اردو ادب میں ماں کا ذکر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-04-20

اردو ادب میں ماں کا ذکر

mother
ماں کا رشتہ دنیا کا سب سے عظیم رشتہ ہے۔ لفظ ماں میں ایسی کشش ہے کہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں جب اس لفظ کو ماں ‘اماں ’مدریا کسی اور زبان میں کہا جائے دونوں ہونٹ آپس میں ملتے ہیں۔ شاید یہ بھی ماں کے تقدس کی ایک نشانی ہو۔ دنیا میں جتنے بھی انسانی رشتے ہیں۔ ان میں سب مقدس اور عظمت والا رشتہ ‘ ‘ماں " کا ہوتا ہے۔ ماں اولاد کو جنم دیتی ہے۔ پال پوس کر بڑا کرتی ہے۔ اور ایک کمزور اور نا تواں پودے کو تناور درخت میں تبدیل کرتی ہے۔ اولاد کو ماں سے محبت ہو یا نہ ہولیکن ماں ہر حال میں اپنی اولاد پر ممتا نچھاور کرتی رہتی ہے۔ خود بھوکی رہے گی لیکن اولاد کے لئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرے گی۔ بچہ بیمار ہو جائے تو رات بھر جاگ کر اس کی تیمار داری کرے گی۔ اپنی اولاد کو ترقی کرتا دیکھ کر ماں خوش ہوتی ہے۔ اور امید کرتی ہے کہ بڑھاپے میں اس کی اولاد اس کا سہارا بنے گی۔ لیکن اکثر حالات میں ماں کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی۔ آج کل تو یہ کہاوت مشہور ہو گئی ہے کہ ایک ماں دس بچوں کو تو پال لیگی۔ لیکن دس بچے مل کر ایک ضعیف اور بوڑھی ماں کو نہیں پال رہے ہیں۔ اپنے والدین کے ساتھ ایسے غلط برتاؤ کے باوجود ماں اپنے بچے کے بہتر مستقبل لئے ہمیشہ دعا گو رہتی ہے۔ دنیا کے ہر مذہب اور سنجیدہ معاشرے میں ماں کو اعلیٰ مقام اور مرتبے پر رکھا گیا ہے۔ مذہب اسلام کی تعلیمات میں کہا گیا ہے کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ بوڑھے ماں باپ کی خدمت جہاد سے بہتر ہے۔ والدین سے صلہ رحمی ‘عمر کی درازی اور روزی میں کشادگی کا سبب ہے۔ اور میدان حشر میں لوگوں کو ان کی ماں کی نسبت سے پکارا جائے گا۔ حضرت ابو حریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ اے خدا کے رسولﷺ میرے نیک سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے۔ آپﷺ نے فرمایا تیری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون تو آپﷺ نے فرمایا تیری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون تو آپﷺ نے فرمایا تیرا باپ۔
8 مئی کو اقوام متحدہ نے ماں کا دن قرار دیا ہے۔ چنانچہ دنیا بھر میں اسی دن کا استقبال ماں کی اہمیت اور اس کے کردار کی عظمت و رفعت پر ذرائع ابلاغ بھی خصوصی پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں تعلیمی اور تہذیبی و ثقافتی ادارے بھی شایان شان تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں۔ آئیے دیکھیں کہ دنیا کے سب سے عظمت والے رشتے پر اردو ادب میں کیا کچھ پیش کیا گیا ہے۔ تاریخ ادب کا مطالعہ یہ باور کراتا ہے کہ دبستان لکھنوء نے میر انیس و میرزا دبیر جیسے عظیم مرثیہ نگار پیدا کر کے اردو شاعری کو واقعی وہ حسن و جمال عطا کیا جن کا اثر بعد کے شاعروں اور شاعری پر فنی اور فکری توسیع و ترقی کی صورت میں نمودار ہوا، مثلاً مرثیہ نگاری کے لیے مسدس کی جو ہیئت (Farm) نسبتاً زیادہ سازگار ثابت ہوئی وہ موضوعی اور معروضی امکانات کو روشن تر کرنے کا سبب بنی۔ الطاف حسین حالی نے مسدی مدوجزر اسلام جیسی سدا بہار نظم تخلیق کر کے ایک تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا اور پنڈت برج نارائن چکبست نے "رامائن کا ایک سین" کے زیر عنوان اتنی پر تاثیر نظم مسدس ہی کی ہیئت میں تخلیق کی۔ اس شاہکار نظم میں انہوں نے ماں کی عظمت اور اس کے کردار کی رفعت جلوہ گر کی ہے۔، شعر و شاعری کے دلدادہ یہ پوری نظم پڑھ کر اندازہ لگائیں کہ اردو شاعری میں ماں کا کردار اجاگر کرنے کا فریضہ شعرائے کرام نے کتنے احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔ اب علامہ اقبال کی نظم "ماں کا خواب" مسدس کی (Form) ہیئت میں تو نہیں ہے بلکہ مثنوی کا انداز بیان رکھتی ہے۔ ان کے اولین مجموعہ کلام "بانگ درا" میں شامل اشاعت ہے اس کا مجموعی تاثر ماں کی ممتا کا کرب ہے میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب۔ بڑھا اور جس سے مرا اضطراب۔ علامہ اقبال کے بعد بیسویں صدی اور پھر موجودہ صدی کی اردو شاعری پر اگر تحقیقی نظر ڈالی جائے تو حفیظ جالندھری کے شاہنامہ اسلام، جناب احسان دانش کی منظومات اور دیگر نظم گو شعرا کے کلام میں ماں کا ذکر خیر بڑے پر تاثیر اسالیب کی صورت میں ملتا ہے۔ ادھر کچھ عرصے سے ماں کے ممتا بھرے رشتے کو شہرت کی بلندیوں تک پہونچانے میں اردو کے نامور جذباتی شاعر منور رانا کا نام سر فہرست ہے۔ جنہوں نے غزل کی ہیئت میں ماں کی عظمت، محبت، کردار کو اتنی خوب صورتی سے اشعار کا روپ دیا کہ بے پناہ شہرت و مقبولیت پائی۔ ماں سے متعلق ان کے یہ اشعار مشہور ہیں۔
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہو گا
میں گھر سے جب نکلتا ہو دعابھی ساتھ چلتی ہے

گھیر لینے کو جب بھی بلائیں آ گئیں
ڈھال بن کر سامنے ماں کی دعائیں آ گئیں

کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی

میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتا بیں پھاڑ دیں
صرف ایک کا غذ پہ لکھا لفظ "ماں " رہنے دیا

منور راناؔ کے شعری مجموعے بھی اسی بنا پر منفرد و مثالی قرار پائے اور شائقین ادب نے پذیرائی کا شرف بخشا۔ جہاں تک نثر میں ماں کے کردار کا ذکر ہے۔ اردو نثر نگاری کی تاریخ میں سرسید احمد خان کا نام اور کام عہد زریں رہا ہے۔ اسی لیے مولانا حالی کی تحریر کردہ کتاب "حیات جاوید" جو سرسید کی سوانح حیات ہے اس کے حوالے سے ان کی والدہ محترمہ کا ذکر خیر کچھ یوں ہے کہ موصوف بڑی عظیم خا تون تھیں، انہوں نے بچپن ہی کے زمانے میں اپنے پیارے بیٹے کی اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ مثلاً جب سرسید خور و سال تھے اور اس کی پرورش میں ایک بوڑھے خاندانی ملازم کا کردار بھی نمایاں تھا سرسید کی ماں نے یہ دیکھا کہ بوڑھے ملازم پر انہوں نے ہاتھ اٹھایا یہ دیکھ کر محترم ماں کو جلال آ گیا اور اپنے پیارے بیٹے کو گھر سے نکل جانے کا حکم صادر فرما دیا، بے چارے نے اپنی کسی قریبی عزیزہ کے گھر پناہ لی۔ ادھر ملازم نے بچے کی خطا معاف کرنے کی پیہم استدعا (التجا) کی اور موصوفہ اسی شرط پر کچھ نرم ہوئیں کہ وہ آ کر میرے سامنے تم سے اپنی خطا پر معافی مانگے اور آئندہ ایسی حرکت نہ کرے تو اس کا جرم قابل معافی ہو سکتا ہے۔ بہر کیف ایسا ہی ہوا اور معصوم سرسید کومعافی مل گئی۔ اندازہ لگایئے کہ اس واقعہ کا سرسید کی ذہنی تربیت پر کیا اثر پڑا ہو گا جس نے آخر عمر تک ان کو سیرت و کردار کے اوصاف حمیدہ سے بہر ور رکھا۔ سرسید کے مضامین تہذیب الاخلاق میں ایک مثالی مضمون جو انشائیہ نگاری کی بھی ایک روشن مثال ہے۔ امید کی خوشی، پر ہے اس کی عبارت آرائی میں بھی ماں کا کردار بڑے دلکش پیرائے کی خوبیاں لیے ہوئے ہے۔ جب سرسید زیور تعلیم و تربیت سے آراستہ ہو کر سرکاری ملازمت میں آئے اور وطن مالوف دہلی سے دور رہنا پڑا تو ان دنوں ان کی والدہ محترمہ خاصی ضعیف ہو چکی تھیں۔ سرسید اپنی والدہ کا دیدار کرنے کو آئے تو بستر علالت پر پایا، اور فوری طور پر صحت یابی کے لیے ایک قیمتی معجون لاکر پیش خدمت کیا۔ کچھ دنوں کے بعد جب حسب معمول جائے ملازمت سے اپنی ماں کے پاس دہلی آئے تو دیکھا کہ والدہ محترمہ چاق و چوبند ہیں، دریافت کیا کہ جو معجون دے گئے تھے وہ کتنے دن نوش جاں کی، جواب ملا کہ بے چاری خادمہ بھی اسی مرض کا شکار ہو گئی تھی، جس میں سرسید کی والدہ مبتلا تھیں۔ خدا ترس اور سچی انسانیت نواز خا تون نے وہ معجون خود کھانے کے بجائے خادمہ کو کھلا دیا۔ وہ صحت یاب ہوئی اور کارساز حقیقی نے سرسید کی ماں کو بغیر کسی دوا کے ٹھیک کر دیا۔ آیئے اب ام الاحرار بی اماں کی عظیم ہستی اور مثالی ماں کی شخصیت کا کرداری تذکرہ کرتے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی والدہ محترمہ تھیں۔ ان کے اجداد مغل حکمرانوں کے دور میں اعلیٰ منصب پر فائز رہے۔ 1857ء میں برطانوی حکومت نے ان کے خاندانی بزرگوں پر قیامت ڈھائی، سروں کو کاٹ کر دہلی کے خونی دروازے پر لٹکا دیا، سگے ماموں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا۔ بس آپ کے والد محترم باقی رہے جو اہل خانہ کے ساتھ رام پور منتقل ہو گئی، جہاں انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی عبدالعلی خان سے کر دی جو 1880ء میں اچانک وفات پاگئی، والدین حیات نہ رہے بے چاری 28 برس کی عمر میں بیوہ ہو گئی تھیں۔ اس وقت مولانا محمد علی صرف دو سال کے تھے۔ خاندان والوں نے لاکھ کوشش کی کہ دوسری شادی کر لیں مگر وہ ہرگز رضامند نہ ہوئیں اور بہرطور اپنی زندگی بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے وقف کر دی۔ دونوں بیٹوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کی سچی اور انتہائی ایثار پسندانہ لگن رکھتی تھیں۔ اپنا قیمتی زیور، بیش بہا تحائف اور کل اثاثہ بچوں کی تعلیم و تربیت پر صرف کر دیا، یہاں تک کہ اجرت پر چکی تک پیسی مگر اپنی عزت نفس اور بیٹوں کی حریت پسندی پر حرف نہ آنے دیا۔ ہماری قومی تاریخوں میں تحریک آزادی، تحریک خلافت اور تحریک پاکستان کا تذکرہ تو بہت ہی، اور بی اماں کے حوالے سے یہ نعرہ حریت کہ "بولیں اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پر دے دو" بے شک یہ درست ہے مگر بی اماں جو ام الاحرار اور خود بھی آزادی کی کتنی جرا191ت مند مجاہدہ تھیں اس کا ذکر اس عظیم ماں کے حوالے سے ذرا کم ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ان تمام تر مجبوریوں کے باوجود انہوں نے صبر و استقامت اور جرات و کردار کا جو مظاہرہ کیا اس کا گواہ شہر قائد کا خالق دینا ہال ہی، جہاں برطانوی راج کے خلاف بغاوت کے الزام میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر پر مقدمہ چلا۔ دونوں بھائی کراچی سینٹرل جیل میں قید سخت برداشت کر رہے تھے اور ادھر بی اماں بڑی دردمندی اور دلیری سے برطانوی راج کے ظلم و ستم کے خلاف مسلم خواتین کو مزاحمتی تحریک چلانے کا درس عمل دینے کے لیے پورے ملک کا دورہ کر رہی تھیں۔ 80 برس کی بوڑھی ماں کو اطلاع ملی کہ پابند سلاسل علی برادران کو 2۔ 2 سال کی قید سخت سنادی گئی ہے اور خفیہ طور پر زور ڈالا جا رہا ہے کہ تحریری طور پر اگر معافی نامہ دیں تو رہائی ممکن ہے۔ اس اطلاع پر بی اماں نے لرزتے ہاتھوں سے بیٹوں کے نام خط لکھا جس میں یہ واضح کیا کہ "ابھی میرے بوڑھے ہاتھوں میں اتنی قوت باقی ہے کہ تم دونوں کا گلا گھونٹ سکوں۔ اگر تم لوگوں نے معافی نامہ داخل کیا تو واقعی ایسا ہی کروں گی"۔ یقیناًاردو ادب کے شعری اور نثری سرمایہ میں ماں کا کردار اجاگر کیا گیا ہی، اور تلاش کر کے اس کی جھلکیاں بھی پیش کی جا سکتی ہیں، تاہم میرا خیال ہے کہ اس موضوع پر تحقیقی نظر ڈالنے اور تواتر سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ نپولین بونا پارٹ نے جو غریب سپاہی کا بیٹا تھا، اپنے والدین خصوصاً ً ماں کی عظمت کے کردار سے یہ سبق لیے کہ وہ اپنی لگاتار محنت، ثابت قدمی، ذہانت، سچی لگن سے فرانس کی فرمانروائی تک پہنچا اور اس نے اہل فرانس کو پیغام دیا کہ "تم مجھے عظیم مائیں دو میں تمہیں عظیم قوم دوں گا؟"۔ بلاشبہ اس نئی صدی میں اردو ادب کے جوہر پاروں کو نئے انداز سے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ہماری نئی نسلیں اردو ادب کے قیمتی سرمایے سے استفادہ حاصل کر سکیں۔ اور اپنا اور ملک و قوم کا نام روشن کر سکیں۔

***
(20/ستمبر 2014 کو شعبہ اردو گری راج گورنمنٹ کالج نظام آباد [تلنگانہ] کے ایک روزہ قومی سمینار بعنوان "اردو ادب تہذیبی قدریں، ماضی حال اور مستقبل" میں یہ مقالہ پیش کیا گیا۔)

The mentioning of Mother in Urdu Literature. Article: Mohammad Mahboob

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں