میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:27 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-02-08

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:27



آصبح جب آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ بزرگ شاعر حضرت درد بے ہوشی کے عالم میں سو رہے ہیں۔ منہ کھلا ہوا ہے، ہلکے ہلکے خراٹوں کی آوازیں کمرے میں گونج رہی تھیں۔ کھلے ہوئے منہ سے تلخ شراب کی بھکا بھک بو آ رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مجھے گئی رات کی ایک ایک بات یاد آ گئی اور ایک ایک پل جیسے میرے سامنے ٹھہر ٹھہر گیا۔ مجھے یاد آیا کہ نیم بے ہوشی کی کیفیت میں حضرت درد کو گود میں اٹھا کر ایک گھڑی کی طرح آہستہ سے آٹو رکشا میں رکھ دیا تھا۔ اتہ پتہ کچھ معلوم نہیں تھا۔ بار بار پوچھنے پر انہوں نے اپنے صرف محلے کا نام بتایا تھا ۔ گھر ڈھونڈنے میں خاصی دیر ہو گئی۔ جب گھر پہنچے تو آدھی رات سے زیادہ گزر چکی تھی ۔ ان کی بیوی نے غصیلی نظروں سے مجھے دیکھا جیسے میں ان کے شوہر کی عادتیں بگاڑ رہا ہوں ۔ لیکن جب ان کا شبہ دور ہو گیا اور جب انہیں یقین ہو گیا کہ میں سو فی صد ہوش میں ہوں تو انہوں نے بڑی ممنونیت کی نگاہوں سے مجھے دیکھا جیسے کہتی ہوں ۔شکریہ بہت بہت شکریہ، آپ ساتھ نہ ہوتے تو یہ حضرت ساری رات نہ جانے کس فٹ پاتھ پر پڑے رہتے۔
آئینتی پائینتی آٹھ دس برس کی عمر کے بچے سو رہے تھے پتہ نہیں یہ سب ان کے نواسے، نواسیاں تھیں یا پوتے پوتیاں۔ ملحقہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جہاں ان کی لڑکیاں اور غالباً بیگم سو رہی تھیں۔ مجھے چلتا دیکھ کر ان کی بیگم نے کہا: ناشتہ تو کرتے جائیے ۔ میں ابھی تیار کئے دیتی ہوں۔
میں نے کہا: شکریہ، اور دوسرے ہی لمحہ میں گھر سے اس پھرتی کے ساتھ باہر نکلا جیسے کوئی قیدی جیل سے چھوٹتا ہے ۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں درد صاحب جاگ کر پھر مجھے اصرار کے ساتھ روک نہ لیں۔

پہلی بار مجھے درد صاحب کے گھر جانے کا اتفاق ہوا ۔ ورنہ ان سے ملاقات ہمیشہ ادبی محفلوں اور مشاعروں میں ہوتی تھی ۔ انہیں دیکھ کر قطعی یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا کہ یہ ڈیڑھ کمرے پر مشتمل ایک مرغی خانے میں رہتے ہیں۔ اس مختصر مکان کو دیکھنے کے بعد درد صاحب کی عزت کم نہیں ہوئی بلکہ اور بڑھ گئی اور وہ اس لئے کہ اب تک انہوں نے اپنی مٹھی کو بند رکھا ہے اور کبھی کسی کے سامنے ان کی مٹھی کھل کر نہیں پھیلی۔ شاید یہ مرغی خانہ اردو شاعری کی وہ کال کوٹھری ہے جہاں بیٹھ کر شاعر دنیا کو محبت، پیار اور انسان دوستی کے نغمے سناتا ہے ۔ اور یہیں دم گھٹنے سے اس کی موت بھی واقع ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس کی میت کا شاندار جلوس نکالا جاتا ہے اور تدفین کے بعد اظہار تعزیت کے جلسے شہر کے بڑے بڑے ہالوں میں منعقد ہوتے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں ہر مقرر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ مرحوم شاعر سے اس کے بڑے دیرینہ تعلقات تھے اور وہ بھی اس حد تک کہ مرحوم اپنی نجی زندگی کا ہر کام اس کے مشورے کے بغیر نہیں کرتے تھے۔ لیکن افسوس کہ ملک نے اپنے شاعر کی قدر نہیں کی۔ خدا مرحوم کی روح کو سکون عطا فرمائے اور مرحوم کی بیوہ اور بچوں کو صبر جمیل۔ آمین۔۔۔ثم آمین۔۔۔
لیکن ہم اپنے عظیم شاعر کی یاد کو باقی رکھنے کے لئے سٹی میونسپل کارپوریشن سے درخواست کرتے ہیں کہ اس کے نام سے ایک سڑک منسوب کی جائے ۔ تاکہ آنے والی نسلوں کو پتہ چل جائے کہ شاعر کون تھا اور کتنابڑا فن کار تھا ۔
مرنے کے بعد ہماری ادبی انجمنیں باقاعدہ اورمسلسل جلسے منعقد کوتی ہیں اور یہ دیکھتی ہیں کہ کس نے کتنی اونچی آواز میں سینہ کوبی کی؟


A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-27

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں