تقریباً ڈھائی سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 12 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
رشید احمد صدیقی، 24/دسمبر 1892 کو اترپردیش کے علاقے جونپور قصبہ مڑیاہو میں پیدا ہوئے۔ فارسی و عربی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی بعد ازاں جون پور کے ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ ہائی اسکول کی تعلیم کے بعد 1915 میں علی گڑھ آئے۔ علی گڑھ میں زمانۂ طالب علمی کے دوران علمی سرگرمیوں میں خو ب حصہ لیا۔ علی گڑھ میگزین کے کئی بار ایڈیٹر رہے۔ 1921میں اردو میں لیکچرار اور 1943 میں صدر شعۂ اردو ہوئے۔ بعد ازاں مرکزی وزارت تعلیمات کی ایک اسکیم کے ڈائریکٹر ہوئے۔ اور دو سال تک اس منصب پر فائز رہے۔
رشید احمد صدیقی کی زندگی کا بیشتر حصہ علی گڑھ ہی میں گزرا۔ آپ علی گڑھ میں درس و تدریس سے جڑے رہے لہذا ان کی تحریروں میں علی گڑھ کا عکس نظر آتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی تحریروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے اردو کے کلاسیکی سرمائے سے گہری واقفیت ضروری ہے۔
15/جنوری 1977 کو آپ کا انتقال ہوا۔
ڈاکٹڑ جعفر احراری اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
رشید صاحب کے طنز میں تلخی اور زہرناکی کا احساس نہیں ہوتا وہ چھوٹے چھوٹے فقروں سے بہت کام لیتے ہیں۔ ان کے فن میں عامیانہ پن نہیں بلکہ گہرائی اور گیرائی کا بول بالا ہے ۔ انھوں نے زندگی کے ہر پہلو کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے ۔ شعر و ادب سے قطع نظر سیاست، تاریخ اور دیگر علوم و فنون کو بھی اپنے موضوع میں شامل کرلیا ہے جس کے سبب ان کے طنز و مزاح سے لطف اٹھانا آسان کام نہیں بلکہ خاصا باشعور اور بے حد شائستہ مذاق کا حامل ہونا ضروری ہے ۔ ان کے مزاح کے موضوعات میں تنوّع اور رنگارنگی ہے ۔ طنز و مزاح کے کسی خاص مکتبِ خاہل سے ان کی وابستگی نہیں رہی، انھوں نے سامراج، پارلیمان اور آئی سی ایس عہدیداروں پر کاری چوٹیں کیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جو ایک قومی اور بین الاقوامی ادارہ ہے رشید صاحب نے وہاں اپنا وقت ایک طالبِ علم اور استاد کی حیثیت سے گذارا، ان کی پوری ذہنیت علی گڑھ کی ہے جو ہندوستانی تہذیب کے بڑے طبقے کی سماجی زندگی سے ماخوذ ہے ۔
رشید احمد صدیقی کی چند تصانیف :
- مضامین رشید
- خنداں
- گنج ہائے گرانمایہ
- طنزیات و مضحکات
- اردو طنز و مزاح کی تنقیدی تاریخ
- خطوط رشید احمد صدیقی
- نقش ہائے رنگ رنگ
- ہم نفسانِ رفتہ
- اطراف
- آشفتہ بیانی میری
- علی گڑھ - ماضی و حال
نامور محقق اور ناقد وزیر آغا کہتے ہیں:
جدید اردو نثر کے ممتاز طنز نگار پروفیسر رشید احمد صدیقی ہیں۔ ان کی نگارش کی امتیازی خصوصیت اس کی تحلیل ہے ۔ اس تحلیل کے لیے وہ لفظی بازی گری اور فلسفیانہ عمل دونوں سے کام لیتے ہیں ․․․ طنز میں یہ فلسفیانہ کھیل ہی دراصل رشید احمد صدیقی کا سب سے مضبوط اور سب سے کمزور حربہ ہے ۔ مضبوط اس لیے کہ اس کی مدد سے وہ اپنے مضامین میں ایک خاص طنزیہ کیفیت کو جنم دے دیتے ہیں اور کمزور اس لیے کہ اس کے باعث ان کے طنز نہ صرف ایک فلسفیانہ اور علمی رنگ اختیار کرلیتے ہیں بلکہ اس پر بذلہ سنجی (WIT) کے عناصر کا تسلط بھی قائم ہوجاتا ہے ․․․ رشید احمد صدیقی کے طنز کو استعاروں، علامتوں اور مبہم اشاروں نے اتنے نقاب پہنا دیے ہیں کہ صرف وہی لوگ جنھیں اس ماحول کی معطر تنہائی تک رسائی حاصل ہے اس سے پوری طرح لطف اندوز ہوسکتے ہیں
***
نام کتاب: مضامینِ رشید
مصنف: رشید احمد صدیقی
تعداد صفحات: 238
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 12 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Mazameen-e-Rasheed.pdf
مضامینِ رشید - از: رشید احمد صدیقی :: فہرست مضامین | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
1 | کچھ اپنے کچھ ان مضامین کے بارے میں | 7 |
2 | سرگذشتِ عہدِ گل | 10 |
3 | حاجی صاحب | 20 |
4 | مولانا سہیل | 32 |
5 | دھوبی | 46 |
6 | وکیل صاحب | 56 |
7 | اپنی یاد میں | 63 |
8 | چارپائی | 82 |
9 | پاسبان | 90 |
10 | ارہر کا کھیت | 108 |
11 | گواہ | 114 |
12 | شیطان کی آنت | 117 |
13 | ماتا بدل | 133 |
14 | کارواں پیداست | 144 |
15 | گھاگ | 158 |
16 | آمد میں آورد! | 163 |
17 | مغالطہ | 172 |
18 | مرشد | 184 |
19 | مثلث | 193 |
20 | کچھ کا کچھ! | 213 |
21 | سلام ہو نجد پر | 219 |
Mazameen-e-Rasheed, a collection of Urdu humorous Essays by Rasheed Ahmad Siddiqui, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں