دینی نظام تعلیم - اصلاح کی حکمت عملی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-05-03

دینی نظام تعلیم - اصلاح کی حکمت عملی

islamic-education-system
دینی نظام تعلیم صدیوں سے مسلم معاشرے کی ضرورتیں پوری کر رہا ہے۔ یہ نظام تعلیم دور استعمار کے وقت سے سرکاری سرپرستی سے محروم ہے اور نجی شعبے میں چل رہا ہے۔
اس نظام تعلیم کو علماء اہل خیر اور عمومی طور پر مسلم معاشرہ قائم رکھے ہوئے ہے جہاں کہیں ممکن ہوا مدرسہ کی مستقل عمارتیں قائم ہوئیں، جہاں طلبہ کی رہائش و درس کے کمرے اور مسجد تعمیر ہوئی، لیکن ایسا بھی ہوا کہ صرف مسجد میں درس کا سلسلہ شروع ہوا اور طلبہ مسجد میں ہی رہائش پذیر ہوئے۔ طلبہ کی خوراک کا مستقل انتظام بھی مدارس کے ذمہ رہا لیکن جہاں مدرسہ میں اس کے وسائل نہ تھے وہاں پر مقامی آبادی نے رضا کارانہ طور پر طلبہ کو کھانا مہیا کیا۔ اس نظام تعلیم میں نصابی کتب مدرسہ مہیا کرتا ہے اور طالب علم کتاب سے فارغ ہو کر اسے کتب خانہ میں جمع کرادیتا ہے۔
اس نظام تعلیم کا ایک اہم پہلو استاد کی مرکزیت ہے۔ اگرچہ بڑے مدارس میں مہتتم اور منتظم کی حیثیت اہم رہی ہے لیکن جو شے کسی مدرسے کو مقبولیت عطا کرتی ہے وہ استاد کی شخصیت ہے۔ جس علم اور جس فن کا ماہر استاد کسی جگہ موجود ہے وہاں طلبہ کھنچے ہوئے چلے آتے ہیں اور استاد سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس طرح بعض مدارس مخصوص علوم و فنون کے مرکز کے طور پر مشہور ہوئے۔ صرف و نحو اور منطق و فلسفہ کے مشہور مراکز ہمیشہ طلبہ کو متوجہ کرتے رہے ہیں۔ ابتدائی اور متوسط مدارس سے فارغ ہو کر طلبہ مدارس عالیہ میں جاتے، جہاں علوم فنون کی اعلی کتابیں پڑھائی جاتیں۔
اس نظام تعلیم کی ایک اہم خصوصیت کتاب کی اہمیت بھی ہے۔ مختلف علوم و فنون کی مطلوبہ کتابیں پڑھنا دینی طالب علم کی بنیادی خواہش ہوتی ہے کیونکہ تکمیل تعلیم کا نتیجہ ان کتابوں کے پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو دینی نظام تعلیم محض مدارس کا نام نہیں اور نہ صرف نصاب تعلیم کا نام ہے، بلکہ فی الواقع مرکب نظام ہے۔ جس میں مدرسہ کا مہتمم ہوتا ہے جو انتظام و انصرام کرتا ہے، اساتذہ، طلبہ ہوتے ہیں جو درس و تدریس میں مشغول ہوتے ہیں اور اہل خیر مدرسہ کے مالی معاون ہوتے ہیں، یہ سب اس نظام کے اجزاء ہیں۔ اس لئے اس نظام تعلیم کے حوالے سے جب بھی اقدام ہو گا تو ان تمام اجزاء اور عناصر کو سامنے رکھ کر ہو گا۔ اسی طرح نظام تعلیم میں اردو، فارسی اور عربی زبانوں کو بطورذریعہ تعلیم اہمیت حاصل ہے۔ ان کی حیثیت کو بھی پیش نظر رکھناہو گا۔

مقاصد تعلیم:
ایک اور اہم پہلو جو پیش نظر رکھنا ضروری ہے وہ اس نظام تعلیم کے مقاصد ہیں۔ جب یہ نظام مرتب کیا گیا تھا تو اس وقت کیا مقاصد پیش نظر تھے اور آج کیا مقاصد مطلوب ہیں ؟ یہ جاننا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اصلاح احوال کی کوئی کوشش اگر مطلوبہ مقاصد سے متصادم ہو گی تو وہ قابل قبول نہ ہو گیہ۔
موجودہ دینی نظام تعلیم مسلم ہندوستان کے نظام تعلیم کی توسیع ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مسلم ہندوستان میں اس نظام تعلیم کا مقصد ایک پڑھا لکھا انسان تیار کرنا تھا جو امام، قاضی، محتسب، شاہی اہل کار، مدرس، مفتی، اتالیف، طبیب اور مشیر سلطنت ہو سکتا تھا۔ طبقہ امرا کے لئے اگرچہ اتالیق کا پرائیوٹ انتظام ہوتا، لیکن عمومی طور پر یہی نظام تعلیم تمام افرادکامہیا کرتا۔ مسلم ہندوستان میں تعلیمی رجحانات کابنیادی تعلق وسط ایشیا سے تھا اور ازاں بعد ایرانی نفوذ سے نئے پہلو شامل ہوئے۔ فقہ حنفی اورپھرمنطق و فلسفہ لازمی حصہ قرار پائے۔
اورنگ زیب عالم گیر کے عہد میں ایک علمی خاندان کو جب فسادکا سامنا کرنا پڑا تو اس حادثے کی وجہ سے خاندان کے دو چار افراد کو لکھنو میں وہ جگہ خرید کر دی گئی جو بعد میں فرنگی محل کے نام سے مشہور ہوئی۔ اسی خاندان کے ایک ممتاز فرد نظام الدین سہالوی نے دینی و دنیوی علوم پر مشتمل ایک نصاب مرتب کیا۔ یہی نصاب تعلیم موجودہ دینی نصاب کی اساس ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ کئی تبدیلیوں سے روشناس ہونے کے بعد آج بھی قائم ہے۔
دور استعمار میں مسلمانوں کو ہر لحاظ سے پس ماندہ رکھنا انگریز حکمرانوں کی حکمت عملی تھی۔ اس لئے مسلمانوں کے نظام تعلیم کو سرکاری سرپرستی سے محروم کر دیا گیا۔ مدارس و مساجد کے اوقاف ختم کر دئے گئے۔ انگریزوں کے نئے نظام تعلیم کی آمد سے مسلمانوں پر ملازمتوں کے دروازے بند ہو گئے۔ نظام قضا ختم کر دیا گیا، لہٰذا عدالتی عہدے ختم کر دئے گئے، یوں مسلمانوں کے پاس اس نظام تعلیم کے ذریعے صرف مساجد کی امامت، طبابت اور مدارس میں تدریس کے علاوہ کچھ نہیں بچا تھا۔
اس دور میں بعض درد مند مسلمانوں نے اعلی علمی ادارے قائم کرنے کا منصوبہ بنایا، تاکہ دین کی بنیادی قدروں کو بھی محفوظ کیا جائے اور مسلمانوں میں ملی و دینی شعور قائم رکھنے کے لئے افراد کار تیار کئے جائیں۔ دارالعلوم دیوبنداور اسی نوعیت کے دوسرے مدارس مذکورہ مقصد کے لئے قائم کئے گئے۔ گویا دینی مقاصد تعلیم میں، آئمہ مساجد، مدرسین مدارس اور اسلامی معاشرے کے تحفظ اور اس کی رہنمائی کے لئے افراد تیار کرنا تھا۔ دور استعمار کے آخری حصے میں علماء نے سیاسی جد و جہد میں بھی حصہ لیا۔ آزادی ہند اور تشکیل پاکستان میں علماء کی کاوشیں حتی المقدور شامل ہیں۔ اس دور میں مدارس نے اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کا مقابلہ بھی کیا اور اس نظام تعلیم سے متعلق علماء وفضلاء نے بیش بہا خدمات انجام دی ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد بھی حالات کے اندر کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ سرکاری سرپرستی اب بھی میسر نہ تھی۔ جدید نظام تعلیم کے غلبے کی وجہ سے سرکاری ملازمتوں کے دروازے اسی طرح بند تھے۔ کوئی ایسی ذمہ دارانہ کوشش نہیں کی گئی کہ جس سے دینی نظام تعلیم کی پذیرائی کی کوئی صورت ہو۔ صرف اتنا فرق پڑا کہ بعض ذمہ داران حکومت سالانہ جلسوں کی صدارتیں کرتے اور کچھ چندہ دیتے رہے یا بعض علماء و مشائخ کی مریدی کا شرف حاصل کرتے رہے۔ لہٰذا پاکستان میں دینی نظام تعلیم کے مقاصد میں وہی چیزیں شامل رہیں جو برطانوی ہندمیں تھیں۔ یعنی ائمہ مساجد، مدرسین مدارس، اسکولوں کے عربی اساتذہ اور طبیب وغیرہ۔
پچھلے بیس برسوں میں حالات نے جو تبدیلی اختیار کی اس میں دینی مدارس سے فارغ التحصیل افراد کے لئے اسکولوں اور کالجوں میں ملازمتوں کے دروازے کھولے گئے۔ ان کی ڈگریوں کو ایم اے اسلامیات و عربی کے برابر قرار دیا گیا۔ چونکہ، دینی نظام تعلیم شدید فرقہ وارانہ تقسیم پر مستحکم تھا، اس لئے ملازمتوں کی دوڑ میں فرقہ وارانہ کشمکش سامنے آئی اور ہر گروہ نے زیادہ سے زیادہ ڈگریاں دینے کی پالیسی اختیار کی۔ اس پالیسی کے خراب اثرات کا ظہور اب اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر ہورہا ہے، جہاں پر فرقہ وارانہ گروہ بندی طلبہ کے ذہنوں کو مسوم کر رہی ہے۔ ہم اپنی تمام ہمدردیوں کے باوجود یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ دین کا جو اخلاقی و روحانی اثر ان اداروں کے طلبہ پر ہونا چاہئے تھا، بڑی حد تک وہ معدوم ہو گیا ہے۔

نصاب تعلیم:
اس نظام تعلیم کا اہم جزونصاب تعلیم ہے۔ اگرچہ اس نصاب میں اضافے ہوئے ہیں لیکن بنیادی ڈھانچہ جوں کا توں ہے اور عرصہ دراز گزرنے کے باوجود اس نصاب میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
اس نصاب پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اس میں شامل اپنے وقت کے متداول علوم تھے۔ پڑھنے والا شخص ایک صاحب استعداد عالم ہوتا تھا۔ وہ اس تعلیم کی بنیاد پر ہر قسم کے علوم سے فائدہ اٹھا سکتا۔ چونکہ عربی اور فارسی اس وقت کی عالمی اسلامی زبانیں تھیں۔ اس لئے اسے اظہار کے لئے کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی۔ نصاب میں بعض دقیق متون(texts)رکھی گئی تھیں، تاکہ فاضل علوم کے اندر تنقیدی و تحقیقی صلاحیت بھی پیدا ہو۔ اس نصاب نے بر صغیر میں چوٹی کی ہستیاں پیدا کیں۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نصاب کی افادیت میں کمی آتی گئی۔ ایک تو طریق تدریس محض، قیل و قال اور پہیلیوں کی نذر ہو گیا۔ جو دقیق متون تنقیدی شعور پیدا کرنے کے لئے رکھی گئی تھیں، وہ حاشیہ برحاشیہ اور شرح در شرح کی الجھنوں میں گم ہو کر رہ گئیں۔ اسی نصاب میں اگرچہ عربی ادب کی کمی کو پورا کیا گیا لیکن طالب علم کو عربی زبان میں پختہ کرنے کا کوئی اہتمام نہ کیا گیا۔ فارغ التحصیل شخص عربی بولنے اور لکھنے سے محروم ہوتا۔ ابتدائی نصاب میں حدیث کی صرف ایک کتاب تھی، جسے بعد میں دورہ حدیث سے پورا کر لیا گیا۔ لیکن اس ایک سال کی تعلیم حدیث سے علمی رسوخ نہیں پیدا ہوتا۔ پھر دور زوال میں فقہی و کلامی اختلافات پر زور دیا گیا۔ قرآن، حدیث، فقہ، کلام سب اختلافات کے نقہ نظر سے ہی پڑھائے گئے اور یوں فرقہ وارانہ ذہنیت پختہ ہوتی گئی۔ فرقہ وارانہ تناظر(فریم ورک)کے علاوہ کوئی اور علمی تناظر باقی ہی نہ رہا اور بڑے بڑے فضلا کا مبلغ علم فقہی و کلامی بحثوں کی مفصل معلومات تک محدود ہو کر رہ گیا۔
اس کے باوجود یہ امر واقعہ ہے کہ دینی نظام تعلیم نے تمام خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود زیادہ با رسوخ اہل علم و دانش پیدا کئے ہیں۔ دینی علوم میں دینی مدارس کے فاضل حضرات کی ایک تعداد میں جو وسعت اور گہرائی ہے وہ یونیورسٹی کے لوگوں کے ہاں مفقود ہے۔

اصلاح احوال:
اصلاح احوال میں ہمہ جہت تبدیلی کی ضرورت ہے۔ طریق تدریس نصاب تعلیم، مدارس کی معاشرتی کیفیت اور تنظیمی ڈھانچہ سب بنیادی تبیدلیوں کے متقاضی ہیں۔ مثلاً زبان کی تدریس پر جدید اسلوب آزمائے گئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں زبان کے فہم، تکلم اور تحریر کو پختہ کرنے کا سامان مہیا ہوتا ہے۔ اسی طرح استاد محض کتاب اور اس کے حاشیے میں گم نہ ہو جائے، بلکہ علم کی اس شاخ کا عمومی تعارف اور تاریخ بھی شامل کرے۔
نصاب تعلیم میں بنیادی تبدیلیاں ضروری ہیں۔ مثلاً قدیم منطق پرعمومی تعارف کے علاوہ صرف ایک کتاب رکھی جائے، جو اصطلاحات سے واقفیت اور فن کی گہری بحثوں سے متعارف کرا دے۔ جدید منطق پر لیکچر ہوں، منطق کی تاریخ اور اس میں مسلمانوں کی خدمات کے بارے میں پڑھایا جائے۔ اسی طرح بلاغت پر جدید کتابیں پڑھائی جائیں تاکہ بلاغت کے موضوعات کا احاطہ ہو جائے۔ سعودی عرب اور مصر کے نصابات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
اصول فقہ پر جدید کتابیں شامل نصاب کی جائیں۔ حنفی اصول فقہ کی ایک کتاب کافی ہے اور وہ مسلم الثبوت ہو سکتی ہے۔
غزالیؒ کی "المستصفی" تقابلی مطالعہ کے لئے شامل کی جا سکتی ہے۔ فقہ حنفی کی ایک کتاب ہدایہ شامل ہو۔ بدایۃ المجتھد گائیڈ کے طور پر پڑھائی جا سکتی ہے۔ علم کلام پر عمومی لیکچر ہونے چاہیں اور موضوعات کا تعین کر دیا جائے۔ اسی طرح فرقوں کی تاریخ، ان کے عقائد، دور حاضر کے علم کلام، جدید کلامی، بحثیتں زیر مطالعہ لائی جائیں۔ فرق اسلامیہ پر جدید کتابیں شامل نصاب ہوں، تاکہ طالب علم کو دور حاضر کی علمی بحثوں سے شناسائی حاصل ہو۔
علوم قرآن کی مفصل تدریس کی ضرورت ہے۔ دورہ حدیث دو سال پر مشتمل ہونا چاہئے، جس میں تاریخ حدیث، اصول حدیث، رجال، نقد متون اور روایت و درایت کے اصول شامل کئے جائیں۔
ایک سال الجامع الصحیح (بخاری) و مسلم شریف اور دوسرے سال ابو داؤد اور ترمذی پڑھائی جا سکتی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوسرے سال میں نسائی یا ابن ماجہ بھی شامل کر دیجائے۔
درس نظامی میں داخلے کے لئے میٹرک پاس ہونا شرط ہونی چاہئے کیونکہ اس سے ایک طالب علم عصری تعلیم کا ایک پس منظر لے کر آئے گا۔ اسے بنیادی، ریاضی، معاشرتی علوم اور جنرل سائنس کی معلومات حاصل ہوں گی۔ اگر میٹرک کی شرط نہیں تو کم از کم ایسی استعداد رکھا ہو کہ درس نظامی کے پہلے یا دوسرے سال میں وہ میٹرک کا امتحان دے سکے۔
علم کلام کے ضمن میں تقابل ادیان کو شامل کیا جانا چاہئے۔ اسلامی تاریخ کوبھی شامل نصاب کیا جائے۔ اس طرح انگریزی زبان کی تعلیم بھی شامل کی جانی چاہئے۔ یوں وہ کمی پوری ہو سکتی ہے جو عصری علوم کے داخل نصاب نہ ہونے کی وجہ سے تھی۔
مدارس کا معاشرتی ماحول تبدیل ہونا چاہئے۔ اسے ایک بند گلی کے بجائے عام معاشرے سے مربوط کیا جاے۔ مدرسہ کی اخلاقی و روحانی فضا کو برقرار رکھتے ہوئے اسے گرد و پیش کے حالات سے وابستہ رکھا جائے۔ معاشرے کی درست یا نا درست تبدیلیوں کا اسے ادراک ہونا چاہئے اور اس کے اندر منفی رد عمل کے بجائے مثبت رد عمل(response) پیدا ہونے کے امکانات ہونے چاہئیں۔ دینی مدارس کے فارغ حضرات کا کردار قائدانہ ہے۔ وہ امام، خطیب، مدرس، مفتی اور معاشرتی رہنما کے طور پر مسلم معاشرے کے مسلمہ قائد ہیں۔ اس کردارکے پیچھے صدیوں کی روایت ہے۔ انہیں اس کردار کے لئے زیادہ صلاحیت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ کسی قوت کو یہ حق نہیں پہنچتا، کہ ان سے ان کا یہ کردار چھین لے۔
سب سے زیادہ مشکل معاملہ تنظیمی ڈھانچہ کا ہے۔ تمام دینی مدارس کی حیثیت اب رفتہ رفتہ ذاتی اداروں کی سی بنتی جا رہی ہے۔ ان کے منتظمین کے ہاں ان اداروں کی حیثیت وراثت کی سی ہے۔ لہٰذا اس انتظام میں مداخلت بہت حساس معاملہ ہے۔ اس انتظام کو قواعد و ضوابط کے تحت لانا ضروری بھی ہے اور مشکل بھی۔

حکمت عملی:
دینی نظام تعلیم اور دینی مدارس کے خلاف مہم بین الاقوامی استعماری نظام کا حصہ ہے۔ مغربی اقوام نے دینی مدارس کے خلاف جو مہم شروع کرکھی ہے۔ اور پاکستان کے سیکولر حلقے اسے جس طرح ہوا دے رہے ہیں، اس کی وجہ وہ مزاحمت ہے جو دینی نظام تعلیم کی طرف سے مغربی غلبے کے خلاف ہے۔ داخلی اور خارجی سیکولر طاقتوں کو احساس ہے کہ دینی نظام تعلیم کے استحکام سے سیکولر کلچر کو خطرہ ہے۔ جب تک یہ نظام موجود ہے سیکولرائزیشن کے عمل میں رکاوٹیں رہیں گی۔ لہٰذا انہوں نے پوری شدومد سے اس نظام تعلیم کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ اس لئے کسی سوچنے سمجھنے والے مسلمان کو اس مہم کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔ ہم سیکولرزم کے مقابلے میں دینی نظام تعلیم کی حمایت کرتے ہیں اور باہر سے مسلط کردہ کسی تبدیلی کی مخالفت کرتے ہیں۔ البتہ داخلی طور پر اور رضا کارانہ طور پر بعض ایسی تبدیلیاں کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جن سے یہ نظام اور مستحکم ہو سکتا ہے۔ اس تبدیلی کی حکمت عملی میں جو قطعی داخلی اور رضا کارانہ ہے، دو طریق کار ہو سکتے ہیں:

اول - یک جہتی اسکیم:
ایک طریق کار یہ ہو سکتا ہے کہ دینی نظام تعلیم کے منتظمین اور قائدین سے مل کر ایک ایسا نصاب مرتب کیا جائے، جو موجودہ نظام تعلیم کا حصہ ہو اور جامعات کی سطح تک اس کی منظوری ہو۔ یہ نیا نصاب دینی اور عصری علوم پر مشتمل ہو، جو ایف اے کے بعد چار سال یا پانچ سال پڑھایا جائے اور فارغ ہونے والا طالب علم ایم اے کی سند کا مستحق ہو۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایف ایس سی کے بعد ایک طالب علم میڈیکل کالج میں داخلہ لیتا ہے یا انجینئرنگ یونیورسٹی جاتا ہے۔ جس طرح میڈیکل کالج کی انتظامی آزادی ہے اسی طرح مدارس کی انتظامی آزادی ہو اور مدارس کی درجہ بندی ہو جائے۔ ایف اے کی سطح تک پڑھانے والے دینی مدارس اور ایم اے کی سطح تک پڑھانے والے دینی مدارس۔ اس طرح یہ نظام تعلیم ملکی نظام تعلیم سے ہم آہنگ ہو جائے گا۔ البتہ اس میں انتظامی و تعلیمی آزادی کا مسئلہ بے حد اہم ہے، کیونکہ حکومتوں کی مداخلت معاملات کو خراب کرتی ہے اور دینی نظام تعلیم کو حکومت کے لادین اور سیکولر اہل کاروں کی مداخلت سے محفوظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔

دوم - موجودہ نظام کی برقراری:
دوسری صورت یہ ہے کہ مدارس کا موجودہ نظام برقرار رہے البتہ نصاب میں بنیادی تبدیلیاں کر دی جائیں اور کلاسوں کی درجہ بندی کر دی جائے، تاکہ یونیورسٹی کے تعلیمی ادوار کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے۔ میٹرک پاس طالب علم اگر داخلہ لیتا ہے تو اسے دو سال میں منتخب نصاب پڑھا کر ایف اے، دو سال بعد بی اے اور مزید دو سال بعد ایم اے کرادیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس نصاب میں عصری علوم میں سے سماجی علوم( سوشل سائنسز) تقابل ادیان اور انگریزی زبان شامل ہوں گے۔ نصاب کی تدوین جدی کے لئے دینی مدارس کے وفاقوں کے نمائندے بعض دیگر ماہرین تعلیم کے ساتھ بیٹھ کر اس کی تفصیلات طے کر سکتے ہیں۔

جدید امتحان کی تیاری:
جب تک کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آتی، اس وقت تک دینی مدارس کے منتظمین اپنے ہاں مختلف مدارج کے طلبہ کو ایف اے، بی اے اور ایم اے کی تیاری کی سہولتیں مہیا کر سکتے ہیں۔ ایف اے اور بی اے کرنے کے بعد دینی مدرسے کا کوئی بھی طالب علم پرائیویٹ ایم اے عربی و اسلامیات بآسانی کر سکتا ہے۔ اس وقت ایک مشکل جو دینی مدارس کے طلبہ کو درپیش ہے وہ ان کی سندات کی معادلت ہے۔ ایک فیصلے کے تحت ان سندوں کو ایم اے کے برابر تسلیم کیا گیا جس کی وجہ سے جدید جامعات میں تحفظات پائے جاتے ہیں اور دینی طلبہ کو مشکلات ہیں۔ میرے خیال میں دینی طلبہ کو اس سیاسی فیصلے کو ذہن سے نکال دینا چاہئے اور یکسوہو کر ایم اے عربی اور اسلامیات کے امتحانات دینے چاہیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں کی بنا پر نمایاں کامیابی حاصل کریں گے اور بغیر کسی الجھن کے اپنے مقاصدحاصل کر لیں گے۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ تبدیلی رضا کارانہ اور داخلی ہونی چاہئے۔ خارج سے سرکاری یا غیر سرکاری دباؤ سے آزاد ہونی چاہئے۔ اس تبدیلی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور اس کے بعد تنظیمی ڈھانچہ ہے۔ چونکہ یہ پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے ادارے ہیں۔ لہٰذا ان کی آزاد اور ان کا تشخص بے حد اہم ہے۔ واللہ المستعان۔

***
ماخوذ از کتاب: دینی مدارس میں تعلیم - کیفیت، مسائل، امکانات (مولف: سلیم منصور خالد)

Religious education system, reform strategy. Research Article by: Dr. Khalid Alavi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں