معیار زندگی کو بلند کرنے کا چکر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-04-08

معیار زندگی کو بلند کرنے کا چکر

old-family-gathering
لوگ ایک دوسرے سے ملنا چاہتے ہیں لیکن وقت نہیں ملتا، بالخصوص وہ لوگ جن کے بچے بھی اٹھارہ برس کے نہیں ہوئے اور وہ ملازمتیں کرتے ہیں۔ گیپ [Gap] کی ایک ریسرچ کے مطابق جنوب مشرقی ایشیا یعنی سنگاپور ملیشیاء وغیرہ کے لوگ ہفتے میں سب سے زیادہ کام کرتے ہیں تو ان کیلئے اینے یا خاندان کیلئے فرصت کے کوئی لمحات نہیں بچتے۔ ہمارے ہاں گی نوکریوں میں خلوص سے محنت کرنے کا کوئی رواج نہیں اس کے باوجود لوگ اپنی اپنی ملازمتوں پر حاضر ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو کسی نہ کسی طرح مصروف رکھتے ہیں۔
عدیم الفرصتی اب ایک کل عالمی بیماری بن چکی ہے مغربی ممالک میں تو زندگی اتنی تیز رفتار ہے کہ بچے والدین سے اور والدین بچوں سے ملنے کو ترستے ہیں۔ ٹیلی فون پر مشین لگی ہوتی ہے کہ جس سے آپ بات کرنا چاہیں وہ تو آپ کو نہیں ملتا البتہ آپ اس کیلئے اپنا ایک آدھ منٹ کا پیغام ریکارڈ کرا سکتے ہیں یا پھر اس کی صوابدید پر ہے کہ وہ آپ کو جواب دے یا نہ دے یا کب دے؟
مغربی ممالک کی زندگی میں تو ایسا کب سے ہو رہا ہے لیکن ایک طویل عرصے سے یہی کلچر اب ہم لوگوں کے روز مرہ کا بھی حصہ بنتا جا رہا ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہمیں سمجھ میں بھی نہیں آتا۔ لوگوں کی زندگی کو دیکھیں تو نرس بھی آتا ہے اور حیرت بھی ہوتی ہے کہ زندگی ان کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے؟
ہم اپنے بھانجے کو دیکھتے ہیں جو صبح جلدی جلدی اٹھ کر سات بچے اپنے بچے کو اسکول لے کر جاتا ہے، ناشتے کا ڈبہ اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے، پھر جلدی سے اپنی ملازمت پر پہنچتا ہے، وہاں سے کسی طرح لنچ ٹائم پر بچے کے اسکول کو بھاگتا ہے، اسے اسکول سے لے کر ٹریفک کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے ہوتا ہوا بچے کو گھر چھوڑتا ہے۔ بھاگم بھاگ کر کے کھانا کھاتا ہے اور واپس ڈیوٹی پر پہنچ جاتا ہے۔ وہاں سے ساڑھے تین بجے تھکا ہارا آتا ہے، گھر کے روزمرہ مسائل کا عندیہ لیتا ہے اور پانچ بجے شام ایک دوسری ملازمت کے لیے چلا جاتا ہے۔ آٹھ بجے رات گھر آتا ہے سوائے کھانا کھانے یا ٹی۔وی پر خبریں وغیرہ دیکھنے کے اس کے پاس کوئی وقت نہیں ہوتا جس میں وہ فرصت کے لمحوں سے لطف اندوز ہو سکے یا دوستوں سے رابطے قائم کرے۔ اس کی بیوی ایک اسکول میں پڑھاتی ہے، وہ صبح بچوں کو اسکول بھیجنے کے بعد ملازمت پر چلی جاتی ہے۔ میاں اور بچوں کے آنے سے پہلے گھر پہنچ کر جلدی سے کھانا بناتی ہے اور گھر کے روز مرہ کے کام نمٹانے کی کوشش کرتی ہے۔ پھر بچوں کے گھر آنے کے بعد ان کی دیکھ بھال میں مصروف ہو جاتی ہے۔ اس کے پاس اپنے لئے یا دوسرے سوشل رابطے کرنے کیلئے کوئی وقت نہیں ہوتا۔ میاں پوی کے پاس ایک دوسرے کیلئے بھی اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ سکون سے بیٹھ کر ایک دوسرے کی باتیں سن سکیں۔ زندگی کی چکی روز بہ روز تیز ہوتی جا رہی ہے اور اس میں دنیا کی اقتصادیات اور مقابلہ بازی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

ہر انسان، زندگی کا معیار بلند کرنے کی چوہا دوڑ میں سرپٹ بھاگ رہا ہے۔ توکل اور قناعت پسندی جو کبھی ہماری ثقافت کا اہم حصہ تھی، مفقود ہوتی جا رہی ہے ۔ پچیس تیس برس پہلے ایک مرد کی کمائی پورے خاندان کو سنبھال سکتی تھی۔ خواتین صرف
گھر داری میں مصروف رہتی تھیں، لہذا ان کے پاس بچوں اور خاندان کیلئے کافی وقت ہوتا تھا۔ وہ پورے خاندان سے رابطے رکھا کرتی تھیں۔ آنے جانے والوں کے تانتے بندھے رہتے تھے اور خاندان کی بنیادین مضبوط ہوتی تھیں۔ بچوں کو ماں ہر وقت میسر ہوتی تھی۔
اب بڑے شہروں میں ایسا ممکن نہیں رہا جب تک میاں اور بیوی دونوں نہ کمائیں، بات نہیں بن پاتی۔ ایک تو مہنگائی دم نہیں لینے دیتی دوسرا مقابلہ کی دوڑ۔
پچیس تیس برس پہلے نہ آبادی کا یہ حال تھا نہ ہی خواہشات اتنی زیادہ تھیں کہ انسان بھاگ بھاگ کر پاگل ہو جائیں۔ ایک گلی میں ایک دو کاریں اور ایک دو اسکوٹر دکھائی دیتے تھے، باقی ساری گلی میں سکون ہوتا تھا۔ خواہشوں کے بھانبھڑ اس طرح نہیں جلتے تھے کہ اگر ہمسائے نے کار لے لی ہے تو ہم بھی کار کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ آبادی بھی ایسی طوفانی نہیں تھی، سڑکیں دو رخ کا نظارہ پیش نہیں کرتی تھیں۔ لوگ ادھر سے ادھر آرام سے سفر کر سکتے تھے۔
بینکوں نے سود کی بنیکاری اس طرح شروع کر دی کہ نوے فیصد لوگ اپنا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے قرضوں میں مبتلا ہو گئے۔ قسطوں پر حاصل کردہ فریج ، ٹی وی اسکوٹر نے ہر سفید پوش گھرانے کو قرض میں جکڑ لیا ہے اور وہ پہلی تاریخ سے پہلی تاریخ تک اپنی اقساط پوری کرنے کیلئے ایک خوفناک اقتصادی دوڑ دوڑ رہے ہیں۔ دو دو تین تین نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔ بچوں کو فرج، ٹی وی میسر ہو ماں باپ کی قربت کیلئے وہ بھلے ترستے رہیں۔ ایسے میں فرصت کے لمحات کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔

ہمارے بچپن میں زندگی اس طرح گھمن گھیر میں گھری ہوئی نہیں تھی۔ چھٹیاں ہوتے ہی ماں باپ خالہ ماموں یا چچا کے گھر لے جاتے تھے۔ کئی رشتہ دار مل کر کسی ایک رشتہ دار کے پاس جمع ہو جاتے تھے۔ کزن دن بھر آپس میں کھیلنے یا گپ شپ میں مشغول رہتے تھے۔ والدین اپنی الگ محفلیں گرم کرتے تھے رشتے داریاں مضبوط ہوتی تھیں۔ قربتیں بڑھتی تھیں۔
ہمیں یاد ہے چھٹیوں میں اکثر بسوں میں بیٹھ کر چھٹیاں گزارنے دوسرے شہر خالہ کے گھر جایا کرتے تھے۔ خالو جو پکنک اور سیر کے بےحد شوقین تھے، ہمیں دو دو تین تین دن کی کیمپنگ کیلئے لیکر جایا کرتے تھے۔ جنگلوں میں کھانے پکتے تھے، گانے بجانے کی محفل ہوتی تھی، کشتی رانی کا لطف اٹھایا جاتا تھا اور دو تین دن کی پکنک کے بعد
جب ہم لوگ گھر لوٹتے تھے تو روح تر و تازہ ہو چکی ہوتی تھی۔
اب اگر ہمت کر کے کوئی کسی کے گھر جاتا بھی ہے تو اس کے بیڈروم (جن کا تصور ان دنوں بہت کم تھا، ہم بچہ لوگ دریوں پر گدے ڈال کر ساتھ مل کر سو جاتے تھے) کم پڑ جاتے ہیں اور مہمان کو شام سے پہلے گھر واپس لوٹنا پڑتا ہے۔

امیر و غریب رشتہ دار صرف دولت کی تراز و پر نہیں تلتے تھے۔ کار والا بغیر کار والے کو اپنے سے نیچا نہیں سمجھتا تھا۔ بغیر کار والا اپنے آپ کو گروی رکھ کر فوراً کار نہیں خریدتا تھا کہ مقابلے میں پورا اتر سکے۔ دوستوں کی طویل محفلیں سجتی تھیں۔
اب تو جس سے پوچھو، وقت کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور وقت ہے کہ کسی کو پلہ نہیں پکڑاتا۔

In struggle of raising the quality of life

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں