حیدرآبادی نوکر - انشائیہ از مظہر قادری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-02-04

حیدرآبادی نوکر - انشائیہ از مظہر قادری

hyderabadi-naukar
ماضی میں جو بھی نوکر گھر میں کام کیا کرتے تھے، چوبیس گھنٹے گھر ہی میں رہا کرتے تھے۔ بڑے بڑے گھر ہوتے تھے جس میں سرونٹ کوارٹر خود ایک مکمل گھر ہوتا تھا۔ جس میں نوکروں کا پورا خاندان رہتا تھا اور ایک بڑے خاندان کے ساتھ نوکروں کا خاندان بھی چلتا رہتا تھا لیکن وقت نے ایسی پلٹی کھائی کہ اب خود مالک مکان کے لئے بھی سرونٹ کوارٹر جیسا گھر نہیں ہے اور چوبیس گھنٹے رہنے والے نوکروں کی جگہ محض چند گھنٹوں کے لئے روزانہ کام کرنے والی نوکرانی بھی بڑی مشکل سے ملنے لگی ہے۔ صبح میں دروازہ کھول کر نوکرانی کی آمد سے پہلے دور دور تک نظر دوڑانا پڑتا ہے کہ کہیں کوئی ہماری نوکرانی کو ہم سے چھین نہ لے۔ اسی طرح جاتے وقت بھی دور تک نظروں سے اسے الوداع کہنا پڑتا ہے کہ کہیں ہمارا کوئی پڑوسی اسے ہم سے بہتر ترغیبات دے کر نہ ورغلائے۔ صبح نوکرانی کے آنے تک دونوں میاں بیوی کا دل ہیبت سے دھڑکنے لگتا ہے کہ اگر نوکرانی نہیں آئی تو کیا ہوگا؟ بیوی کو یہ فکر ستانے لگتی ہے کہ کہیں مجھ ہی کو باورچی خانے میں گھس کر کام نہ کرنا پڑے اور میاں کا دل یہ سوچ سوچ کر بیٹھا جاتا ہے کہ اگر بیوی ناشتہ بنانے سے انکار کر دے تو پھر پتا نہیں مجھے کس ہوٹل میں ناشتہ کرنا پڑے؟

ایک دن ہمارے ایک دوست نے ہمیں باتوں باتوں میں کہا کہ آج ان کی نوکرانی کی سلور جوبلی ہے۔ ہم نے حیرت سے پوچھا کیا آپ اتنے خوش قسمت ہیں کہ آپ کے پاس پچیس سال سے ایک ہی نوکرانی ہے ؟
تو انہوں نے تاسف سے جواب دیا: نہیں نہیں، آپ سمجھے نہیں، ہماری موجودہ نوکرانی اس سال کی پچیسویں نوکرانی ہے۔

نوکرانی اور مالکن کا چولی دامن کا ساتھ رہتا ہے، دونوں کی ایک دوسرے سے تھوڑی تھوڑی دیر کو بنتی بگڑتی رہتی ہے اور بیچارے شوہر کی مجال نہیں ہوتی کہ وہ دونوں کے معاملات میں دخل دے۔ اکثر مالکن انا کو مسئلہ بنا کر نوکرانی پر گرجتی برستی ہے لیکن تھوڑی ہی دیر بعد اس کو اپنی حیثیت کا احساس ہو جاتا ہے کہ یہ نوکر ہے شوہر نہیں۔ لہذا وہ اپنے غصے پر قابو پا کر فوری میانہ روی اختیار کرتے ہوئے نوکرانی کو منا لیتی ہے کیونکہ نوکرانی کے بغیر جاری ہونے والا عذاب اس کی نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔
بیگم کی ڈانٹ سن کے نوکر پکار اٹھا
ہر چند ذرہ ہوں کوئی گوہر نہیں ہوں میں
لیکن کلام کیجئے مجھ سے ادب کے ساتھ
نوکر ہوں آپ کا کوئی شوہر نہیں ہوں میں

جس طرح اچھے رشتے ملنا مقدر کی بات ہوتی ہے اسی طرح اچھے نوکر ملنا بھی مقدر کی بات ہو کر رہ گئی ہے۔ ماضی میں جب غصے میں آ کر نوکرانی کو برطرف کر دیا جاتا تھا تو وہ روتی تھی، گڑ گڑاتی تھی کہ اسے نوکری سے نہ نکالیں لیکن اب وقت بدل گیا ہے، اب نوکرانی ہمیں اپنی خدمت سے برخاست کرنے لگی ہے اور ہم اس کی خوشامد کرنے پر مجبور ہو چلے ہیں۔ ماضی میں ہم نوکر کو رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ خود کیا کرتے تھے، لیکن اب نوکر یہ فیصلہ کرنے لگے ہیں کہ انہیں کس کے پاس نوکری کرنی ہے اور کس کے پاس نہیں؟ پہلے زمانے میں جب ہم یہ سنتے تھے کہ بیرونی ممالک میں نوکر نہیں ملتے اور انہیں اپنا ہر کام خود ہی کرنا پڑتا ہے تو ہم اس شخص کو بڑی حقارت سے دیکھا کرتے تھے لیکن آج کل ہم خود آئینے کے رو برو کھڑے ہو کر اپنے آپ کو حقارت سے دیکھنے لگے ہیں۔

دنیا کی ہر نوکری میں مالک، امیدوار کا انٹرویو لیتا ہے اور مکمل طور پر مطمئن ہونے کے بعد ہی اسے نوکری دیتا ہے لیکن حیدرآبادی نوکروں کا معاملہ بالکل الٹا ہے۔ جیسے ہی وہ آپ کے گھر نوکری کے لیے آتے ہیں تو وہ آپ کا انٹرویو لینا شروع کر دیتے ہیں۔
  • گھر میں کتنے کمرے ہیں ؟
  • کتنے باتھ روم ہیں ؟
  • واشنگ مشین ہے یا نہیں ؟
  • گرائنڈر ہے یا نہیں ؟
  • گھر میں ٹی وی کون سا ہے ؟
  • گھر میں کتنے لوگ ہیں ؟
  • بچے کتنے ہیں؟
  • مہمان زیادہ تو نہیں ہیں ؟
  • آپ لوگ گھر میں کھانا زیادہ کھاتے ہیں یا باہر؟ (تاکہ آتے وقت اس کے لئے بھی کھانا لا لیں۔ )

مالکن کے سارے جوابوں سے مطمئن ہونے کے بعد وہ اپنی تنخواہ کی ڈیمانڈ کرتے ہیں جس کے لئے مالکن کو خوشامد کرنی پڑتی ہے کہ تمہارا کام دیکھ کر آئندہ ماہ تنخواہ میں اضافہ کر دیا جائے گا۔ اگر نوکر یا نوکرانی، کو آپ پر رحم آ گیا تو آپ کی پیشکش پر راضی ہو جاتی ہے لیکن اس کی امید کم ہی ہوتی ہے، کیونکہ یہ لوگ اپنا ذہن بنا کر ہی آتے ہیں کہ آپ سے اتنی تنخواہ تو نکالنی ہی ہے۔ ویسے بھی وہ آپ کا انٹرویو لینے سے پہلے اپنے ہم عصروں سے آپ کے بارے میں کافی معلومات اکٹھا کر چکے ہوتے ہیں۔ جب تنخواہ وقت، چھٹی وغیرہ کے سارے معاملات طے ہو جاتے ہیں تو آخری وارننگ مالکن کو دی جاتی ہے کہ ان کی بچی کی شادی آپ کی ذمہ داری ہے، آپ اسے کس حد تک نبھا سکتے ہیں ؟ اور ایک شرط یہ بھی عائد کر دی جاتی ہے کہ گھر کے سارے کام نوکرانی کو صرف مالکن ہی بولے گی اور گھر کا کوئی دوسرا فرد دونوں کے معاملات میں ہرگز ملوث نہیں ہوگا۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ گھر کے دیگر افراد کے مقابلے میں مالکن کو نوکرانی پر کبھی غصہ نہیں اتا اور اگر آ بی جائے تو اس کی ساری بھڑاس وہ اپنے شوہر پر نکال لیتی ہے لیکن نوکرانی کو اف تک نہیں کہتی۔

آج کل کے نوکر ایسے لوگوں کے گھر میں نوکری کو ترجیح دیتے ہیں جن کے بچے باہر ہوں تاکہ انہیں تنخواہ کے علاوہ اچھا سا بونس اور دیگر اشیا وقتاً فوقتاً ملتی رہیں۔
نوکروں کی دو قسمیں ہوتی ہیں، ایک وہ جو صرف کام پر ہاتھ صاف کرتے ہیں اور وہ بڑے بدتمیز ہوتے ہیں جب کہ نوکروں کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے، جو آپ کے مال پر ہاتھ صاف کرتے رہتے ہیں۔ وہ کسی قدر خوشامد پسند اور اپنے آپ کو اطاعت گزار بتاتے ہیں لیکن موقع ملتے ہی کسی نہ کسی چیز پر ہاتھ صاف کر دیتے ہیں۔ اس قبیل کے لوگ ایسے بھلکڑ مالکوں کے پاس خوشی خوشی کام کرتے ہیں اور ان کے پیسے اور چیزیں رکھ کر بھولنے کی عادت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ اگر ان کو گھر کی کوئی چیز غائب کرنا ہو تو پہلے اسے اٹھا کر کسی دوسری جگہ رکھ دیا جاتا ہے اور ایک ہفتے بعد اسے Observation میں رکھ کر یہ دیکھا جاتا ہے کہ مالک یا مالکن کو وہ چیز یاد آتی ہے یا نہیں ؟ اگر ایک ہفتے تک اس چیز کی گمشدگی پر کوئی وبال نہ مچے تو پھر اس چیز کو اپنے ہیڈ کوارٹر میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر اس چیز کی گمشدگی سے متعلق کوئی ہنگامہ برپا ہو گیا تو پھر خود اس چیز کو لاکر دے دیا جاتا ہے۔ اس طرح وہ ایک جانب خود کو غیر معمولی ایماندار ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو دوسری طرف مالک کو یہ خوشگوار احساس بھی دلا جاتے ہیں کہ خود اپنی چیزیں یہاں وہاں رکھ کر وہ بھول جاتے ہیں اور الزام معصوم نوکروں پر عائد کر دیا جاتا ہے۔ جس سے نوکروں کی پاک دامنی پر مالک یا مالکن کو مکمل یقین ہو جاتا ہے اور وہ انہیں مزید ترغیبات کے ذریعے خود سے قریب تر کر لیتے ہیں۔

***
نوٹ :
بشکریہ: روزنامہ 'منصف'
مضمون از: مظہر قادری (موبائل: 09392488219)

Hyderabadi Naukar. Humorous Essay: Mazhar Qadri

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں