میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:29 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-03-12

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:29



نرم نرم اور گرم گرم دھوپ چاروں طرف پھیل رہی تھی کھردری اور پتھریلی سڑک جیسے گہری نیند سے جاگ چکی تھی۔ چھوٹے موٹے کام کرنے والے مرد اور عورتیں، ٹھیلے والے، پھیری والے اور سائیکل کے پنکچر جوڑنے والے رزق کی تلاش میں اپنی اپنی تنگ قبروں سے باہر آ چکے تھے۔ ویسے ان کا ایمان تھا کہ انہیں رزق ضرور ملے گا کیونکہ ان کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ پاک نے اس کا انتظام کر دیا ہے۔ دانے دانے پر لکھا ہے کھانے والے کا نام۔ خدا بھوکا اٹھاتا ہے لیکن بھوکا سلاتا نہیں۔ واللہ خیر الرازقین۔
میں چپ چاپ چل رہا تھا۔ لیکن میری لمبی چپ سے بور ہو کر اس نے کہا:
ایسی بھی کیا خاموشی۔ بولتے کیوں نہیں !
میں نے کہا: ڈر رہا تھا کہ کہیں میری سرکار خفا نہ ہو جائیں۔ اس لئے منہ کھولنے کی جرات نہیں کی۔
میرے جواب پر وہ بڑی دیر تک ہنستی رہی، مجھے ایسا لگا جیسے اس کے گلے میں گھنگرو بج رہے ہیں۔ وہ جب چپ ہو گئی تو میں نے اس سے پوچھا۔
میری ملکہ! اگر اجازت ہو تو ایک بات پوچھوں ؟
اجازت ہے۔ وہ مسکرا کر بولی۔
صبح صبح آپ کی سواری ادھر کدھر نکل گئی؟
بھئی! میں یہیں رہتی ہوں۔ شاید تم اس سے واقف نہیں۔
کیا کہہ رہی ہیں آپ؟ آپ اس گندہ بستی میں۔ ان تباہ حال اور گندہ لوگوں کے ساتھ رہتی ہیں ؟
"انہیں گندہ مت کہو"۔
"معافی چاہتا ہوں لیکن آپ یہاں آئیں کیسے ؟ کیسے آئیں جب شہر کے مختلف مقامات پر آپ کے اپنے شاندار دفاتر موجود ہیں، مثال کے طور پر کالا پہاڑ کو لے لیجئے۔ وہاں آپ کے لئے سات ہزار روپے مہینہ کرائے پر ایک عمارت لی گئی ہے اور آپ اپنے گھر کو چھوڑ کر یہاں رہتی ہیں ؟"
"مجھے اس کی کوئی اطلاع نہیں ہے اور نہ کسی دفتر کے افسر نے مجھ سے خواہش کی کہ میں وہاں جا کر رہوں۔ ویسے کئی لوگوں سے سنا ہے اور سنتی رہتی ہوں کہ ۔۔۔ بعض وقت تو مجھے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون میرے نام پر کتنا روپیہ پبلک سے وصول کر رہا ہے؟"
"پبلک؟"
"ہاں ہاں پبلک ! مگر اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ کیا یہ لفظ میں نے غلط استعمال کیا ہے ؟"
"نہیں۔ مگر یہ تو انگریزی کا لفظ ہے" میں نے کہا۔
"تو اس سے کیا ہوا۔ دنیا جہاں کی تمام زبانوں کے الفاظ کو میں نے اپنے سینے سے لگایا ہے۔ بھئی! تم میرے کیسے عاشق ہو جو میرے مزاج کے اس رنگ سے بھی واقف نہیں ہو؟"
"آئی ایم سوری مائی سویٹ ہارٹ!!"
بڑے ہی جوش کے ساتھ ندامت بھرے لہجے میں، میں نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی۔ لیکن ایک جھٹکے کے ساتھ اپنے ہاتھ کو کھینچتے ہوئے اس نے کہا:
"تمہاری یہ بے تکلفی مجھے قطعی پسند نہیں۔ کیا تم دور رہ کر تمیز کے ساتھ بات نہیں کر سکتے ؟"
اس معقول ڈانٹ پر میں نے کچھ نہیں کہا لیکن دوسرے ہی لمحے میں نے دست بستہ عرض کیا:
"جان کی امان پاؤں تو ایک شخصی سوال کرنا چاہتا ہوں"۔
"اجازت ہے۔۔" زیر لب وہ مسکرائی۔
"آپ کے سیدھے ہاتھ کی کلائی پر گھڑی کے اسٹراب کا سفید نشان بڑا ہی برا لگ رہا ہے۔ کیا آپ کی گھڑی کو کسی غنڈے نے چاقو کی نوک پر کہیں چھین تو نہیں لیا؟"
"نہیں نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ ایک غریب ریسرچ اسکالر لڑکے کی خواہش پر میں نے اسے دے دی ہے !"
"کمال ہے !"
"اس میں کمال کی کیا بات ہے؟" ایک دن اس لڑکے نے مجھ سے کہا:
"باجی! مجھے ایک سیمنار میں تقریر کرنی ہے اورمیرے پاس گھڑی نہیں ہے۔ وقت کا اندازہ لگانا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے اس لئے آپ اپنی گھڑی مجھے دے دیجئے، پلیز باجی!"
"اس نے اتنے پیار سے کہا کہ میری ممتا جاگ پڑی اور میں نے مسکراتے ہوئے اسی لمحے اسٹراپ کھول کر اسے گھڑی دے دی۔ کم از کم کلائی پر پڑے ہوئے اس سفید نشان سے اس بات کا پتہ تو چلتا ہے کہ مابدولت کبھی گھڑی استعمال کرتے تھے!"
مسکرا کر میں نے کہا:
"اچھا یہ تو ہوا مگر آپ کی جوتی کہاں تشریف لے گئی؟"
ساتھ ہی اس کے ننگے پاؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے پوچھا جو پتھریلی سڑک پر تیز تیز اٹھ رہے تھے۔
"واقعی تم میرے کٹر عاشق لگتے ہو"۔ وہ ہنسی اور بولی:
"اس کی بھی ایک مختصر کہانی ہے۔ ایک جدید لب و لہجہ کی شاعرہ مشاعرے میں شرکت کی غرض سے یورپ جا رہی تھی۔ اس کی نظر میری جگمگاتی ہوئی چپل پر پڑی جس پر کارچوبی کام تھا اور جس پر رنگ برنگی نگ ٹنکے ہوئے تھے۔ اس نے اپنی پھول سی باہیں میرے گلے میں ڈال کر جھولتے ہوئے کہا۔
"مم! میری اچھی مم! مجھے یہ خوبصورت چپل دے دیجئے نا۔۔ ساتھ ہی اس نے میرا بوسہ لیا"۔
تب میں نے اس سے کہا: "اری پگلی! اتنی خوشامد کیوں کرتی ہے، تجھے پسند ہے تو لے لے۔ لیکن۔۔ ۔۔ ۔۔ "
"لیکن کیا؟" میں نے اس سے پوچھا۔
"وہ شاعرہ جگ مگ نگ والی چکمیلی چپل کو پہنے ہوئے گویا ہوا میں اچھلی۔ اور ایک نشیلی کیفیت میں اس نے کہا: مم! یو آر گریٹ!
لیکن مم! تم کیا ننگے پیر گھومتی رہو گی؟"
"میرا چھوڑ۔۔ ۔ ایک ماں کے لئے اس سے زیادہ اور کیا چاہئے کہ اس کی بیٹی خوش ہے"۔
"ٹھیک ہے" میں نے کہا:
"لیکن بیٹی کا بھی تو کچھ فرض ہوتا ہے۔ اس نے آخر یہ کیسے گوارا کر لیا کہ اس کی ماں ننگے پاؤں پتھریلی سڑکوں پر گھومتی پھرے، یہاں تک کہ اس کے تلوے لہو لہان ہو جائیں۔ اور۔۔ "
"اور کیا؟" اس نے بے چینی سے کہا۔
"اور کچھ نہیں" میں سوچتا ہوں۔۔۔ نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ محبت نہیں محبت کا استحصال ہے جسے انگریزی زبان میں اکسپلائیٹیشن کہتے ہیں۔ ایک ماں کا استحصال بیٹی کی طرف سے!!


A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-29

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں