میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:33 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-04-25

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:33



لیکن اس ہجوم میں کیا کوئی احمد خاں ادیب، جے بہادر سنگھ، اور پنڈت دیو نرائن پانڈے ہے ؟
میں نہیں جانتا، لیکن جب بھی اردو تحریک کی بات آتی ہے یا خیال آتا ہے تو یہ تین شہیدوں کے نام میرے تصور کے آسمان پر تاروں کی طرح جگمگانے لگتے ہیں۔ اور جس کی حرارت سے میری روح، سوئی ہوئی روح بیدار ہونے لگتی ہے۔

احمد خاں ادیب شہید نہیں ہوئے لیکن میں انہیں زندہ شہید کہتا ہوں، پتہ نہیں اب وہ کہاں ہیں ؟
ان سے میری ملاقات آل انڈیا اردو کنونشن بمبئی میں ہوئی تھی۔ دبلا پتلا سا نوجوان جسے دیکھنے کے بعد اس بات کا احساس ہوتا تھا کہ ابھی ابھی وہ دواخانے سے ڈسچارج ہو کر آ رہا ہے۔ بے حد کمزور، یرقان زدہ۔
احمد خاں ادیب، یوپی کے ڈیلی گیٹ تھے اور جنہوں نے یوپی میں اردو کے قانونی حق دلوانے کے لئے مون جرت رکھا تھا۔ برت کے ٹھیک نویں دن پولیس نے انہیں رات کے بارہ بج کر تیس منٹ پر کر لیا۔ اس وقت ان کی حالت تشویشناک تھی۔ لیکن وہ اپنے فیصلے پر اٹل رہے۔ یہاں تک کہ جیل میں بھی انہوں نے اپنے مرن برت کو جاری رکھا۔ نہ پانی پیا اور نہ لیمو کا استعمال کیا۔ شاید برت کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ انہوں نے کوئی طبی مدد قبول نہیں کی۔ اور ٹھیک اکیسویں دن جب ان کا برت ٹوٹا تو ان کے معدے کا سارا نظام تہس نہس ہو چکا تھا۔ پھر وہ اس قابل نہیں رہے کہ کسی بھی قسم کی غذا کو ہضم کر سکیں۔ ڈاکٹروں نے سختی کے ساتھ ہدایت کی تھی کہ وہ صرف سیال غذا استعمال کریں۔

میں احمد خان ادیب کو زندہ شہید اسی لئے کہتا ہوں کہ انہوں نے اپنی زندگی کی ہر شے اردو پر قربان کر دی تھی، حد یہ کہ اپنی زبان کا ذائقہ جسم کی طاقت، جوانی کا حسن اور مستقبل کی ساری بہاریں۔ اسی لئے احمد خان ادیب اردو تحریک کے زندہ شہید ہیں۔ اب تم کہاں ہو؟ تمہارا نام اخبارات میں جلی سرخیوں میں کیوں نہیں چھپتا۔ شاید یہ بات تمہیں بھی نہیں معلوم، مجھے بھی نہیں معلوم۔ اس ملک میں کسی کو بھی نہیں معلوم کہ تمہاری عزت اب بھی میرے دل میں ہے۔ اب تو بھائی تم پینتالیس سال کے ہو چکے ہوں گے۔ میں تمہیں یہیں سے سینکڑوں میل دور سے سلام کرتا ہوں۔

دوسرے شہید جے بہادر سنگھ ہیں جو یوپی کے مشہور کمیونسٹ لیڈر تھے اور اعظم گڑھ کے رکن پارلیمنٹ تھے وہ اردو کیمپ پہنچے اور زندہ شہید احمد خان ادیب کی تائید میں اس لسانی خبر کے خلاف چوبیس گھنٹوں کی بھوک ہڑتال شروع کی۔ یہ 26 جون 1967ء کا واقعہ ہے۔
پارٹی کے تمام ممبرس اور پارلیمنٹ کے اکثر ارکان پریشان ہو گئے، وہ سب کیمپ پہنچ کر منع کرتے رہے بلکہ اصرار کرتے رہے، سنو جے بہادر برت مت رکھو۔ ذرا ٹھہر جاؤ۔ ہم پر چھوڑ دو۔ ہم سب ٹھیک کر دیں گے، لیکن جے بہادر نے بات نہیں مانی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ دل کے مریض ہیں۔
جدید کانپور کے اخبارسیاست اور حیدرآباد کے پندرہ روزہ اخبار ترقی اردو 15؍اگست 1967ء کی دیورنگ کے مطابق جے بہادر سنگھ نے کہا یوپی کی غیر کانگریسی حکومت نے 33 نکاتی پروگرام میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کی تجویز کو تسلیم کیا تھا، مگر اس حکومت نے دھوکہ دینا شروع کیا۔ اردو کے لئے چند کلمات خیر کہنے اور محض رزولیوشن پاس کر دینے سے مقصد حل نہیں ہوتا۔ جب تک اردو کو دوسری سرکاری زبان تسلیم نہیں کیا جاتا وہ کسی بھی لیڈر سے بات نہیں کریں گے۔
اور کسی سے سمجھوتہ کئے بغیر بہادر قلب کے شدید حملے کی وجہ سے عین جوانی میں انتقال کر گئے، میں فٹ پاتھ پر کھڑا سوچ رہا تھا کہ کیا ہندوستان کی کسی بھی کمیونسٹ پارٹی میں کوئی ایسا جے بہادر باقی ہے جو کسی سے سمجھوتہ کئے بغیر اردو تحریک کے لئے اپنی زندگی کو داؤ پر لگا دے؟ کمیونسٹ پارٹی ہی کیوں کیا ملک کی اور کوئی پارٹی ایسی مثال پیش کر سکتی ہے ؟


A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-33

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں