حواشی مولانا آزاد - زیر مطالعہ کتابوں پر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-02-22

حواشی مولانا آزاد - زیر مطالعہ کتابوں پر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

hawashi-maulana-azad
ابوالکلام محی الدین احمد آزاد (پیدائش: 11 نومبر، 1888ء - وفات 22 فروری، 1958ء) آزاد ہندوستان کے پہلے وزیرِ تعلیم اور قومی رہنما تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔ ان کے والد بزرگوار محمد خیر الدین انھیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ مولانا 1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا۔ مولانا آزاد کا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین افغانی سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔

مولانا ابوالکلام آزاد بیسویں صدی کی مسلم دنیا کی عظیم ہستیوں میں سے ایک تھے۔ وہ عالم، مذہبی رہنما، مفسر قرآن، ادیب، نقاد ، مکتوب نگار اور صحافی تھے۔ بڑی بات یہ ہے کہ وہ جس میدان میں بھی رہے، صف اول کے لوگوں میں رہے۔
نیاز فتح پوری اچھے سے اچھے کو بھی نگاہ میں نہ لاتے تھے، لیکن مولانا آزاد کی صحافت کے وہ بھی دل سے معترف تھے۔ لکھتے ہیں:
مولانا آزاد نے "الھلال" جاری کیا اور اس شان کے ساتھ کہ صحافت کا تمام اگلا پچھلا تصور ہمارے ذہن سے محو ہو گیا اور ہم سوچنے لگے کہ کیا یہ آواز ہماری ہی دنیا کے کسی انسان کی ہے؟ کیا یہ زبان ہمارے ہی ابنائے جنس میں سے کسی فرد کی ہے؟

مولانا نے کسی اسکول میں تعلیم نہیں پائی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی اور پھر علم کے میدان میں انہوں نے جو کچھ حاصل کیا، بس اپنے شوق ہی کے ذریعے حاصل کیا۔ چھ سات برس کی عمر میں انہوں نے قرآن شریف ختم کر لیا تھا اور سورہ یٰسین اور سورہ قاف حفظ کر لی تھیں۔ ان کے والد مولانا خیر الدین مولانا آزاد کو اپنے دیگر بچوں کے ساتھ فارسی، عربی اور فقہ پڑھاتے تھے۔ پھر دلی کے ایک بزرگ مولوی محمد یعقوب مولانا آزاد کو عربی اور منطق پڑھانے لگے۔ کچھ عرصے بعد مولوی عبدالحق خیرآبادی کے ایک شاگرد مولوی نذیر امیٹھوی نے مولانا آزاد کو 'مطول' ، 'شمس بازغہ' اور 'رشیدیہ' پڑھائیں۔ اس کے بعد مولانا نے غالباً کسی اور استاد سے تعلیم حاصل نہیں کی۔
مولانا نے اردو، گھر میں ہی اپنی بڑی بہن آبرو بیگم سے اور باہر حافظ بخاری سے پڑھی۔ ابتدا میں مولانا نے فسانہ عجائب، باغ و بہار اور قصہ حاتم طائی جیسی داستانیں پڑھیں۔ ان داستانوں کی وجہ سے انہوں نے اردو میں غیرمعمولی استعداد حاصل کر لی۔ انگریزی زبان پر مولانا کو خاصی قدرت حاصل تھی۔ انہوں نے یہ زبان کسی استاد سے باقاعدہ نہیں پڑھی تھی۔ سولہ سترہ سال کی عمر میں انہوں نے سرسید کے مضامین پڑھے تھے۔ ان مضامین نے مولانا آزاد میں انگریزی پڑھنے کا شوق پیدا کیا۔
اپنی کتاب "ہماری آزادی" (ص: 11-12) میں مولانا لکھتے ہیں:
اس کے تھوڑے ہی دن بعد سرسید احمد خان کے مضامین پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ جدید تعلیم کے بارے میں ان کے خیالات کا میرے اوپر بہت اثر ہوا اور میں نے محسوس کیا کہ جب تک کوئی شخص جدید سائنس، فلسفہ اور ادب کا اچھا مطالعہ نہ کرے وہ صحیح معنوں میں تعلیم حاصل نہیں کرتا۔ میں نے طے کیا کہ میرے لیے انگریزی پڑھنا ضروری ہے۔ مولوی محمد یوسف جعفری سے میں نے اس کا ذکر کیا۔ وہ اس زمانے میں مشرقی علوم کے صدر ممتحن تھے۔ انھوں نے مجھے انگریزی کی ابجد سکھائی اور پیارے چند سرکار کی پہلی کتاب پڑھنے کو دی۔ جیسے ہی مجھے زبان کی کی کچھ شد بد ہوگئی، میں نے انجیل پڑھنا شروع کر دیا۔ میں نے اس کے انگریزی، فارسی اور اردو کے نسخے حاصل کے اور تینوں کو سامنے رکھ کر پڑھتا تھا۔ اس سے مجھے عبارت کو سمجھنے میں بہت مدد ملی۔ میں نے انگریزی لغت کی مدد سے اخبار پڑھنا بھی شروع کر دیا۔ اور بہت جلد اس قابل ہو گیا کہ انگریزی کتابیں پڑھ سکوں۔ میں تاریخ اور فلسفہ کا خاص طور سے مطالع کرتا رہا۔

انگریزی میں مولانا کی استعداد کے بارے میں مہادیو ڈیسائی نے لکھا ہے:
اگرچہ آپ انگریزی کم بولتے ہیں مگر آپ کی لائبریری انگریزی اور فرانسیسی کتابوں سے بھری ہوئی ہے۔ آپ نے کئی انگریزی ادیب و شعرا شیکسپئر، ورڈزورتھ، شیلے، گوئٹے، سپونوزا، روسو، مارکس، ہیولاک، ویلس، ہیوگو، ٹالسٹائی اور رسکن کو بار بار پڑھا ہے۔
(بحوالہ: مولانا ابوالکلام آزاد، تحریکِ آزادی و یکجہتی۔ ص:21)

مولانا آزاد نے جب دنیا کے مختلف ملکوں سے تہذیبی روابط قائم کرنے کے لیے انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز کے نام سے نئی دہلی میں ایک ادارہ قائم کیا تو اس کی ایک شاندار عمارت تعمیر کرائی اور دس گیارہ ہزار کتابوں پر مشتمل اپنا ذاتی کتب خانہ کونسل کو دے کر ایک لائبریری بھی قائم کی۔
اس لائبریری میں مولانا آزاد کی کتابوں کے ذخیرے میں عربی، فارسی، انگریزی اور اردو کی کتابیں اور بہت سی کتابوں پر مولانا کے ہاتھ کے لکھے ہوئے حواشی ہیں۔
سید مسیح الحسن صاحب نے بڑی مدت تک اس لائبریری میں کام کیا ہے۔ اس لائبریری میں ملازم ہونے کی وجہ سے انہیں یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ مولانا کی تمام کتابوں پر اپنی نظر غائر ڈال سکتے تھے۔
مگر پھر بھی "حواشی ابوالکلام آزاد" جیسی یادگار کتاب کو مرتب کرنے میں مسیح الحسن صاحب کو دس گیارہ برس لگ گئے۔
چونکہ مسیح الحسن صاحب نے علم کتاب خانے کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے اس لیے انہوں نے یہ کام بہت سلیقے سے کیا ہے۔ انہوں نے جس کتاب کا ذکر کیا ہے ، پہلے اس کی طباعت کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، بتایا ہے کہ یہ کتاب کب کس شہر سے اور کس پبلشر نے شائع کی تھی۔ پھر مولانا کے حاشیے کا پس منظر اور دوسری تفصیلات بیان کر کے مولانا کا لکھا ہوا حاشیہ نقل کیا ہے۔

اردو دنیا کو مولانا آزاد کے حواشی سے روشناس کرانے کی خاطر ، مولانا آزاد کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر دہلی اردو اکادمی نے کتاب "حواشی ابوالکلام آزاد" کو شائع کرتے ہوئے مولانا کو بہترین خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔

***
نام کتاب: حواشی ابوالکلام آزاد (زیر مطالعہ کتابوں پر)
مرتب: سید مسیح الحسن
تعداد صفحات: 586
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 9 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Hwashi Abul Kalam Aazad.pdf

Direct Download link:
https://archive.org/download/HwashiAbulKalamAazad/Hwashi%20Abul%20Kalam%20Aazad.PDF

A collection of Footnotes by Maulana Azad, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں