شروع کے چند صفحات میں نباض اہل قلم کی آرا ہیں، جن میں کرشن چندر، عصمت چغتائی، خواجہ احمد عباس، شمس کنول اور محمد علی تاج بھوپالی کے تاثرات کا انتخاب ہے۔ "ایک غزل اور تاثرات" کے عنوان سے ملک زادہ کا دیباچہ بھی ہے، جو انہوں نے 26/جولائی 1956ء کو تحریر کیا تھا۔ اس دیباچہ میں انہوں نے شکیلہ بانو کی شاعری پر اپنے تبصراتی تاثرات کا اظہار اس طرح کیا ہے:
" سچی بات تو یہ ہے کہ شکیلہ نے غم جاناں اور غم دوران دونوں کے ایک متوازن امتزاج سے اپنی شاعری، کے نگار خانے کو سجایا ہے۔ میں نے تفصیل کے ساتھ تو نہیں مگر جستہ جستہ ان کے اشعار کا مطالعہ کیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ نہ تو ان کے کلام میں دور بینی ہے کہ وہ گردوبیش کے واقعات سے بے خبر ہو جائیں اور نہ وہ گرد و پیش کے واقعات میں اتنا گم ہیں کہ اپنے دل کے داغوں کی بہار نہ دیکھ سکیں۔ ذات اور ماورائے ذات دونوں پر ان کی نگاہیں ہیں اور دونوں عناصر نے ان کے فکروفن کو مہمیز کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کا ذہنی جھکاؤ اور فطری میلان زندگی کے ان تجربات کی جانب سے عشق کی وادیوں کو سینے کے بل چل کر طے کرنے کے بعد ہی پیدا ہوتے ہیں۔ "
اس مجموعہ کلام کا آغاز مخدوم محی الدین کے اس شعر سے کیا گیا ہے۔
شہر میں دھوم ہے اک شعلہ نوا کی مخدوم
تذکرے رستوں میں، چرچے ہیں پری خانوں میں
یہ شعر اس وقت کہا گیا تھا جب شکیلہ بانو اپنے دور عروج میں حیدرآباد میں منعقد محفل قوالی میں شرکت کرنے گئی تھیں۔
شکیلہ بانو نے اس مجموعہ کے صفحہ 19 سے 23 تک اپنے کوائف بیان کئے ہیں۔ وہ خاندانی حالات درج کئے ہیں جن سے عموماً لوگ (خاص طور پر اہل بھوپال) تقریباً ناواقف ہیں۔ میں نے شکیلہ بانو کے تمام حالات زندگی، عروج اور زوال کی داستان اپنی کتاب"جہان فلم کی مسلم اداکارائیں " میں تحریر کئے ہیں چونکہ شیلہ بانو میری پڑوسی رہیں اور میں نے ان کی زندگی کے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔
شکیلہ بانو بھوپالی ہندوستان کی پہلی خاتون قوال ہونے کے علاوہ ایک تہذیب کی نمائندہ خاتون بھی تھیں۔ ان کی "ذاتی" محفلوں میں وہ مشاہیر علم و ادب دوزانو حاضر رہاکرتے تھے جو بقول کسے اردو زبان کے پاسبان اور معمار رہے۔ یہ وہ انوکھی اور سب سے جداگانہ خاتون قوال و شاعرہ تھیں جن کی ہر ادا، ہر غمزہ، ہر مہذب آرائش گفتار دلچسپ مہمان نوازی اور منفرد فن قوالی پر جس قدر لکھا گیا ہے وہ بڑے سے بڑے فنکار کا ورق زندگی نہیں بن سکا۔
شکیلہ بانو بھوپالی پر میرا طویل مضمون "جہانِ فلم کی مسلم اداکارائیں " میں شائع ہو چکا ہے، اس لئے میں تفصیل سے گریز کر رہا ہوں، اور اس مضمون کو صرف ان کی اداکاری شاعری گلوکاری اور موسیقی تک محدود رکھا ہے۔
ان کا صرف ایک شعری مجموعہ طبع ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے غزل یا نظم پر کتنی طبع آزمائی کی وہ سرمایہ چونکہ محفوظ نہیں رہا اور ان کی زندگی اور خاندانی زوال کے ساتھ یقیناً ضائع ہو چکا ہو گا چونکہ ان کے خاندان میں کوئی بھی ایسا فرد نہیں تھا جسے ادب یا شاعری سے احتراماً تھوڑا سا بھی لگاؤ رہا ہو۔ سبھی ان کی قوالی کے سہارے "پل" رہے تھے۔
"ایک غزل اور" کی تمام شاعری روایتی شاعری ہے۔ شاعری میں رومانیت کا لہجہ بھی یاسیت لئے ہوئے ہے مثلاً یہ اشعار۔
میری راتوں میں سیاہی کے سوا کچھ بھی نہیں
شہر میں کیسے نکلتے ہیں ستارے لکھنا
وہ بھی کیا دور تھا اور کتنا بھلا لگتا تھا
چاندنی رات میں دریا کے کنارے لکھنا
دل امانت ہے ان کی انہیں سونپ دو
وہ بیاباں کریں یا گلستاں کریں
ناز ہے تجھ کو اگر ابر برسنے پہ بہت
میری آنکھوں کی طرح سے تو برس اب کے برس
شکیلہ بانو جس غمزدہ ناز و ادا سے قوالی کو دلکش انداز دیتی تھیں کہ محفل بہ شکل تصویر بتاں ہو جایا کرتی تھی۔ وہی کچھ ان کی شاعری میں ان کی یکتائے روزگار طرز تخاطب کا دھیما سا ترنم بھی شامل ہے۔ ان کے بعض اشعار بغاوت پر آمادہ نظر آتے ہیں، جنہیں اہل ترقی پسند اقدار کی قربت سے تعبیر کرتے ہیں۔
فضائے ماہ نہ اب کہکشاں کی بات کرو
نئی زمین، نئے آسمان کی بات کرو
یہ مانا سلسلہ وحشت کا ہے جیب و گریباں تک
مگر مجھ سے میری دیوانگی کچھ اور کہتی ہے
ہم سے اچھے تو پرندے ہیں کہ پر رکھتے ہیں
ہوں قفس میں بھی تو اڑنے کا ہنر رکھتے ہیں
چمک رہی ہے جو بجلی اسے نظر میں رکھو
جو جل چکا ہے نہ اس آشیاں کی بات کرو
بعض اشعار میں وہ خود سے برگشتہ بھی ہوئی ہیں، بیزار بھی ہوئی ہیں اور فراق و وصل کی خلیج ان کے جذبات کو انتشار کا کرب دے جاتی ہے
نیند تتلی بھی نہیں جو باندھ لیں ہم اس کے پَر
کیا کریں جب چاہتی ہے پل میں اڑ جاتی نیند
ہاں کبھی تھا خوں پسینے پر چھڑکنے کا چلن
وضعدار، جاں نثار کی وہ فضائیں اب کہاں
شکیلہ بانو کے فن قوالی کا آغاز اس وقت ہوا جب 1956ء میں بی آر چوپڑہ اپنی فلم "نیا دور" کی شوٹنگ کرنے اپنے یونٹ کے ساتھ بھوپال آئے۔ اس یونٹ میں دلیپ کمار، وجینتی مالا، جانی واکر، اجیت اور جیون بھی شامل تھے۔ ایک خصوصی محفل میں شکیلہ بانو کی قوالی کا اہتمام ہوا اور دلیپ کمار ان کی قوالی سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے شکیلہ بانو کو بمبئی آنے اور فلموں میں مقدر آزمانے کی دعوت دیدی۔ دلیپ کمار جیسے اعلی فنکار کی دعوت کو رد کرنا گویا کفران نعمت کے مترادف تھا۔ قدرت نے کامیابی کے امکانات روشن کئے اور بمبئی نے اپنی دیرینہ روایات سے انہیں خوش آمدید کہا۔ بمبئی سے ان کے عروج کا جو دور شروع ہوا وہ عمر کے آخری لمحات تک جاری و ساری رہا۔ قوالی کی محفلوں سے بے تحاشہ دولت بھی ملی اور شہرت بھی۔ فلمساز ان کے مداح ہی نہیں ایک طرح سے معتقد بھی رہے۔ انہیں فلموں میں اداکاری کے مواقع بھی دئے گئے۔ فلموں میں ان کی قوالیاں بھی انہیں پر فلمائی گئیں۔ یہ اور بات ہے کہ پس منظر گلوکاری منجھی ہوئی آوازوں میں ریکارڈ ہوئی۔ انہوں نے بطور موسیقار کچھ فلموں میں موسیقی بھی دی اور نغمے بھی لکھے۔ فلم میں ویمپ کا کردار بھی ادا کیا اور معاون اداکارہ کا بھی۔
بطور اداکارہ:
1958 : "جنگل پرنس"۔
1959 : "لیڈی روبن ہڈ" ، "دو غنڈے "، "طوفانی تیر انداز"۔
1960 : "پریوں کی شہزادی"، "چوروں کی بارات"، "قسمت پلٹ کے دیکھ"، "لالچ"، "نخرے والی"، "شریف ڈاکو"، "ممبئی کا بابو"۔
1961 : "رامو دادا"، "کھلاڑی"۔
1963 : "استادوں کے استاد"، "رستم بغداد"، "آج اور کل"۔
1964 : "کمسن"۔
1965 : "شیردل، فیصلہ"۔
1969 : "غنڈہ"۔
1970 : "دستک"، زینت"زیارت گاہ ہند۔
1971 : "ڈاکو مان سنگھ"۔
1973 : "غدار، حفاظت"ٹیکسی ڈرائیور"۔
1974 : "ہمراہی"
1975 : "مزے لے لو"۔
1976 : "ہر فن مولا۔ "
بطور فلمی نغمہ نگار:
1974ء"ہمراہی" موسیقار: کلیان جی آنند جی۔
آآآ۔ محفل میں آ گئے ہیں، یعنی کہ مشکل میں آ گئے
محبت بھرا کوئی پیغام دو۔ (مناڈے، مہیندر کپور اوشانموٹھی اور ساتھی)
نوٹ: اس قوالی میں شکیلہ بانو نمایاں قوال کا رول کیا تھا اور فلم میں ان کا کردار بھی تھا۔
بطور نغمہ نگار:
1998ء میں ایس ایم ساگر کی فلم"پریم سندیش"میں شکیلہ بانو نے گانے لکھے تھے۔ ندا فاضلی دوسرے نغمہ نگار تھے۔
2003ء میں فلمساز و ہدایت کار جوگندر کی فلم "بندیا اور بندوق" کے سبھی گانے شکیلہ بانو نے راکیش مشرا اور سنجے کی موسیقی میں لکھے تھے۔
بطور موسیقار:
"1975ء مزے لے لو" ہدایت: کمار باسودیو۔
اس فلم میں مہیش نریش اور کرس پیری کے ہمراہ شکیلہ بانو تیسری موسیقار تھیں۔ اس فلم میں صرف چھ گانے تھے۔ صرف دو گانوں کی دھنیں شکیلہ بانو نے بنائی تھیں۔
"آج کی تازہ خبر۔ آج کی تازہ خبر۔ آؤ بابو جی ادھر، آؤ لالہ جی ادھر۔ "
(آواز: کامل چاند پوری، نغمہ: کامل چاند پوری)
نوٹ: اسی گانے کو محبوب خاں نے اپنی فلم" سن آف انڈیا" میں شانتی ماتھر کی آواز میں فلم کے ہیرو ساجد خاں پر فلمائز کیا تھا۔ موسیقی نوشاد کی تھی اور نغمہ نگار شکیل بدایونی تھے۔
"تم نہ سمجھے میری نظروں کا تقاضہ کیا ہے "(نغمہ: اکبر احمد فریدی، آواز: شکیلہ بانو)
بشکریہ مصنف: رشید انجم
ماخوذ از کتاب: ادب سے فلم تک (سن اشاعت: 2017)
ماخوذ از کتاب: ادب سے فلم تک (سن اشاعت: 2017)
Shakeela Bano Bhopali, a lady legend of Qawwali.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں