زبان : فارسی / انگریزی
آئی۔ایم۔ڈی۔بی ریٹنگ: 8
"ایک روگ ہے جو ہمارے وجود میں رینگ رہا ہے۔۔ اور ہمارے جسم سے رسنے لگا ہے۔۔ اور بستیوں میں اس کی سڑاند پھیل رہی ہے۔۔ اور ایسا ہے کہ جب جسم کو غسل دیا جاتا ہے تو غلاظت اور بھی دور تک پہنچتی ہے۔۔ ایسے میں یا تو اذیت اور ندامت ہے۔۔ یا ایک دوسرے کے لیئے ملامتیں۔۔ حالانکہ نہ ایک قصور وار ہےاور نہ دوسرا کہ یہ سب کے سب اسی پیپ کو چاٹتے اور اسی سڑاند کو اگلتے ہیں۔۔"
- جون ایلیا
2008 میں بنی "ثریا ایم کی سنگساری" [The Stoning of Soraya M] فرینچ صحافی فریدون صاحب جمع [Freidoune Sahebjam] کے 1994 میں منظر عام پر آنے والے متنازعہ ناول (La Femme Lapidèe) پر مبنی ہے۔۔جس پر فریدون کو ایران کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔۔ یہاں تک کہ فلم بھی ایران میں بین کر دی گئی۔۔
ایک غیر ملکی صحافی ایران کے ایک گاوں میں اپنی کسی اسائنمنٹ کے سلسلے میں آتا ہے وہاں ایک درمیانی عمر کی عورت جس کا نام ذہرہ ہے اس کا پیچھا کرتی ہے۔۔۔ وہ چاہتی ہے وہ اسے اپنی بھانجی پر ہوئے ظلم کی داستان سنائے جسے وہ صحافی پوری دنیا تک پہنچا سکے۔۔
انسان خطرناک حد تک حریص اور تشدد پسند ہے۔۔یہ اس فلم کا تھیم نہیں ہے ایک تلخ حقیقت ہے۔۔۔ مٹی میں پڑی کتوں کے بھنبھوڑنے کے بعد کی بچی کچھی ثریا کی ہڈیاں بھی ایسے ہی حریص و خود غرض انسانوں کے ظلم کی داستاں سناتی ہیں۔۔
شوہر چار بچوں کے بعد اپنی بیوی سے اکتا چکا ہے۔۔ اور چاہتا ہے دوسری شادی کر لے۔۔لیکن ایک ساتھ دو خاندانوں کا خرچ اٹھانا اس کے بس میں نہیں۔۔اور طلاق کی صورت میں ہونے والے معاشی نقصان کو بھی برداشت کرنا نہیں چاہتا۔۔پھر قدرت بھی اس کے ساتھ ہے۔۔ قصبے کے مولانا ثریا کے سامنے اس کے شوہر کی شرائط رکھتے ہیں اور ساتھ میں نکاح متعہ کی آفر کرتے ہیں۔۔ ثریا کی خالہ انہیں دھکے دے کر نکال دیتی ہیں۔۔ اب ایسی ذلت سہنے کے بعد جذبہ انتقام کا جنم لینا تو بنتا ہی ہے۔۔ شوہر لڑکوں کو پہلے ہی ماں کے خلاف کر چکا ہے۔۔ اب اس کے بعد ٹوٹی انا اور حرص کے مارے دو انسان ثریا کو نشان عبرت کیسے بناتے ہیں مووی اسی کے بارے میں ہے۔۔
ثریا ایک سچا کردار ہے۔۔ اور مووی میں دکھایا گیا جرنلسٹ حقیقت میں فریدون ہی ہے۔۔جنہوں نے اپنی کتاب کے دیباچے میں ثریا کی خالہ سے ملاقات اس کے پس منظر اور پیش منظر کو بھی بیان کیا ہے۔۔
فلم میں ثریا کا کردار موذہن مارنو نے ادا کیا ہے ۔۔ اور بے حد بہترین طریقے سے نبھایا ہے۔۔ ان کے چہرے کی معصومیت اور ایکسپریشنز کمال کے ہیں۔۔۔ ان کی خالہ کے کردار میں شورے اغداشلو خوب جچی ہیں۔۔
~Are you frightened?
~Not of Death, but of dying, the stones, the pain
~Not of Death, but of dying, the stones, the pain
ایسے میں ثریا کے چہرے کی بے رنگی, آنکھوں کا خالی پن۔۔ اور آواز کی کپکپاہٹ کو روکنے کی کوشش دل چیر دیتی ہے۔۔۔
اور پھر ایک مرتی ہوئی ماں کا اپنے بیٹے کو تسلی دینا۔۔ اور اپنے بڑے بیٹے کی آنکھوں میں بے اعتباری دیکھ کر اس کے چہرے کی جھریوں میں اضافہ۔۔
جب ایک ماں اپنی بیٹی کو موت کے حوالے کرنے کے لیئے سجا ری ہوتی ہے اس وقت ان دونوں کے جسموں کی کپکپاہٹ اور پھر موت کی طرف جاتے رستے پر چلتے ہوئے پتھروں کی کھنکھناہٹ سنتے اور اپنے قاتلوں پر نظر پڑنے پر چہرے کے تاثرات میں تبدیلی۔۔۔وہ اٹھے سر کے ساتھ بپھرے ہوئے ہجوم کا سامنا۔۔ یہ سب آپ کے ذہن و نظر کو جکڑ لیتا ہے۔۔
سنگساری کا منظر تیرہ سے پندرہ منٹس پر محیط ہے اور اسے الفاظ میں بیان کرنا نا ممکن ہے۔۔ سمجھ یہ نہیں آتی کہ فلم کی منظر نگاری, کردار نگاری, اداکاری, اور کیمرہ ورک کی تعریف میں الفاظ لکھے جائیں۔۔یا اس تیرہ منٹ کے منظر کی کراہت بیان کی جائے۔۔
سنگساری کے منظر کو فلمانے میں چھ دن لگے۔۔۔ اور اس عرصے میں کاسٹ اور عملہ جس ذہنی اذیت سے گزرا اس کا اندازہ فلم دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔۔
"Don't act like the hypocrite,
Who thinks he can conceal his wiles
While loudly quoting the Koran۔"
~Hafiz
Who thinks he can conceal his wiles
While loudly quoting the Koran۔"
~Hafiz
A review on persian movie "The Stoning of Soraya M." (American drama film).
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں