غالب اور علی گڑھ - مضمون از ڈاکٹر اصغر عباس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-02-15

غالب اور علی گڑھ - مضمون از ڈاکٹر اصغر عباس

مطالعہ غالب کے فروغ کی پہلی اینٹ خانوادۂ سرسید نے رکھی ہے۔ اکتوبر 1841ء میں جب سرسید کے بڑے بھائی احتشام الدولہ سید محمد خان بہادر کے مطیع سے غالب کا دیوان پہلی بار شائع ہوا تو مرزا کے كلام اور ان کے نام کی شہرت ان مقامات تک پہنچ گئی جہاں لوگ ان سے واقف نہیں تھے۔
غالب اور سرسید کے روابط کا اولین نقش ہمیں اس فارسی خط میں ملتا ہے جو غالب نے 1842ء اور 1845ء کے درمیان کسی وقت سرسید کو لکھا تھا جو اس زمانے میں فتح پور سیکری میں منصف کی حیثیت سے تعینات تھے۔ ان دنوں صوبے کی صدر دیوانی عدالت آگرے میں تھی اور یہاں اچھی خاصی تعداد میں اہل کمال موجود تھے جو آئے دن تاج گنج اعتماد الدولہ اور نور افشاں میں تہذیبی جلسے منعقد کرتے، جن میں سرسید بھی شریک رہتے۔ یہیں خواجہ غلام غوث بےخبر گورنر کے نائب منشی کے مرتبے پر فائز تھے اور آگرہ کی اسی دیوان عدالت میں فارسی میں مرزا قتیل اور اردو میں مصحفی کے شاگرد مشہور نعت گو منشی غلام امام شہید سررشتہ دار تھے۔
سرسید کے ان سب سے دوستانہ روابط تھے۔ غالب کے مذکورہ فارسی خط سے معلوم ہو تا ہے کہ سرسید نے غلام امام شہید کے دو نعتیہ اشعار غالب کو اس درخواست کے ساتھ بھیجے کہ وہ ان پر تضمین فرما دیں لیکن خط سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے غلام شہید کے اشعار کو شاعری اور سخنوری سے عاری بتایا اور اشرف المسلمین کی شان میں اپنے اشعار سرسید کو لکھ بھیجے۔ یہ اشعار جس مثنوی سے لیے گئے ہیں پہلی بار اس کا حوالہ آثار الصنادید میں ملتا ہے۔ سرسید لکھتے ہیں:
"ایک مثنوی اوپر غزوات حضرت رسالت دست گاہی ختمی پناہی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اگرچہ ہنوز ناتمام ہے لیکن پھر بھی قریب پندرہ سولہ جزو کے ہو چکی ہے ان شاء اللہ جس وقت اتمام کو پہنچے گی گلدستہ بزم احباب ہوگی"۔

سرسید اور غالب کے مابین دانشوارنہ رشتہ اس وقت اور استوار ہو گیا جب آثار الصنادید کے چوتھے باب میں سرسید نے نثر میں ایک پرکیف قصیدہ غالب کی شان میں لکھا جو اس دور کے مذاق سخن کے مطابق تھا۔ غالب نے اس کتاب کو بہ نظر استحسان دیکھا اور اپنے احباب، جن میں رجب علی ارسطو جاہ میر منشی گورنر پنجاب بھی شامل ہیں اس کتاب کو بطور ارمغان بھیجا۔
واقعہ یہ ہے کہ آثار الصنادید کی اشاعت سے پہلے بھی بعض تذکروں میں مرزا کا ذکر آیا ہے لیکن ان کا حال پہلی رات کے چاند جیسا تھا۔ آثار الصنادید کی اشاعت سے صرف یہی نہیں ہوا کہ ملک کے علمی حلقوں میں غالب کی شہرت اور اہمیت مستحکم ہوئی بلکہ بیرون ملک بھی غالب کا نام ہوا۔ غالب نے اس کتاب پر جو تقریظ لکھی ہے اس میں جواد الدولہ سید احمد خان بہادر عارف جنگ کو "دانا دل ہنر دستگاہ، فرخا کردار کار آگاہ، مہروز رکیں فراموش اہرمن دشمن بزداں دوست فرزانہ بافرد فرہنگ" کے القاب سے یاد کیا ہے۔

یہ بات تو عام طور پر مشہور ہے کہ ان دونوں کے روابط میں اس وقت کچھ کشیدگی پیدا ہو گئی جب "آئین اکبری" کے ایڈیشن پر ایک نے تقریظ لکھنے کی فرمائش کی اور دوسرے نے تقریظ لکھ تو دی لیکن اس کے الفاظ فرمائش کرنے والے کے جذبات کا احاطہ نہ کر سکے۔

1860ء میں جب مرزا رام پور سے دلی جاتے ہوئے مراد آباد میں علیل ہو گئے تو سرسید جو اس زمانے میں وہاں صدرالصدور تھے، غالب کو مہمان سرائے سے اپنے مکان پر لائے۔ حالی لکھتے ہیں کہ جب غالب پالکی سے اترے تو ان کے ہاتھ میں ایک بوتل تھی جسے انہوں نے ایسی جگہ پر رکھ دیا جہاں آنے جانے والوں کی نظریں پڑتی تھیں۔ سرسید نے اسے اسباب کی کوٹھری میں رکھ دیا، مرزا نے جب بوتل وہاں نہ پائی تو بہت بےچین ہوئے۔ سرسید نے انہیں بوتل لا کر دکھائی۔ مرزا نے کہا: اس میں کچھ خیانت ہوئی ہے۔ سرسید مسکرا کر چپ ہو رہے۔
اس طرح وہ رنجش جو 1855 سے چلی آ رہی تھی دور ہو گئی۔ تفتہ کے نام غالب کے ایک خط سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا سرسید کے مکان پر پانچ دن رہے اور انھوں نے ان کی بڑی تیمارداری کی۔

1857ء کی شورش کے بعد باغیوں کے ساتھ اخلاص رکھنے کے الزام کی وجہ سے مرزا اور انگریزی حکومت کے مابین پیچ پڑ گئے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں کہ ان کو سلجھانے میں سرسید مرحوم نے خاصی کوششیں کی تھیں۔
دہلی کی تہذیبی زندگی کی آخری بہار کے لٹ جانے کا دل دوز احساس سرسید کو تا عمر رہا اپنے آخری زمانے کے ایک مضمون میں اس جلوہ آخریں کی یادگار ہستیوں کی جیتی جاگتی تصویروں کو محفوظ کرنے کا جو اہتمام انھوں نے کیا ہے اس میں غالب بھی ہیں۔ سرسید لکھتے ہیں:
"میں نہایت متردد و متفکر، حیران و ششدر وہاں سے اٹھا اور دل بہلانے کے لیے اپنے باغ میں گیا جو ایک بہت بڑا باغ تھا اور وہاں اکثر دوستوں کا اور بڑے بڑے نامی باکمال لوگوں کا مجمع ہوتا تھا۔ غالب کی دلکش و محبت آمیز بزرگانہ باتوں سے، آزردہ کی دلچسپ و دلربا وضاحت سے، شیفتہ کی متین و نیم خندہ زن وضع سے، صہبائی جاں نواز کے میخانۂ محبت سے دل شاد شاد رہتا تھا"۔

ہماری زبان کے فصیح البيان خطیب سرسید کے چھوٹے بیٹے الہ آباد ہائی کورٹ کے پہلے ہندوستانی جج سید محمود بھی غالب کی شاعری کے قدردان تھے۔ 1894ء کے ایک لیکچر میں انھوں نے اپنے موروثی روابط کا ذکر کیا ہے جن کے باعث سرسید غالب کو چچا اور سید محمود دادا کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ غالباً اسی رشتے کی بنا پر علی گڑھ کے ظرافت کے دلدادہ اس زمانے کے شوخ گفتار طلبا نے حالی کے حیوان ظریف کو "جگت چچا" بنا دیا ۔ اغلب خیال ہے کہ اس زمانے میں علی گڑھ میں مرزا کی مقبولیت کا سبب غالب کی ذہنی پچھلجھڑیاں بھی ہوں گی۔

علی گڑھ میں شعبہ اردو کے استاد، داغ کے شاگرد رسالہ فصیح الملک کے ایڈیٹر، مکاتیب الغالب کے مرتب مولانا احسن مارہروی سید محمود کی زبانی بیان کرتے ہیں کہ جب سید محمود چودہ پندرہ سال کے تھے دلی میں ایک مشاعرہ ہوا جس میں مرزا شریک تھے، ان کے اس شعر کی زمین میں
بے چارہ کتنی دور سے آیا ہے شیخ جی
کعبے میں کیوں دبائیں نہ ہم برہمن کے پاؤں

سید محمود نے بھی غزل کہی تھی اور اس مشاعرہ میں جب انھوں نے یہ شعر پڑھا:
کانٹے بچھا نہ راہ میں اے حسرت وصال
نازک ہیں رہ روان غریب الوطن کے پاؤں
تو غالب نے بڑھ کر سید محمود کی پیشانی چوم لی تھی۔

ماخوذ: کتابی سلسلہ "غالب" (شمارہ-19 ، سن 2000)
ناشر: ادارۂ یادگار غالب ، کراچی (مرتبین: مختار زمن، رعنا فاروقی، ڈاکٹر مشرف احمد)۔

Syed Ahmed Khan's Association with Mirza Ghalib. Research Article: Dr. Asghar Abbas.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں