شواجی گنیشن - جنوبی ہند کا مقبول تامل اداکار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-04-17

شواجی گنیشن - جنوبی ہند کا مقبول تامل اداکار

ایک شعر ہے
منزل مقصود کا پانا تو کچھ مشکل نہیں
تو نے سرگرمی سے منزل کو کبھی ڈھونڈا تو ہو

مگر سوال یہ ہے کہ نئی اور اچھوتی کہانی کی تلاش میں اب کون سرگرمی دکھائے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ نئی نویلی دلہن کے لیے اب کوئی کیوں جستجو کرے، کیوں نہ ہمسائے کی بیوی یا دوست کی گرل فرینڈ ہتھیا لی جائے؟

اس سلسلے میں آج مجھے جنوبی ہند کے مشہور تامل ایکٹر شواجی گنیشن یاد آ رہے ہیں، جنہوں نے اپنے لئے کرداروں کی تلاش میں ہمیشہ سرگرمی دکھائی ہے۔
سب سے پہلے میں شواجی گنیشن کی ابتدائی زندگی کا پس منظر بیان کرنا چاہوں گا۔ شواجی نے اپنی ڈرامائی زندگی کا آغاز اس وقت کیا جب ان کی عمر چھ سات سال کی تھی۔ وہ جنوبی ہند کے تامل اسٹیج پر کام کیا کرتے تھے ، اور اس کام کا معاوضہ انہیں روپے کی شکل میں نہیں بلکہ صرف "دال چاول" کی صورت میں ملتا تھا۔ یعنی کہ اسٹیج پر رول کرو اور اس کے بدلے میں صرف دال اور چاول کھا لو اور پیٹ بھر لو۔ ایک بار انہوں نے مجھے بتایا کہ ان ہی دنوں میں ایک روز وہ ایک عجیب مجبوری کا شکار ہوئے۔ اسٹیج پر رات کو کام کرنے کے بعد انہیں زور کی بھوک لگی ہوئی تھی۔ جب "دال چاول" کی تھالی ان کے سامنے آئی اور انہوں نے پہلا ہی لقمہ حلق سے نیچے اتارا تو کھانے کا ذائقہ ہی بدلا ہوا تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ اسٹیج کے پیچھے کھانا بناتے بناتے اندھیرے میں گیس کا ہنڈا چاول کی دیگ میں گر گیا تھا اور چاولوں میں تھوڑا سا مٹی کا تیل مل گیا تھا۔ غریبی کی لاچاری ، لگن کی مجبوری اور پیٹ کی آگ کا تقاضا یہ تھا کہ انہیں مٹی کے تیل ملے ہوئے چاول کھانے پڑے۔ نہ کھاتے تو رات بھر پیٹ کی آگ بھڑکتی رہتی۔۔۔ اور شور مچا کر شکوہ شکایت کرتے تو اسٹیج پروڈیوسر غصے سے بھڑکتا رہتا۔
بہرحال شواجی گنیشن کے دن بدلے اور وہ رفتہ رفتہ تامل فلموں میں آنے لگے۔ کامیابی نے ان کے قدم چومے اور مختلف رومانی، تاریخی اور ڈرامائی رول ادا کر کے انہوں نے تامل زبان کی فلموں میں بلا کی ترقی کی۔ مکالمہ گوئی میں ان کا جواب نہیں ہے۔ تاریخی کاسٹیوم پہن کر بولے تو کامیاب رہے۔ ماڈرن سوٹ پہنے تو اچھے لگے اور دیہاتی یا عمومی لباس پہنے تو قبول کئے گئے۔

میں نے ان کی بہت سی تامل فلمیں دیکھی ہیں، تین تین گھنٹے لمبی، تامل زبان کا ایک لفظ سمجھ میں نہیں آیا لیکن جب بھی تھیٹر سے باہر نکلے تو آنکھیں گیلی ہوتی تھیں اور دل بوجھل ہوتا تھا۔ کچھ برس پہلے ان کی ایک تامل فلم "پاسا ملار" (Pasamalar) ہندی میں "راکھی" کے نام سے بنی تھی۔ تامل فلم میں جو شواجی گنیشن ،ساوتری اور جیمنی گنیشن خاص اداکار تھے۔ اور ہندی فلم میں یہی رول اشوک کمار، وحیدہ رحمان اور پردیپ کمار نے ادا کئے تھے۔ مکالمے اور گیت راجندر کرشن کے تحریر کردہ تھے اور موسیقی روی کی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ ایک روز فلم 'راکھی' کی ابتدائی شوٹنگ سے پہلے مدراس کے اے وی ایم اسٹوڈیو میں اس تامل فلم کا ٹرائل رکھا گیا تاکہ سب لوگ اپنے اپنے رول کی اڑان پہچان لیں۔ یہ ٹرائل ہم سب نے دیکھا اور جب ہم اسٹویڈیو کے تھیٹر سے باہر نکلے تو اشوک کمار، وحیدہ رحمان، پردیپ کمار، راجندر کرشن، روی، یعنی ہم سب کی آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا، جو رکنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ اشوک کمار نے ایک ریمارک بھی کیا کہ "بھئی، یہ لوگ رلاتے بہت ہیں"۔
تامل فلم کی طرح فلم 'راکھی' کی بھی سلور جوبلی ہوئی تھی جس کی ایک بہت بڑی تقریب بمبئی میں منائی گئی تھی۔۔ ہاں، تو میں بات کر رہا تھا ، کہانی اور کرداروں کی تلاش میں شواجی گنیشن کی سرگرمی کی۔
مجھے اب تک یاد ہے کہ شواجی گنیشن کے دوستانہ اسٹاف میں ایک پڑھا لکھا نوجوان تھا جو بنگالی تھا اور خود بھی ایک سکرپٹ رائٹر تھا۔ شواجی اسے سال میں ایک دو مرتبہ اپنے خرچ پر کلکتہ بھیجا کرتے تھے۔ کلکتہ جا کر وہ نوجوان بنگالی فلمیں دیکھتا، بنگالی ڈرامے دیکھتا، بنگالی لٹریچر پڑھتا تھا اور مدراس واپس آکر وہ شواجی کو بتایا کرتا تھا کہ فلاں کہانی اور فلاں کردار شواجی کی شخصیت پر پورا اترتا ہے۔ یہ تھی ایک لگن، ایک سرگرمی جس کی بدولت شواجی اپنی منزل مقصود کو پا لیا کرتے تھے اور جس کے سہارے وہ آج تک فلمی بلندیوں پر ہیں۔

ایک بار دھرمیندر نے شواجی کی غیر معمولی اداکارانہ صلاحیتوں کو بہت ہی سراہا تھا۔ یہ ان دنوں (1971ء) کی بات ہے، جب میں نے مدراس سے ایک تامل فلم کے ہندی حقوق خریدے تھے اور اسے ہندی میں "الفت" کے نام سے بنانے کا جتن کیا تھا۔ تامل فلم میں شواجی گنیشن نے لاجواب کام کیا تھا اور اس رول کے لئے میری نظر سب سے پہلے دھرمیندر پر پڑی۔ وہ ایک اچھا ایکٹر تھا اور ہمیشہ رہے گا۔ اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ میرا بہت ہی اچھا دوست اور صدق دل انسان تھا۔ اور ہمیشہ رہے گا۔
میں نے دھرمیندر کو فون کیا، اس نے کہا تامل فلم کا ٹرائل رکھ لو۔ فلم دیکھ لیتے ہیں۔ سنیل دت کے باندرہ کے منی تھیٹر 'اجتنا آرٹس' میں اس تامل فلم کی 19/ ریلوں کا ٹرائل شو ہوا جس میں ہم صرف تین آدمی تھے۔ میں، دھرمیندر، اور ہمارا ایک دوست گیان دتا (جو اب اس دنیا میں نہیں ہے)۔ یہ تامل فلم ایک رومانی کہانی تھی جس کی ڈرامائی بلندیوں کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ دھرمیندر ڈھائی تین گھنٹے تک گم صم بیٹھا رہا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیرتے رہے۔ تھیٹر سے باہر نکلا تو کہنے لگا:
" توبہ۔۔ کیا کام کیا ہے، شواجی صاحب نے! وہ ایک زبردست ایکٹر ہیں۔ مکالمے ادا کرتے وقت وہ جن بلندیوں کو چھو لیتے ہیں وہاں تک شاید ہی کوئی ایکٹر پہنچ سکتا ہو۔"
اور پھر دھرمیندر نے بڑی صاف گوئی سے کہا:
"آپ کی یہ پہلی فلم ہے۔ آپ میرے دوست ہیں۔ میں آپ کو چکر نہیں لگواؤں گا کہ کل آؤ، پرسوں آؤ، سوچیں گے! سچ بات یہ ہے کہ شواجی کا یہ رول میری پہنچ سے باہر ہے۔ لوگ مجھے سوشل فلموں میں شاید پسند بھی نہیں کرتے۔ آدمی اور انسان، اور عشق پر زور نہیں، کا حشر آپ دیکھ ہی چکے ہیں۔ میرے پرستاروں میں میرا کچھ اور ہی تصور ہے۔ میرے ساتھ فلم بنانا ہے تو کہانی کوئی اور لو۔۔ اور اگر یہی فلم بنانے کا ارادہ ہے تو اس میں کسی اور کو لے لو۔ اور مجھے اگلی فلم کے لئے ریزرو رکھ لو۔۔!"

شواجی گنیشن والی فلم کی کہانی مجھے بے حد پسند تھی اور اگلے ہی روز اس رول کے لئے کسی دوسرے ایکٹر کی تلاش میں نکل پڑا۔ آج میں 'الفت' کے کھنڈر کو بھول چکا ہوں مگر شواجی گنیشن کے لئے دھرمیندر کے تعریفی جملے اور میرے ا پنے لئے اس کی دوستانہ صاف گوئی، اب بھی یاد ہے۔

ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ "شمع" ، اپریل-1990

South India's tamil film superstar Sivaji Ganesan.
Villupuram Chinnaiya Manrayar Ganesamoorthy, known by his stage name Sivaji Ganesan, (1 October 1928 – 21 July 2001)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں