میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:28 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-02-19

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:28



بزرگ شاعر درد کا گھر شہر کے آخری کونے میں تھا، چوک مرغان کے عقبی حصے سے جانے والی سڑک جو چھوٹی بیگم کی حویلی سے ہوتی ہوئی یاقوت محل پیلس کے اطراف صدقہ پھرتی ہوئی قلندر فقیر کے قبرستان پر ختم ہو جاتی ہے۔ ٹھیک اسی سے متصلہ بستی میں شاعر کا گھر تھا۔ یہ بستی کیا اچھا خاصا قبرستان معلوم ہوتی تھی۔ جہاں زندہ انسان دفن تھے اور خط غربت کی سطح سے پست زندگی گزار رہے تھے۔ اس بستی میں گلی کی موڑ پر ایک سانولی سلونی لڑکی مجھے نظر آئی۔ مجھے دیکھتے ہی وہ رک گئی اور دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے پوچھا: کیا وقت ہے ؟
پونے آٹھ ۔۔ میں نے کہا۔
نہیں، نہیں، ذرا ٹھیک سا دیکھ کر فرمائیے۔
جی ہاں پونے آٹھ۔۔ ۔ یعنی سات بج کر پینتالیس منٹ۔
کہیں آپ کی گھڑی تو تیز نہیں ؟ اس نے پوچھا۔
میں مسکرایا اور بڑے ہی دھیمے لہجے میں بولا:
میڈیم! میری گھڑی توٹھیک ہے مگر آپ کچھ وقت سے آگے ہی معلوم ہوتی ہیں!
وہ مسکرائی، پھر کھلکھلا کر ہنسی اور دونوں ہاتھوں سے اپنی زلفوں کو درست کرتی ہوئی بولی:
آپ سچ کہتے ہیں۔ اس وقت تو میں سچ مچ ڈر گئی تھی۔ لیکن اب میں اطمینان سے پہنچ سکتی ہوں، خاصا وقت ہے۔ اگر آپ کو کچھ کام نہیں تو میرے ساتھ چلئے، مزہ آ جائے گا!
مگر کہاں ؟ اور کیوں ؟
میں چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ طرح طرح کے شبہات میرے دل میں جاگنے لگے۔
کہیں۔۔ یہ۔۔ کہیں یہ۔ میں سوچنے لگا۔
شاید وہ سمجھ گئی کہ میں اس کے بارے میں کیا سوچ رہا ہوں۔ وہ ہنستے ہنستے چپ ہو گئی اور چپ ہو کر مجھے گھورتی ہوئی بولی:
گھبرائیے نہیں، میں آپ کو کہیں بھگا کر نہیں لے جاؤں گی۔ ایک جلوس میں شرکت کی غرض سے جا رہی ہوں۔ سوچا تھا کہ آپ کو ساتھ لے چلوں گی، راستہ اچھا طے ہو جائے گا۔
مگر آپ ہیں کون؟ کیا نام ہے آپ کا؟ میں نے پوچھا۔
جواب ملا: اردو۔
"اردو؟!"
میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور میں اردو کو جیسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگا، پھر میں نے اسے گلے لگانے کی ایک حقیر سی کوشش کی۔ لیکن مجھے پیچھے ڈھکیل کر اس نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا:
دور ہٹو، بدتمیز کہیں کے۔
میں لرز گیا۔
میری بدحواسی کو دیکھ کر وہ ہنسی اور پھر اس نے بڑے ہی نرم لہجے میں پوچھا:
"آپ کون ہیں ؟"

اس کی مسکراٹ نے مجھے ایک حوصلہ عطا کیا اور میں نے اطمینان کی ایک لمبی سانس لی اور اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے میں نے کہا :
میڈیم! میں آپ کو کیا بتاؤں کہ میں کون ہوں؟ میں۔۔۔ میں در اصل آپ کو چاہتا ہوں۔ آپ سے بے پناہ محبت کرتا ہوں، میں وہ ہوں جس نے آپ کی تلاش میں شہر کا چپہ چپہ چھان مارا۔ آپ کی بیماری کی خبر سن کر میں جیسے خود بیمار پڑ گیا۔ شاید ہی کوئی ہاسپٹل اور کلینک باقی بچا ہو جہاں میں نہ گیا ہوں۔ ہر وارڈ اور ہر بستر پر آپ کو ڈھونڈتا پھرا۔ مجنون کی طرح آپ کے فراق میں پاگل بنا گھومتا رہا اور اب بھی گھوم رہا ہوں۔ اب میں کیا بتاؤں کہ میں۔۔ ۔۔ ۔ میں کون ہوں! میں آپ کا عاشق ہوں، سچا عاشق!!
"واقعی؟" ساتھ ہی وہ کھلکھلا کر ہنسی اور شریر نگاہوں سے مجھے دیکھتی ہوئی بولی:
"میرے تو لاکھوں اور کروڑوں عاشق ہیں، آپکا نمبر کون سا ہے؟"
میں نے کہا: آپ میرا انٹرویو لے رہی ہیں۔ یقین نہ آئے تو آپ کے قدموں پر اپنی حقیر جان کا نذرانہ پیش کروں۔ کہئے کیا حکم ہے!
"سب ایسا ہی کہتے ہیں اور پھر آپ کی جان دان لے کر میں کیا کروں گی، کچھ کام کی بات کیجئے۔"
تو فرمائیے۔
کیا آپ میرے ساتھ چل سکیں گے؟
کیوں نہیں۔ حکم دیجئے۔ میں اپنے پاؤں سے نہیں سر سے چلوں گا۔۔ ۔
نہیں پاؤں سے چلئے اور تیز تیز قدم اٹھائیے، سر سے چلو تو عمر بھر نہ پہنچ سکیں گے۔
آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ وہی ہوگا جو آپ چاہتی ہیں۔ میں آپ کا خادم ہوں۔
"بس بس۔ الفاظ کی فضول خرچی بہت ہو چکی۔ میں کوئی بادشاہ یا شہنشاہ کی بیٹی نہیں ہوں اور نہ شاہی خاندان سے میرا کوئی تعلق ہے۔ مجھے حقیر غلاموں اور خادموں کی ضرورت نہیں جو ہاتھ باندھ کر میرے آگے پیچھے رہیں۔ میں تو سپاہی چاہتی ہوں، صرف سپاہی۔۔ سمجھے !
سمجھ گیا۔ میری کرنل۔ سپاہی حاضر ہے۔ اٹن شن، سلوٹ!
دونوں پاؤں کی ایڑیوں کو ایک دوسرے سے ٹکرا کر میں نے سلامی دی اور جیسے سانس روکے ہوئے تن کر کھڑا ہو گیا۔

اپنی ہنسی کو روکتے ہوئے وہ ہلکا سا مسکرائی اور ذرا سا سنجیدہ ہو کر مجھ پر نظر ڈالی اور بولی:
خاصے دلچسپ معلوم ہوتے ہو۔
یہ تو شروعات ہیں مائی ڈیر کرنل۔ دیکھتے جائیے۔ سپاہی کی حیثیت سے میں اپنی خدمات کیسے انجام دیتا ہوں!
اچھا اچھا۔ اب چلو۔
وہ چلنے لگی اور میں اس کے پیچھے پیچھے چلتا گیا۔ .
"یہ کیا حرکت ہے ؟" گھوم کر مجھے دیکھتے ہوئے اس نے کہا۔
"ساتھ ساتھ کیوں نہیں چلتے ؟"
میں نے کہا: یہ کیسے ممکن ہے سپاہی کی یہ مجال کہ وہ اپنی کمانڈر کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے۔
مذاق چھوڑو، آرڈر از آرڈر۔۔ انڈر اسٹینڈ !!
میں نے کہا : جو حکم۔۔
۔۔ اور تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔


A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-28

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں