہ 50سال بعد کا ریکارڈ ہوگا۔
کیونکہ 9مئی 1973کو ریاست کےبھدراچلم میں 48.6ڈگری ، 2جون 1966ءکو حیدرآباد میں 45.5ڈگری ، محبوب نگر میں 30اپریل 1973ءکو 45.3ڈگری سیلسیس درجہ حرارت ریکارڈ ہوا تھا وہیں راما گنڈم میں 24مئی 1984ءکو 47.3ڈگری، عادل آباد میں 5جون 1995ءکو 46.8 ڈگری ، 3جون2003ءکو ہنمکنڈہ میں 47.8ڈگری ، کھمم میں 23مئی 2015ءکو 47.6ڈگری ، 22مئی 2005ءکو نظام آباد میں 47.3ڈگری ،22مئی 2015ءکو نلگنڈہ میں 47ڈگری ،18مئی 2006ءکو میدک میں 46.3ڈگری سیلسیس درجہ حرارت ریکارڈ ہوا تھا ۔
مستقبل میں گرما کی شدت میں اضافہ کیلئےلازمی ہیکہ ریاست کےتمام مقامات پر بڑےپیمانےپر شجر کاری کو یقینی بنایا جائےورنہ آنےوالےسال مزید بھیانک ہوسکتےہیں اور ہرسال بڑھتےہوئےدرجہ حرارت کو کوسنےکےبجائےایک شخص سال میں پانچ پودےہی لگادےتو آنیوالےسال انسانوں کےلیےقابل برداشت ہونگے!!
Asaduddin Owaisi speech at Tandur election campaign.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں