شروع کی گئی تھی۔ نمائش میدان مختص کرنے کے بعد وہاں آج کل 2500 اسٹالس پینتالیس (45) دن کا کاروبار کرتے ہیں۔
نمائش اس وقت شروع کی گئی تھی جب ہر چیز آج کل کی طرح وافر مقدار میں دستیاب نہیں ہوتی تھی۔ ہمارے ملک میں نت نئی ایجادات ہو رہی تھیں ، نئی نئی صنعتیں قائم ہو رہی تھیں۔ ان کمپنیوں کی بنائی ہوئی نئی ایجادات کو نمائش میں پیش کیا جاتا تھا اور عوام کو ان اشیا کے تعلق سے بتایا جاتا تھا ، ان کے فوائد اور ان کا استعمال سکھایا جاتا تھا۔ ان نئی ایجادات کی تشہیر کے لیے نمائش بہترین ذریعہ تھی۔
آج کل تو کسی بھی چیز کی تشہیر کے لیے بہت سے ذرائع پیدا ہو گئے ہیں ، ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات ، ہورڈنگس سب سے بڑھ
کر آج کل سوشل میڈیا ان اشتہارات کے لیے استعمال ہو رہا ہے، ایسے میں نمائش میں تشہیر کرنا مکمل طرح سے ختم ہو چکا ہے۔ اس وقت تشہیر کے لیے نمائش کی اہمیت و افادیت تھی لیکن اب کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ ہر وہ چیز جو نئی یا پرانی کمپنیاں بناتی ہیں، بازار میں فوری طور پر آ جاتی ہیں۔ سارے شہر میں ہر چیز کے اور ہر کمپنی کے بڑے بڑے شو رومس ایک دو ہی نہیں پچاسوں کی تعداد میں قائم ہو چکے ہیں۔ کوئی بھی نئی چیز بننے سے قبل ہی اس کی تشہیر کچھ اس ڈھنگ سے کی جاتی
ہے کہ عوام اس کو حاصل کرنے کے لیے بےچین ہو جاتے ہیں۔ جب وہ پراڈکٹ مارکیٹ میں آتا ہے تو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتا ہے۔ اب وہ پراڈکٹ اچھا ہے یا نہیں یہ تو استعمال کے بعد ہی پتا چلتا ہے۔ اب جب کہ سارا شہر نمائش بن چکا ہے تو پھر اس مخصوص نمائش کی اہمیت کہاں باقی رہ جاتی ہے؟ پھر بھی روایتی طور پر ہر سال نمائش قائم کی جاتی ہے اور عوام بھی اس نماش میں خرید و فروخت اور تفریح طبع کے لیے امڈ پڑتے ہیں۔
اس سال نمائش میں آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے کروڑہا روپیوں کا نقصان بیوپاریوں کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ حکومت اور نمائش سوسائٹی اس نقصان کی پابجائی نہیں کر سکتیں۔ حکومت اور سوسائٹی عبوری امداد کے طور پر ان بیوپاریوں کو کچھ رقم ادا کر سکتے ہیں لیکن بیوپاریوں کے نقصان کی مکمل بھرپائی کرنا مشکل ہے۔ اسٹالس کے الاٹمنٹ میں درمیانی آدمی کا بھی رول رہتا ہے۔ سوسائٹی ممبرس اور فائر انجن عملہ دونوں قصور وار ہیں کیوں کہ دونوں ہی اس خواب غفلت میں مبتلا تھے کہ گذشتہ اتنے برسوں میں کچھ نہیں ہوا تو اب کیا ہوگا؟ اسی لیے فائر انجن میں پانی نہیں تھا اور سوسائٹی نے اسے چیک کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ نمائش سوسائٹی اور فائر عملہ بی بھول گئے کہ حادثہ کبھی بھی ہو سکتا ہے۔
اس سال سنے میں آیا ہے کہ نمائش کے اسٹالس کافی مہنگے داموں فروخت ہوئے ، اسی لیے تقریباً کشمیری بیوپاریوں نے اسٹالس نہیں لیا یا پھر دوسروں کو دے کر چلے گئے۔ ہر سال نمائش کے اسٹالس اور نمائش کے ٹکٹ کا نرخ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ بڑی کمپنیاں تو اسٹالس حاصل کر سکتی ہیں اور اگر انہیں نمائش سے گھاٹا بھی ہوتا ہے تو اس نقصان کو وہ اشتہاری اخراجات کی مد میں ڈال دیتی ہیں۔ چھوٹی کمپنیاں اور چھوٹے بیوپاری نقصان برداشت نہیں کر سکتے اور پھر نمائش میں ملتا کیا ہے؟ وہی چیزیں جو بازار میں ملتی ہیں ، یہاں ایک مثال دیکھیے۔
اکثر خواتین گھروں میں استعمال ہونے والی بیڈشیٹس ، شولا پور یا ہریانہ وغیرہ کی تیار کی ہوئی نمائش سے خرید کر لاتی ہیں جو شہر میں سال کے بارہ مہینے آپ کے گھروں پر بیڈ شیٹ بیچنے والے لے کر آتے ہیں۔ ان ہی بیڈ شیٹس کی دکانیں بھی سارے شہر میں بھری پڑی ہیں، اور شہر کے دکانات والے نمائش میں بھی اسٹالس لگا کر اونچے داموں میں یہی بیڈ شیٹس فروخت کرتے ہیں۔
نمائش میں بچوں کی پہلی پسند جھولے ہوتے ہیں ، اس سال جھولوں کے دام بھی بہت بڑھ گئے ہیں۔ اکثر حضرات و خواتین نمائش کو محض تفریح طبع کے لیے جاتے ہیں اور کچھ خریداری بھی کرتے ہیں۔ اگر نمائش سوسائٹی غور کرے اور اسٹالس کے دام کم کرے تو اسٹالس والے فروخت کی جانے والی اپنی اشیا کو بھی کم دام میں فروخت کر سکیں گے۔ اس طرح سے نمائش میں بھی کھانے پینے کی اشیا اور دوسری استعمال کی اشیا کو شہر کے بازار سے بھی کم دام میں فروخت کرنے کا نظم قائم کیا جانا چاہیے جس سے نمائش کی اہمیت و افادیت ختم نہ ہو بلکہ مزید بڑھے۔
نمائش سوسائٹی کو ہر سال کروڑہا روپئے اسی نمائش سے ملتے ہیں جس سے وہ تقریباً اٹھارہ تعلیمی ادارے چلاتی ہے۔ یہاں ایک یہ بھی خدشہ ہے کہ جب کوئی تعلیمی ادارہ چلتا ہے تو اس سے فائدہ ہی ہوتا ہے تو پھر اس نمائش سے حاصل کیا ہوا پیسہ کہاں خرچ ہوتا ہے؟
ماضی میں ملک کی دیگر ریاستوں کی صنعتوں کی تیار کردہ اشیا کو بھی نمائش میں پیش کیا جاتا تھا، اس لیے کہ ایک ہی مقام پر تمام ریاستوں کی اشیا عوام کو مل جائے۔ اب ایسا نہیں رہا ، ہر ریاست کے باشندے ریاست تلنگانہ اور شہر حیدرآباد میں اپنا اپنا کاروبار شروع کر چکے ہیں۔ ہمارے اسی شہر میں کولہاپوری چپل ، آگرہ کے جوتے تیار ہو رہے ہیں، بھلے اس پر ان شہروں کے اسٹامپس چھاپیے جاتے ہوں۔ پہلے ذرائع حمل و نقل اتنا آسان نہیں تھا، آج کل بہت سہولتیں مہیا ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرونی ممالک کی اشیا بھی سال کے بارہ مہینے میں شہر کی دکانات پر دستیاب ہیں تو پھر بھلا نمائش میں رکھا کیا ہے؟!
***
نوٹ :
بشکریہ: روزنامہ 'منصف'
مضمون از: نور عالم صدیقی (موبائل: 09885415693)
نوٹ :
بشکریہ: روزنامہ 'منصف'
مضمون از: نور عالم صدیقی (موبائل: 09885415693)
Hyderabadi Numaish. Column: Noor Alam Siddiqi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں