جلوس آگے بڑھ رہا ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ میں بھی چیخوں اور ایک زور دار نعرہ لگاؤں لیکن شاید میں چیخ نہ پاؤں۔ یوں لگتا ہے جیسے بغیر نعرے لگائے ہوئے ہی میری آواز بیٹھ گئی ہے اورمیرا حلق کسی لفظ کو اگلنے سے انکار کر رہا ہے۔ جیسے کوئی شئے میری حق میں پھنس گئی ہے۔ میں بڑی عجیب سی بے چینی محسوس کر رہا ہوں جیسے میرے لئے یہ سب غیر متوقع طور پر ہورہا ہے۔
اس وقت میرے کانوں میں کرشن چندر کی آواز آ رہی ہے اور جیسے میں صاف صاف سن رہا ہوں۔ یہ آواز بائیس سال پہلے کی ہے لیکن یوں لگتا ہے جیسے بائیس دن پہلے کی ہے۔ بلکہ بائیس ثانیوں سے پہلے کی ہے انہوں نے آل انڈیا اردو کنونشن بمبئی میں سابق وزیر اعظمکو کچھ ان الفاظ میں مخاطب کیا تھا، پردھان منتری، معزز مہمانو اور دوستو! آج کی عدالت میں اردو کامقدمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ عدالت کسی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی عدالت نہیں ہے بلکہ آپ کے دل، ضمیر اور روح کی عدالت ہے جس کے سامنے ایک بے بس اور مظلوم زبانانے لئے اپنی زندگی اوراس کی حفاظت کا حق مانگنے آئی ہے۔
مجھے یاد ہے اندراجی بڑے غور سے کرشن کے مضمون کوسن رہی تھیں اس کے بعد یوں ہوا کہ خود اردو نے عوامی عدالت میں اپنابیان دیتے ہوئے کہا
میں وہ فرمان ہوں جس نے بھی اس دھرتی پر جنم لیا۔ میں ہندی، بنگالی، گجراتی، مراٹھی، ملیالم، ٹامل، اوڑیہ، آسامی، سندھی، تلگو، کنڑ اور دوسری بھاشا کی طرح بھارت ماتا کی بیٹی ہوں۔ یہی میرا دیشہے، یہیں پلی، بڑھی اور سارے ہندوستان میں پھیل گئی۔ اور اب تو مجھے دوسرے دیسوں میں بھی مہانتا ملی ہے۔ پاکستان والوں نے بنگالی، پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو کے ساتھ ساتھ مجھے بھی اپنایا ہے۔ میں ملیشیا میں بولی اور سمجھی جاتی ہوں اور ایسٹ آفریقہ میں بھی۔ لندن میں میرے تین اخبار نکلتے ہیں اور کئی رسالے۔ ہندوستان اور دوسرے دیشوں میں سمجھنے اور سمجھانے کے لئے میں ایک پل کا کام کرتی ہوں، کیا اسی لئے مجھے ڈائنا میٹ سے اڑادیا جائے گا۔
سوال۔۔ ۔۔ سوال!!!
آج بھی اردو وہی سوال کر رہی ہے۔
کرشن چندر کی زبان میں اردو اس سوال کا خود یوں جواب دیتی ہے، کچھ کمیونل Communalلوگ کچھ کم نظر لوگ مجھے صرف مسلمانوں کی زبان کہتے ہیں۔ حالانکہ اگر ایسا ہی ہوتا تو بھی کوئی برا نہ ہوتا، کیا اس دیش میں مسلمانوں کو اپنے دھرم، اپنے کلچر، اپنی شخصیت اور اپنی زبان کے ساتھ زندہ رہنے کا حق نہیں ہے۔
یہ وہ سوال ہے جو اردو نے بائیس سال پہلے کیا تھا اور آج تک کسی نے اس کا جواب نہیں دیا۔۔
لیکن آنجہانی شریمتی اندرا گاندھی نے ان الفاظ میں سینکڑوں حاضرین جلسہ کو جواب دیا تھا۔
اردو کے مسئلے کی جو اہمیت ہے اسے میں جانتی ہوں، مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ویسے ہم نے اپنے طور پر اس زبان کو اس کا جائز حق دلانے کی پوری کوشش کی، لیکن ہم اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اردو کامسئلہ، ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اردو کی راہ میں جو مشکلیں اور کٹھنائیاں ہیں اس سے آپ واقف ہیں اور میں بھی۔ اس لئے میں آپ سے وعدہ نہیں کر سکتی۔ اس لئے کہ مجھے یقین نہیں ہے کہ میں اس وعدہ کو پورا کر سکوں گی۔ ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اس سلسلے میں۔۔
مجھے یاد ہے اندرا جی اس کے بعد ایک ثانیے کے لئے رک گئیں۔ اور حاضرین جلسہ پر نظر ڈالتے ہوئے کہا تھا: بہر حال یہ ماحول ہے جو ہمیں ملا ہے اور ہمیں اس ماحول کو بدلنا ہے۔ ایک وسیع تر کشمکش کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم کب اس میں کامیاب ہوں گے۔ اردو کے لئے ایک منظم مسلسل جد و جہد کی ضرورت ہے۔ یہ صرف ایک کنونشن ایسا ہوا ہے۔ ایسے کنونشن ہندوستان کے تمام بڑے بڑے شہروں میں ہونے چاہئیں۔ ادیبوں اور شاعروں کے دستخط کافی نہیں ہیں۔ ایک عوامی جد و جہد کی ضرورت ہے۔ ور کرس اور کسانوں کی طرف سے مانگ اٹھے۔۔ تب کچھ باتب نے۔
ابھی حال حال کی بات ہے کہ دہلی کے ایک اردو اخبار کے ایڈیٹر نے یہی بات کہی ہے، مرکز ہو یا ریاستی سرکار ان کا رویہ نہایت مخالفانہ ہے۔ وزیر اعظم راجیو گاندھی اور شیو شنکر اردو کے تعلق سے پرخلوص ہیں۔ اور یہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن نوکر شاہی اس راہ میں رکاوٹ ہے۔ وزیر اعظم کا حاشیہ اردو کی ترقی میں حائل ہے۔
آخر وہ کون سا حاشیہ ہے جو اردو کے راستے کا پتھر بنا ہوا ہے۔ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے ان قائدین کے ہاتھ باندھ دئیے ہیں۔ کون ہیں وہ لوگ؟
یہ وہ فرقہ پرست ہیں جوملک کے دشمن ہیں۔ ہمارے دستور کے دشمن ہیں۔ وہ سب چاہتے ہیں کہ ہماراملک ٹوٹ پھوٹ جائے، اور چاروں طرف انارکی پھیل جائے۔
لیکن نہیں ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ میرے اندر کا آدمی جیسے چیخا!
لسانی عصبیت مردہ باد!
مذہبی عصبیت مردہ باد!
ہندومسلم زندہ باد!
اردوکی راہ میں کانٹے بچھانے والے اردو کے مخالفین اور دشمنوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ آج بھی اردو ملک کی واحد(لنک لینگویج) Link Languageرابطے کی زبان ہے جو اترسے دکن اورپورب سے پچھم تک بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
(اس گئی گزری حالت میں بھی حضرت داغ کا یہ شعر ابھی زندہ ہے )
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
جلوس آگے بڑ ھ رہا ہے۔
اندرا جی نے کہا تھا کہ ایک عوامی جد و جہد کی ضرورت ہے، ور کرس اور کسانوں کی طرف سے مانگ اٹھے تب کچھ بات بنے، اب وہ وقت آ گیا ہے، عوامی جد و جہد شروع ہو چکی ہے۔ شاید اب کچھ بات بنے شاید۔
جلوس آگے بڑھ رہا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں۔ لوگ کچھ اس طرح ایک دوسرے پر ٹوٹ کر آگے بڑھ رہے ہیں جیسے ریس میں کوئی اپنے گھوڑے کو دیکھنے کے لئے دوسرے کو دھکا دینے کی بھی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ اور نہیں چاہتا کہ اس کامحبوب گھوڑا اس کی نظروں سے اوجھل ہو جائے۔ وہ گھوڑا جس پر اس نے اپنی زندگی کی ساری کمائی لگادی۔ جیک پاٹ!!!
ہجوم آگے بڑھ رہا ہے۔ سڑک اور فٹ پاتھ کا فرق باقی نہیں رہا۔ یہاں سے وہاں تک انسانوں کے سر ہی سر ہیں۔ بہت سے لوگ دکانوں پر کھڑے ہیں توبعض لاریوں اور بسوں کی چھتوں پر بیٹھ گئے ہیں اور بعض پرندوں کی طرح درختوں کی ٹہنیوں پربیٹھے ہوئے ٹک ٹک تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ غرض جسے جہاں جگہ ملی وہ وہاں کھڑا ہو گیا یا بیٹھ گیا۔ یہاں میں زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکتا۔ اس سیلاب میں کسی بھی لمحے میرے قدم اکھڑ سکتے ہیں۔ اس لئے میں نے طے کر لیا ہے کہ سب کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلوں۔
اب میں جلوس میں شامل ہو گیا ہوں۔ اور آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہا ہوں۔ میرے ساتھ سینکڑوں اور ہزاروں اٹھتے ہوئے قدم ہیں۔ اس جلوس میں چھوٹے موٹے کام کرنے والے اور دھندے والے لوگ ہیں، مثلاً ٹھیلے والے، ریلوے اسٹیشنوں پر سامان اٹھانے والے قلی، رکشا والے، ملوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور، کسان جو سوکھا پڑنے کی وجہ سے شہر آ گئے ہیں، آٹو رکشا اورموٹر کاروں کو درست کرنے والے میکانک بھی ناچتے کودتے چل رہے ہیں، یہی نہیں بلکہ بڑی بڑی لاریوں اوربسوں کو چلانے والے وہ ڈرائیور بھی شامل ہیں جن کے ہاتھوں میں اسٹیرنگ ہیں۔ اور جو چاہیں توکار یا لاری یابس یاکسی بھی ہیوی وہیکل کو جدھر چاہیں موڑ دیں۔ اور جہاں چاہے لے جائیں۔ ایک کار ہی کیوں، سارے شہر کی صنعتی کار چلانے کی کنجیاں ان ہی کی جیب میں پڑی ہوئی ہیں۔
نعروں اور جوابی نعروں سے کانوں میں سیٹیاں بج رہی ہیں۔ اس شور شرابے میں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔ میرے ساتھ ساتھ ایک بوڑھابھی چل رہا ہے جو اپنے پوتے یا نواسے کو کندھے پر اٹھائے ہوئے ہے۔ بچے کے روتے ہی وہ فوراً اسے کندھے پر سے گود میں لے رہا ہے اوراس کے گال پر ہاتھ پھیر کر مناتے ہوئے اس کے ہاتھ میں ایک سستا دس پیسے والا لانجر تھمارہا ہے لیکن بچہ ضد کر رہا ہے کہ اسے آئس فروٹ چاہئے یا پھر کوئی غبارہ ہی سہی لیکن غبارہ اور آئس فروٹ کہاں سے لائے ؟ اب بچے کو ان دونوں میں سے کچھ بھی نہیں چاہئے جانے اسے کیا یاد آیا۔ اب وہ نعروں کو سن کر پوچھ رہا ہے، داد ا، دادا! اردو جندہ باد کیا؟ کائیکو؟
ابے چپ اردو کے بچے۔
وہ بزرگ جھنجھلا کر اسے ڈانٹ پلا رہے ہیں۔ پاس سے گزرتے ہوئے ایک ہٹے کٹے پہلوان قسم کے شخص نے کہا۔ اجی حضت! کائیکو بچے کو آنکھیں دکھاریں وہ پوچھتا ہے تو بولدوچ نا۔
کیابولوں میاں، ایک بالشت بھر کا لنڈا بھلا کیا سمجھے گا اردو کے فلسفے کو۔
حضت! آپ ٹھیک تو بول رئیں، پورا ہندوستان نہیں سمجھا تو یہ کیا سمجھے گا؟ ایک تیسرے شخص نے بچے کے پھولے پھ ولے گالوں کو تھپتھپا کر آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
ایک پچیس تیس سال کی برقعہ پوش عورت جو اپنا حلق پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگارہی تھی، ایک ثانئے کے لئے اس مکالمے کو سن کر چپ ہو گئی۔ پھر مسکرائی اور اپنے سینے سے چمٹے ہوئے روتے بچے کو تھپکی دے کر پھر نعرے لگانے لگی، اردو زندہ باد۔
لیکن بچہ رورہا تھا، چیخ رہا تھا، جلوس کے ساتھ ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے اس نے برقعے کے بٹن کھولے اوربلوزکو اوپر کی طرف کرتے ہوئے چھاتی کونکالا اوربڑے غصے کے ساتھ نپل کوبچے کے منہ میں ٹھونس دیا اور چیختا ہوا بچہ ہچکیاں لیتے ہوئے چسر چسر دودھ پینے لگا۔ اور اپنے دونوں ننھے ننھے ہاتھوں سے چھاتی کو یوں دبوچ لیا جیسے شیر اپ نے شکارکو۔ پتہ نہیں اس کے جی میں کیا آئی کہ دودھ کو چھوڑ کر ایک ثانیے کے لئے سر اٹھا کر اس نے اپنی ماں کو دیکھا، پھرمسکرایا اور اپنے سر کو اندر کی طرف یوں چھپا لیا جیسے کبوتر اپنے پروں میں سر کو چھپالیتا ہے۔
سالی کرائے کی ہے۔
پاس ہی سے ایک شخص کی آواز آئی۔
تجھے کیسا معلوم؟ پاس کھڑا ہوا ایک شخص پوچھ بیٹھا۔
ارے اسے معلوم ہے بھائی۔ یہ اس کی بہن جو ہے !
سالے کیا بولتا ہے ؟ نڑ لا پھوڑ کر خون پی جاؤں گا۔
اچھا تواس کی جورو ہو گی، ایک اور آواز آئی۔
نہیں مانے گا، ابھی بتاتا ہوں سالے کو۔۔ ۔
وہ آستین چڑھا کر حملے کے لئے بڑھ ہی رہا تھا کہ میں نے بیچ میں مداخلت کرتے ہوئے کہا بھائی! ہم سب اردو کی خاطر یہاں جمع ہوئے ہیں، اگر ہم آپس میں جھگڑا کریں تو اس کا کتنا اثر پڑے گا؟ سوچئے تو سہی۔۔ ۔
میرے کہنے پر سب چپ ہو گئے، پھر میں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا، بحث اس پر نہیں ہونی چاہئے کہ وہ کرائے کی ہے یا نہیں۔ لیکن اس کی گود میں جو بچہ ہے وہ کرایہ کا نہیں۔۔ ۔
ہے نا!
سننے والوں میں سے ایک نے کہا، پائنٹ ہے۔ ارے کیا بات بولا۔۔ ۔ یہ لمباسا۔۔
چپ بے سالے۔۔ ان میں سے ایک نے کہا۔
میں نے دوبارہ مداخلت کرتے ہوئے کہا، پھر جھگڑا؟ بھائی لوگ میں کہہ رہا تھا، اس بچے کو دیکھئے، اپنی ماں کا دودھ پیتے ہوئے کس طرح وہ اردو زندہ باد کے نعروں کو سن رہا ہے۔ کیا بڑا ہونے کے بعد وہ ان نعروں کوبھلاسکے گا؟ دودھ کے ساتھ نعرے بھی اس کے خون میں شامل ہو کراسکی رگوں میں دوڑ رہے ہیں۔
سب چپ ہو گئے جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ میں نے کہا، آج کا اصل مسئلہ اردو کا ہے، ہمیں اردو پڑھنی چاہئے، اردو سیکھنی چاہئے، اور اردوکے حق کو منوانا چاہئے۔
آپ صحیح بولتا ہے ساب، ایک معمر گھٹے ہوئے جسم کے شخص نے کہا جس کی کنپٹیوں کے بال سفید بھک ہو چکے تھے۔ ایک بات بتاؤں ساب۔ پھر اس نے اپنی دونوں مٹھیوں کو بغلوں میں دباتے ہوئے کھی کھی کر کے بچے کی طرح ہنسنے لگا۔
میں نے کہا، ہاں ہاں ضرور بتائیے۔
ان میں سے ایک بولا۔ یہ کیا بتائے گا۔ شرما رہا ہے، آپ عرض کریں تو ہم بتائیں گا۔
با توں سے اندازہ ہوا کہ یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور وہ شخص ان کے گروپ کا لیڈر۔ غالباً میکانک یا لاری ڈرائیور یا۔
اس نے اپنی مٹھیوں کو کھولتے ہوئے کہا۔ دیکھ ساب ان گٹھوں کو، آج تک یہ ہاتھ بڑی بڑی فیکٹریوں اور ملوں میں مشینوں کے پرزوں کوڈھالتے رہے لیکن اب اس میں قلم آ گیا ہے میں اپنے پوتے کے ساتھ اردو پڑھ رہا ہوں۔ دیکھناوہ سامنے گائے آ رہی ہے، باپ حقہ پی رہا ہے۔ ماں دال پکا رہی ہے۔۔ ۔۔ ہا ہاہاہا۔۔ ۔
مزہ آ رہا ہے، ماں قسم! ماں کے پئے ہوئے دودھ کی قسم اب میں اردو کو مرنے نہیں دوں گا۔
A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-35
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں