دیوانہ مر گیا آخر - کہانی از انجم بہار شمسی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-04-28

دیوانہ مر گیا آخر - کہانی از انجم بہار شمسی

Deewana mar gaya akhir. Short story by Anjum Bahar Shamsi
ماہنامہ "نور" (رامپور، اترپردیش) کا شمارہ مارچ-1983 بطور "سچی کہانی نمبر" شائع ہوا تھا۔ اس مقابلے کے نتائج بیان کرتے ہوئے مدیرِ نور مرتضیٰ ساحل تسلیمی لکھتے ہیں:
مزیدار کہانی نمبر، دلچسپ کہانی نمبر اور شکاریات نمبر کے بعد اب "سچی کہانی نمبر" پیش ہے۔ ہمارا اندازہ یہ ہے کہ یہ نمبر کہانیوں اور تزئین و ترتیب کے لحاظ سے سابقہ نمبروں سے زیادہ معیاری اور دلچسپ ہے۔
کہانی لکھنا بلاشبہ ایک فن ہے۔ کہانی کے اجزائے ترکیبی بھی ہیں۔ ان اجزا کی ترتیب میں دھلی ہوئی کہانی اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔ کہانی لکھنے کے لیے مطالعہ، مشاہدہ اور طبیعت کی موزونیت زیادہ ضروری ہے۔ آج کتنے ہی کہانی کار اچھی کہانیاں لکھتے ہیں اگرچہ وہ اپنی کہانی کے لیے اجزائے ترکیبی کا فریم استعمال نہیں کرتے، بالکل اسی طرح جیسے اوزان و بحور سے ناواقف کتنے ہی لوگ شاعر ہیں اور اچھے شعر کہتے ہیں۔
انعامی مقابلوں کا مقصد آپ کے اندر لکھنے کی تحریک پیدا کرتا ہے۔ اصلاحی ادب کے تحت لکھنے والوں کا دائرہ وسیع کرنا ہے۔
اس مقابلے کی انعام یافتہ دوسری سچی کہانی "دیوانہ مر گیا آخر" (مصنفہ: انجم بہار شمسی، رامپور) ملاحظہ فرمائیں۔ یہ ایک عجیب و غریب سچی کہانی ہے جسے پڑھ کر یقیناً آپ کچھ دیر سوچیں گے۔
- مرتضیٰ ساحل تسلیمی

"اماں۔۔ ۔ !"
"کیا ہے۔۔ ۔ ؟" اماں نے چشمے کے پیچھے سے اسے گھورا اور پھر نیچے سر جھکا کر سینے لگیں۔
"پیسے دے دو۔ " اس نے تخت کے کونے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"ارے کم بخت اب کیسے پیسے، ابھی تو تو مجھ سے پیسے لے کر گیا ہے اس کا کیا کرا۔ "
"آئس کریم کھا لی۔ "
"اور اب کیا تھورے گا۔۔ ۔ تجھے تو ہر پانچ دس منٹ بعد پیسے چاہئیں، چل دفعان ہو یہاں سے۔ "
"اماں۔۔ ۔ کچھ بھی نہیں تھوروں گا، انٹے لاؤں گا۔ " اس نے بڑے اطمینان سے کہا۔
انٹوں کے نام پر اماں نے چشمہ اتار کر مشین پر رکھتے ہوئے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے اسے پھر گھورا اور دائیں بائیں گھوم کر دیکھا۔ کپڑوں پر ہاتھ مار کر تھپکا۔ وہ جو کچھ تلاش کر رہی تھیں اسے تو وہ اماں کی آنکھ بچا کر پہلے ہی تخت کے نیچے چھپا چکا تھا۔
"اری کم بختو، میرا بینت کہاں گیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ؟"
انہوں نے اپنی گونجیلی آواز سے دالان میں بیٹھی ہوئی لڑکیوں سے پوچھا۔۔ دالان میں اس کونے سے اس کونے تک بیٹھی ہوئی سب لڑکیاں خوف و دہشت سے لرز اٹھیں۔ وہ ان کے چہرے پر طوفان کے آثار دیکھ رہی تھیں جب بھی ان کو شدید غصہ آتا وہ ایسی ہی سرخ انگارہ جیسی آنکھوں سے سب کو گھور گھور کر دیکھتی تھیں اور کسی کی خیر نہ ہوتی جب ان کی چھڑی چلتی تو وہ کسی کی بھی تکلیف کا خیال نہ کرتیں۔
لڑکیوں کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر وہ اور بھی مشتعل ہو گئیں اور پھر انہوں نے پاس بیٹھے افلاک احمد کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اب ان کے ہاتھ مولا بخش بنے ہوئے تھے اور وہ اس کے کان کھینچ کر منہ پر طمانچہ مارتی جاتی تھیں۔
"انٹے کھیلے گا۔ نامعقول تجھے اس دن کے لئے جنم دیا تھا کہ تو برے لونڈوں کے ساتھ انٹے، گیٹریاں اور گلی ڈنڈا کھیلے۔۔ ۔ ارے تو پیدا ہوتے ہی کیوں نہ مرگیا۔ "
مارتے مارتے جب وہ تھک گئیں تو اسے دھکا دیتے ہوئے خود سر پر ہاتھ رکھ کر بھرائی ہوئی آواز میں وہی اپنے مخصوص جملے دہرانے لگیں جو عموماً اسے پیٹنے کے بعد وہ کہا کرتی تھیں۔۔ ۔
"ارے مولا یہ میرے کس گناہ کی سزا ہے۔ یہ کون سے کرموں کا پھل ہے۔ میں تو اسے سدھارتے سدھارتے تھک گئی ہوں۔ "
اور اتنے میں وہ وہاں سے کھسک گیا تھا۔ مگر ہمیشہ کی طرح اس بار بھی وہ اماں سے پیسے لے کر ہی ٹلا۔ اس وقت نہ سہی کچھ دیر بعد ہی وہ پھر اڑ گیا۔ خوشامد در آمد اور عاجزی، انکساری، یہی تو وہ انداز تھا جو ہمیشہ ہی افلاک احمد، اماں سے مار کھا کر اپنایا کرتا تھا۔۔ اور بے چاری اماں مجبور ہو کر اسے پیسے دے دیا کرتی تھیں۔۔ اور کرتیں بھی کیا۔

افلاک احمد عرف فلکی نے دنیا میں آنکھیں کھولیں تو خوبصورت نقش و نگار مگر بھاری اور گونجیلے لہجے والی دراز قد اماں بی ہی کو اس گھر میں دیکھا۔ باپ تو ہوتے ہوئے بھی اس کے لئے نہ ہونے کے برابر تھے۔ وہ اپنی دنیا میں مست و مگن تھے۔ انہیں نہ بیوی کی پرواہ تھی نہ اپنے بچوں کی بلکہ اماں بی کی دن رات چلتی ہوئی مشین اور انگلیوں کے پورووں کے سوراخ تو چیخ چیخ کر گواہی دیتے تھے کہ انہوں نے اماں بی کو سدا دکھی اور پیسہ سے تنگ رکھا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اماں بی کو فلکی کے دنیا میں آنے کی کوئی خاص خوشی نہ تھی۔ دو بڑے بیٹوں اور ایک بیٹی کے تن اور پیٹ کی فکریں کیا کم تھیں۔ اب اس نے آ کر بھی ان کی فکروں میں اضافہ کر دیا تھا۔
فلکی کی پیدائش کے بعد اماں بی اور محلے کی استانی جی کے ہاتھ اور بھی تیزی سے مشین پر چلنے لگے تھے۔ کلی دار کرتوں کے سینے میں پوروں کے سوراخ میں اور بھی اضافہ ہو گیا تھا اور پڑھنے والے بچوں پر جاہ و جلال اور بھی اثر کرنے لگا تھا۔
ان کا جلال۔۔ ۔ ان کی شخصیت اور رکھ رکھاؤ سب ہی کے لئے متاثر کن تھا۔ شوہر کے بے پناہ ظلم اٹھانے کے باوجود بھی کبھی کسی نے ان کے لب سے کوئی شکوہ نہیں سنا تھا۔ ان کے گھر کے نیم پختہ دالان میں قطاردر قطار لڑکیوں اور بچوں کا اضافہ ہوتا ہی رہتا تھا اور یہ ہل ہل کر سیپارہ پڑھنے والے بچے ان کی ایک نگاہ ہی سے لرز اٹھتے تھے، کانپ جاتے تھے اور محلے کی عورتوں کو یہی اماں بی، جو محلے والیوں کی استانی جی تھیں، بڑے ہی موثر لہجے میں انبیاء علیہم السلام کے قصے اور مذہب کی دیگر باتیں بتاتی تھیں، ان کا لہجہ بڑا ہی شاندار تھا۔ معمولی سے معمولی بات بھی اس انداز میں کہتیں کہ دوسروں پر اس کا اثر ہونا لازمی تھا، دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو کر اکثر عورتیں ان کے تخت کے ارد گرد بیٹھی کتر بیونت بھی سیکھتی جاتیں اور طرح طرح کی دلچسپ اور مزے دار باتیں بھی سنتی جاتیں۔ ان کی صحبت کے اثر سے اس محلے کی بہت سی بد عتی رسومات ختم ہو گئی تھیں۔
وہ کہتیں۔۔ ۔
"اللہ ایک ہے۔۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔
تو میری بہنو، پھر تم سب مل کر کیوں اس کا شریک ڈھونڈتی ہو۔۔ اس کو چھوڑ کر کیوں مزاروں کے، پیر فقیروں کے چکر لگاتی ہو۔۔ ۔ ارے گڑ گڑا کر اس سے دعا کیوں نہیں مانگتیں۔۔ ۔ وہ تمہاری دعائیں قبول کرے گا۔ اس سے مانگ کر تو دیکھو۔ "
تب عورتوں پر بڑی رقت طاری ہوتی اور سب ہی ارادہ کرتیں کہ اب کبھی ایسا کوئی کام نہیں کریں گے۔۔
تو ایسی کروفر والی اوردوسروں کو بہترین اور سیدھی سچی باتیں بتانے والی استانی جی کی پریشانیاں فلکی کے دم سے ایک دم ہی بڑھ گئیں۔

فلکی نے نقش و نگار تو اماں بی کے پائے تھے مگر رنگت بالکل ابا جی پر گئی تھی سرخ و سپید سی۔ بس وہ کچھ غیر معمولی فطرت لے کر پیدا ہوا تھا۔ ڈھائی تین سال کا تھا کہ عجیب عجیب سی باتیں کیا کرتا۔ اس کی ان با توں سے نہ جانے کیوں اماں بی خوفزدہ سی ہو جاتی تھیں۔
اور پھر جب چار سال کی عمر میں اسے پڑھنے بٹھایا تو اس نے پڑھنے ہی سے انکار کر دیا۔ تب اماں بی اپنا مولا بخش سنبھال کر اسے زبردستی پکڑ دھکڑ کر بٹھاتیں۔
"پڑھ کم بخت۔۔ الف سے اللہ۔ ب سے بسم اللہ۔ پڑھ۔۔ ! الف۔ ب۔ ت۔ ث۔
مگر فلکی۔ تیز طراز، محلے کے بچوں کو باتوں میں ہرادینے والا فلکی۔ الف اور ب سے آگے کبھی نہیں بڑھتا۔
اور غصہ میں آ کر اماں بی جب اس کے لئے استانی جی بن کر دوچار دھپ جماتیں تو وہ آنکھوں میں آنسو بھر کر کہتا۔۔ ۔ " اماں نہیں پڑھا جاتا نا۔ کہہ جو دیا۔ "
اور پھر یوں ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے فلکی۔ گھر میں معصوم سا نظر آنے والا فلکی محلے کے بچوں کا ہیرو بن گیا۔
انٹے کھیلنے میں وہ ماہر
گیٹریوں میں اس کا پہلا نمبر۔
پتنگ بازی میں وہ سب سے آگے۔
اور پڑھنے والی بچیوں کو پریشان کرنے میں ہر وقت پیش پیش رہتا۔ اماں بی اسے صاف ستھرے کپڑے پہنا کر سجا سنوار کر رکھتیں اور وہ باہر نکلتا اور چند منٹوں بعد کپڑوں کو گندا کر کے لے آتا تھا۔۔ یہ تو روز کا معمول تھا۔
اور نہ جانے کیوں اس فلکی کی محلے کے ہر گھر میں بڑی آؤ بھگت تھی۔۔ ہر گھر میں وہ کچھ نہ کچھ کھا پی کر ضرور آتا تھا اور پھر بھی بھوکا کا بھوکا۔
اماں تو اس کی بھوک سے سخت پریشان تھیں، اچھے خاصے مردوں والی خوراک تھی۔ بھلا پانچ چھ سال کا ہونے کو آیا ہے، ابھی عمر ہی کیا ہے اور کھاتا کتنا ہے۔
صبح و شام اب تو یہی کہتی رہتی تھیں، بڑی بہن نجمہ کا تو اس بات سے ہر وقت ہی منہ پھولا رہتا تھا۔ اماں بھی دوپہر کو کھانا کھلا کر جس دن بھی کچھ دیر کمر ٹکانے کو لیٹ جاتیں اس دن باورچی خانے میں بچا ہوا کھانا سب فلکی کے پیٹ کی نذر ہو جاتا۔

اماں بی اس کی عادتوں سے تنگ آ گئی تھیں۔ جوں جوں اس کی عمر بڑھتی جا رہی تھی، اماں کی فکروں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ دن بھر میں کتنی بار وہ ان کے ہاتھوں مار کھا بیٹھتا تھا اور رات کو سو جاتا تب اماں بی آنکھوں میں آنسو لئے اس کی چوٹ کے نشانوں پر سہلا سہلا کر پیار کرتی تھیں اور پھر اگلے دن جب وہ اسے مارتیں تو وہ کہتا :
"اماں بس بھی کرو، جتنی بار مارو گی، رات کواتنی ہی بار پھر پیار کرنا پڑے گا۔۔ تو کیا فائدہ اس مار کا۔ "
اور اس کی اس بات پر اماں حیرتوں کے سمندر میں ڈوب ڈوب جاتیں۔ باورچی خانے کی دہلیز پربیٹھی نجمہ تعجب سے اسے دیکھتی۔۔ ۔ اور پڑھنے والی لڑکیاں گھوم گھوم کر اسے دیکھتی ہوئی آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے کرتیں۔ اور اس دن تو حد ہی ہو گئی۔
اماں نے فاطمہ کو قرآن شریف کے ختم کی آئی ہوئی ڈھیر سی مٹھائی کو بڑے والے صندوق میں رکھ کرتالا لگا دیا تھا اور پھر کمرے کو بھی تالا لگاکر وہ پڑوس کی بوا سعیدن کی عیادت کو چلی گئیں۔ گھنٹہ بھر بعد آ کر دیکھا تو کمرے کا تالا کھلا ہوا تھا اور صندوق سے مٹھائی غائب تھی۔
تب وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔
"ارے نا ہنجار تو ڈاکہ بھی ڈالنے لگا۔ وہ اتنی زور سے چیخیں ان کی گونج سے سارے بچوں کے دل دہل گئے۔
اور باہر سے آئے ہوئے فلکی نے جب انہیں غصہ میں دیکھا تو پوچھ بیٹھا۔۔ ۔ "کیا ہوا اماں ؟"
"اماں کے بچے یہاں آ۔ آج میں تجھے زندہ نہ چھوڑوں گی۔ "
وہ غصہ سے گھورتی ہوئی بولیں تو وہ دھیرے سے مسکرایا۔
"اماں میں مرجاؤں گا تو کیا تمہیں دکھ نہ ہوگا؟"
مگر اماں نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہیں، بس اسے پکڑ کر لا توں گھونسوں کی بارش کرتی جاتیں اور کہتی جاتی تھیں کہ:
"بتا تو نے تالے کا ہے سے توڑے ہیں اور کیوں توڑے ؟"
"اماں خدا کی قسم میں نے تالا نہیں توڑا ہے۔ "
"پھر کس نے توڑا۔ ؟"
"مجھے نہیں پتہ اماں، وہ تو ہاتھ لگاتے ہی خود بخود کھل گیا۔ اماں میں نے قسم کھائی ہے نا خدا کی قسم اماں دونوں تالے یوں ہی کھل گئے تھے۔ میں نے کسی بھی چیز سے نہیں کھولے۔ "
اماں اسے مار مار کر تھک گئیں مگر وہ اسی طرح انکار کرتا رہا اور اماں کو سخت تعجب تھا۔ یہ دونوں تالے تو اتنے مضبوط تھے کہ کسی کیل کانٹے سے بھی کھلنا بہت مشکل تھے۔ فلکی کی شخصیت اماں کے لئے کافی پراسرار بن گئی۔

اور پھر بقول اماں کے یہی بد تمیز، اجڈ، گنوار اور جاہل فلکی اپنی عمر سے کافی بڑا دکھائی دینے والا فکی۔ سب ہی کے لئے اہم بنتا گیا۔ محلے میں کسی کی بھی طبیعت خراب ہوتی فلکی پہنچ جاتا۔
"بس دو تین دن اور لگیں گے ٹھیک ہونے میں۔۔ پھر چلتے پھرتے نظر آؤ گے میاں۔ "
تو واقعی وہ مریض دو تین دن ہی میں ٹھیک ہو جاتا۔
محلے کے فقیر بابا کی طبیعت سخت خراب تھی۔ فلکی پہنچا تو اس کے پڑوسی احمد دین سے کہنے لگا۔ " اب کے اس کا بچنا بہت مشکل ہے۔ بس بہت سے بہت ایک ہفتہ کا مہمان ہے۔ "
اور ٹھیک ایک ہفتہ کے بعد فقیر بابا چل بسا۔
تب فلکی سب کی سمجھ سے باہر کوئی پراسرار شخصیت بنتا چلا گیا اور جب پہلی بار استانی جی کے سامنے نصیر کی اماں نے فلکی سے کہا۔
"بیٹا نصیر کے لیے دعا کرو، وہ پاس ہو جائے، دسویں کا امتحان دے رہا ہے نا۔ "
"کہہ دیا نا پاس ہو جائے گا۔۔ کل سے کان کھائے جا رہی ہیں دونوں اماں اور خالہ مل کر۔ کل کہہ جو دیا تھا خالہ بی سے کہ پاس ہو جائے گا۔ "
تب گھر گھر چلتی ہوئی اماں کی مشین ایک دم ہی رک گئی۔ اور انہوں نے سفید کمانی کے چشمے کو اتار کرا پنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فلکی کو گھورا۔۔ اور گونجیلے لہجے میں بولی۔
"کیا کہتی ہو نصیر کی اماں ؟"
"اور کیوں رے۔ کیا تو خدا بن بیٹھا ہے۔ تجھے غیب کا علم کب سے ہے۔ جو ایسی وثوق سے باتیں کرنے لگا۔ اب میرے سامنے ایسی باتیں کیں تو ٹھیک نہیں۔ "
اور پھر یوں ہونے لگا کہ عورتیں فلکی سے کہتیں۔
"فلکی۔ ہمارا یہ کام ہو جائے گا؟"
"نہیں۔۔ نہیں ہوگا۔ "
"فلکی! سلیم کے ابا کو نوکری مل جائے گی؟"
"کیوں کان کھاتی ہو، کہہ جو دیا اس جگہ نہیں ملے گی۔۔ کہیں اور کوشش کر دیکھو۔ "
"فلکی۔ میرا نسیم صبح سے گیا ہوا ہے اب تک جانے کیوں نہیں آیا۔ "
"جاؤ اب وہ نہیں آئے گا اس وقت وہ سفر میں ہے۔ "
فلکی کے منہ سے یہ جملہ سن کر اماں بی کانپ اٹھیں۔ ان کا پورا وجود لرز گیا۔ تب وہ اطمینان سے بستر پر لیٹے ہوئے فلکی کے پاس آ کر بیٹھیں۔ اور اگلے ہی لمحے اس کے شانے جھنجھوڑ کر چیخ اٹھیں۔
"فلکی۔ بتا تو کب سے خدا بن بیٹھا ہے ؟"
تو کیوں ان عورتوں کو دھوکا دے رہا ہے۔ ان جاہل اور کچے عقیدے والی عورتوں کے عقیدے بگڑ رہے ہیں فلکی۔ جواب دے۔ جواب دے۔ "
تب وہ پھوٹ پھوٹ کر پہلی بار اسے چمٹ کر رو پڑیں۔
"آہ۔۔ کتنی مشکل سے ان ذہنوں سے تمام خرافات کو دور کیا تھا۔
میری برسوں کی محنت ضائع ہو گئی۔ میرا گھر۔۔ شرک کا مسکن بنتاجا رہا ہے فلکی۔ تجھے موت کیوں نہیں آتی۔ تو مرتا کیوں نہیں۔
تجھے میری بد دعائیں اثر کیوں نہیں کرتیں ؟"

اور پھر روتے روتے وہ نیم بے ہوشی کی سی حالت میں ہو گئیں۔
فلکی نے نہایت عقیدت سے ماں کو تکیہ پر لٹایا اور ان کی پیشانی پر عقیدت کا نذرانہ پیش کیا۔
"اماں تم مجھے نہیں سمجھ سکتیں۔ " اس کے ہونٹوں سے ایک سسکی نکلی۔
اور پھر یوں ہوا کہ اماں بی کی بددعائیں فلکی کے بجائے ان کے اپنے ہی سہاگ کو لگ گئیں۔ اگلے ہی دن صبح صبح بنارس سے فلکی کے ابا کی لاش آئی تو محلے کی عورتوں نے آہستگی سے ان کی کلائی کی چوڑیاں توڑ ڈالیں۔ رنگین دوپٹہ اتار کر سفید دو پٹہ اڑھادیا اور وہ خاموش سی سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھتی رہیں۔۔ ان کا سائبان۔ ان کا سہاگ۔۔ ان سے چھن گیا تھا۔ لاکھ وہ ظالم سہی مگر تھا تو۔۔ کبھی دو چار، مہینہ میں آ کر بچوں کی خیر خبر تو لے ہی لیتا تھا۔
اور پھر انہیں چپ سی لگ گئی۔ وہ خاموش خاموش سی اپنے بچوں کی صورتیں تکتی اور بیو گی کی چادر کو آہوں اور سسکیوں سے بھگوتی رہتیں۔
اب ان کی گونجیلی آواز۔۔ ڈانٹ پھٹکار سب کچھ بند تھی۔
فلکی اس خاموشی سے تنگ آ گیا تھا۔ اسے تو ہر وقت برا بھلا کہنے والی اماں بی ہی پسند تھیں، جو اسے مار مار کر چمکارتی تھیں اور چمکار چمکار کر مارتی تھیں۔
ایک دن وہ کہہ اٹھا۔
"اماں کیوں چپ ہوکچھ تو بولو۔ سنو اماں میں نوکری کروں گا۔ تم فکر مند کیوں ہوتی ہو۔ بھیا اور بھائی جان کو پڑھتے رہنے دو۔ اچھا ہے یہ کچھ زیادہ پڑھ لکھ لیں تو تمہارے سارے ہی دکھ دور کر دیں گے۔ ویسے اماں تم مجھے ناکارہ سمجھتی ہونا، میں تمہیں کماکر دکھادوں گا۔ "
"الف کے نام لٹھ تو آتا نہیں، تم کیا کماؤ گے۔۔ ۔ "نجمہ نے بیچ میں مداخلت کی۔
"آپا جاہل بھی کبھی کبھی بڑے کام کے نکل جاتے ہیں۔ " اس نے بڑے دکھ سے جواب دیا۔

اماں نے نجمہ کو گھورا اور چپ ہی رہیں۔ تب کچھ دیر بعد وہ نہا دھوکر اجلے کپڑے پہن کر گھر سے نکل گیا۔ اور اماں اسے دیکھتی ہی رہیں۔ بارہ سال کا فلکی کسی طرح بھی بارہ سال کا نہیں لگ رہا تھا وہ تو ایک سترہ اٹھارہ سال کا نوجوان اور گبرو سا لڑکا لگ رہا تھا اور اس دن، دن بھر فلکی غائب رہا۔ شام جب وہ آیا تو اس نے اماں کو خوشخبری سنائی کہ اسے رسا ٹیکسٹائل میں سروس مل گئی ہے۔
سب کے لئے یہ حیرت کی بات تھی۔ مگر یہ ایک حقیقت تھی کہ فلکی کو ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار کی سروس مل گئی۔
اب فلکی کے شب و روز میں کافی ترمیم ہو گئی تھی۔ وہ پابندی سے اپنے کام پر جاتا۔ باتیں اس کی وہی معنی خیز اور چونکا دینے والی تھیں۔
اور رفتہ رفتہ اس کی شخصیت کا اثر مل میں بھی ہونے لگا۔ پتہ نہیں مل کے ور کرز اس کو کیا سمجھتے تھے، سب ہی اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے اور وہی فلکی مل میں ولی جی کے نام سے جانا جانے لگا۔ اماں بی نے سنا تو اپنا سر پیٹ لیا۔

فلکی کیسا ولی اوتار بنا پھرتا ہے۔ کیوں جہنم کی آگ کا سامان کر رہا ہے ؟ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بہت جلد فلکی کی تنخواہ ڈیڑھ سو سے ڈھائی سو ہو گئی۔ منیجر اس پر کچھ زیادہ ہی مہربان تھا۔
اور اماں کی بددعائیں فلکی کو سچ مچ ہی لگ گئیں اس دن وہ مل سے دیر سے لوٹا تو نہ جانے کہاں سے اسے کتا چمٹ گیا۔ اتنے زور سے کاٹا کہ۔۔ اس کا کاٹا خطرناک بنتا چلا گیا۔ اور وہ فلکی جو سب کا منظور نظر تھا۔۔ بستر نشین ہو گیا۔ طرح طرح کے علاج معالجے ہوئے مگر زخم کو نہ ٹھیک ہونا تھا نہ ہوا۔ نتیجے کے طور پر سدا کے لئے اس کے پیر مڑ سے گئے۔
تب اماں کے دکھوں میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔ ان کا فلکی اپاہج ہو گیا تھا۔ اب وہ قدم قدم پر دوسروں کا محتاج تھا۔
مل کے منیجر نے اس پر عنایات کی بارش کر دی۔ پتہ نہیں اسے وہ کیا سمجھتا تھا کہ علاج معالجے کے لئے بھی اسے کافی رقم دی اور پھر آرڈر جاری کر دیا کہ ولی جی مل میں کام نہیں کریں گے، مگر انہیں تنخواہ برابر ملتی رہے گی۔
پھر فلکی ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کو جا کر صرف تنخواہ لایا کرتا تھا۔ اماں اڑ گئیں کہ بغیر محنت کا معاوضہ ہرگز بھی نہیں لوں گی۔ مگر منیجر نے اماں کی ایک نہ چلنے دی۔ وہ ہر آٹھ دس دن میں خود ہی فلکی سے ملنے آتا۔ گھر اورخاندان کے کتنے قصے اس سے کہتا۔ بہت سے مسائل رکھتا ان کا حل معلوم کرتا۔۔ تب اماں کمرے میں سے چلا اٹھتیں۔
"منیجر صاحب آپ اسے کیا سمجھتے ہیں۔ یہ کیا جانے ان با توں کو۔۔ ایسے چکروں کو۔۔ ۔ اور منیجر مسکرا کر رہ جاتا۔

مراد آباد میں زبردست ہاکی ٹورنا منٹ تھا۔
"ولی جی دعا کرو اس بار میری ٹیم ٹورنامنٹ میں کامیاب ہو جائے۔ "
اس بار منیجر نے تو فلکی کے قریب بیٹھتے ہوئے سب سے پہلے بات یہی کی۔
"اگر مجھے لے کر چلو گے تو ضرور جیت جاؤ گے، ورنہ نہیں۔ "
اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ تب منیجر اسے ایک مذاق سمجھتے ہوئے ٹال گیا۔
ٹورنا منٹ ہوا مگر رسا ٹیکسٹائل کی ٹیم ہار گئی۔ فائنل تک بھی پہنچ نہ سکی۔
اور جب اگلی بار شروع سردیوں میں پھر ٹورنا منٹ ہوا تو اس نے تب بھی فلکی سے وہی جملہ دہرایا۔
"ولی جی دعا کرو اس بار ہماری ٹیم کامیاب ہو کر لوٹے۔ "
"میں نے اس سے پہلے بھی کہا تھا نا کہ اگر مجھے لے کر چلو گے تو ضرور جیت جاؤ گے۔ "
تب منیجر نے سوچا کہ آزماکر دیکھوں۔ دروازے پر کار آ گئی۔ فلکی اس میں بیٹھ کر منیجر کے ہمراہ مراد آباد گیا اور رسا ٹیکسٹائل کی ٹیم نے ہاکی ٹورنامنٹ کا فائنل واقعی جیت لیا۔ تب اس کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ اس نے پورے مل میں مٹھائی بٹوائی اور اپنی جیت کا انحصار فلکی کے وجود پر رکھا۔ اور اس طرح فلکی کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔
تب اماں بی نے گڑ گڑا کر دعا مانگی۔
"اے پروردگار۔۔ تو دانا و بینا ہے۔
اگر لوگوں کے عقائد تیرے اس بندے کی ذات سے اس طرح مستحکم ہوتے چلے گئے تو پھر۔ انسان تیری ذات کو بھول بیٹھیں گے۔ اور میرا گھر عبادت گاہ بن جائے گا۔ مجھے تیری عبادت درکار ہے۔ میرے معبود۔ صرف تیری تو جو وحدہ لاشریک ہے۔ مجھے اپنے جگر کے اس ٹکڑے کی عبادت درکار نہیں ہے۔ یہ تو خود ہی عبد ہے۔ معبود کیسے بن بیٹھا۔۔ یا اللہ یا تو اپنی رحمت سے اپنے اس بندے کو ہی سیدھی راہ دکھلادے۔ یا عقیدے کی ان دیواروں کو ڈھادے۔ اور۔۔ اور یا پھر تو اس انسانی معبود کو اپنے پاس بلالے۔ میری کوششیں رائگاں جا رہی ہیں۔، میں اس کی ذات کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔ "

پتہ نہیں تہجد کے وقت کی مانگی ہوئی اس دعا میں کیا اثر تھا کہ فلکی۔۔ جوان تندرست۔ توانا اور گبرو سا خوبصورت فلکی دن بدن زرد سا پڑنے لگا۔ اس کے میدہ سے شہاب رنگ کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ وہ املتاس کے پھولوں کا رنگ اختیار کر گیا۔
اور پھر کبھی بخار کبھی کھانسی۔ کبھی نزلہ۔ ان بیماریوں نے اسے مستقل بستر پر ڈال دیا۔
اماں بی کے کاموں میں دگنا اضافہ ہوتا گیا۔ وہ بستر پر ہی اس کا منہ دھلاتیں، کھانا کھلاتیں۔ حاجت سے فارغ کرواتیں۔ اور اس کے دیگر چھوٹے بڑے کام کرتیں۔ تب وہ اماں بی سے اور بھی لاڈ کرتا۔
اماں جتنی اس کی اور اس کے بستر کی صفائی رکھتیں اتنا ہی اس کا بستر گندہ ہوتا۔ ان کی سمجھ میں اس گندگی کی کوئی وجہ نہیں آتی تھی۔
دن ماہ و سال کی صورت میں اڑنے لگے تھے کئی برس بیت گئے تھے، اس کی بیماری طول پکڑتی جاتی تھی۔ مگر اس کے باوجود اس کی آواز میں وہی شیرینی اور لہجے میں وہی نغمگی تھی۔ اس کے پاس آنے والے عقیدت مندوں کی تعداد بھی روز بروز بڑھتی ہی جاتی تھی۔ اماں ان عقیدت مندوں سے زبردست پریشان تھیں اور جھنجھلا کر چیخ بھی پڑتی تھیں تب وہ اماں کے گلے میں پیار سے ہاتھ ڈالتا اورلہک لہک کر یہ شعر پڑھتا۔
ہمارے بعد اندھیرا رہے گا محفل میں
بہت چراغ جلاؤ گے روشنی کے لئے

اور اماں اس کے اس شعر سے اور اپنی مانگی ہوئی دعا سے کسی انجانے خوف سے لرز اٹھتیں۔ رفتہ رفتہ اس کی کمزوری بڑھنے لگی تھی۔ تنخواہ اب بھی اسی طرح پابندی سے مل سے ملتی تھی۔
اماں بی ہر جمعہ کے جمعہ فلکی کے بستر کو تبدیل کرتیں۔ اس کے پلنگ کو دھوپ لگاتیں اور اس کے استعمال کی ہر ہر چیز کی خوب صفائی ستھرائی کرتیں۔ مگر باوجود ان کی کوششوں کے فلکی کے پلنگ کے کھٹمل ہی ختم نہیں ہوئے۔ بلکہ انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی کہ جتنی وہ انہیں ختم کرنے کی کوشش کرتیں ان کی تعداد میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جاتا تھا۔
اس دن بھی وہ صبح ہی سے کھولتا ہوا پانی اس کے پلنگ کے چولوں میں ڈال رہی تھیں اور ساتھ ہی بڑبڑاتی بھی جاتیں۔
کمرے میں بیٹھے ہوئے فلکی نے جب اماں کے اس عمل کو دیکھا تو بڑے کرب سے چیخ اٹھا۔
"اماں تم کیوں ان کے پیچھے پڑی ہو یہ تمہارا کیا بگاڑ رہے ہیں ؟"
اس کے لہجے کا یہ کرب۔ اماں نے صاف محسوس کیا۔ اور پھر اماں بی نے دیکھا کہ فلکی کی بیماری کے ساتھ اس کے پلنگ کے کھٹملوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس کے ارد گرد سینکڑوں کھٹمل رینگتے اس کے جسم پر چڑھتے اترتے اور وہ ایسا ہی لیٹا رہتا۔ کبھی کبھی اماں بی کی رات میں آنکھ کھلتی تو فلکی کو دھیرے دھیرے اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے پاتیں مگر یہ باتیں ان کی سمجھ سے باہر تھیں۔
اس دن جمعہ تھا اماں نے اس کا بہت دن سے بڑھا ہوا شیوا بنایا۔ اسے نہلا دھلا کر صاف ستھرے کپڑے پہنائے تو وہ آزردگی سے کہنے لگا۔
"اماں کل پھر نہلانا پڑے گا۔ آج تم نے بیکار ہی نہلایا۔ کل اکٹھے ہی نہا لیتا اور کل تو نئے کپڑے بھی پہننا ہیں۔ "
"کیوں کل کیوں نہائے گا آج نہلا تو دیا۔ اب سردیاں آ گئیں، روز نہانے کے دن تو رہے نہیں۔ اور نئے کپڑے کہاں سے پہنے گا۔ ابھی تو تجھے صاف ستھرے کپڑے پہنائے ہیں۔ "
"وہ۔۔ وہ اماں۔ دیکھو نا۔ کل تنخواہ کا بھی تو دن ہے نا۔ مل جاؤں گا تو اسی لئے کہہ رہا تھا۔ اور پھر وہ چپ سادھ کر لیٹ گیا۔

اس دن اس نے محلے کی عورتوں، پڑھنے والی لڑکیوں اور نجمہ سے ڈھیر سی باتیں کیں، اماں سے بولا۔ "اماں بھیا اور بھائی جان کب آئیں گے۔۔ انہیں بورڈنگ کا کھانا تو اچھا ملتا بھی نہیں ہو گا۔۔ اماں وہ خوب ڈھیر سا پڑھ لیں گے تو اچھی سر وس مل جائے گی۔ پھر تمہاری مشین ہرگز نہیں چلے گی۔ تم آرام ہی آرام کیا کرنا۔ اور وہ تمہاری خدمت کریں گے۔ تمہیں خوب بہت سا کماکر دیں گے۔ آپا کی دھوم دھام سے شادی کریں گے۔ اماں ! آپا کا اچھا سا دولہا ڈھونڈنا تاکہ وہ خوش رہ سکیں۔ "
اس نے گھنٹوں اسی طرح باتیں کیں۔۔ اور رات کو اماں سے بولا:
"اماں تم میری غلطیوں پر مجھے معاف کر دیجیو۔ اماں میں نے تمہیں بہت دکھ دئے ہیں۔
اچھا اماں جاؤ جا کر سو جاؤ۔ کل ہم چلے جائیں گے اماں۔۔ تم تم ہمیں یاد کرو گی۔ "
اس نے اماں کو اپنے پلنگ سے چلے جانے کو کہا اور زیر لب بڑ بڑانے لگا۔

اس رات نہ جانے کیوں اماں کی آنکھیں تارا بن گئیں ایک پل کو انہیں نیند نہ آئی۔ عجیب سی بے چینی تھی۔ رہ رہ کر فلکی کی باتیں انہیں پریشان کرتیں اور وہ سونے کی ناکام کوشش میں لگ جاتیں۔
اور اس صبح سب کے لئے ہی یہ خبر افسوس ناک تھی۔ یہ سانحہ اندوہناک تھا کہ فلکی اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ ہر آنکھ اشکبار تھی۔ اماں کا تو حال ہی جدا تھا۔ چپ خاموش سب کو تکتی رہیں۔ بھیا اور بھائی جان کو علی گڑھ سے فوراً بلا لیا گیا۔ خاندان کے دیگر افراد اس کو آخری منزل تک پہچانے کا اہتمام کرنے لگے۔ اس کی ٹانگیں بالکل ہی مڑی ہوئی تھیں اسی لئے ظاہر ہے کہ کفن بھی اسی حساب سے سلنا تھا مگر اتفاق اور دھوکے سے کفن کچھ بڑھتی کٹ گیا۔ تب سینے والے نے نچلے کا حصہ خوب اندر کی طرف موڑ کر اس میں ٹانکے لگادئیے۔ نہادھوکر اسے کفن پہنا کر لٹادیا گیا۔ دیکھنے والوں کا اژدہام تھا۔ سب آتے، اس کا نورانی چہرہ دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتے۔
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب کے منہ سے ایک ساتھ چیخیں نکلیں۔ یہ چیخیں اس کی موت کی نہ تھیں، یہ تو تعجب اور حیرت سے ملی جلی چیخیں تھیں۔
سب کی نظروں کے سامنے ایک دم ہی فلکی کی ٹانگیں خود بخود سیدھی ہو گئیں۔ اور کفن بھی آپ ہی آپ کھل کر اس میں فٹ ہو گیا۔ یہ سب کے لئے عجیب و غریب واقعہ تھا۔ جسے سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ آنکھیں مل مل کر، کہ کہیں خواب تو نہیں، یوں بھی ہوتا ہے اور کچھ دیر بعد کسی کو خیال آیا کہ قبر بھی اسی لمبائی کے حساب سے چھوٹی ہی کھدوائی تھی، اب اسے بھی بڑا کروانا ہے۔ قبر کو جا کر دیکھا تو وہ بھی خود بخود پوری تھی۔
آخر یہ قبر کس نے اتنی دیر میں کشادہ اور بڑی کر دی؟
دیکھتے ہی دیکھتے اس کی دس سال سے مڑی ہوئی ٹانگوں کو کس نے سیدھا کر دیا؟ کفن کے بند کھول کر کس نےا س کو فٹ کر دیا؟
یہ سوالات ہر ذہن کے لئے ایک معمہ تھے۔

فلکی دنیا سے چلا گیا تھا۔ مگر اس کی پر اسرار شخصیت کے ساتھ ساتھ آخری رسومات کی حیرت ناک خبریں بہت جلد سب کہیں ارد گرد پھیل گئیں۔ لوگ کافی دور دور سے اس کی خبر کی صحت کے لئے آتے۔ اماں بی ہر ایک کو تفصیل بتاتے بتاتے تھک گئیں تو نجمہ کہہ اٹھی۔
"اماں پوچھنے والوں کا تو تانتا ہی بندھ گیا ہے، کب تک ہر ایک کو تفصیل بتاؤگی۔ "
"تو مت بول نجمی۔ میرے فلکی کا ذکر ہوتا ہے نا۔۔ میرا فلکی بالآخر مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔ آہ کس قدر مارا ہے میں نے اسے۔
مجھے پتہ ہوتا کہ وہ مجھے چھوڑ کر جائے گا تو اسے چھواتی بھی نہیں۔ کیسی کیسی عجیب باتیں کرتا تھا وہ۔ سب کی سمجھ سے بالاتر۔ چلو اچھا ہوا مر گیا۔ بہت ہی اچھا ہوا۔ نہیں تو دنیا اسے سجا سنوار کر مسند پر بٹھا کر سجدے کرنے لگتی۔ اسی لئے تو میں نے تجھ سے دعا مانگی تھی کہ اسے اپنے پاس بلالے۔ تو نے اچھا کیا مولا کہ اسے بلالیا"
انہوں نے آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے ہوئے خدا سے کہا۔
اور پھر ان کی شب و روز وہی تھی۔
چپ چپ اور نڈھال سی اماں بی دن رات مشین چلاتی جاتی تھیں۔ اورجب بھی جس وقت بھی ان کے پاس محلے کی عورتیں آ کر بیٹھتیں۔ تو وہ دل سوز انداز میں عجیب طرح سے کہتیں:
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مر گیا آخر تو ویرانے پہ کیا گزری
ویرانے پہ کیا گزری!
دوانہ مرگیا آخر۔
کہو مجنوں کے مرنے کی۔
کہو فلکی کے مرنے کی۔
تب وہ بے خود سی ہو جاتیں۔ مشین کے ہتھے پر سر رکھے آپ ہی آپ نہ جانے کیا کیا کہتی رہتی تھیں۔

وقت نے کروٹ لی اور کافی سال گزر گئے، دونوں بیٹے بہت اونچی پوسٹ پر پاکستان میں عیش کی زندگی گزارنے لگے۔ نجمہ کی شادی کو عرصہ گزر گیا۔ بیٹوں نے بہت کوشش کی وہ پاکستان چلیں۔ مگر اماں اس سر زمین کو۔ اس نیم پختہ مکان کو چھوڑنے کو بھی تیار نہیں تھیں جس سے ان کے فلکی کی یادیں وابستہ تھیں۔
اب بھی وہ بچوں کو پڑھاتی جاتیں اور اپنے مولا بخش سے ان کی پٹائی لگاتی جاتیں۔ گھر گھر کرتی مشین ان کی روزی روٹی کا آسرا تھی۔ ان کی شخصیت میں وہی رکھ رکھاؤ اور آنکھوں میں جلال تھا۔ ہر روز سیتے سیتے وہ اب بھی پرسوز آواز میں کہہ اٹھتیں ؎
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مر گیا آخر تو، ویرانے پہ کیا گزری
دوانہ مرگیا آخر۔
ویرانے پر کیا گزری۔
ویرانہ۔۔ ان کا اپنا وجود ہی تھا نا۔۔ جس نے اپنے لگائے پودوں کی کوئی بہار نہ دیکھی۔
آج بھی وہ اس سے محروم تھیں جیسے کہ سدا سے رہیں۔
آہ! بے چاری اماں بی!!!

***
ماخوذ از رسالہ: "نور" رامپور (سچی کہانی نمبر۔ مارچ-1983)۔

Deewana mar gaya akhir. Short story by: Anjum Bahar Shamsi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں