میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:34 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-05-04

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:34



جلوس آگے بڑ ھ رہا تھا، جلوس آگے بڑھ رہا ہے ہزاروں افراد کو دیکھتے ہوئے میں نے سوچا، اگر کوئی پارٹی یا جماعت جے بہادر کی مثال پیش نہیں کر سکتی تو کوئی غیر سیاسی تنظیم خواہ وہ ادبی ہویا تہذیبی اپنی طرف سے کسی دیونرائن پانڈے ہی کو پیش کر دے۔
تیسرے شہید پنڈت دیو نرائن پانڈے ہیں، پنڈت جی بھی یوپی کے تھے، انہوں نے کٹر فرقہ پرستوں اور ظلم کرنے والوں کے خلاف چھیانوے (96) گھنٹوں کامرن برت رکھا تھا، لیکن تین دن اور تین راتیں گزرنے کے بعد یعنی 72 گھنٹوں کے پورے ہوتے ہی ان کی حالت بگڑ گئی۔ انہیں فوری دواخانہ منتقل کیا گیا، لیکن ہاسپٹل کے تمام ڈاکٹر اپنی ساری متحدہ کوششوں کے باوجود انہیں بچانہ سکے، اور پنڈت جی اپنے سینکڑوں اردو دوستوں اور چاہنے والوں کو اپنے پیچھے روتا ہوا چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے لیکن فرقہ پرستوں کے خلاف جمی ہوئی مضبوط چٹان زندگی میں ٹس سے مس نہ ہوئی، وہ جوان نہیں تھے، لیکن جوانوں سے زیادہ با حوصلہ تھے۔ اس وقت ان کی عمر بہتر سے اوپر تھی، آخری لمحے میں جب کہ وہ مشکل سے سانس لے رہے تھے اپنے لڑکے کوبلایا اور اپنی آخری وصیت کی، انہوں نے کہا، میری موت کے بعد تم اردو کے جھنڈے کو گرنے نہ دینا۔
پنڈت جی کی یہ وصیت ہندوستان کی آتما کی آواز ہے، جوان کے بیٹے کے دل کونہیں ہندوستان کی نئی نسل کے دل کو گرماتی رہے گی۔ وہ نسل جس کو گاندھی جی اور اردو دونوں کے قتل کا کفارہ ادا کرنا ہے۔
مجھے اپنے دوست ڈاکٹر حسینی شاہد کے الفاظ یاد آ رہے ہیں لیکن میں پوچھتا ہوں اب وہ نئی نسل کہاں ہے ؟ کہاں ہے وہ نئی نسل، کوئی مجھے بتائے، میں اسنسل کو ڈھونڈرہا ہوں۔
نئی نسل آئی توہے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ گاندھی جی سے واقف ہے اورنہ پنڈٹ دیو نرائن پانڈے کو جانتی ہے۔ پھر کس طرح یہ قتل کا کفارہ ادا کرے گی۔ اصل ذمہ دار بلکہ مجرم ہماری پچھلی نسل کے وہ بزرگ ہیں، جنہوں نے نئی نسل کواپنی مشترکہ زبان کی زندگی کی اور ہمارے ملے جلے سیکولر کلچر کی ان خوبصورتیوں سے واقف ہی نہیں کروایا جو انہیں ورثے میں ملی تھیں۔
پھر ایسی صورت میں نئی نسل کو وہ بات ہی کہاں نصیب ہوئی، جو ان کے دلوں کو گرما دے۔
میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہے، میں بھی اپنے بزرگوں کی غلطیوں اور گناہوں کے بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے فٹ پاتھ پر کھڑا ہوں اور سامنے سے گزرتے ہوئے ہزاروں اورلاکھوں انسانوں کے سروں کو دیکھ رہا ہوں جن کی گنتی ممکن نہیں۔ میں ان سب سے اپنی خاموش زبان میں پوچھ رہا ہوں کہ کیا تم میں کوئی پنڈت دیونرائن پانڈے ہے ؟
آوازوں سے جیسے کانوں کے پردے پھٹ رہے ہیں۔ کسی کو کسی کی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔ ایسے میں بھلامیری آواز کو کون سنے گا؟لیکن میں اپنی آواز سن رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ یہ آواز پانڈے جی تک پہنچ جائے، میں کہنا چاہتا ہوں کہ پنڈت جی تم ایک شہید ہو اور شہید کبھی نہیں مرتا۔ تمہیں کوئی مانے یا نہ مانے لیکن میں تمہیں مانتا ہوں اور تمہاری روح کو سلام کرتا ہوں تم وہ مقدس اور عظیم روح ہو جو انسانی جسم کا روپ دھار کر صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ اگر تم کسی غیر ملک میں پیدا ہوتے تو اب تک تمہارے نام پر کئی میموریل ہال بن جاتے اور یونیورسٹیوں میں تمہارے نام پر کئی چیرس قائم ہو جاتیں لیکن المیہ یہ ہے کہ تم ہندوستان میں پیدا ہوئے اور دوسرا المیہ یہہے کہ تم جس زبان کے لئے مرے اس کے کروڑوں بولنے والوں کو اس بات کا پتہ ہی نہیں کہ ماضی میں بھی کوئی ستر سالہ ضعیف شخص دیونرائن پانڈے نام کا تھا جس نے اردو کو اپنا سب کچھ دے دیا۔
لیکن پانڈے جی۔ تم یقین کرو کہ تمہارا ناموقت کی گھڑی کی گھومتی ہوئی سوئیوں کے ساتھ جگہ جگہ لگے ہوئے جیولوں کی طرح چمکتا رہے گا۔ تم ایک جیول ہو جو اندھیروں میں نظر آتا ہے اور دوسرا جیول وہ مجاہدہے جس کا نام جے بہادر سنگھ ہے اور احمد خاں ادیب تم، تم تو زندہ شہید ہو۔ میں تمہارا شمار کس میں کروں میں نہیں جانتا لیکن مجھے یقین ہے کہ مستقبل کا مورخ تم سب کو پیچھے ہوئے ہیروں کی کھائیوں سے نہیں ٹوٹی پھوٹی قبروں کے سناٹوں سے نکال کرباہر لائے گا اوردنیا کوبتائے گا کہ دیکھو۔۔ ادھر دیکھو۔۔ یہ ہیں اصل جول!!


A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-34

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں