غالب اور آم - انشائیہ از غلام احمد فرقت کاکوری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-04-30

غالب اور آم - انشائیہ از غلام احمد فرقت کاکوری

mango-and-ghalib
حضرت آدم سے غالب تک اور غالب سے مابدولت تک، یقین مانئیے ہم سب حد درجہ احسان فراموش، ناخلف اور محسن کش رہے ہیں، الا جناب عبداللطیف صدیقی، اور جناب خیر محصوروی کے جن میں سے اول الذکر حضرت آدم کا فاتحہ دلواتے ہیں اور دوسرے نے ایک مرتبہ غالب اکیڈمی کی طرف سے، آموں پر فاتحہ کر کے خوب ڈٹ کر آم یا تو خود کھائے یا اپنے دو چار پیٹ بھرے دوستوں اور ادیبوں کو کلائے، نہ کسی بے روزگار ادیب کو مدعو کیا اور نہ کسی مفلوک الحال فقیر شاعر کو شریک کیا۔ ورنہ آج تک نہ تو کسی صاحب کو حضرت آدم علیہ السلام کا فاتحہ کرنے کی توفیق اور نہ مرزا صاحب کے مرنے کے بعد کسی نے دو روٹیاں مرزا صاحب کے نام پر فقیروں کو کھلائیں حالانکہ نہ تو حضرت آدم نے ہمار، آپ کا باپ مارا تھا اور نہ مرزاغالب سے کوئی ایسا قصور سرزد ہوا تھا جس کی اداش میں ان کا فاتحہ، درود ہم سب بھیجتے ہیں۔ یہ بے انصافی ملاحظہ ہو، کہ ہم میں، آ میں کون ایسا ہے جو مرزا صاحب کے اشعار پڑھ کر سر نہ دھنتا ہو، اور ان کے اشعار گنگنا گنگنا کر ان سے مزے نہ لیتا ہو۔
رونے کو نہیں کوئی ہنسنے کو زمانہ ہے
عام طور پر مرحومین کافاتحہ ان چیزوں پر کیا جاتا ہے جو مرنے والوں کو زندگی میں بہت مرغوب ہوتی ہیں۔ غالب علیہ الرحمہ کے بارے میں سنا ہے کہ انہیں صرف دو چیزیں دنیا میں مرغوب تھیں، اول شراب اور دوسرے آم۔ شراب سال بھر پیتے تھے اور آدم پوری فصل کھاتے تھے، چنانچہ آموں کا ذکر ان کے کلام اور مکتوبات میں جگہ جگہ ملتا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ حضرت آدم کے بارے میں جو مشہور ہے کہ انہوں نے شیطان کے بہکانے سے گندم کی بالی گیہوں کا ایک دانہ کھالیا تھا اس لئے وہ جنت سے نکالے گئے، اسی لئے دنیا میں پہنچ کر انہوں نے انتقاماً اتنے گندم خوار اور اتنے گندم نما جوفروش پیدا کر دئیے کہ ساری دنیا کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گیا۔ کلام پاک میں چونکہ بہت سی باتیں اشارۃً سمجھائی گئی ہیں اس لئے خیال ہوتا ہے کہ ممکن ہے گندم سے مراد آم ہو۔۔ جو ایک جنتی میوہ ہے، اور یقیناً وہ گیہوں نہیں بلکہ کوئی بہت بڑا آم ہی ہو گا۔ جو اپنے قدوقامت میں خاصہ وزنی اور شیریں رہا ہو گا۔ جسے دیکھتے ہی ان کے منہ میں پانی بھر آیا ہو گا۔ یہ اسے کھ انے پر مجبور ہو گئے ہوں گے۔ ورنہ کہیں ایک دانہ گندم کھالینے سے انسن کو دنیا میں آنے کی ضرورت پیش آتی ہے، وہ دانہ دو ڈھائی سیر کا تو ہو گا ہی۔ جسے ہاضمے کو پس پشت ڈال کر وہ کھاتے چلے گئے ہوں گے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جنت میں جو، جوار اور چنے کے کھیت تو ہونے سے رہے پھلوں ہی کے باغات ہوں گے، مرزا صاحب چونکہ حسب نسب کے اعتبار سے کھرے تھے اس لئے ان کا سلسلہ نسب حضرت آدم تک براہ راست گیا ہو گا۔ درمیان میں کوئی میل ملاوٹ کا سوال ہی پیدا نہ ہوا ہو گا۔ اس لئے آم کی شوقینی انہیں حضرت آدم سے ورثہ میں ملی تھی۔ اسی لئے وہ اس شخص کو نجیب الطرفین گدھا تصور کرتے تھے جو آم نہ کھاتا تھا۔ جیسا کہ ایک جگہ فرماگئے تھے کہ گدھے آم نہیں کھاتے ان کے کلام اور خطوط میں بھی جگہ جگہ آموں کا ذکر ملتا ہے اور میری دانست میں کہ وارد محشر ان کے گناہوں کی سزا کے بعد اگر انہیں حوروغلماں انعام میں دے گا تو وہ کہیں گے کہ حضور! اسی وزن کے آدم دے دیجئے، میں حوروغلماں لے کر کیا کروں گا جو ممکن ہے کہ اگر کسی وت میرا آم کھانے کو دل چاہا تو وہ لوگ بھی اس میں حصہ بٹائیں۔۔ ۔
آموں کی کھلائی کے سلسلہ میں مرزا صاحب خوش خور تھے اسی لئے انہوں نے اپنے کسی دوست کو خط میں لکھا ہے کہ آم ہوں اور بہت ہوں، آموں سے متعلق یوں تو مرزا صاحب کے بہت سے شعر ہیں مگر بعض آموں والے اشعار کو یاران طریقت نے غلط پڑھنا شروع کر دیا ہے، مثلاً ان کا ایک شعر اس طرح مشہور ہے ؎
کلکتہ کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشین
اک ایسا تیر سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے
حالانکہ یہ شعر یوں ہے ؎
آموں کا ذکر تو نے جو چھیڑا ہے ہم نشیں
اک آم ایسا سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے
اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ غالب کو آم کس درجہ عزیز تھے کیونکہ اس شعر میں ان کو اس کا ملال نہیں کہ آم سے ان کے چوٹ لگی بلکہ غم اس کا ہے کہ ان کے سینے پر پڑنے سے آم مجروح ہو گیا ہو گا۔ غضب خدا کا غالب کے مداحوں اور معتقدین خدا جھوٹ نہ بلوائے تو اس وقت بھی لاکھوں کی تعداد میں ہندوستان اور پاکستان میں پڑے ہیں، مگر کسی کو اتنی توفیق نہ ہوئی کہ وہ دو چار سوکھی انبیلوں پر ہی ان کا فاتحہ کر کے ان کی روح کو خوش کرتا۔
راقم الحروف کو دوچار مرتبہ مرزاصاحب کے مزار پر حاضری دینے کا اتفاق ہوا گر ان کا مزار دیکھ کر اور یہ سوچ کر رونا آیا کہ ان کا مزار بھی بعض حضرات نے ایسی جگہ بنوادیا ہے جہاں دو دو ڈھائی ڈھائی میل آم تو آم، آموں کی ایک معمولی دکان بھی نظر نہیں آتی۔۔ ۔ حقیقتاً ان کا مزار تو ملیح آباد میں بننا چاہئے تھا، کہ ان کی روح ہمیشہ مرنے کے بعد مختلف قسموں کے آموں کی خوشبوؤں میں بسی رہتی اور اگر ایسا بھی ممکن نہ تھا تو کسی بڑھیا آم کی قلم منگوا کر ان کے مزار پر نصب کرادی ہوتی۔ تاکہ مرنے کے بعد ان کی روح اس طرح بے چین نہ ہوتی۔ چنانچہ عالم برزخ سے آموں کے بارے میں اپنے ایک دوست کو لکھتے ہیں:
’’تم نے جنت میں آموں کا ذکر چھیڑ کر بھولی یادوں کو تازہ کر دیا۔ تم دنیا والے جنت کا حال کیا جون، کہاں کی سنی سنائی با توں پر بھروسہ کرتے ہو اور بیٹھے بیٹھے بغیر طرح دئیے مصرعوں پر گرہ لگاتے ہو۔ بھلا جنت کا آموں سے کیا تعلق اور اگر ہو بھی تو مجھے کیا۔ جس جگہ دانے دانے پر مہر لگتی ہو اور جہاں گندم کا دانہ آم کے لئے شجر ممنوعہ قرار پائے ایسی جگہ بھلا کون جائے۔ میں تو اسی شرط پر جنت قبول کروں گا کہ میری قیام گاہ کے آگے انواع و اقسام کے آم لگے ہوں اور مجھے اجازت ہو کہ چاہے ڈال کے کھاؤں چاہے پال کے۔۔ ۔
جنت بھی ہے قبول مگر ایک شرط پر
آموں کے کچھ قلم مرے ہمراہ آئیں گے۔
جب سے عالم برزخ میں آیا ہوں۔ آموں کی صورت کو ترس گیا۔ یہاں آموں خی فصل تو بڑی چیز ہے، آم بیچنے والوں کی صورت کو ترستا ہوں اور یہ سوچ کر اپنے مقدر کو کوستا ہوں کہ سلیم پانی پتی جن کا آموں سے کوئی دور کا لگاؤ نہ تھا ان کی قبر تو ملیح آباد میں بنے اور مجھ بد نصیب کو مرنے کے بعد آموں کی ہوا نہ لگے۔ عالم برزخ کو یوں سمجھ لو کہ ایک بے نصلے مقام کا نام عالم برزخ رکھا گیا ہے۔ جو لوگ یہاں مقیم ہیں اور جن کے اعزاز دنیا میں رہ گئے ہیں وہ فاتحہ کے طور پر جو کچھ بھیجتے ہیں۔ فرشتے ان تک پہنچا آتے ہیں اور جیسا مال لاتے ہیں ویسا اس کا صلہ پاتے ہیں۔ ابھی پرسوں کی بات ہے کہ میاں عبدالرزاق ملیح آبادی کے گھر ملیح آباد سے چار پیٹیاں دسہری، سفیدے اور ثمر بہشت کی آئیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ پیٹیاں ان کی آئیں اور تالیں میں نے بجائیں۔ میاں عبدالرزاق آموں کی فصل سے پہلے وعدہ کر گئے تھے کہ اس مرتبہ فصل آنے پر اگر کسی عزیز نے آموں پر فاتحہ کیا تو ملیح آبادی آم کھلاؤں گا۔ پٹھان بچہ بات کا دھنی اور قول کا سچا ہوتا ہے۔ چنانچہ دو پیٹیاں آموں کی جن میں ہر پیٹی میں پچاس پچاس قلمی آم کے دانے تھے مجھے دے گئے۔ ہر دانہ ڈیڑھ پاؤ وزن کا، ایک آم چوسا ہے، میرے زمانے میں نہیں ہوتا تھا، نہ جانے ملیح آباد والے کہاں سے لائے ہیں، بہت خوب ہے، میں نے ان میں سے دو دانے جبرئیل امین کو بھجوائے کہ ہر معاملے میں وہ میرے کام آتے ہیں۔ اور مجھ پر غیر معمولی عنایت فرماتے ہیں جب سے دو دانے انہوں نے کھائے ہیں، ہونٹ چاٹتے نظر آتے ہیں۔ زندگی میں کیسے کیسے رفیق تھے ایک سلسلہ تھا جو مارہرہ، رام پور، سندیلہ اور بنارس تک چلا گیا تھا۔ یہ آموں کے اکھاڑے اور غالب پرستوں کے گہوارے تھے۔ سہارن پور میں ایک رٹوں ہوتا تھا جو شیرینی میں الفانسو کو شرماتا تھا۔ صورت اور سیرت میں یکساں جیسا ظاہر ویسا باطن۔۔
دنیا میں اب بھی میرے معتقدین کی ایک لمبی فہرست ہے رامپور میں میاں امتیاز علی عرشی رام پوری جنہوں نے میرا دیوان مرتب کیا ہے، سندیلے میں میاں چودھری وجاہت علی سندیلوی جنہوں نے میرے غیر مطبوعہ اشعار شائع کئے ہیں، دلی میں مالک رام، پنجاب میں غلام رسول مہر، بمبئی میں علی سردار جعفری، انمیں مصنفین بھی ہیں اور مربیین بھی، نقاد بھی ہیں اور شاعر بھی گمران میں سے کسی کو بھی توفیق نہ ہوئی جو چار انبیوں پر میری نذر دلواتے اور عالم برزخ میں میرے کام آتا۔
کون سنتا ہے فغان درویش
قہر درویش بجان درویش
سنتا ہوں کہ حکومت وقت میرا مقبرہ تعمیر کرانے جا رہی ہے۔ صاحب میں مقبرہ لے کر کیا کروں گا۔ میں مر کر یہاں آیا تو میری قبر پر انہوں نے ٹاپا اوندھا دیا۔ دو ایک باغ آموں کے میرے نام وقف کر دئے ہوتے تو میں جانتا کہ حاتم کی قبر پر لات ماری۔ آموں کے ٹوکرے مزار پر چڑھتے، عرس کے موقعے پر قلمی اور تخمی آموں کی چادریں چڑھتیں تو میں خوش ہوتا کہ مرنے کے بعد میری قدر ہوئی۔
کل شام پنڈت نہرو مجھ سے ملنے آئے تو میں نے ان سے شکایت کی، اتفاق ایسا کہ عبدالرزاق بھی بیٹھے تھے، بولے مرزا صاحب، یہ دنیا میں میرے جیل کے ساتھیوں میں تھے، جیتے جی ساتھ دیا اور مرنے پر بھی رفاقت کا دامن نہ چھوڑا۔ میں نے انہیں، ثمربہشت کے دو دانے دئیے۔ بولے اس پر تو مرزا صاحب میں بھی جان دیتا ہوں۔ ملیح آباد کے خان صاحبان سے میرا بھی یارانہ تھا بلکہ ان سے میرا تعلق بالکل عزیز دارانہ تھے جوش آخر دم تک رفیق رہے میں نے کہا میاں ! تمہاری زندگی میں تمہارے حکم سے مقبرہ بننے کا جب حکومت نے بندوبست کیا تھا تو میرے مزار کے گردوچار آموں کے درخت بھی لگوادئیے ہوتے۔ بولے مرزا صاحب چوک ہوئی اب میں لال بہادر شاستری کو لکھوں گا۔
ملیح آباد کے خان صاحبان تو آموں کی پرورش اور نگہداشت اس طرح کرتے ہیں جیسے کوئی مولوی بکرا پالتا ہے، اسے کلیجے سے لگاتا ہے، پلاؤ زردے کھلاتا ہے۔ خاطر و مدارات میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتا ہے۔ آم کے تراشنے کے طریقے بھی انوکھے ہیں قبلہ رو ہو کر انہیں ڈال سے توڑا جائے، ڈال سے جدائی کے وقت کوئی آیت پڑھی جائے ڈال سے جدا ہونے کے بعد اس طرھ اتر دکھن ہو کر اسے گرفت میں لیا جائے کہ آم اذیت محسوس نہ کرے، پال میں رکھ کر اسے ہفتہ بھر چھوٹی بڑی کروٹیں دلائی جائیں۔ اس کے بعد کاٹتے وقت آم کے جسم اطہر پر اس طرح ہاتھ پھیرا جائے کہ اس کا چھلکا کہیں سے تکلیف نہ محسوس کرے۔ چھری سے کاٹتے وقت منہ پورب پچھم کیا جائے۔ قاش اس انداز میں کاٹی جائے کہ آم کو اپنی قربانی تک کا گمان نہ ہو۔ قاش تن سے جدا ہو تو رس کا قطرہ زمین پر نہ گرے۔
غالب کے حقوق کے ایک ذوق کا کہنا ہے کہ مرزا صاحب کے حقہ کی چلم بھی کاٹ کی تھی اور پورا حقہ آموں کی لکڑی سے تیار ہوا تھا۔ یہاں تک کہ حقہ کا پیندا تک آم کی لکڑی کا تھا اور آم کے کوئیلے وہ عمر بھر استعمال کرتے رہے۔ بلکہ ایک محقق نے لکھا ہے کہ مرزا صاحب نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ میری تجہیز و تکفین کے سلسلے میں بجائے بیری کے پتوں کے آم کے پتے استعمال ہوں اور کافور کی جگہ آم کی گٹھلی کا سفوف استعمال کیا جائے۔ قبر میں تختے بھی آم کی لکڑی کے ہوں۔ مرزا صاحب جب بیمار پڑے تو جسم پر سویرے شام انبہ کچل کر ملتے اور اسی کا دونوں وقت شربت استعمال کرتے، غرض مرزا صاحب کی پوری زندگی آموں میں گزری اور مرتے وقت بجائے عرق انار کے ان کے حلق میں عرق انبہ ٹپکایا گیا۔
مرزا غالب کی جو صد سالہ برسی ۱۹۶۹ء میں آل ورڈ پیمانے پر منائی جانے والی ہے، اس کی وجہ سے غالب کی شہرت اس قدر عام ہو گئی کہ اب آم اور غالب کی شہرت میں یہ تمیز کرنا دشوار ہے کہ دونوں میں زیادہ مشہور کون ہے اور ادیبوں اور شاعروں کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ غالب آم پر غالب ہیں یا آم غالب پر۔ بہر صورت غالب پر جو جدید تحقیق ہورہی ہے اس کا سب سے بڑا کمزور پہلو یہ ہے کہ آج تک اردو کے کسی پروفیسر صاحب کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ مرزاصاحب کے ازدواجی تعلقات پر کوئی تحقیقی مقالہ لکھواتے اور اس میں ایک صاحب کا بیان درج کراتے کہ مراز صاحب کی ازدواجی زندگی تلخی میں آم کو دخؒ تھا اور غالب کی زندگی کا سب سے المناک پہلو یہی ہے کہ ان کے اور بیوی کے تعلقات تمام عمر اس درجہ کشیدہ رہے کہ ان کو آخر لاولد ہی مرنا پڑا۔ اور ہم آپ ان کی نسل سے محروم ہو گئے۔
جڑ کٹ گئی نخل آرزو کی
اختلاف کی وجہ جہاں تک معلوم ہوا ہے یہ تھی کہ دونوں کے امزجہ ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ غالب آم کے شوقین تھے، اور بیوی کو آموں سے نفرت تھی۔ یہ شراب پیتے تھے اور وہ شراب پینے والے کے قریب منہ لانا پسند نہ کرتی تھیں۔ بیوی روزے نماز کی پابند تھیں اور یہ رمضان شریف میں ایک روزہ نہ رکھتے۔ ہمیشہ بیوی سے کہا کرتے تھے کہ جنت میں اگر تمہاری پوچھ گچھ روزے کے سبب ہو گئی تو بندہ بھی وہاں ثمر بہشت کے قدر دانوں کی صف میں نظر آئے گا۔ مگر سنا ہے کہ فریقین میں دشمنی کی سب سے بڑی وجہ آم ہی تھے۔ مرزا صاحب یار دوستوں کو آموں کی فصل میں جو خطوط لکھتے تھے ان میں پہلا مطالبہ یہی کہ
اس فصل میں جو بھیئے بس آم بھیجئے۔
اس کانتیجہ یہ تھا کہ فصل شروع ہوتے ہی آموں کے جھولے کے جھولے آنا شروع ہو جاتے اور گھر بھر میں تل رکھنے کو جگہ نہ رہ جاتی۔ اور مرزا صاحب کی طرف سے اس زورں پر آموں کی کھلائی پلائی شروع ہوتی کہ شام تک صحن میں ہر طرف گٹھلیوں کے ڈھیر لگ جاتے۔ اس پر بیوی اور زیادہ آگ بگولہ ہوتیں اور جب آموں کے ٹوکروں کے پاس سے گزرتیں تو زیر لب کہتی جاتیں۔ خدا ان مردوں کو اڑائے جو آموں خی فصل شروع ہوتے ہی گھر بھر کو گھورا بنا دیتے ہیں۔
ایک دن اتفاق سے بیوی وضو کر کے دالان میں نماز پڑھنے جا رہی تھیں کہ آم کا چھلکا ان کے پیروں کے نیچے آ گیا اور وہ اس بری طرح پھسل کر گریں کہ ان کے دونوں کہنیوں میں سخت چوٹ آئی اور پاؤں کا گٹا اتر گیا اس پر وہ ہنگامہ ہوا کہ مرزا صاحب نے اس دن سے گھر کے اندر قدم رکھنا بند کر دیا۔ اور بیوی نے نمازیں پڑھ پڑھ کر آم اور آم کھانے والوں کو منہ بھر بھر کوسنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد مرزا صاحب نے ڈیوڑھی میں اپنا پلنگ بچھوالیا اور وہیں بیٹھ کر سویرے شام اور دوپہر آم کھا کھاکر گٹھلیاں اور چھلکوں کا انبار لگانے لگے۔ چونکہ گٹھلی چھلکے ایک وقت میں اتنے ہو جاتے تھے کہ ان کا اٹھانا مرزا صاحب کے بس سے باہر تھا اس لئے محلہ کی ایک ڈوسنی کو جو ذرا جوان سی تھی وہ آموں کی فصل بھر آٹھ آنا مہینہ پر رکھ لیتے تھے ڈومنی کچھ دنوں تک آموں کے گٹھلی چھلکے پھینکتی رہتی۔
اس کے بعد مرزا صساحب اس سے اپنی چلم دم کرانے لگے اور اس کے صلہ میں اسے دو چار آم دینے لگے۔ اور اس طرح آموں کے سہارے وہ ان سے اس درجہ قریب تر ہو گئی کہ محلہ والے اسے مشتبہ نظروں سے دیکھنے لگے بلکہ بعض تو کنواڑوں کی درازس جھانکنے تک لگے۔ اور جب اس کی اطلاع بیگم تک پہنچی تو وہ آموں کے سلسلے میں ان سے جلی بھنی تو تھیں ہی، انہوں نے مرزا صاحب کی بدنامی میں کوئی تسمہ باقی نہ رکھا۔ جس کی وجہ سے مرزا صاحب سسرال میں تمام عمر منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ اس طرح آموں کی وجہ سے ڈومنی مرزا صاحب اور ان کی بیوی کے درمیان ایک دیوار بن کر کھڑی ہو گئی۔
سنا جاتا ہے کہ ایک پی، ایچ ڈی صاحب جو حال میں دلی میں ایک کالج کے سامنے اردو کی ایک جگہ کے لئے امیدوار تھے اور امید واروں پر لاٹھی چارج ہونے پر اتر گئے، انہوں نے غالب اور آم پر پی، ایچ ڈی کے لئے اپنے تحقیقی مقالہ میں لکھا تھا کہ غالب کو آم اس درجہ مرغوب تھے کہ جب کبھی ان کو کھانسی نزلہ، زکام، درد شکم کی تکلیف ہوتی تو آم کے پیڑ سے ایک ہری پتی تڑوا کر سونگھ لیا کرتیے جس سے ان کی ساری تکلیف رفع ہو جاتی۔ جدید تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ مرنے سے تین ماہ قبل انہوں نے اکبر آباد میں ڈیڑھ بیگھے کا ایک آموں کا باغ بھی نصب کرایا تھا مگر جب پہلی بار درختوں میں بور آیا تو اس سے تین مہینے پہلے موت کے ظالم ہاتھوں نے مرزا صاحب کو زندگی کی ڈال سے توڑ لیا۔ سنا ہے کہ وہ باغ ڈومنی کے پس ماندگان کے پاس اب تک موجود ہے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

***
ماخوذ از کتاب: غالبِ خستہ کے بغیر (مصنف: غلام احمد فرقت کاکوری)
سن اشاعت: 1970

Mirza Ghalib and Mango. Short story by: Ghulam Ahmad Furqat Kakori

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں