اورنگ زیب کا دور حکومت اور اس کا نظام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-02-01

اورنگ زیب کا دور حکومت اور اس کا نظام

Era of Aurangzeb and his governance
شاہ جہاں اور ممتاز محل کی ساتویں اولاد حاکم کی شکل میں دس سال تک اور حکمراں کے طور پر پچاس سال تک حکومت کرنے والا ابوالمظفر محمد محی الدین اورنگ زیب بہادر عالمگیر بادشاہ غازی کی پیدائش گجرات کے شہر دہد میں بعض تاریخ کے مطابق اجین کے نزدیک دہد میں 24/اکتوبر 1618ء مطابق 15/ ذی قعدہ،1027ھ کو ہوئی۔
اورنگ زیب کا دور اقتدار تقریباً پچاس سال رہا۔ 1658ء تا 1707ء۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہبی نقطہ نظر سے وہ ایک پکا مسلمان تھا۔ لیکن اس کے ساتھ وہ ایک حکمراں بھی تھا۔ اورنگ زیب ایک دور اندیش بادشاہ تھا۔ وہ اچھی طرح سمجھتا تھا کہ ملک کا اکثریتی طبقہ اپنے مذہب کا سختی سے عامل ہے۔تلوار کے زور سے ان کو اسلام کا پیروکار نہیں بنایاجاسکتا۔ اگر وہ اکثریتی طبقہ کو نقصان پہنچاتا تو ایک وسیع سلطنت کا مالک نہ بنتا۔ تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ دہلی سلطنت سے لے کر مغل حکمرانوں تک میں اورنگ زیب واحد بادشاہ تھا جس کی سرحد برما سے لے کر بدخشاں تک اور کشمیر سے لے کر دکن کی آخری سرحد تک قائم تھی اور ایک مرکز کے تحت قائم تھی۔ اگر وہ سخت گیر بادشاہ ہوتا تو اتنی بڑی سلطنت قائم ہوتی؟

1659ء میں اورنگ زیب نے سکوں پر کلمہ کندہ کرانا بند کر دیا۔ اس کے خیال میں سکے دونوں فرقوں کے ذریعہ استعمال ہوتے ہیں ایسی صورت میں سکے کی شکل سادہ ہونی چاہئے۔(بحوالہ شری رام شرما: مغل شاسکوں کی دھار مک نیتی صفحہ 120)۔ اورنگ زیب نے نشیلی اشیا شراب وغیرہ پر پابندی لگانے کے لئے ایک نیا محکمہ قائم کیا۔ شراب بیچنے یا پیتے ہوئے پکڑے جانے پر شراب فروخت کرنے والے کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ شراب نوشی کے الزام میں ایک منصب دار کو سزا کے طور پر اس کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔ صرف یورپ کے لوگوں کو شراب پینے کی اجازت تھی وہ بھی شہر سے بیس تا پچیس میل دور"بھانگ کی کھیتی" اس کا فروخت کرنا اور کھلے طور پر استعمال کرنے پر پابندی لگادی گئی۔ (بحوالہ ممات احمد صفحہ 282، جلد اول)

محرم غم اور اداسی کے ماحول سے متعلق تھا، خاص کر نبی کریم ﷺ کے نواسے حضرت سید حسین ان کے اہل خانہ پر کربلا کے میدان میں مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹا تھا۔حضرت سید حسین ؓ و دیگر اہل خانہ شہید کردئے گئے تھے۔ لیکن لوگ اس ماہ کو ایک تہوار کی طرح منانے لگے تھے۔ لہذا 1664ء میں محرم کی تقریب پر روک لگا دی گئی۔ تخت نشینی کے گیارہ سال بعد اورنگ زیب نے دربار میں ناچ گانے کو منع کردیا جب کہ اورنگ زیب سرود بجانے میں خود ماہر تھا۔ (بحوالہ مورخ ستیش چندر)

رواداری:
ہندوستانی زبان سیکھنے اور سکھانے میں اورنگ زیب کو اتنی دلچسپی تھی کہ اس نے ایک ڈکشنری تیارکرائی جس کے ذریعے فارسی جاننے والا آسانی سے ہندی سیکھ سکے۔ ہندی نظموں و غزلوں کے متعلق قواعد و اصولوں کو رائج کرنے کے لئے اس نے ایک خاص کتاب ترتیب دی۔ اس کے مخطوطے خدا بخش لائبریری ، پٹنہ میں موجودہیں۔ شہنشاہ اکبر نے اپنے زمانے میں یوم پیدائش منانے کا رواج قائم کیا لیکن اورنگ زیب نے اس رواج کو ختم کر دیا۔ اس نے بڑے پیمانے پر نئی مسجدوں کی تعمیر نہیں کرائی بلکہ قدیم مساجد کو رنگ و روغن کرا کر چلایا۔ اس میں ملازم، امام، موذن و خطیب کو سرکاری خزانے سے تنخواہ دی جاتی تھی۔ (بحوالہ جدو ناتھ سرکار اورنگ زیب، صفحہ 102)۔ اورنگ زیب نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ غلطی کے لیے مسلمانوں اور غیر مسلمان کو یکساں سزا ملے۔
مراٹھوں پر فتح پانے کے بعد ایک سردار محرم خان نے غیر مسلموں کو دشمن اور دغا باز بتاتے ہوئے انہیں اعلیٰ عہدوں سے معزول کرنے کے اورنگ زیب کو خط لکھا جس کے جواب میں اورنگ زیب نے کہا:
دنیاوی معاملوں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اگر تمہارے ذریعہ دئیے گئے مشورے پر عمل کیا جائے تو میرا یہ فرض بن جائے گا کہ تمام غیر مسلم راجاؤں اور ان کے ہمنواؤں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکوں جو میں نہیں کر سکتا۔ باصلاحیت اور لائق افسران کو عہدے سے ہٹانے کی حمایت عقل مند آدمی کبھی نہیں کرتے۔
(بحوالہ سرکار جدوناتھ صفحہ 75،74)

اسی طرح دکن میں موجود برہم پوری میں رہنے والے ایک افسر میر ح سن نے اورنگ زیب کو اس کے برہم پوری پہنچنے سے قبل لکھا:
"اسلام پوری کا قلعہ کمزور ہے اور آپ بہت جلد یہاں پہنچنے والے ہیں۔ قلعہ مرمت چاہتا ہے اس کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟"
اورنگ زیب نے جواب دیا:
" اسلام پوری لفظ لکھ کر تم نے اچھا نہیں کیا اسکا نام برہم پوری ہے تمہیں اسی نام کا استعمال کرنا چاہئے تھا۔ جسم کا قلعہ تو اس سے بھی زیادہ کمزور ہے اس کا کیا علاج ہے؟"
(بحوالہ جدوناتھ سرکار اورنگ زیب کا اپاکیان صفحہ 91)

اپنی حکومت سنبھالتے ہوئے اورنگ زیب نے اصول بنایا کہ کوئی قدیم مندر منہدم نہیں کیا جائے گا بلکہ انہیں مرمت کرانے کی اجازت دی گئی اور عطیہ بھی۔ مذہبی مقامات کے تقدس اور پر امن ماحول بنائے رکھنے کے لئے اورنگ زیب نے مندروں کی طرح مسجدوں پر کڑی نگرانی رکھی کیونکہ اکثر حکومت مخالف طاقتیں مندروں و مسجدوں میں جمع ہوکر حکومت یا بادشاہ کے خلاف سازشیں کرتی تھیں۔
معروف مورخ بی این پانڈے نے لکھا ہے کہ اورنگ زیب مندروں اور مٹھوں کو عطیات دیا کرتا تھا۔ (بحوالہ بی این پانڈے، خدا بخش میموریل انویل لکچرس، پٹنہ، 1986ء) اس کے علاوہ الہ آباد میں سومیشور ناتھ مہادیو کا مندر ، بنارس میں کاشی، وشواناتھ کا مندر، چیتر کوٹ میں بالاجی کا مندر، گوہاٹی میں اورمانند کا مندر، اور شمالی ہندوستان میں موجود بے شمار منادر اور گرودواروں کو اورنگ زیب نے جاگیریں عطا کیں، و عطیات دئیے۔ (بحوالہ بی این پانڈے، لیکچر پٹنہ1986ء)

اورنگ زیب کی حکومت تقریباً پورے ہندوستان پر تھی لیکن ہندو مذہب اپنے پورے وقار کے ساتھ قائم و دائم تھا اورنگ زیب کو اتنا علم تو ضرور تھا کہ ہندو (سناتن) مذہب کے ماننے والوں کو ٹھیس پہنچا کر ہندوستان پر حکومت کرنا آسان نہیں ہوگا لہذا زیادہ تر منادر کا تقدس محفوظ رہا۔ ایک واحد واقعہ بنارس کے کاشی وشوناتھ مندر کا ہے جس کے انہدام (توڑنے کا ذکر) کہیں کہیں تاریخ میں ملتا ہے لیکن اس واقعہ کا تاریخی پہلو پی سیتا رام ناتھ نے اپنی کتاب The Feathers of the Stone میں ذکر کیا ہے جس کے مورخ بی۔ این پانڈے نے بھی اپنے مضمون میں درج کیا ہے، ان کے مطابق:
کَچھ [Kutch] کی آٹھ مہارانیاں، بنارس شہر کے کاشی وشوناتھ میں درشن کرنے گئیں جن میں سے خوبصورت رانی کو مہنتوں نے اغو ا کرلیا، اس کی خبر اورنگ زیب کو کَچھ کے راجا نے دی تو اس نے یہ کہہ کر کہ یہ ان کا مذہبی و ذاتی معاملہ ہے وہ ان کے آپسی معاملات میں دخل نہیں دینا چاہتا لیکن جب کَچھ کے راجہ نے گریہ و زاری کی تو اورنگ زیب نے حقیقت کا پتہ لگانے کے لئے کچھ ہندو فوجیوں کو روانہ کیا لیکن مہنت کے آدمیوں نے اورنگ زیب کے فوجیوں کو ڈانٹ پھٹکار کر بھگا دیا۔ یہ بات جب اورنگ زیب کو معلوم ہوئی تب اس نے حالات کا جائزہ لینے کے لئے کچھ ماہر فوجیوں کو بھیجا لیکن مندر کے پجاریوں نے ان کی مخالفت کی۔ زور دار طریقے سے کی اور ڈٹ کر مقابلہ کیا۔مغل فوجیں بھی مقابلہ پر اتر آئیں، مندر کے اندر مغل فوجیوں اور مہنتوں کید رمیان ہوئی لڑائی میں مندر کو نقصان پہنچا عموماً لڑائی میں ایسا ہوتا ہے۔ فوجیوں کو مندر میں داخل ہونے میں کامیابی ملی اور وہ گمشدہ رانی کو تلاش کرنے لگے۔ اس سلسلے میں بڑ ے اہم بت ( دیوتا) کے پیچھے ایک خفیہ سرنگ کا پتہ چلا جس سے کافی زہریلی بدبو آ رہی تھی۔ دو دنوں تک دوا چھڑک کر بدبو دور کرنے کی کوشش ہوتی رہی اور فوجیوں کا پہرہ لگا رہا۔ تیسرے دن فوجیوں نے سرنگ میں داخل ہونے میں کامیابی حاصل کی اور وہاں ہڈیوں کے بے شمار ڈھانچے انہیں ملے۔ جو صرف عورتوں کے تھے۔ کَچھ کی گم شدہ رانی کی لاش بھی اسی جگہ پڑی ملی جس کے جسم پر کپڑا تک نہ تھا۔ مندر کا سب سے بڑا مہنت گرفتار کرلیا گیا اور اسے سخت سزا ملی۔
(بحوالہ۔ بی۔ این پانڈے ، خدا بخش میموریل انویل لکچرس، پٹنہ،1986ء۔ اوم پرکاش پرساد: اورنگ زیب ایک نئی درشتی، صفحہ 20،21)

جنوبی ہند آج بھی بڑے بڑے مندروں کے لئے مشہور ہے آخر وہ آج تک کیسے قائم ہے اگر اورنگ زیب مندروں کے خلاف تھا تو جنوبی ہند کے موجودہ منادر کس طرح اس سے محفوظ رہے۔ دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر اورنگ زیب اسلامی شریعت کے مطابق مذہبی و معاشرتی کاموں کو کرنے والا تھا تو کیا مندر کو گرا کر اس پر مسجد تعمیر کرنے کی اجازت شریعت دیتی ہے؟ شریعت میں اس کی قطعی اجازت نہیں کہ دوسروں کی زمین چھین کر یا اس پر قبضہ کر کے اس پر مسجد تعمیر کرلی جائے۔ پھر اگلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا مغل حکمرانوں کے پاس زمینوں کی کمی تھی جس کی وجہ سے مندر کو توڑ نا ضروری سمجھا؟ اور حقیقت یہ ہے کہ عمارت بنانے کا شوق اورنگ زیب کو نہیں تھا۔ خواہ وہ محلات ہوں یا مساجد۔ اسکے زمانے میں زیادہ تر مساجد کی مرمت ہی کی گئی ہے۔

"بنارس فرمان" نام سے مشہور ایک فرمان میں ذکر ہے کہ بنارس کے محلہ گوری میں سکونت پذیر ایک برہمن خاندان کو یہ فرمان جاری کیا گیا تھا جس کی مکمل تفصیل پہلی بار1911ء میں جرنل آف دی رائل ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگا میں شائع ہوئی تھی۔10مارچ1659ء کو اورنگ زیب کے ذریعہ دئیے گئے اس فرمان کے مطابق ایک مسلمان ہندو مندر کو توڑ کر عام لوگوں کے لئے جگہ بنانا چاہتا تھا لیکن اورنگ زیب نے اس پر پابندی لگا دی۔ (بحوالہ بی۔ا ین پانڈے)
شراوک فرقہ کے ستی داس جوہری کو اورنگ زیب نے 1660ء میں نثار اور آبو جی کے پہاڑیوں (اونچائی پر موجود زمین) کو بطور عطیہ دیا اور اپنے عہدے داروں کو حکم بھی دیا کہ ان پہاڑیوں میں سے کوئی ٹیکس نہ وصول کیا جائے اور اگر کوئی بھی دشمن راجہ ان پہاڑیوں پر قبضہ کرنا چاہے تو اس کی حفاظت کی جائے گی۔ اپنے عہد حکومت کے آخری 27سال اورنگ زیب نے جنوبی ہند میں گزارے لیکن اس درمیان کوئی ہندو مندر نہیں توڑا۔
(بحوالہ مندر کا مغلیہ رشتہ، انڈیا ٹو ڈے،[ہندی] مدیر ارون پوری شمارہ 21،15،1۔ستمبر 1987ء۔شری رام شرما مغل شاسکوں کی دھارمک نیتی صفحہ 162)

گیا جو صوبہ بہار کا ایک تاریخی و مذہبی شہر ہے وہاں کے ایک مندر کو اس نے زمین عطیہ کی۔(بحوالہ تاریخ، کشمیر، صفحہ 165، اور اورنگ زیب ایک نئی درشتی، ڈاکٹر اوم پرکاش پرساد۔صفحہ 23)

سچائی یہ ہے کہ سیاسی معاملات میں بغیر کسی تفریق کے ہندو اور مسلمان دونوں اورنگ زیب کا ساتھ دیتے تھے مثال کے طور پر ایک علاقائی زمیندار "گوکلا" کی رہنمائی میں متھرا کے بیس ہزار جاٹوں نے بغاوت کر دی۔ یہ واقعہ 1669ء کا ہے۔ اس بغاوت کو دبانے کے لئے اورنگ زیب خود گیا اور گوکلا کو سزائے موت ملی۔ اسی طرح 1672ء میں نارنول کے نزدیک کسان اور مغل افسران کے درمیان ایک جنگ جس کا قائد "باغی ستنامی نام" کی ایک مذہبی تنظیم کا صدر تھا۔ شروع میں ان کی لڑائی علاقہ کے افسر سے ہوئی بعد میں یہ بڑی شکل اختیار کر گئی اس لڑائی کو بھی ختم کرنے اورنگ زیب خود گیا۔ اس بغاوت کو کچلنے میں اہم بات یہ تھی کہ علاقہ کے ہندو زمینداروں نے مغلوں کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے یہ بغاوت کچل دی گئی۔

اورنگ زیب ایک حوصلہ مند اور بہادر شخص تھا۔ کسی بھی کام کو بڑی سنجیدگی اور ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر کرنے کی قدرت صلاحیت اس میں تھی۔ ایک طرف جہاں اس نے پندرہ برس کی عمر میں تنہا ایک پاگل ہاتھی کا سامنا کیا وہیں دوسری طرف 87 برس کی عمر میں واگن کھیڑا کا گھیرا(محاصرہ) ڈالنے والوں میں مورچوں کی کھائیوں میں بے خوف کھڑے ہوکر اپنی دلیری و جوانمردی کی مثال پیش کی۔ نزدیک آئے خطرات کے وقت بھی حوصلہ افزا باتیں کرنا اس کی ہمت کا ثبوت ہے۔

دوسرے شاہزادوں کے رہن سہن کے بر خلاف اورنگ زیب بہت سی کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا۔ کافی باریکی سے سوچنے کی عادت اور سنجیدگی پسند اورنگ زیب فارسی ، ترکی اور ہندی بہت اچھی طرح بولتا تھا۔ اسی کی وجہ سے اسلامی قانون کا ایک بڑا ذخیرہ "فتاوی عالمگیری" ہندوستان میں تیار ہوا۔ اورنگ زیب کے اخلاق اتنے اچھے تھے اسی کے سبب جب وہ شہزادہ تھا اس نے اپنے والد کے شاہی دربار میں موجود اعلی ترین عہدیداروں و منصب داروں کو اپنا دوست بنالیا تھا۔ اپنی اس فطرت وخصلت کو بادشاہ بننے کے بعد اورزیادہ بہتر بنایا۔ رعایا نے اسے "شاہی پوشاک میں ایک درویش" کا لقب دیا۔ سادہ اور با اصول زندگی گزارنے والا اورنگ زیب عیش و عشرت سے ہمیشہ دور رہا۔ اس کی چار بیویاں تھیں۔
(1) دل رس بانو
(2) نواب بائی
(3)اورنگ آبادی بیگم
(4) ادئے پوری۔
زندگی کے آخری لمحے تک ادے پوری ہی اس کے ساتھ رہی جس سے اس نے 1660ء میں شادی کی تھی۔

انتظامی امور کو دیکھنے کے لیے وہ سخت محنت کرتا تھا۔ کام کا بوجھ جب زیادہ رہتا تو ایک دن میں دوبار دربار لگاتا۔ شاہی دربار کے اطالوی (اٹلی کے) ڈاکٹر گیمیگی نے خود نوشت میں لکھا ہے:
" اورنگ زیب کا قد ٹھگنا، ناک لمبی ، جسم دبلا پتلا اور بڑھاپے کی وجہ سے جھکا ہوا تھا۔ اسکار رنگ گندمی اور چہرہ گول جس پر سفید داڑھی تھی۔ مختلف کام کاج کے متعلق پیش کی گئی عرضداشت پر وہ خود اپ نے ہاتھ سے حکم لکھتے ہوئے میں نے دیکھا ہے جس کے باعث میرے دل میں اس کے لئے مزید احترام و عزت بڑھ جاتی تھی۔ زیادہ عمر ہونے کے باوجود لکھنے پڑھنے کا کام کرتے وقت چشمہ نہیں لگاتا تھا۔ اس کے شگفتہ چہرے کو دیکھ کر یہی محسوس ہوتا تھا کہ اسے اپنے کام سے بہت دلچسپی ہے۔"
90/ سال کی عمر میں بھی اس کی چستی پھرتی میں کوئی کمی نہیں تھی اس کی یادداشت بہت تیز تھی اگر کسی کو بھی اس نے دیکھ لیا یا جو بات اس نے ایک بارسن لی وہ پوری زندگی نہیں بھولتا تھا۔ بڑھاپے کی وجہ سے وہ کچھ اونچا ضرور سننے لگا تھا۔ ایک حادثہ میں داہنا گھٹنا اکھڑ گیا تھا جس کا علاج ٹھیک سے نہ ہوسکا تھا اس لئے وہ لنگڑانے لگا تھا۔ اورنگ زیب نے فقیروں جیسا سادہ زندگی گزارنا ہی پسند کیا۔

ماخوذ از کتاب: اورنگ زیب عالمگیر
مصنف: پرویز اشرفی
ناشر: رحمانی پبلی کیشنز، مالیگاؤں (سن اشاعت:2010)

Era of Aurangzeb and his governance.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں