دلیپ کمار کا نائی - انشائیہ از کرشن چندر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-02-02

دلیپ کمار کا نائی - انشائیہ از کرشن چندر

dilip-kumar-barber
میں اپنی لانڈری میں لالہ ہر پرشاد کے لڑکے ہنسی پرشاد کی نئی ریشمی قمیص پر استری پھیر رہا تھا جو اس نے پچھلے ہفتے اپنی شادی کے موقع پر سلوائی تھی، کہ اتنے میں میرا نوجوان ملازم فضلو آہستہ آہستہ سیٹی بجاتا ہوا دکان کے اندر داخل ہوا، تو میں اسے دیکھتے ہی بھونچکا رہ گیا۔ کیوں کہ فضلو بہت ہی سیدھا سادا احمق لڑکا ہے جیساکہ لانڈری والے کے ملازم کو بلکہ ہر ملازم کوہونا چاہئے۔ اسی لئے تو جب میں نے فضلو کے سر کی طرف دیکھا تو سکتے میں آ گیا۔
"فضلو یہ تمہارے سر کو کیا ہوا ہے ؟" آخر میں نے چلا کے پوچھا۔
فضلو نے مسکرا کے کہا۔ "شہر میں دلیپ کمار کا نائی آیا ہے۔ "
یہ کہنے کے بعد فضلو نے بہت محبت سے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اور ماتھے پر جھکی ہوئی لٹ کو اور لٹکالیا۔ اس کے سر کے بال چھدرے چھدرے کٹے تھے۔ اورچھوٹے کر دئیے گئے تھے۔ صرف بائیں جانب بالوں کا ایک گچھا لانبا رہ گیا تھا جو باقی بالوں سے لانبا ہونے کی وجہ سے خود بخود ایک کٹی ہوئی بیل کی طرح ماتھے پر آپڑا تھا۔ اور دور سے دیکھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سریش سے ماتھے پر چپکا دیا گیا ہو۔ پیچھے سے سر کی ڈھلوان سے بال یوں کاٹے گئے تھے جیسے کسی پہاڑی ڈھلوان سے گھاس کاٹ لی گئی ہو۔ بہ حیثیت مجموعی فضلو کا سر دور سے ایک منڈی ہوئی بھیڑ کی طرح نظر آ رہا تھا۔
میں نے حیرت سے پوچھا: "کون ہے وہ نائی؟"
"اپنا شدو۔ "
وہ گھیسو قصاب کا لونڈا جو دو سال ہوئے گھر سے بھاگ گیا تھا؟"
فضلو نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
"کہاں ہے اس کی دکان؟"
فضلو بولا"تیلیوں کے بازار سے آگے چوک میں۔ "
میں جلدی سے اپنی لانڈی سے باہر نکلا تو فضلو نے پکار کے کہا۔ "مگر جمن چاچا، بال بنوانے ہیں، تو ڈیڑھ روپیہ ساتھ لیتے جاؤ، وہ اس سے کم میں بال نہیں کاٹے گا، دلیپ کمار کا نائی ہے۔ "
"چپ بے نامعقول۔ "میںن ے چوک کی طرف بھاگتے ہوئے کہا۔ " اس بھیڑ منڈائی کا میں ڈیڑھ روپیہ دوں گا؟"
لیکن شدو کی دکان پربہت بھیڑ تھی۔ میں ذرا دیرمیں پہنچا، بال بنوانے والوں کا پہلے ہی سے ایک لمبا کیولگ چکا تھا۔ دوکان کے باہر جلی حروف میں بورڈ پرلکھا تھا۔

دلیپ کمار کا نائی
بمبئی ٹرینڈ
ماسٹر شدو حجام
اور اس بورڈ کے نیچے ایک دوسرے بورڈ پر ریٹ لکھے تھے
دلیپ کمار ہیئر کٹ = ڈیڑھ روپیہ
دلیپ کمار شیو = ایک روپیہ
دلیپ کمار شمپو = دو روپیہ آٹھ آنے
دلیپ کمارمالش = پانچ روپے
(مالش کرانے والوں کے لیے ایک الگ کمرے کا انتظام ہے )

میں نے کیو کی طرف دیکھا، یہاں مجھے بہت سے جانے پہچانے چہرے نظر آئے۔ ان میں مجھے دھوڑی مل کا لڑکا بھسوڑی مل نظر آیا، جومیٹرک فیل تھا اور کسی سنیما کی کوئی فلم دیکھے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ انمیں حکم اتم چند کا داماد سرداری لال جوشادی کے بعد حکیم صاحب کے گھر میں رہتا ہے، اور استاد دلاور خاں کا پٹھا بچہ پہلوان اور گنگو تیلی کا لڑکا سکھیا اور اپنے محلے کی امیر بیوہ خوجن کا اکلو تا صاحبزادہ گلا بٹیر باز اور دھیما پنواڑی، اور سندرا ٹھیلے والا جو سنیما کے اشتہار تقسیم کرتا ہے، بھی نظر آئے، سبھی نے مجھے دیکھ کرنظریں پھیر لیں، میں دراتے ہوئے دوکان کے اندر داخل ہو گیا۔ مجھے اس کیو سے کیا واسطہ، یہ سب لونڈے میرے ہاتھ کے کھلائے ہوئے ہیں۔
دوکان کے اندر جاکے میں نے سامنے کی دیوار پر دلیپ کمار کا ایک بڑا سا فوٹو دیکھا، جس کے ایک کونے پر لکھا تھا" اپنے پیارے دوست شدد حجام کے لئے، بڑے خلوص کے ساتھ۔ بقلم خود دلیپ کمار۔ "دائیں طرف نظر گھمائی تو ایک تصویر نظر آئی۔ اس میں دلیپ کمار سر جھکائے شد و حجام سے بال کٹوارہا تھا۔ بائیں طرف نگاہ دوڑائی تو ایک اور تصویر لٹکی ہوئی نظر آئی۔ جس میں شدو حجام دلیپ کمار کے سر پر مالش کر رہا تھا۔
شدو نے مجھے آتے ہی پہچان لیا۔ وہ میرے گھٹنوں کو چھوکر بولا" چاچا جمن مجھے پہچانتے ہو؟"
شدو کو کون نہیں پہچانے گا۔ محلے کا سب سے شریر لونڈا دبلا، پتلا، کالا، چیچک رو، ایک آنکھ سے کانا۔ مگر زبان جیسے لال مرچ، جیسے کترنی، جیسے گالیوں کا فوارہ بار بار چنے پر بھی شرارت سے باز نہ آئے۔ ایک روز سویرے فضلو کو پھسلا کر اس سے شیخ غلام رسول بارسٹر کے لڑکے کاہنٹنگ کوٹ جو میری لانڈری میں ڈرائی کلین ہونے کو آیا تھا۔ ایک روز کے لئے مانگ کو پہننے کے لئے لے گیا تھا۔ بس اسی دن سے غائب تھا۔ جانے کہاں غائب ہو گیا۔ آس پاس کے قصبوں میں بہت ڈھنڈوایا کہیں پتہ نہ چلا۔ ناچار کوٹ کی قیمت مجھے ادا کرنی پڑی، میں شدو کو بھول سکتا تھا۔ میں نے زور سے ایک دھپ اس کی پیٹھ پر جمائی، شدو کے ہاتھ سے قینچی گر کر زمین پر جا پڑی، شدو کچھ ہنس کر کچھ رونکھا سا ہو کر میری طرف دیکھنے لگا۔
میں نے غصے سے کہا۔ " میری طرف کیا دیکھتے ہو، کدھر ہے وہ کوٹ؟"
شدو کو یکایک یاد آیا، ہنستے ہنستے بولا: "واہ چاچا۔ تم بھی دو سال کے بعد اس زٹیل کوٹ کا ذکر کرتے ہو۔ ارے چاچا، جتنے کوٹ کہو اس بارسٹر کے لونڈے کو بنوادوں، کیا سمجھتے ہو، دلیپ کمار کانائی ہوں، دلیپ کمار کا۔ "
"تو تم بمبئی گئے تھے۔ "میں ایک کرسی پربیٹھ کربولا۔
"اور کہاں گیا تھا، ہاف ہنٹنگ کوٹ پہن کر۔ "
"مگر وہ کوٹ کہاں ہے ؟"
"دلیپ کمار کے پاس ہے۔ "
"دلیپ کمار کے پاس؟"میں نے حیرت سے پوچھا۔
"ہاں " شدو بولا۔ میں نے اس کوٹ کے کالر ذرا کاٹ کے چھوٹے کر لئے تھے۔ دلیپ کمار کو ہیر اسٹائیل بہت پسند آیا۔ جب سے اس نے مجھ سے وہ کوٹ مانگ لیا۔ جب سے وہی کوٹ پہنے پہنے پھرتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے کالروں والا اف کوٹ۔ جوکبھی بارسٹر صاحب کے لونڈے کا تھا۔ وہ تو کہو اس کوٹ کی قسمت اچھی تھی کہاں سے کہاں پہنچ گیا، فلم "شکست " میں تم نے اس کوٹ کو دیکھا تھا؟"
"تمہاری دلیپ کمار کی واقفیت کیسے ہوئی؟" میں نے پوچھا۔
شدو نے میرے سر پر قینچی چلاتے ہوئے کہا"کچھ نہ پوچھو، چاچا، دلیپ کمار سے ملنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے، مختصر یہ کہ ایک روز میں بمبئی کے ریس کورس میں اپنے جاکی ہربھگوان سے ملنے جا رہا تھا، کہ شاید کوئی قسمت کا ٹپ مل جائے تو بیڑ اپارہو جائے کہ مجھے اتنے میں خیال آیا کہ میرے سر کے بال بہت لانبے ہورہے ہیں، یہ خیال آتے ہی میں سامنے کے ایک شیونگ سیلون میں گھس گیا۔ اور جاتے ہی جو کرسی خالی تھی اور جس پر ایک آدمی بیٹھنا ہی چاہتا تھا کہ میں جلدی سے پہنچ کر وہاں بیٹھ گیا۔ حجام نے میری طرف ذرا تیکھی نظروں سے دیکھا۔ مگر اپن تو تم جانتے ہی ہو، شروع سے ڈھیٹ رہے ہیں۔ تمہارے چیلے ہیں اس معاملے میں استاد جاکے نکٹے دیوتاتاکے اوت پجاری، سو ہم کرسی پر ڈٹ گئے اور حجام نے جیسے تیسے کر کے میرے بال کاٹنے شرو کر دئیے کہ میں نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ میرے دماغ میں ایک عجیب خیال آیا۔ میں نے سوچا آج میں ایسے بال کٹواؤں کہ ریس کورس میں آنے والی فلم کی ساری ہیروئنیں میری طرف دیکھنے لگ جائیں وہ نرگس، مدھو بالا، ثریا، نلنی جیونت، آشا رائے اور چتوہر کہئے کر سب میری طرف دیکھنے لگ جائیں تو تومزہ ہے نہیں تو زندگی بے کار ہے۔
یہ خیال آتے ہی میں نے بڑی الجھن سے حجام سے کہا۔ "پہلے آگے سے بال چھدرے کرو، تالو سے لے کر ماتھے تک۔ "
"مگر؟"
’اگر مگر کی کوئی ضرورت نہیں جیسا میں کہتا ہوں ویسا کرو۔ "
حجام نے ویسا ہی کیا، جب وہ ماتھے کے قریب پہنچا تو میں نے پھر اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور اس سے کہا۔ " یہ سامنے کے بال دائیں طرف سے چھوٹے مگر بائیں طرف سے لانبے رہنے دو۔ "
"مگر"
" پھر وہی اگر مگر، جیسا میں کہوں کرتے جاؤ۔ "
حجامت کے بعد جب میں نے اپنی صورت آئینے میں دیکھی تو اپنی جدت پر خود حیران ہو گیا۔ میں ابھی سوچ رہا تھا کہ یہ سٹائل ریس کورس کے لئے ٹھیک رہے گا، کہ کسی پاگل خانے کے لیے ! اتنے میں کسی نے مجھے پیچھے سے آکے گلے سے لگالیا اور کہنے لگا۔
"واہ، واہ، کیا طرز حجامت ایجاد کی ہے۔ سر کو پیچھے سے دیکھو تو گھسا ہوا برش نظر آتا ہے۔ تالو کے اوپر سے دیکھو تو کدو کی بیل کا نظر آتا ہے۔ سامنے سے دیکھو تو عشق پیچاں کی زلف پریشاں نظر آتا ہے۔ سبحان اللہ، سبحان اللہ۔ میں نے گھوم کر دیکھا۔
میرے سامنے دلیپ کمار کھڑا تھا۔
میں حیرت سے وہیں کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔
دلیپ کمار نے بہت نرمی سے میرے شانے پر ہاتھ رکھا، اور کچھ کہا جسے میں سن نہ سکا۔
"کیا فرمایا آپ نے ؟" میں نے بہت لجاجت سے پوچھا۔
اس دلیپ کمار نے جیب سے ایک مائیکرو فون نکال کے کچھ کہا، اب کے میں نے سن لیا، دلیپ کمار کہہ رہا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔
"بھائی جان! اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو آپ کا ہیر اسٹائل میں اپنا لوں۔ "
"شوق سے شوق سے۔ " میں نے قصائیوں کی طرح اس کے ہاتھ کو زور سے دباتے ہوئے کہا۔
"در اصل میں اپنی زندگی سے بیزار آ چکا ہوں۔ " دلیپ کمار اپنے جیبی مائیکرو فون سے کہہ رہا تھا"میں شہرت سے، دولت سے، عورت سے پریشان ہو چکا ہوں، میں اپنی زندگی کے لئے کچھ نئی چیز چاہتا ہوں۔ "
میں نے کہا" میر اہیر اسٹائل حاضر ہے۔ "
"ٹھیک ہے۔ " دلیپ کمار نے حجام کی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ " آج سے لوگ میرے ایکٹنگ کو بھول جائیں گے اورمیرے ہیئر اسٹائل کو یاد رکھیں گے۔ "
جب دلیپ کمار بال کٹو اچکا تو میری طرف مڑ کے پوچھنے لگا۔
"کیا میں اپ نے محسن کا نام پوچھ سکتا ہوں ؟‘
میں سن نہ سکا۔
دلیپ کمار نے پھر اپنی جیب سے مائیکرو فون نکالا۔
میں نے کہا۔ " خاکسار کو شدو کو کہتے ہیں۔ "
"کیا کام کرتے ہو؟"
"سڑکیں ناپتا ہوں، اگر آپ آج نہ مل جاتے تو سمندر کی گہرائی ناپنے کا ارادہ کر رہا تھا۔ "
"اچھا۔ " دلیپ کا سر مائیکرو فون پر جھک گیا۔ اس کی آنکھیں خوابیدہ ہو گئیں۔ اس کی نسیں ماتھے پر ابھر آئیں، اک مدھم محزوں تبسم! اس کے لبوں پر نمودار ہوا۔ اور اس نے آہستہ آہستہ سے رک رک کر کہا۔۔ ۔ "شدو!" آج سے تم میرے بھائی میرے بھائی ہو۔ "
اس کے بعد وہ سر جھکائے، آنکھوں میں آنسو چھپائے شیونگ سیلون سے باہر نکل گیا۔
اس کے دوسرے دن صبح سویرے میں ایک جھولے میں حجامت کا سامان لیے اس کے بنگلے پر پہنچ گیا۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت حیرت زدہ ہوا، بولا۔ " یہ تم اس جھولے میں کیا لائے ہو؟"
"ھجامت کا سامان۔ "
"کیوں ؟"
" کل کی بات بھول گئے، اس شیونگ سیلون میں جب ملے تھے، تم ہی نے تو کہا تھا، شدو، آج سے تم میرے نائی ہو۔ "
مگر میں نے توکہا تھا، آج سے تم میرے بھائی ہو۔ " دلیپ کمار نے احتجاج کرتے ہوئے کہا۔
"افوہ یہ کیسی غلطی ہوئی میں نے سمجھا تم کہہ رہے ہو آج سے تم میرے نائی ہو، اس پر تو میں یہ حجامت کا سارا سامان خرید لایا۔
اگر مجھے معلوم ہوتا تھا کہ میں آج سے تمہارا نائی نہیں بھائی ہوں، تو میں اپنا بستر بھی اٹھا کے یہیں لے آتا، مگر اب۔۔ اب کیا ہو گا؟"
"اب کیا ہو گا۔ " دلیپ کمار نے سر جھکاتے ہوئے کہا، اب کرو میری حجامت!"
شدو کی داستان بہت دلچسپ تھی لیکن سب سے دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جب میں اس کی کرسی سے اٹھا تو اپنے آپ کو بالکل پہچان نہ سکا۔ میں نے چلا کر شدو سے کہا۔ " ابے او شدو! سور کے بچے ! یہ تو نے کیا کر دیا؟"
شدو نے باہیں پھیلا کر سر جھکا کر کورنش بجا لاتے ہوئے کہا۔ "استاد یہی تو وہ مشہور و معروف ہیر اسٹائیل ہے، جس کے بل بوتے پر میں دن میں ڈیڑھ سو روپے کماتا ہوں۔ "
شدو کی دوکان بہت چل نکلی، لیکن شہر کے بہت سے حجام بے کار ہو گئے۔ کچھ حجاموں نے تو شہر چھوڑ دیا۔ وہ ایک سبزی ترکاری بیچنے لگے، دو ایک غم کے مارے پاگل ہو گئے اور ایک نے اپنے گلے پر استرا پھیر کر خود کشی کر لی لیکن ان با توں کا شدو پر یا شہر کے نوجوانوں پر کیا اثر ہوتا وہ تو سب دلیپ ہیراسٹائیل کے گرویدہ تھے۔ اور شدو سے دلیپ کمار کی باتیں سننے کے لئے اس کی دو کان میں جایا کرتے، جببھی میں وہاں گیا، میں نے اس کے شیونگ سیلون کو بھراپایا۔
ماتا دین حلوائی کا لونڈا پوچھ رہا تھا۔ "یار شدو! یہ دلیپ کمار سر میں کونسا تیل لگتا ہے۔ "
"دھانسو تیل۔ "
" یہ کون سا تیل ہوتا ہے ؟"
شدو نے ایک بند الماری کا تالا کھولا اور اس میں سے ایک شیشی بہت احتیاط سے نکالی۔ اور ماتا دین حلوائی کے لونڈے کے ہاتھ میں دے کر کہنے لگا، " یہ دھانسو تیل ہے۔ اس کا نسخہ میرے اور دلیپ کمار کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ "
اس میں کیا خاص بات ہے ؟" جگے پنساری نے جو گنجا تھا۔ شدو سے پوچھا۔
شدو نے اس کے گنجے سر کی طرف دیکھ کر کہا"اس کے استعمال سے بال ساری عمر کالے اور چمکیلے رہتے ہیں اور جس کے سر پر بال نہ ہوں، اس کے سر پر بال اگ آتے ہیں۔ "
"سچ کہتے ہو۔ "
تو کیا جھوٹ کہتا ہوں، استعمال کر کے دیکھ لو۔ ارے ایک میں نے غلطی سے یہ تیل اپنی ہتھیلیوں پر لگالیا تھا۔ اور رات ہی رات میں میری ہتھیلیوں پر اتنے بال اگ آئے کہ برش معلوم ہونے لیں۔ بڑی مشکل سے بال صفا پوڈر سے اپنی ہتھیلیوں کو صاف کیا۔ "
"تو اب اپنے سر میں تیل کیسے لگاتے ہو؟"
" اب تو دستانے پہن کر تیل لگاتا ہوں، لے جاؤ یہ شیشی دھانسو تیل بمبئی میں تو خیر پندرہ روپے سے کم نہیں بیچتا۔ تم سے دس روپے لے لوں گا۔ "
ماتا دین حلوائی کابیٹا ایک امیر حلوائی کابیٹا تھا وہ دس روپے لے دے سکتا تھا، مگر رحمن کو دھانسو تیل سے کوئی دلچسپی کا بیٹا تھا۔ وہ دس روپے دے سکتا تھا مگر رحمن کو دھانسو تیل سے کوئی دل چسپی نہیں تھی، وہ تو کچھ اور ہی دریافت کرنا چاہتا تھا۔ آخر اس سے رہا نہ گیا۔
"یار! یہ دلیپ کمار شادی کیوں نہیں کرتا؟"
شدو نے کہا۔ " ارے یہ تو بہت ہی دلچسپ قصہ ہے، ایک دن میں اور دلیپ کمار جو ہو پر ٹہل رہے تھے، کہ میں نے یہی سوال دلیپ کمار سے کیا، دلیپ کمار تم جانتے ہو، ہندوستان کا سب سے مشہور سب سے بڑا ہیرو ہے، ہزاروں خوبصورت لڑکیاں اس پر مرتی ہیں، اس پر جان چھڑکتی ہیں، جیسے ہم مچھروں پر ڈی ڈی ٹی چھڑکتے ہیں، ویسے وہ اس پر اپنی جان چھڑکنے کو ہر وقت تیار رہتی ہیں لیکن دلیپ کمار ہے کہ شادی ہی نہیں کرتا، کیوں ؟ آخر اس دن میں نے ہمت کر کے دلیپ کمار سے یہ سوال پوچھ ہی لیا۔
دلیپ کمار نے اپنے بالوں کی زلف کو ہلکا سا جھٹکا دیا پھر وہ آہستہ سے مسکرایا، پھر اس نے جھک کر ساحل کی ریت کو اپنی ہتھیلی پر اٹھایا، اور اسے اپنے منہ میں ڈال لیا اور آہستہ آہستہ ریت کے ذروں کو چباتے ہوئے بہت فکر مند انداز میں بولا۔ " شدو بھیا بات در اصل یہ ہے کہ۔۔ ۔۔ ۔
کہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ میں ایک بیوہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ "
"بیوہ سے شادی تو کارِ ثواب ہے۔ "
"ہے تو سہی۔ " دلیپ کمار بہت متفکر لہجے میں بولا۔ ’ ’مگر مصیبت یہ ہے کہ ہماری فلم انڈسٹری میں کوئی ہیروئن بیوہ نہیں ہے۔ "
"ہے تو نہیں مگر ہو سکتی ہے، اگر تم چاہو تو۔ "
"آف میرا سر گھوم رہا ہے۔ "دلپ کمار بولا۔ " میرے سر پر مالش کرو۔ "
شدو بولا۔ " مترجی، یہ جواب سننے کے بعد میرا جی بھی مالش کرنے لگا ار دلیپ کمار کے سر کی مالش کرتے کرتے یہ سوچنے لگا کہ دلیپ کمار کے لئے کون سی بیوہ موزوں رہے گی۔ اور سچ پوچھو تو اپنے وطن میں واپس آنے کا میرا سب سے بڑا مقصد یہی ہے کہ میں اپنے پیارے دوست دلیپ کمار کے لئے ایک موزوں بیوہ تلاش کروں۔ "
اڑتے اڑتے یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی کہ دلیپ کمار کو ایک بیوہ کی تلاش ہے۔ یہ خبر سنتے ہی بہت سے گھروں میں جہاں پہلے شدو کا سایہ تک نہ جا سکتا تھا، وہاں شدو کو بڑے تزک و احتشام سے دعوتوں پر بلایاجانے لگا، ہوتے ہوتے ایک دن ہمارے محلے کی امیر خوجن نے جو دس سال سے بیوہ تھی، اور جس کا بیٹا گلا شہر کا مشہور بٹیر باز تھا، شدو کو اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا۔
" سنا ہے تمہارا دلیپ کمار بیوہ سے شادی کرنا چاہتا ہے ؟"
"ہاں "
امیر خوجن یہ جواب سن کر دیر تک چپ رہی، آخر بولی۔ " دلیپ کمار کے پاس کتنا روپیہ ہو گا؟"
شدو ہنس کر بولا۔ "دلیپ کمار کی دولت کا کیا پوچھتے ہو، ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ کا کنٹریکٹ لئے پروڈیوسر اس کے آگے پیچھے گھومتے ہیں، دولت تو اس کے ہاتھوں کا میل ہے، چاہے تو کل ممبئی کو خرید لے۔ "
خوجن سوچ سوچ کے بولی۔ "میرے پاس بھی اسی ہزار روپے ہے، تمہارا دلیپ کمار کیا مجھ سے شادی کرے گا؟"
شدو نے بہت اطمینان سے کہا۔ " وہ تو جس سے میں کہوں گا اس سے شادی کرے گا۔ "
خوجن نے اپنا بٹوہ کھولا۔

دس دن ہوئے شدو تیلی محلے سے ایک سولہ برس کی نوجوان بیوہ کو لے کر فرار ہو گیا۔ شہر کے عزت داروں نے پولیس سے بہترا کہا کہ وہ بمبئی جاکے دلیپ کمار کے مکان کی تلاشی لے لیکن پولیس والے شاید دلیپ کمار سے ڈرتے تھے، وہ نہ بمبئی گئے نہ انہوں نے وہاں کی پولیس کو کوئی وارنٹ شدو یا دلیپ کمار کے خلاف بھیجا۔ وہ لوگ ہمارے شہر کے آس پاس کے قصبوں ہی میں شدو کو ڈھونڈتے رہے اور آخر اسے شہر سے تیس میل دور دھولریاں گاؤں کے ایک چھپر میں ڈھونڈ نکالا۔ شدو تاڑی پی کر بے سدھ پڑا تھا اور وہ لڑکی ایک کونے میں بیٹھی رو رہی تھی۔
گرفتاری کے بعد عدالت میں جرح کے دوران میں پتہ چلا کہ شدو میاں اپنی زندگی میں نہ کبھی بمبئی گئے تھے نہ کبھی دلیپ کمار کا منہ دیکھا تھا۔ لڑکی کو فرار کرنے میں انہوں نے یہ جھانسہ دیے کے اغوا کر لیا تھا کہ وہ اسے بمبئی لے جائیں گے اور دلیپ کمار سے اس کی شادی کروادیں گے، لیکن وہ کیا کرتے، اس کے بغیر لڑکی کبھی ان کے قابو میں نہ آ سکتی تھی۔
شدو کو جیل ہو گئی۔
جیل میں میں اس سے ملنے کے لئے گیا تھا، شدو سے ملاقات بھی ہو گئی تھی، واپس آتے وقت شدو نے مجھے بتایا کہ جیل سے چھوٹنے کے بعد وہ دلیپ کمار کا نائی نہیں رہے گا، بلکہ راج کپور کا درزی بن جائے گا۔
"درزی؟" میں نے حیرت سے کہا "مگر کیا تم نے کبھی سلائی سیکھی ہے ؟"
"استاد، تم بھی نرے بدھو ہو۔ "
شدو ہنس کر بولا۔
"اس میں سیکھنے کی کیا ضرورت ہے، یہ تو جوہر خدا داد ہے۔ "


Dilip Kumar ka Naayi. Humorous Essay: Krishan Chander.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں