میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:32 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-04-18

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:32



نئے اور پرانے شہر کے تیڑھے میڑھے اونچے نیچے، راستوں اور تاریک گلی کوچوں سے جلوس آ رہے تھے اور غریب نواز ہوٹل کے سامنے اس طرح رک جاتے تھے، ٹھہر جاتے تھے جیسے یہ ایک پکنک پوسٹ ہے جہاں لائینس بنائے بغیر کوئی آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ یہ کوئی پکنک پوسٹ نہیں تھابھلاکس میں اتنی قوت اور طاقت تھی کہ انہیں روکتا۔ اورہجوم اس طرح بے قابو ہو کر آگے بڑھ رہا تھا جیسے اب اسے سنبھالنے والا کوئی باقی نہیں رہا۔ البتہ جلوس کے آگے اور جلوس کے دائیں اور بائیں پولیس کے جوان اپنی اپنی بندوقیں سنبھالے ہوئے آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ ان ان کے ساتھ ان کے اپنے افسر تھے جن کے کندھوں پر پالش کئے ہوئے اسٹار چھک چھک چمک رہے تھے اور جن کی کمرمیں بیلٹ سے کسی ہوئی تھیں اور ان سے جڑے ہوئے چمڑے کے کیسوں میں چھپے ہوئے ریوالوار خاموش پڑے ہوئے تھے۔ جلوس کے بہت آگے اور بہت پیچھے وائر لیس کی موٹر کاریں چل رہی تھیں، رک رک کر، آہستہ آہستہ اور جن میں بیٹھے ہوئے عہدہ دار پل پل کی خبریں کنٹرول روم کو دے رہے تھے۔ ہلو ہلو، کوئی خاص بات نہیں، جلوس شانتی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہلوہلو۔۔ ۔ اوور
ان کے علاوہ جیپ کاروں میں بیٹھے ہوئے بڑے بڑے پولیس افسر گشت لگارہے تھے اور جہاں کہیں وہ مناسب سمجھتے اپنی جیپ روک کر انسپکٹروں کو حکم دیتے اور انسپکٹر اپنے ماتحت سب انسپکٹرکو حکم دیتے اور سب انسپکٹر اپنے ماتحت جمعداروں کو اور جمعدارجوانوں کو حکم دیتے یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔
غریب نواز ہوٹل کے سامنے دور تک گئی ہوئی ایک میل لمبی سڑک ساری ٹریفک معطل ہو چکی تھی۔ ڈبل ڈیک بسیں، کاریں، آٹو رکشا سینکڑوں اسکوٹریں اور سائیکلیں اپنی اپنی جگہ ٹھہری ہوئی تھیں۔ سب حیرت سے اس جلوس کو دیکھ رہے تھے، اورسمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہ جلوس کیوں ہے ؟ اور کیا ہے، حالانکہ آئے دن شہر میں کئی جلوس نکلتے رہتے تھے لیکن ایسا جلوس کسی نے نہیں دیکھا تھا یہ ایک نیا جلوس تھا اور جلوسیوں کے چہروں پر ایک عجیب سی تمتماہٹ تھی۔
مختلف محلوں اور گلی کوچوں سے آنے والے ہر چھوٹے بڑے جلوس کی ایک شناخت تھی، ایک انفرادیت تھی اور ایک شان تھی۔ کوئی دف بجا رہا تھا تو کوئی مرغا اور کوئی ڈھول پیٹ رہا تھا اور کوئی بانسری کی لے پر ناچ رہا تھا۔ ان کے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پلے کارڈ تھے۔ اورہر محلے کے جتھے کی قیادت کرنے والوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بڑے بڑے بیانروں کو اور کی طرف اٹھا رکھا تھا بیانرس پر جلی حرفوں میں لکھا تھا: اردو پر ظلم ختم کرو۔
٭ نہیں چلے گی۔۔ ۔ نہیں چلے گی، سامراجی چال نہیں چلے گی۔
٭ اردو، ہندی زندہ باد!
٭اردو تلگو زندہ باد!
٭اردومرہٹھی زندہ باد!
٭اردو کنٹری زندہ باد!
آہستہ آہستہ جلوس آگے بڑھ رہا تھا۔
نعروں اور جوابی نعروں سے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی جیپ میں کھڑے ہوئے اردو کے عاشق مسلسل نعرے لگارہے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی آوازیں بیٹھتی جا رہی تھیں لیکن ان کے جوش میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔
پتہ نہیں اتنے سارے لوگ کہاں سے ابل پڑے تھے۔
میں ایک ان جانی اوربے نام سی خوشی کو اپنے دل کے کسی گوشے میں چھپایا ہوا ہکا بکا فٹ پاتھ پر کھڑا تھا۔ ہکا بکا اس لئے کہ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اردو کے نام پر ہزاروں اور لاکھوں افراد اپنے اپنے گھروں اور کاموں کو چھوڑ کر سڑکوں پر آ جائیں گے اور خوشی اس لئے کہ اب اردو تنہا نہیں ہے۔ میرے علاوہ اس پر اپنی جان نچھاور کرنے والے ہزاروں اورلاکھوں افراد ہیں جن کے کوئی نام نہیں۔ اگرنام ہیں بھی تو وہ سب اردو کے وسیلے سے پہچانے جاتے ہیں۔


A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-32

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں