حافظ نذر احمد - قرآن کا خاموش مبلغ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-03-08

حافظ نذر احمد - قرآن کا خاموش مبلغ

hafiz-nazar-ahmed
برس بھر ہونے کو آیا، حافظ نذر احمد بھی راہئ ملک بقا ہوئے (وفات: 2011)۔ وہاں چلے گئے، جہاں جاتے تو سب ہیں، لیکن وہاں جانے کے بعد واپس کوئی نہیں آتا کہ آکر بتائے ۔۔۔۔ "وہ کہاں گیا تھا؟ وہاں کیا دیکھا"؟

تقریباً نصف صدی پہلے کی بات ہے، برصغیر پاک و ہند کی عظیم روحانی شخصیت مولانا عبدالقادر رائے پوری لاہور تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان کا قیام پرانے ریڈیو سٹیشن لاہور کے بالمقابل حاجی عبدالمتین صاحب کی کوٹھی میں تھا، جہاں پورے پاک و ہند سے ان کے متعلقین و متوسلین صبح سے لے کر شام تک موجود رہتے اور تہجد اور فجر کے وقت ذکر الٰہی کی مجلس، اورادو و ظائف، عظیم سماں کی کیفیت برپا رہتی۔ میرے والد مرحوم قاری محمد ظریفؒ کی تربیت کا خاص اثر تھا، جس نے میرے دل میں علماءکی محبت اور علماءکی صحبت سے فیض اٹھانے کا شوق بھر دیا تھا۔ مَیں حضرت رائے پوری کی خدمت میں حاضری ہی کے لئے لاہور آیا تھا۔ مغرب کے بعد کا وقت تھا۔ سٹیشن سے تانگے پر سوار ہوا، میرے ساتھ والی سیٹ پر حافظ نذر احمد پہلے سے تشریف فرما تھے۔ مَیں انہیں جانتا تو تھا، پہچانتا نہیں تھا اور وہ مجھے نہ تو جانتے تھے، نہ ہی پہچانتے تھے۔ مَیں نے ان کے ساتھ صالح بزرگ ہی کی حیثیت سے علیک سلیک کی۔ انہوں نے بڑی محبت دی۔ وہ بزرگ تھے، مَیں شعور کی ابتدائی عمر میں تھا۔ انہوں نے محبت سے نام وغیرہ پوچھا، بولے کہاں جانا ہے؟ مَیں نے عرض کی "ریڈیو پاکستان"۔ حیرت سے بولے: "اس وقت وہاں کیا کام ہے"؟ مَیں نے عرض کی: "ریڈیو پاکستان کی عمارت کے سامنے مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ قیام پذیر ہیں، مجھے ان کی خدمت میں جانا ہے"۔ بولے: "کہاں رہتے ہو"؟ مَیں نے عرض کی: "لائل پور"۔ تعجب سے پوچھا: "لائل پور سے اسی مقصد کے لئے آئے ہو"؟ عرض کیا: "جی"۔ میرے اسی جواب نے ان کے دل میں میری قربت کو بڑھا دیا، بہت خوش ہوئے۔ اچھی صحبت اور سلوک و طریقت کے حوالے سے کچھ اچھی باتیں کیں۔ دورانِ گفتگو میرے استاد پروفیسر افتخار چشتی کا تذکرہ بھی آیا تو میرے دل میں ان کی عزت اور بھی بڑھی اور ان کے دل میں میرے لئے محبت مزید بڑھی۔

حافظ نذر احمد ؒ کا شمار ایسے خوش قسمت انسانوں میں ہوتا ہے، جن کو اللہ تعالیٰ حسنات میں اضافے کی غرض سے عمر طویل عطا کرتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی طوالت عمری سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہر بڑھتے لمحے میں فاستبقواالخیرات کے قرآنی حکم پر عمل کرتے ہیں اور اسی طرح ان کی حسنات غالب اور سئیات محو ہوتی رہتی ہیں۔ اس طرح ان کی زندگی کا ہر گزرتا لمحہ ان کے لئے سرمایہ¿ آخرت کی نوید لاتا ہے۔۔۔۔ آپ کی پیدائش 1919ءمیں ہوئی، جبکہ انتقال 2011ءمیں ہوا۔ آپ کے والد ماجد کا نام الحاج ضمیر احمد شیخ تھا، جو نگینہ کے رہنے والے تھے۔ نگینہ ہندوستان کے ضلع بجنور کا ایک قصبہ ہے، جو دینی مزاج کے حامل مسلمانوں کا علاقہ تھا۔ اس طرح آپ قرآن السعدین تھے۔ اسباب و وجوہات تو پردئہ اخفا میں ہیں، تاہم جب حافظ صاحب کی عمر 16 برس کے قریب ہوئی تو آپ نگینہ چھوڑ کر لاہور چلے آئے۔ یہ واقعہ 1935ءکا ہے، جبکہ پاکستان کی تشکیل 1947ءیعنی آپ کی ہجرت لاہور سے بارہ برس بعد عمل میں آئی۔ لاہور میں آپ نے گڑھی شاہو کے قریب محلہ محمد نگر میں سکونت اختیار کرلی۔ آخری وقت تک اسی گھر میں رہے۔ یہ چھوٹا سا گھر تھا، جو، اَب بھی ہے۔ آپ کی سلبی اولاد نے اسی گھر میں جنم لیا۔

حافظ صاحب کے تعلقات ملک کے بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ تھے، جن میں حکومت کے چوٹی کے عہدیداران بھی شامل ہیں۔ ہم نے آئی جی سے لے کر وزیر اعلیٰ تک کو ان کے سامنے سراپا عجز دیکھا اور حافظ نذر احمد کو سراپا متوکل اور باوقار پایا۔ نہ لالچ، نہ خواہش، بس خلوص و محبت اور البغض للّٰہ والحب للّٰہ کا مجسم پیکر۔ شہر کے پوش علاقے سمن آباد سے لے کر ماڈل ٹاو¿ن، گلبرگ تک سب آپ کے سامنے آباد ہوئے۔ آپ چاہتے تو اپنے ایک اشارے پر پوش کالونیوں میں بڑے سے بڑا قطع زمین حاصل کر سکتے تھے، لیکن قلندر جز دوحرفے لاالہ کچھ بھی نہیں رکھتا۔ آپ پون صدی محمد نگر کے چھوٹے سے پرانے گھر میں مکین رہے، حتیٰ کہ 3 ستمبر 2011ءآ گیا اور آپ کا جنازہ بھی محمد نگر کی اسی تنگ و تاریک گلی سے اٹھا، جس میں صغیر و کبیر سب شامل تھے۔ کسی کے لئے کوئی امتیاز نہ تھا۔ جنازہ اٹھاتے ہی اللہ نے بارانِ رحمت نازل کر دی۔ موسم خوشگوار ہو گیا، اللہ کی طرف سے یہ علامت، رحمت، بخشش و مغفرت اور توبہ کی تھی۔

برصغیر کے پرانے رواج اور طریقے کے مطابق تعلیم کا آغاز کلام الٰہی قرآن مجید سے ہوا۔ آپ کے ماموں حافظ نیاز احمد کا شمار علاقے کے جید اساتذئہ قرآن میں ہوتا تھا۔ آپ نے انہی سے قرآن مجید ناظرہ پڑھا، پھر حفظ کیا۔ ابتدائی کتب عربی، فارسی مدرسہ عربیہ قاسمیہ نگینہ میں پڑھیں۔ آپ کے استاد حافظ نیاز احمد نے کلام اللہ کے ساتھ محبت، عشق کی حد تک بھر دی تھی۔ یہ شوق اتنا بڑھا کہ علم تجوید و قرا¿ت کے حصول کی خاطر قاری محمد سلیمان دیوبندی کی خدمت میں لے گیا۔ قاری محمد سلیمان دیوبندی کا شمار برصغیر کے چوٹی کے اساتذہ قرا¿ت میں ہوتا ہے۔ حافظ صاحب کو علم تجوید و قرا¿ت کے ساتھ بڑا شغف تھا۔ اس حوالے سے ہر کوشش کو خوب پذیرائی بخشتے۔ راقم نے علم تجوید و قرا¿ت کے حوالے سے 1991ءمیں ماہنامہ التجوید جاری کیا تو بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔ بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی۔ اظہار کے لئے الفاظ قاصر ہیں۔

حافظ نیاز احمد کا دیا ہوا یہی شوق تھا جس کی وجہ سے حافظ نیاز احمد نے آغاز میں آپ کے دل میں قرآن کی جوت جگا دی تھی۔ حافظ صاحب لاہور منتقل ہوئے تو یہی جاگی جوت آپ کو حضرت مولانا احمد علیؒ کی خدمت میں لے گئی۔ آپ مولانا کے حلقہ درس قرآن میں شریک ہوئے اور علوم قرآن کے مستور باطنی علوم سے آگاہی حاصل کی۔ اس سفر میں آپ کے استاد جناب علامہ علاو¿الدین صدیقی بھی تھے۔ اس طرح علامہ صاحب بیک وقت آپ کے ہم درس، ہم استاد بھی رہے۔ علامہ علاو¿الدین صدیقی صاحب خطبہ جمعہ مسجد شاہ چراغ میں ارشاد فرماتے تھے۔ حافظ صاحب چونکہ علامہ صاحب کے شاگرد بھی تھے، اس لئے جب کبھی کسی وجہ سے جمعہ میں تشریف نہ لاسکتے تو علامہ صاحب خطبہ جمعہ شاہ چراغ کی ذمہ داری حافظ نذر احمد کے سپرد کرکے جاتے تھے۔

حافظ نذر احمد محرک تھے اور متحرک بھی۔ ان کی متحرک مجموعی زندگی دوسروں کو متحرک کرنے کی تحریک دے جاتی کہ ان کو دیکھ کر قومی و فلاحی کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ نوجوان تحریک پکڑتے تھے اور فعال زندگی گزارنے کا داعیہ ان کو عملی میدان میں لاکھڑا کرتا۔ بہت سے لوگوں میں انہوں نے قلم پکڑنے کی اُمنگ پیدا کی۔ بہت سوں کو قلم کاری سکھائی۔ تھکے ہوئے قلمکاروں کی نوک پلک کو درست کیا، جس سے ان کے جوہر مزید سے مزید تر ہوتے چلے گئے اور انہوں نے مستقبل میں قلمکاری میں نام پیدا کیا۔ ان کی مجموعی زندگی کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حافظ نذر احمد ایک آدمی نہیں تھے، بلکہ پوری اکادمی تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے قائم کردہ ادارے کا نام مسلم اکادمی رکھا، حالانکہ یہ اکادمی نہیں تھی، اس اکادمی کے پیچھے صرف ایک آدمی تھا، اس کا نام نذر احمد تھا۔ وہ اکیلا ہی اکادمی کا کام کرتا تھا۔

حافظ نذر احمد نے سن شعور میں قدم رکھا تو یہ برصغیر کا بڑا متلاطم دور تھا۔ صرف برصغیر ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر یہ دور انتہائی مدوجزر کے حالات سے گزر رہا تھا۔ پہلی عالمی جنگ آپ کے سامنے تو نہیں، لیکن پیدائش سے چند ہی برس قبل ہوئی تھی، اس کے اثرات باقی تھے۔ اس جنگ کے تذکرے ابھی جوان تھے، آپ نے اپنے بڑوں سے اس کے واقعات کو سنا، ذہن متاثر ہوا، پھر دوسری جنگ عظیم تو اپنے سن شعور میں بچشم خود دیکھی اور یورپی استعمار کی چیرہ دستیوں کا خود مشاہدہ کیا۔ جب ہندوستان میں تحریک آزادی چل رہی تھی تو آپ نے اس کو دیکھا ہی نہیں، بلکہ ہر لحاظ سے اپنا حصہ بھی ڈالا۔ تشکیل پاکستان کے چند ہی برس بعد رد قادیانیت کی تحریک چلی۔ اس کے روح رواں برصغیر پاک و ہند کے عظیم لیڈر تحریک آزادی¿ ہند کے بڑے رہنما سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ تھے۔ حافظ نذر احمد نے اس تحریک کو بھی بہت قریب سے دیکھا۔ ان تمام تحریکوں کے قریبی مطالعے اور اکابرین سے قرب کی نسبت نے حافظ نذر احمد میں قومی اور ملی جذبات کو بہت جلا بخشی اور طبیعت میں قوم و ملک کے لئے کچھ کر گزرنے کا داعیہ بدرجہ اتم پیدا ہوا۔ آپ کے خیالات اور قومی خدمت کے جذبے کو زیادہ تقویت علامہ علاو¿ الدین صدیقی کے قرب سے حاصل ہوئی، کیونکہ علامہ صاحب آپ کے استاد تھے اور مسلم لیگ کے بڑے حامی بھی تھے۔ انہوں نے سیاست میں عملی حصہ بھی لیا تھا۔

علامہ صاحب موصوف کا نام برصغیر کے ان حضرات میں نمایاں ہے، جنہوں نے تحریک آزادی کے لئے بھرپور جدوجہد کی۔ پہلے آپ مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ الیکشن بھی لڑا، لیکن مالی وسعت نہ رکھنے کے سبب اور مروجہ سیاست کے مروجہ داو¿ پیچ کا مقابلہ نہ کر سکے۔ اس کے بعد آپ نے کوچہ¿ تعلیم و تعلم میں قدم رکھا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنی زندگی کا ہدف بنایا۔ آپ پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ علوم اسلامیہ کے بانی تھے۔ مذاہب کا تقابلی مطالعہ آپ کا مقبول عنوان تھا، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان میں اس موضوع کو موصوف ہی نے سب سے پہلے پنجاب یونیورسٹی میں متعارف کرایا۔ اس کے بعد تمام جامعات میں یہ مضمون ایم اے کی کلاسز میں جاری ہوا، شامل نصاب ہوا۔ حافظ نذر احمد علامہ علاو¿الدین کے لاڈلے شاگرد تھے۔ قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ان کی خطابت اور اندازِ سیاست سے بہت متاثر ہوئے۔ ان کی شاگردی میں ایم اے اسلامیات کر چکنے کے بعد حافظ صاحب انہی کے ہو رہے۔ استاد کو بھی اپنے اس ہونہار شاگرد پر بڑا ناز تھا۔ علامہ صاحب مسجد شاہ چراغ میں جمعہ کا خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ آپ کی عدم موجودگی میں یہ ذمہ داری حافظ نذر صاحب ہی کے سپرد ہوتی تھی۔

حافظ صاحب نے کوچہ سیاست میں بھی قدم رکھا۔ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن جو قائد اعظمؒ کے نظریات کی حامی تنظیم تھی، جس نے قائد اعظمؒ کے پیغام کو ہندوستان کی بستی بستی اور قریہ قریہ پھیلایا اور پاکستان کی تشکیل کے لئے فضا ہموار کی۔ 1941ءمیں قائد اعظمؒ اس تنظیم کی دعوت پر لاہور تشریف لائے اور اسلامیہ کالج میں خطاب بھی فرمایا۔ حافظ صاحب اس جلسے کے آفس سیکرٹری تھے۔ اسی طرح آپ نے مسلم لیگ میں بڑا مثبت کردار ادا کیا، لیکن جب مسلم لیگ میں لالچ کی سیاست در آئی، اقتدار کا حصول ہی مقصد ٹھہرا، سیاست کاروں نے بیسوا کا روپ دھارا تو آپ مسلم لیگ سے مایوس ہوگئے اور شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی قائم کردہ جمعیت علمائے اسلام میں شمولیت اختیار کر لی۔ مولانا عثمانی کے حکم پر صوبہ پنجاب کے نائب ناظم مقرر ہوئے۔۔۔۔ علمی آبیاری اور دینی، ملی، قومی، اصلاحی خدمت کے حوالے سے آپ بہت سے اداروں سے وابستہ رہے۔ ان اداروں کے مفصل احوال کا تذکرہ علیحدہ مستقل تحقیقی موضوع ہے۔ یہاں پر ہم صرف ان اداروں کے ناموں پر اکتفا کرتے ہیں، ان اہم اداروں میں دارالسلام پٹھانکوٹ، ادارہ اصلاح و تبلیغ جامع مسجد آسٹریلیا لاہور، جمعیت اسلامیہ جامعہ اسلامیہ مسجد شاہ چراغ لاہور، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، شبلی کالج لاہور سرفہرست ہیں۔۔۔۔ وہ معروضی حالات کیا تھے، جو ان اداروں کے معرض وجود کا سبب بنے۔ ان اداروں نے کیا خدمات سر انجام دیں؟ ان سے کون کون سے رجال با کمال پیدا ہوئے۔ ہم ان تمام کا تذکرہ کسی مستقل اور اہل قلمکار کے لئے چھوڑتے ہیں۔

رسول اکرم نے اپنی ذات کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا تھا ۔۔۔۔بعثت معلماً مَیں دنیا میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اتباع رسول میں یہ وصف حافظ صاحب مرحوم کی زندگی میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ دم اوّلیں سے دم واپسیں تک یہ وصف ان کی زندگی کا حصہ رہا۔ سن شعور کو پہنچے تو متعلم تھے۔ علمی منازل کی تکمیل ہوئی تو آخر وقت تک معلم رہے۔ تعلیم دینے میں کبھی مقام و مرتبہ حائل نہ ہوا۔ پہلی جماعت کے بچوں کو بھی پڑھایا، سکول و کالج کے طلباءکو علمی موتیوں سے مالا مال کیا اور پی ایچ ڈی کے طلباءتک کی رہنمائی فرمائی۔ آج کے بیشتر بڑے بڑے قلم کاروں کا قلم، محققین کی تحقیق حافظ صاحب کی ہدایات ہی کی رہین منت ہیں، لیکن حافظ صاحب نے کبھی اس کوشش کو جتایا نہیں، جتانا تو دور کی بات ہے، کہیں تذکرہ بھی نہیں کرتے۔

شروع میں اسلامیہ کالج لاہور میں پروفیسر رہے اور کئی برس وہاں طلباءکے دلوں کو اسلام کی محبت کا درس دیا۔ کسی وجہ سے اسلامیہ کالج سے علیحدگی اختیار کرلی تو شبلی کالج کے نام سے اپنا پرائیویٹ ادارہ بنایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ادارہ بلندیوں کو چھونے لگا۔ ریلوے سٹیشن چوک پر ایک بلڈنگ کا بالائی حصہ کرائے پر لیا۔ اس میں شبلی کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے بیٹھا کرتے تھے۔ بے شمار لیکچرر حضرات اس کالج میں پڑھانا اپنے لئے باعث سعادت خیال کرتے اور صبح کے وقت اپنی سرکاری ملازمت کی ذمہ داریاں متعلقہ کالجوں میں ادا کرتے اور شام کو شبلی کالج میں خدمات سرانجام دیا کرتے تھے۔ یہ کالج رات گئے تک کھلا رہتا۔ طلباءکی گہما گہمی بھی خوب ہوتی تھی۔ یہاں سے بے شمار طلباءنے کسب فیض کیا، پھر اسی فیض کو دوسروں تک پہنچانے لگے۔ بیشتر کو سرکاری ملازمتیں ملیں، کالجوں میں لیکچرر ہوئے، پھر پرنسپل کے عہدوں تک بھی پہنچے۔

حافظ صاحب کی زندگی کا مقصد تعاون علی البر تھا۔ ہر نیک کام میں تعاون کرتے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ اچھا کام جو بھی کرے۔ اس کی بھرپور مدد کی جائے، اگر کہیں اختلاف بھی ہو تو کھلی مخالفت کی بجائے خاموشی اختیار کی جائے، تاکہ اچھا کام متاثر نہ ہو۔ اس حوالے سے حافظ صاحب نے ملک کے بہت سے اداروں کو اپنا بھرپور تعاون دیا، جس میں صدیقی ٹرسٹ کراچی سرفہرست ہے۔ اس ٹرسٹ کے بانی منصور الزماں صدیقی ہیں۔ حافظ صاحب نے اپنی بیشتر توانائیاں اس ٹرسٹ کی آبیاری کے لئے صرف کیں۔ وہ اپنی عمر کی 90 بہاریں دیکھ چکے تھے۔ قویٰ مضمحل، بصارت کا ضعف، جسمانی کمزوری غالب آچکی تھی۔ آخری ایام میں حافظے نے بھی ساتھ چھوڑ دیاتھا، لیکن ان تمام عوارض کے باوجود ان کا عزم بلند تھا۔ کچھ کر گزرنے کا داعیہ جوان تھا۔ قرآن اور فکر قرآن کو غالب رکھنے اور غالب دیکھنے کی تمنا ہر وقت دل میں رہتی۔ کوئی ملنے والا آتا تو اس سے اسی موضوع پر بات کرتے۔ اپنی سوچ، اپنی فکر کو دوسرے تک منتقل کرتے تھے۔

حافظ نذر احمد کا نام علمی حلقوں میں بلند مقام رکھتا تھا۔ صاحب دل تھے، معرفت و سلوک کے میدان کے شناور بھی تھے۔ ان تمام اوصاف کے باوجود حافظ نذر احمد نام و نمود سے بہت دور رہتے۔ اپنے تبلیغی اور اصلاحی کام خاموشی سے کرتے رہنے کے قائل تھے۔ اس سلسلے میں آپ اس فرمان پر عمل پیرا تھے: "خیرالاعمال ادوم و ان قل" سب سے بہتر عمل وہ ہے جو استقلال کے ساتھ کیا جائے، چاہے وہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کی خدمات کے پیش نظر بعض جرائد اور رسائل نے آپ کے انٹرویوز آپ کی خواہش کے بغیر شائع کئے، جو آپ کی زندگی ہی میں طبع ہوئے۔ ان جرائد میں ہفت روزہ ندا لاہور، ہفت روزہ فیملی میگزین لاہور، ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ اور دیگر روزنامے وغیرہ شامل ہیں۔

آپ نے قرآن کا ترجمہ لکھا۔ اس کانام آسان ترجمہ قرآن ہے۔ اس کا آغاز آپ نے حرم کعبہ میں بیٹھ کر کیا اور اختتامی سطور بھی حرم کعبہ میں بیٹھ کر لکھیں۔ یہ پہلا ترجمہ قرآن ہے، جس میں ترجمے کا اچھوتا اور منفرد انداز اختیار کیا گیا ہے۔ اس میں ہر لفظ کے نیچے اس کا لفظی ترجمہ اور پھر بامحاورہ ترجمہ لکھا گیا ہے۔ اس ترجمہ کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کو تمام مکاتب فکر کے اکابر کی تائید حاصل ہے اور سب اس پر متفق ہیں۔ علمی حلقوں میں یہ ترجمہ بہت مقبول ہوا، جس کی وجہ سے پاکستان کے سارقان علم اور سارقان تحریر قسم کے ناشروں نے حافظ صاحب کی اجازت کے بغیر اس کے ایڈیشن در ایڈیشن شائع کرنا شروع کر دیئے، خوب پیسے کمائے۔ یہ ترجمہ قرآن ہندوستان میں دہلی کے ناشروں نے بھی شائع کیا اور چاندی بنائی۔ حافظ صاحب کو اس غیر اخلاقی حرکت پر افسوس تھا، کبھی کبھی دبے الفاظ میں ذکر بھی کرتے تھے، لیکن قانونی کارروائی نہیں کی۔ پاکستان چونکہ اسلام اور لاالہ الا اللہ کے سلوگن پر معرض وجود میں آیا تھا، اس لئے پاکستان بننے کے پہلے روز ہی سے عیسائی مشنریاں چوکنا ہو گئیں۔ انگریزوں نے برصغیر میں دو صدیاں حکومت کی تھی۔ انہوں نے پورے برصغیر میں چرچ بھی بنائے، مشنری ادارے بھی کھولے اور تعلیمی مراکز کے ذریعے عیسائیت کے فروغ کی بھرپور کوششیں کیں اور اپنے تئیں۔۔۔۔:"روح محمد ان کے بدن سے نکال دو" پر عمل کیا، لیکن تشکیل پاکستان نے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کی اجتماعی حیات سے روح محمد کو نکالنا مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن کام ہے۔ اسی لئے عیسائیت کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے انہوں نے پاکستان میں بھرپور کوششیں شروع کیں اور پورے پاکستان میں عیسائی مشنری اداروں کا جال بچھا دیا۔ عیسائی تبلیغی ادارے قائم کئے، جو مسلمانوں کو ڈاک کے ذریعے بائیبل اور تورات کے نسخے مفت بھیجتے اور" صحائف انبیاءکا مطالعہ کیجئے" کے عنوان سے مسلمانوں کو ان کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔

حافظ صاحب نے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کمر ہمت باندھی اور تعلیم القرآن خط و کتابت سکول قائم کیا۔ یہ ادارہ آپ نے 1974ءمیں قائم کیا،جس کے قیام کی فوری تقریب یہ ہوئی کہ ایک مرتبہ ان کے ادارے شبلی کالج کے ایک طالب علم کے نام بائبل سوسائٹی کی طرف سے ایک خط آیا، جو اتفاقاً حافظ صاحب کی نظر سے بھی گزرا۔ انہیں کچھ تشویش ہوئی، پھر خطوط کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا، یہاں تک کہ ایک روز حافظ صاحب کے نام بھی ایک خط آ پہنچا، جس میں انہیں مسیحیت قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی اور اسی پر بس نہیں، کچھ ہی دنوں کے بعد عیسائی مبلغین ان کے گھر پر دستک دے رہے تھے۔ حافظ صاحب کو ان کی جرات اور جذبہ دیکھ کر خیال آیا کہ اگر عیسائی مبلغین ،جن کی کتاب تحریفات اور تضادات کا مجموعہ ہے، اس جرات اور لگن کے ساتھ اپنے مذہب کی دعوت دے سکتے ہیں تو ہمارے لئے یہ شرم کا مقام ہے کہ ہم اس زندہ کتاب کے حامل ہوتے ہوئے، جس کے بارے میں ناقدین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس میں کسی شوشے کی تبدیلی بھی نہیں ہوئی، نہ خود اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ دوسروں تک اسے پہنچانے کی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں۔

اس کے بعد آپ نے تعلیم القرآن خط و کتابت سکول کے نام سے ادارہ قائم کرکے اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کی داغ بیل ڈالی، پھر آپ نے اس کا دائرہ پاکستان کی جیلوں تک بڑھایا، تاکہ یہاں پر محبوس قیدی اسلام کی اصلاحی تعلیمات سے روشناس ہوں اور اپنی زندگیوں میں انقلاب برپا کر سکیں۔ سکول کے قیام کا ایک اور سبب بھی تھا۔ اس کا تذکرہ بھی اس جگہ ضروری ہے۔ انٹرویو کرنے والے کسی شخص نے آپ سے پوچھا: " حافظ صاحب آپ کو تعلیم القرآن سکول قائم کرنے کا خیال کیسے آیا"؟ جس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ "وائس آف امریکہ" کے حوالے سے امریکہ کی ایک جیل کے انچارج کا تذکرہ شائع ہوا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ میری جیل میں مافیا کے بدنام زمانہ مجرم قید کئے جاتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل ان کا ایک سرغنہ جس کا نام ایڈورڈز تھا، جیل میں لایا گیا۔ یہ شخص انتہائی خطرناک غنڈہ تھا اور صرف گالی کی زبان میں گفتگو کا عادی تھا۔ اس کے علاج کے لئے بڑے چوٹی کے معالجین امراض نفسیات کی خدمات حاصل کی گئیں، لیکن اس کی بددماغی اور بدزبانی میں کوئی فرق واقع نہ ہوا۔

اس جیلر کا بیان ہے کہ ایک روز صبح جب مَیں معائنے کی غرض سے گیا تو اس نے بڑے شائستہ انداز میں مجھے گڈمارننگ کہا۔ اس کے رویے کی یہ تبدیلی میرے لئے انتہائی غیر متوقع اور ناقابل یقین تھی۔ مجھے اس کیفیت میں دیکھ کر اس نے بتایا کہ وہ اسلام قبول کر چکا ہے اور یہ تبدیلی اسی سبب سے ہے۔ بعد میں مجھے یاد آیا کہ ایک اپاہج لڑکے نے چند روز قبل اسلام کی تبلیغ کے لئے مجھ سے اجازت طلب کی تھی اور یہ سب کچھ اسی کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ مَیں نے اخبار میں جب یہ واقعہ پڑھا تو مجھے خیال آیا کہ امریکی جیل میں اگر ایک غنڈہ اور بدمعاش اسلام کی بدولت اس حد تک بدل سکتا ہے تو پاکستان میں یہ کام کیوں نہیں ہو سکتا! چنانچہ مَیں نے فوراً اس سلسلے میں حکومت کے نام ایک مفصل درخواست داخل دفتر کی اور چھ ماہ بعد بالآخر مجھے جیلوں میں کام کرنے کی اجازت دے دی گئی اور اب الحمدللہ میں ہر جیل میں بلاروک ٹوک جا سکتا ہوں اور یہ اللہ کا خصوصی فضل ہے کہ حکومت نے میری درخواست قبول کرتے ہوئے یہ ضابطہ منظور کیا ہے کہ جو قیدی پانچ کورس مکمل کرے، اس کی سزا میں چھ ماہ کی تخفیف کر دی جائے گی"۔

حافظ صاحب کی مساعی رنگ لائیں۔ اس وقت پاکستان بھر کی جیلوں میں محبوس لاکھوں قیدی تعلیم القرآن خط و کتابت کورسز مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی زندگیاں بدل چکی ہیں۔ حافظ صاحب مرحوم نے راقم پر یہ احسان فرمایا کہ مجھے فیصل آباد میں امتحان کا ممتحن مقرر کیا۔ اس جیل میں میری ملاقات ایک قیدی سے ہوئی، جو عمر قید کی سزا بھگت رہا تھا۔ وہ قرآنی آیات بڑی روانی اور تجوید کے مطابق پڑھتا تھا۔ قرآنی آیات سن کر میری دلچسپی بڑھی۔ مَیں نے استفسار کیا: "تم نے قرآن کہاں سے پڑھا"۔ بولا: "جیل میں"۔ مَیں نے حیرت کا اظہار کیا تو گویا ہوا: "مَیں جیل میں آیا تو بالکل اَن پڑھ تھا۔ یہاں مَیں نے قرآن خط و کتابت سکول میں خود کو رجسٹر کرایا۔ قاعدہ پڑھا پھر قرآن ۔۔۔۔ یہی نہیں پھر سارا قرآن حفظ بھی کیا اور اسی سکول کی معرفت پورا درس نظامی بھی مکمل کر لیا ہے۔ اس معاملے میں حافظ نذر احمد نے میری بہت رہنمائی بھی کی اور مجھے ہر طرح کی سہولت بھی جیل والوں سے لے کر دی"۔ اس قیدی کا نام احمد حسن تھا۔ اس کا مکمل انٹرویو میں نے التجوید کے کسی شمارے میں شائع کیا تھا۔ یہ ایک مثال ہے، اس قسم کی مزید مثالیں بھی موجود ہیں۔

حافظ صاحب کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے محمد فاروق اس کارِ خیر کو جاری رکھے ہوئے ہیں، جو آپ کے لئے صدقہ¿ جاریہ ہے، جس کے ذریعے آپ کی حسنات میں تاقیامت اضافہ ہوتا رہے گا۔ تعلیم القرآن سکول کی کوئی عمارت ہے نہ کوئی دفتر۔ حافظ صاحب کا گھر ہی سکول کی عمارت تھی، یہی اس کا دفتر تھا۔ حافظ صاحب اکیلے اس سکول کے پرنسل تھے، وہی منتظم تھے، وہی استاد تھے۔ انہوں نے تن تنہا اس سکول کو چلایا اور خوب چلایا۔ تعلیم خط و کتابت کے ذریعے دی جاتی۔ اس وقت تک اس سکول سے استفادہ کرکے سند حاصل کرنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں، ہزاروں میں نہیں، لاکھوں میں ہے۔ جو قیدی سکول کے کورسز کو پاس کر لے، اس کی سزا میں 15یوم سے لے کر چھ ماہ تک کی تخفیف کر دی جاتی ہے۔

حافظ صاحب کی ان کوششوں سے پنجاب کی جیلوں میں ہزاروں مجرم صالح اور متدین بن کر نکلے۔ سابقہ زندگی پر توبہ کی اور آئندہ زندگی اچھے مسلمان، اچھے انسان کی حیثیت سے گزارنے کا فیصلہ کیا۔ ہم بہت سے ایسے حضرات کے شناسا ہیں، جن کی زندگیوں میں ان کورسز سے انقلاب برپا ہوا۔ جیل میں داخل ہوئے تو مجرم تھے، ملزم تھے۔ جیل سے باہر آئے تو حافظ صاحب کی مساعی سے وہ متقی و پرہیز گار، صوم وصلوٰة کے پابند ہو کر نکلے۔ بہت سے اسی جیل کی چار دیواری سے حافظ قرآن بن کر باہر آئے۔ ان کے لئے جیل کی قید رحمت ثابت ہوئی۔ حافظ صاحب امتحان لینے کے لئے پورے پنجاب کی جیلوں میں خود تشریف لے جاتے۔ آپ عموماً قیدیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے: "تم میں اور ہم میں گناہ کے ارتکاب کے اعتبار سے فرق نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ تمہاری گرفت ہوگئی، ہم کسی وجہ سے بچے رہے، اگر زندگی بدلنے کا عزم کر لو تو یہ قید تمہارے لئے رحمت کا باعث ہے"۔

تعلیم القرآن خط و کتابت سکول حافظ نذر احمد کی طرف سے صدقہ جاریہ ہے۔ حافظ صاحب دنیا میں نہیں رہے، لیکن اس کارِخیر کے حوالے سے حافظ صاحب زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے اور تعلیم القرآن خط و کتابت سکول ان کی حسنات میں مسلسل اضافہ کا ذریعہ بنتا رہے گا۔ علمی حلقوں کی معروف شخصیت ڈاکٹر سفیر اختر صاحب سے حافظ صاحب کے بارے میں بات چلی تو فرمانے لگے کہ حافظ صاحب کے تین اوصاف نے مجھے بہت متاثر کیا۔ ایک یہ کہ آپ وقت کی بہت حفاظت کرتے، تمام کام کرتے، لیکن اوقات کو اس طرح منظم کرتے کہ ایک ایک لمحے کا پورا فائدہ اٹھاتے۔ وقت کو ضائع کرنا ان کے ہاں روا نہیں۔ اس طرح تھوڑے وقت میں بہت سا کام سرانجام دیتے۔ دوسرا پہلو یہ کہ معاشرے میں گرتی ہوئی اسلامی اقدار کی وجہ سے انہیں بہت دکھ اور افسوس ہوتا تھا۔ اس کا برملا اظہار فرماتے، لیکن کبھی مایوس نہ ہوتے اور اسلامی اقتدار کے احیاءکے لئے مقدور بھر کوشش کرتے، دوسروں سے اس کا تذکرہ بھی اصلاح کی کوشش ہی کے حوالے سے ہوتا تھا۔ تیسرا پہلو یہ کہ حافظ صاحب کے ہاں خورد نوازی کا پہلو بڑا غالب تھا۔ اپنے چھوٹوں پر شفقت کرنا، اس کے ساتھ ساتھ ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کرنا ان کی زندگی کا بڑا وصف تھا، اگر کوئی چھوٹا ان کی رائے سے اختلاف بھی کرتا تو تحمل سے سنتے۔ غلطی پر اصلاح کی کوشش کرتے۔

راقم حصول سعادت کے لئے ان کی خدمت میں "التجوید" اعزازی بھیجتا تھا، لیکن آپ نے ہمیشہ تقاضے کے بغیر سالانہ زر تعاون لازماً بھیجا۔ منی آرڈر ملتے ہی میری پیشانی عرق ریز ہو جاتی۔ ایک مرتبہ خط میں اپنے احساس کا اظہار کیا، فرمانے لگے: "اتنا حساس بھی نہیں ہونا چاہیے" زر تعاون تبرکاً ہی رکھ لو"۔ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس خلوص اور تبرک ہی کی برکت ہے کہ التجوید کی خدمت کی توفیق اللہ نے عطا کر رکھی ہے اور التجوید پابندی سے شائع ہو رہا ہے۔ حافظ صاحب نے لاہور کے درس کے عنوان سے ایک مفصل مضمون لکھا، جس میں ان مساجد کی نشاندہی کی جن میں دروس قرآن جاری تھے۔ یہ مضمون بہت دلچسپ تھا، جو سیارہ ڈائجسٹ کے قرآن نمبر میں شائع ہوا۔ بعد میں بعض اور رسائل نے بھی اس کو شائع کیا۔ مولانا عبدالماجد دریا باری کی لکھی تفسیر ماجدی، تفسیری ادب میں بلند مقام رکھتی ہے۔ حافظ صاحب نے اہل علم کی سہولت کے لئے اس کا اشاریہ مرتب فرمایا، جس کی وجہ سے اس تفسیر سے استفادہ آسان ہو گیا۔

علم حدیث میں آپ نے موطا امام محمد کا ترجمہ لکھا۔ اربعین نووی پاکستان میں نایاب تھی۔ آپ نے جستجو کے ساتھ اس کی تلاش کی اور ترجمہ و تشریح لکھی۔ یہ کام تشکیل پاکستان کے ابتدائی برسوں میں کیا گیا۔ پھر یہ کتاب ایف اے کے نصاب اسلامیات میں شامل ہوئی اور اب تک شامل ہے۔ جائزہ عربی مدارس آپ کی انتہائی اہم تحقیق ہے، جس کے لئے آپ نے بہت عرق ریزی کی۔ پورے پاکستان کا دورہ کیا اور مغربی پاکستان میں موجود دینی مدارس کے کوائف کو اکٹھا کیا، اس حوالے سے یہ پہلا تحقیقی کام تھا۔ اس کتاب کو مدارس عربیہ کا انسائیکلوپیڈیا کہا جا سکتا ہے۔

ہمارے فرائض ہمارے حقوق، اس کتاب میں آپ نے مسلمانوں کے حقوق و فرائض کا تذکرہ بڑی شرح و بسط سے کیا ہے اور کتاب و سنت سے استدلال کرتے ہوئے فرائض اور حقوق کا تعین کیا ہے۔ یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ حیات حافظ نذر احمد کی مختلف جہات ہیں جو بہت سے پی ایچ ڈی مقالات کا عنوان رکھتی ہیں۔ ملک میں پھیلی جامعات کے طلباءان عنوانات پر تحقیقی کام کے ذریعے ڈاکٹریٹ کی تختیاں اپنی جبینوں پر سجا سکتے ہیں۔ ستمبر 2011ءکو یہ عظیم شخصیت دنیا سے رخصت ہو گئی، لیکن علمی اور قرآنی خدمات ان کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔

اللھم اغفرلہ وارحمہ

بشکریہ: ڈیلی پاکستان ڈاٹ کام ڈاٹ پی۔کے
قسط: -1- ، -2- ، -3- ۔

Hafiz Nazr Ahmed, a Quranic preacher.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں