شام ہو چکی تھی، بار کی نشیلی فضا میں کچھ کچھ اجالا اور کچھ کچھ اندھیرا تھا جیسے صبح ہو رہی ہو یا شام۔ حضرت درد نے جام اٹھاتے ہوئے کہا: چیرس۔
چیرس۔ جواب میں حضرت درد کے شاگرد ٹھاکر سنگھ خنجر نے کہا۔ پھر جام سے جام ٹکرانے کی ہلکی سی آواز ابھری اور بار میں بجتے ہوئے آرکسٹرا کی تیز آواز میں کہیں کھو گئی!
خنجر صاحب سے ابھی ابھی میرا تعارف ہوا تھا اور حضرت درد بڑے اصرار کے ساتھ مجھے بار لے گئے تھے۔ یہ کہتے ہوئے کہ میاں ! اردو فروغ کے نالائق ڈائریکٹر نے میرا سارا موڈ آف کر دیا ہے۔ ذرا حلق بھگو کر ٹھیک کر لوں۔ ان ہی کی زبانی مجھے معلوم ہوا کہ خنجر صاحب بلا کسی شرکت غیر کے بار کے واحد مالک ہیں۔
استاد اور شاگرد کی عمروں میں کچھ زیادہ فرق نہ تھا۔ دونوں ستر اکہتر کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ لیکن خنجر اپنے استاد کے مقابلے میں زیادہ جوان نظر آرہے تھے۔ بے حد سرخ و سفید اور توانا۔
بہت ہی تعجب کے ساتھ خنجر صاحب نے مجھے دیکھا اور بولے:
کیوں آپ شوق نہیں فرماتے ؟
میں نے کہا: میں اس نعمت سے محروم ہوں۔
بولے: اماں! کیسے ادیب ہو؟
پھر مسکراتے ہوئے فرمایا: بھائی! میری سنو اور اسے چکھ لو۔ چودہ طبق زمین اور آسمان کے روشن ہو جائیں گے۔ اس کے بغیر نہ زندگی کو سمجھ سکو گے ، اور نہ دنیا کو۔ ادیب اور شاعر کے لئے تو یہ بے حد ضروری ہے۔
بجا ارشاد خنجر صاحب! لیکن میں ادیب ہوں کہاں؟ یہ حضرت درد کی مہربانی ہے کہ جنہوں نے مجھے کیا سے کیا بنا دیا۔۔۔ ورنہ میں کسی قابل کہاں؟ اس کے قطع نظر اگر آپ حضرات مجھے معاف فرمائیں اور اجازت دیں تو ایک بات عرض کروں۔۔
عرض کرو میاں۔۔۔ ضرور عرض کرو۔۔ ہم سنیں گے۔
حضرت درد اور حضرت خنجر دونوں نے ایک ساتھ کہا۔
عرض کرتا ہوں اور وہ یہ کہ میں نے آج تک کسی فن کار کو شراب کے نشے میں دھت ہو کر تخلیقی کام کرتا ہوا نہیں دیکھا۔ تخلیقی کام تو بڑی بات ہے میں نے کوئی ڈھنگ کی بات بھی نہیں سنی ، تخلیق تو ایک شعوری عمل ہے۔
ایک لمحے کے وقفے کے بعد میں نے کہا: ویسے آپ حضرات کو نشے میں دیکھ کر میں خود نشے میں آ جاتا ہوں۔
خنجر صاحب نے زور دار قہقہہ لگا کر کہا: واہ ، واہ کیا بات کہی ہے نوجوان آپ نے۔
پھر انہوں نے کسی کو پکارا۔۔ جوزف۔ جوزف۔۔ جوزف جو بار کا منیجر لگتا تھا اپنی ٹائی کو درست کرتے ہوئے کونٹر سے اٹھا اور تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا میز کے قریب آیا اور ایک سوالیہ نشان بن کر چپ کھڑا ہو گیا۔
حضرت خںجر نے کہا: عباس سے کہو کہ مرغ کا گوشت ، کباب اور کھانے کی تمام چیزیں فوراً یہاں بھیج دے۔ میرے استاد آئے ہوئے ہیں۔ اور ایک مہمان ادیب بھی۔
یس سر! جوزف نے بڑے ادب کے ساتھ کہا اور جب چلنے لگا تو خنجر صاحب نے کہا:
سنو ، کیا مس مارگریٹ آ گئیں؟
ہاں سر۔۔ وہ کمرے میں میک اپ کر رہی ہیں۔
خنجر نے کہا: اچھا، مس مارگریٹ سے کہو کہ وہ تیار ہوتے ہی اپنے آرکسٹرا کے ساتھ یہاں چلی آئے۔ اپنے مقررہ وقت کا انتظار نہ کرے اور تم اس کا خیال رکھو کہ گانے اور ڈانس کے دوران کوئی بدتمیزی نہ ہونے پائے۔
جوزف آگے کی طرف سر کو لے جاکر یوں جھک گیا جیسے کہتا ہو:
جو حکم سرکار کا!
بار کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سب اپنی اپنی نشستوں پر جمے ہوئے سامنے کے ٹیبل پر کسی قدر جھکے ہوئے تھے۔ پس منظر میں ہلکی ہلکی ابھرتی ہوئی موسیقی کی لہروں پر کبھی کوئی قہقہ اور کبھی کسی کی ہنسی کی کھنکتی ہوئی آواز کانوں سے ٹکرا کر جیسے دل میں اترتی چلی جاتی تھی۔ چھت سے نیچے تک جھولتے ہوئے الکٹرک دائروں کے ہولڈروں سے جڑے ہوئے مدھم بلب کی روشنی صرف ٹیبل پر ایک دائرے کی شکل میں رقصاں تھی۔ اور کسی کا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ صرف سائے تھے جو کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ یا باہر کی پر شور دنیا سے بار کی پرسکون دنیا میں داخل ہو رہے تھے۔ مردوں اورعورتوں کے سائے، جوان لڑکیوں اور لڑکوں کے سائے۔ سائے، تھرکتے ہوئے سائے ! پھر تیز تیز آرکسٹرا بجنے لگا۔ اور پھر مس مارگریٹ کی آواز سارے میں پھیلنے لگی۔
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
مس مارگریٹ ، مس مارگریٹ نہیں بلکہ مسز مارگریٹ معلوم ہوتی تھیں۔ اونچی پوری، بھری بھری، بغیر آستین کی بلوز پہنے ہوئے مارگریٹ تھرک رہی تھیں جیسے اس کے رواں رواں میں بجلیاں بھری ہوئی ہیں۔ جب وہ اپنے ہاتھوں کو اوپر کی طرف اٹھاتی تو بغل صاف نظر آنے لگتی۔ یوں لگتا تھا جیسے جلدی میں اس نے شیو نہیں کیا اور اسٹیج پر آ گئی۔
اس کے جسم کے مختلف حصوں پر رنگین روشنیوں کو پھینکا جا رہا تھا۔ لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ وقت واحدمیں پوری کی پوری نظر نہ آئے۔ کبھی اس کی بل کھاتی ہوئی کمر کو تو کبھی کولھوں کو دکھایا جا رہا تھا۔ ایسے میں جسم کے دوسرے حصے گہرے اندھیرے میں چھپے رہے۔ اب اس کی بھری بھری ننگی بانہوں پر روشنی ڈالی جا رہی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے درخت کی کوئی شاخ ہوا کے ایک ہلکے سے جھونک سے لچک لچک جا رہی ہے!
مارگریٹ نے اپنے ہاتھوں کو آگے کی طرف لے جا کر سامنے بیٹھے ہوئے افراد کی طرف اشارہ کیا اور پھر گانے لگی۔
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
ماجرا کیا ہے ؟ کیا ہے؟ بیزار۔۔۔مشتاق !! واہ ، واہ!!
بار کے کونے کونے سے داد و تحسین کا شور اٹھا۔ پھر ایک ادھیڑ عمر کے صاحب اپنی نشست سے اٹھ کر لڑکھڑاتے ہوئے نیم تاریکی میں مارگریٹ کی طرف بڑھنے لگے ،قریب پہنچ کر انہوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور سو کا نوٹ نکال کر مس مار گریٹ کی طرف بڑھا دیا۔
مس مارگریٹ کا ہاتھ کسی درخت کی ٹہنی کی طرح لچکا اور شعلے کی طرح سو کی نوٹ پر لپک کر اوپر کی طرف اٹھ گیا۔ پھر وہ اپنی ہلکی ہلکی مسکراہٹوں کو چاروں طرف بکھیرتی ہوئی مصرع کو بار بار دہرانے لگی۔
ہم ہیں مشتاق۔۔۔ اور وہ ہیں بیزار۔۔۔
ہم ہیں مشتاق!
وہ صاحب جنہوں نے ابھی ابھی سو کی نوٹ مس مارگریٹ کو تھمائی تھی، "وہ ہیں بیزار" پر کچھ قدم آگے بڑھ کر پھر پلٹے اور جیب سے انہوں نے سو کی نوٹ ایک اور نکالی ، پھر کیا تھا، مس مارگریٹ بار بار مصرع کو اٹھاتی رہی۔ یہاں تک کہ ان کی جیب خالی ہو گئی۔ میں گنتا رہا۔ ایک۔۔ دو۔۔تین۔۔۔چار۔۔ کوئی پندرہ منٹ میں۔۔۔ سو سو کی دس نوٹیں دے دیں۔۔ یعنی پورے ایک ہزار روپے اس شعر پر۔ سارا بار واہ، واہ کرنے لگا۔
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
میں بھی۔۔۔ میں بھی۔۔
واہ واہ۔۔۔ منہ میں زبان رکھتا ہوں۔۔۔
میں بھی۔۔۔
گویا یہ ایک طرح کا کورس تھا ، صرف داد و تحسین کی نہیں بلکہ روپیوں کی بھی بارش ہو رہی تھی۔ لوگ دس بیس ، پچاس اور سو سو کے نوٹ مس مارگریٹ پر پھینک رہے تھے اور مس مارگریٹ روشنی کے دائرے میں تھرک رہی تھی ، مچل رہی تھی اور لمبی لمبی تانیں کھینچ رہی تھیں۔۔۔
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں ، میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں۔۔۔ زبان رکھتی ہوں۔
آہا ہا۔۔ کیا گجل ہے۔
کجل نہیں گزل کہو۔
کسی نے ٹوکا اور پھر کسی کی آوا ز آئی:
"تم دونوں غلط ہو، یہ نہ گجل ہے اورنہ گزل ہے ، بلکہ غزل ہے"۔
نہیں نہیں گجل ہے۔۔ گزل ہے۔۔۔ نہیں غزل ہے !!
آپس میں تو ، تو اور میں میں ہونے لگی۔ اس سے پہلے کہ بار میں کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش آتا، خنجر صاحب نے ہاتھ کی جنبش سے گانے کو ختم کرنے کا حکم دیا اور مس مارگریٹ پلیٹ فارم سے ملحقہ روم میں تیزی کے ساتھ بھاگ گئیں اور بار کے اسٹیورٹ بڑی پھرتی کے ساتھ پلیٹ فارم کے چکنے اور چمکتے ہوئے فرش پر بکھرے ہوئے نوٹوں کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹنے لگے۔
اور میں یہ سوچتا رہا کہ مس مارگریٹ کتنی خوش قسمت ہیں کہ اسے ایک گھنٹے کے پروگرام میں چھ سات ہزار کی ٹپ مل گی۔ اور شاعر درد کا اب تک مجموعہ نہ چھپ سکا۔ دونوں کا مقابلہ مقصود نہیں تھا لیکن یہ خیال ایک کانٹے کی طرح دل اور روح چبھتا رہا کہ اردو کی زلفیں سنوارنے والوں کو کیا ملا؟
اور خود اردو کو کیا ملا؟
کیا ملا؟
A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-26
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں