پاکستانی کلچر - جمیل جالبی - پی۔ڈ۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-04-19

پاکستانی کلچر - جمیل جالبی - پی۔ڈ۔ایف ڈاؤن لوڈ

pakistani-culture-jameel-jalibi
اردو دنیا کے نامور ادیب اور ماہر لسانیات ڈاکٹر جمیل جالبی کی، پاکستان کے قومی کلچر کی تشکیل جیسے اہم موضوع پر 1964 میں شائع شدہ کتاب "پاکستانی کلچر" تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔
تقریباً ڈھائی سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 12 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

جمیل جالبی (اصل نام: محمد جمیل خان)، جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر، پاکستان کے نامور اردو نقاد، ماہرِ لسانیات، مورخ اور صدر اردو لغت بورڈ تھے۔ ان کا سب سے اہم کام اردو لغت کی تدوین اور 'تاریخ ادب اردو' جیسی اہم کتاب کی تصنیف و تالیف ہے۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد ڈاکٹر جمیل جالبی پاکستان منتقل ہوئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ طویل عرصے کی علالت کے بعد کل جمعرات 18/اپریل 2019 کو کراچی میں بعمر 90 سال انہوں نے انتقال کیا۔

ڈاکٹر جمیل جالبی اس کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
ممکن ہے اس کتاب کو پڑھ کر آپ بھی میری طرح بےچین ہو جائیں۔ تخلیق کے سارے سوتے اسی بےچینی کی کوکھ سے پھوٹتے ہیں۔ آلڈس ہکسلے [Aldous Huxley] تو اس بےچینی کو اتنی اہمیت دیتا ہے کہ اسے اچھے ادب کی بنیادی صفت قرار دیتا ہے:
"اچھے ادب کا کام یہ ہے کہ وہ ہمیں بےچین کر دے"
۔۔۔ اتنا مجھے یاد ہے کہ اس کتاب کو لکھنے سے پہلے اور پھر لکھتے وقت میں نے بہت دکھ اٹھائے ہیں۔ ایک تو موضوع ایسا کہ نہ اس کی کوئی روایت میرے سامنے تھی اور نہ اظہار کے سانچے میری رہنمائی کر رہے تھے۔ مجھے راستہ بھی بنانا تھا اور سڑک بھی تیار کرنی تھی۔ جب سڑک بن جائے اور راستہ مقرر ہو جائے تو پھر قافلے تیزی سے گزرتے چلے جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے اس موضوع پر اردو میں یہ پہلی مستقل کتاب ہے۔ اس کتاب کے لکھنے میں میں نے ساڑھے تین سال کا عرصہ لگایا ہے۔ میری کم مائگی کے علاوہ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ مجھے مسائل کے ایسے گھنے جنگل سے گزرنا تھا جہاں قدم قدم پر دلدلیں تھیں اور راستہ چلنا بھی دشوار تھا۔ اگر اس موضوع پر لکھنے کی پہلے سے کوئی روایت ہوتی تو شاید اتنی مشکل نہ پڑتی۔
چراغ سے چراغ روشن ہوتا ہے اور راستے سے راستہ نکلتا ہے۔ ممکن ہے میں نے راستہ بنانے میں غلطیاں کی ہوں لیکن میری ان غلطیوں میں سوچ کا پہلو ضرور ملے گا۔ گنا ہے ہم اگر باشد ثواب است۔
میں نے جو کچھ دیکھا اور جو کچھ محسوس کیا اسے کم سے کم لفظوں میں آپ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ایک ایسے دور میں جب فرد نے دیکھنے کا کام ہی بند کر دیا ہو، اسے آئینہ دکھانے کا کام سب سے اہم ہو جاتا ہے۔
یہ موضوع میرے لیے میری اپنی بقا کا مسئلہ ہے۔ اسی لیے میں نے جو کچھ کہا ہے پوری ایمانداری ، جرات اور ذمہ داری سے کہا ہے۔ ایسے میں میری یہ خواہش ضرور ہے کہ آپ بھی اس کتاب کو اسی خلوص اور ذمہ داری سے پڑھیں اور ذاتی اختلاف سے ہٹ کر اس موضوع پر اپنے اپنے طور پر غور کریں تاکہ اس غور و فکر اور اس بےچینی سے زندگی میں مثبت اقدار کا ایک ایسا نظامِ خیال پیدا ہو سکے جو ہمارے جدید ذہنی، مادی، معاشرتی و تہذیبی تقاضوں کو آسودہ کر سکے۔
قومی کلچر کی تشکیل ہمارا سب سے اہم مسئلہ ہے اور یہی اس کتاب کا موضوع ہے۔ اگر آپ اس کتاب کو پڑھ کر سوچنے کی طرف مائل ہو سکے تو میں سمجھوں گا کہ میری محنت رائگاں نہیں گئی،
میں نے جہاں جہاں لفظ "تہذیبی" استعمال کیا ہے اسے انگریزی لفظ "کلچرل" کے معنی میں استعمال کیا ہے اور لفظ 'کلچر' کے وہ معنی ہیں جس کی وضاحت میں نے دوسرے باب میں کی ہے۔
یوں تو میں نے اس کتاب کے لکھنے میں متعدد کتابوں سے استفادہ کیا ہے لیکن خاص طور پر ۔۔۔
'سائنس آف کلچر' کے تیرہویں باب سے اپنی کتاب کے چھٹے باب کو ۔۔۔
اور 'کلچر اینڈ ہسٹری' کے چوتھے اور پانچویں باب سے اپنی کتاب کے دوسرے باب کے ایک حصے کو سجایا ہے۔

از:
جمیل جالبی
کراچی۔ 12/اپریل 1964۔

کتاب کے پہلے مضمون "آزادی، تہذیبی مسائل اور تضاد" سے کچھ مفید اقتباسات پیش ہیں ۔۔۔
پاکستان ۔۔۔ ہماری آزادی کا آدرش، ہماری آرزوؤں کا کعبہ ۔۔۔ جہاں ہندوستان کے ہر خطے کے مسلمان مل جل کر ایک قوم کی حیثیت سے، نئی زندگی کا آغاز کرنے والے تھے، جہاں وہ اپنی عظیم روایات کے سہارے نئی تہذیبی قوتوں کا ثبوت دینے کا ارادہ رکھتے تھے۔۔۔ لیکن جب آزادی آئی تو اپنے جلو میں دو چیزیں لے کر آئی۔
ایک نفرت اور دوسرا تضاد۔
نفرت نے سارے برصغیر کو ہندو مسلم فسادات کی آگ میں جھونک دیا اور تضاد کے عفریت نے، جس پر آزادی سے پہلے ہم نے کبھی توجہ نہ دی تھی، طرح طرح کے تھکا دینے والے مسائل میں الجھا دیا۔
آزادی کے بعد ہم سب نے محسوس کیا کہ ہمارے پاس کوئی تہذیبی سرمایہ ایسا نہیں ہے جس سے ہم اس چیلنج کو قبول کر سکیں جو آزادی اپنے ساتھ لائی ہے۔ "مروجہ" مذہب کا اخلاقی و تہذیبی سرمایہ بظاہر ہمارا ساتھ دینے کے باوجود اپنی چمک دمک گنوا رہا ہے۔ آزادی سے پہلے ہمارے سارے جذبات "اجتماعی" تھے۔ آزادی کے بعد 'اجتماعی' جذبات کا رنگ روپ اڑنے لگا اور معاشرے کی ہر سطح پر یہ احساس شدت کے ساتھ ابھرنے لگا کہ آخر وہ کون سے عناصر ہیں جن کے ذریعے ہم یک جہتی اور حقیقی اتحاد حاصل کر کے ایک قوم بن سکتے ہیں؟
ہمارا تہذیبی سرمایہ کیا ہے؟ ہماری فکر اور ہمارے خیال کے کون سے راستے ہیں؟ معاشرے کے سامنے واضح اور غیر واضح طور پر یہ سوال بھی بار بار آنے لگا کہ اب وہ کدھر جائے اور کن اقدار پر اپنی زندگی کی تعمیر کرے؟
تہذیبی اعتبار سے پاکستان ایک خلا کے ساتھ وجود میں آیا تھا۔
1947ء تہذیبی اعتبار سے ایک ایسے واضح خط کی حیثیت رکھتا ہے جہاں سے ہمیں اپنے مسائل و افکار پر پھر سے سوچنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
ہم کہاں ہیں؟
ہم کدھر جا رہے ہیں؟
کیا کچھ اقدار ایسی ہیں جن پر چل کر ہم دوبارہ باعزت اور پروقار طریقے سے تجدیدِ حیات کا صور پھونک سکتے ہیں؟؟

۔۔۔۔ ہمارے ہاں خیالات کے تخلیقی سوتے کیوں بند ہو گئے ہیں؟
سارا معاشرہ اسلام کے عظیم اصولوں اور پاکستان کے عظیم آدرش کے باوجود تنگ نظری، تعصب اور تقلیدانہ ذہنیت کا کیوں شکار ہے؟ کہیں ہماری موجودہ روش اور ہمارا موجودہ نظامِ حیات فراریت کی ایک شکل تو نہیں ہے؟
ہمارا ماضی کیا ہے اور اس سے ہمارا کیا رشتہ ہے؟
کیا ہم ماضی کے تاریخی بہاؤ کا منطقی نتیجہ ہیں؟ اگر ہیں تو اس کی نوعیت کیا ہے؟
مذیب، زبان، مادیت اور معاشرتی اتحاد کی سطح پر ہم کیا کر رہے ہیں؟
کیا ہمارا اپنا کوئی کلچر ہے؟ اگر ہے تو اس کی کیا نوعیت ہے اور اگر نہیں ہے تو اسے بنانے اور متشکل کرنے میں ہم نے اب تک کیا کیا ہے؟

ایک طرف تو یہ سوالات ہیں جو واضح اور غیر واضح طور پر مختلف شکلوں میں معاشرے کے ذہن میں بار بار ابھر رہے ہیں اور دوسری طرف معاشرے کے وسائل اور خواہشات کے درمیان زبردست بحرانی تضاد اندر ہی اندر گھن کی طرح لگ رہا ہے۔ ہمارے وسائل زرعی معاشرے کے وسائل ہیں اور ہماری خواہشات صنعتی معاشرے کی خواہشات ہیں۔ اس اعتبار سے پاکستان ایک غیرآسودہ خواہشات کا معاشرہ ہے۔ وسائل اور خواہشات کا یہ تصادم اور تضاد زندگی کی ہر سطح پر ہمارے تخلیقی سوتوں کو خشک کر رہا ہے۔
ہماری زندگی کا نہ کوئی مقصد ہے اور نہ کوئی جہت۔ ہمارے سامنے تہذیبی سطح پر اقدار و اؒخلاق کا کوئی ایسا نظام نہیں ہے جس پر ہم مثبت طریقہ سے زندگی کا کوئی نیا قلعہ تعمیر کر سکیں۔ اسی وجہ سے سارا معاشرہ منتشر ہے۔ ہر چیز کی اہمیت زیر و زبر ہے۔ ساری جمی جمائی اقدار ٹوٹ پھوٹ کر ایک ڈھیر بنتی جا رہی ہیں۔ ہم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ معنی و اقدار کے پرانے ذرائع بےمعنی ہو کر دم توڑ رہے ہیں۔
خیالات و عقائد کا وہ نظام ، جس پر ہم صدیوں سے یقین رکھتے چلے آ رہے تھے، اب ہمیں بےمعنی اور ازکار رفتہ نظر آنے لگا ہے۔
اسی تہذیبی خلا کی وجہ سے ہم ایک طرف تو یوروپ سے لباس، آدابِ معاشرت ، تعمیرات، فنونِ لطیفہ ، مادی ترقی اور اخلاقی ضابطوں کی سطح پر شکست کھا رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے ذہنوں پر بدحالی اور پسپائیت کی دھند کے دبیز پردے پڑ رہے ہیں اور ہم رفتہ رفتہ اس خزاں رسیدہ درخت کی مانند ہوتے جا رہے ہیں جس کے سب پتے جھڑ گئے ہوں اور ٹنڈ منڈ تنہا کھڑا ہو۔
سارے معاشرے میں اب کوئی چیز اپنی اصل شکل میں نظر نہیں آتی۔ جو کچھ نظر آتا ہے وہ اصل نہیں ہے اور جو چیز اصل ہے وہ نظر نہیں آتی۔ یہ تضاد کا دوسرا رخ ہے۔ جب زندگی یہ شکل اختیار کر لے تو معاشرہ کا عام فرد "دیکھنے" کا کام ہی بند کر دیتا ہے اور اگر ایسے میں کوئی اسے آئینہ دکھا بھی دے تو جھلا کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور چیخ چیخ کر کہنے لگتا ہے :
"خدا کی قسم! یہ میری شکل نہیں ہے۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ یہ میں نہیں ہوں۔"
یا پھر وہ کوشش کرتا ہے کہ اس آئینہ ہی کو توڑ دے جس میں اس کی شکل نظر آ رہی ہے۔

***
نام کتاب: پاکستانی کلچر
مصنف: جمیل جالبی
تعداد صفحات: 231
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 12 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Pakistani Culture_Jameel Jalibi.pdf

Direct Download link:

پاکستانی کلچر - از: جمیل جالبی :: فہرست مضامین
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
1آزادی، تہذیبی مسائل اور تضاد9
2کلچر کیا ہے؟36
3قومی یک جہتی کے مسائل60
4مذہب اور کلچر - 1113
5مذہب اور کلچر - 2155
6مادی ترقی اور کلچر کا ارتقا180
7مشترک کلچر ، مشترک زبان199
8ذہنی آزادی اور تہذیبی عوامل211
9نئے شعور کا مسئلہ224

Pakistani Culture, a collection of research Articles by Jameel Jalibi, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں