نبی کریمﷺ کی صفات کے بارے میں احادیث - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-01-11

نبی کریمﷺ کی صفات کے بارے میں احادیث

prophet-muhammad-attributes-ahadith
حضرت حسن بن علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ہِنْد بن اَبی ہالہ سے حضورِ اَکرم ﷺ کا حلیۂ مبارک دریافت کیا اور وہ حضورﷺ کے حلیہ مبارک کو بہت ہی کثرت اور وضاحت سے بیان کیا کرتے تھے۔ اور میرا دل چاہتا تھاکہ وہ اُن اَوصافِ جمیلہ میں سے کچھ میرے سامنے بھی ذکر کریں تاکہ میں اُن اَوصافِ جمیلہ کو ذہن نشین کرکے اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کروں۔ (حضرت حسنؓ کی عمر حضورﷺ کے وصال کے وقت سات سال کی تھی اس لیے کم سنی کی وجہ سے آپ کے اَوصافِ جمیلہ کو غور سے دیکھنے اور محفوظ کرنے کا اُن کو موقع نہیں ملا تھا۔) ماموں جان نے حضورِ اکرم ﷺ کے حلیہ شریف کے متعلق یہ فرمایا کہ آپ خود اپنی ذات و صفات کے اعتبار سے بھی شان دارتھے اور دوسروں کی نظروں میں بھی بڑے رُتبے والے تھے۔ آپ کا چہرۂ مبارک چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا ۔آپ کا قد مبارک بالکل درمیانے قد والے سے کسی قدر لمبا تھا ،لیکن زیادہ لمبے قد والے سے چھوٹا تھا۔ سر مبارک اعتدال کے ساتھ بڑا تھا۔ بال مبارک کسی قدر بل کھائے ہوئے تھے ۔ اگر سر کے بالوں میں اتفاقاً خود مانگ نکل آتی تو مانگ رہنے دیتے ورنہ آپ خود مانگ نکالنے کا اہتمام نہ فرماتے تھے (یعنی اگر بسہولت مانگ نکل آتی تو نکال لیتے تھے، اور اگر کسی وجہ سے بسہولت نہ نکلتی اور کنگھی وغیرہ کی ضرورت ہوتی تو اس وقت نہ نکالتے ، کسی دوسرے وقت جب کنگھی وغیرہ موجود ہوتی تو نکال لیتے)۔ جس زمانے میں آپ کے بال مبارک زیادہ ہوتے تھے تو کان کی لَو سے بڑھ جائے تھے۔ آپ کا رنگ نہایت چمک دار تھا اور پیشانی کشادہ۔ آپ کے اَبرو خَم دار باریک اور گنجان تھے، دونوں اَبر و جدا جدا تھے ایک دوسرے سے ملے ہوئے نہیں تھے ۔ ان دونوں کے درمیان ایک رَگ تھی جو غصہ کے وقت اُبھر جاتی تھی۔ آپ کی ناک بلندی مائل تھی اور اس پر ایک چمک اورنور تھا، ابتداء ً دیکھنے والاآپ کو بڑی ناک والا سمجھتا تھا لیکن غور سے معلوم ہوتا کہ حسن وچمک کی وجہ سے بلند معلوم ہوتی ہے ورنہ فی نفسہٖ زیادہ بلند نہیں ہے۔ آپ کی ڈاڑھی مبارک بھرپور اور گنجان تھی۔ آپ کی پُتلی نہایت سیاہ تھی۔ رُخسار مبارک ہموار اور ہلکے تھے، گوشت لٹکے ہوئے نہیں تھے۔ آپ کا دَہن مبارک اعتدال کے ساتھ فراخ تھا (یعنی تنگ منہ نہ تھا)۔ آپ کے دَندان مبارک باریک اور آب دار تھے، اور ان میں سے سامنے کے دانتوں میں ذرا ذرافصل بھی تھا۔ سینے سے ناف تک بالوں کی ایک باریک لکیر تھی۔ آپ کی گردن مبارک ایسی خوب صورت اور باریک تھی جیسے کہ مورتی کی گردن صاف تراشی ہوئی ہوتی ہے، اور رنگ میں چاندی جیسی صاف اور خوب صورت تھی۔ آپ کے سب اَعضا نہایت معتدل اور پُر گوشت تھے اور بدن گٹھا ہوا تھا۔ پیٹ اور سینہ مبارک ہموار تھا، لیکن سینہ فراخ اور چوڑا تھا۔ آپ کے دونوں مونڈھوں کے درمیان کچھ زیادہ فاصلہ تھا۔ جوڑوںکی ہڈیاں قوی اور بڑی تھیں (جو قوت کی دلیل ہوتی ہے)۔ آپ کے بدن کا وہ حصہ بھی جو کپڑوں سے باہر رہتا تھا روشن اور چمک دار تھا چہ جائے کہ وہ حصہ جو کپڑوں میں ڈھکا رہتا ہو۔ سینہ اور ناف کے درمیان ایک لکیر کی طرح سے بالوں کی باریک دھاری تھی۔ اس لکیر کے علاوہ دونوں چھاتیاں اور پیٹ بالوں سے خالی تھا، البتہ دونوں بازو اور کندھوں اور سینہ کے بالائی حصہ پر بال تھے۔ آپ کی کلائیاں لمبی تھیں اور ہتھیلیاں فراخ۔ آپ کی ہڈیاں معتدل اور سیدھی تھیں۔ ہتھیلیاں اور دونوں قدم گداز اور پُر گوشت تھے۔ ہاتھ پاؤں کی انگلیاں تناسب کے ساتھ لمبی تھیں۔ آپ کے تلوے قدرے گہرے تھے۔ قدم ہموار تھے کہ پانی ان کے صاف ستھرے اور چکنے ہونے کی وجہ سے ان پر ٹھہرتانہیں تھا فوراً ڈھل جاتا تھا۔ جب آپ چلتے تو قوت سے قدم اٹھاتے اور آگے کو جھک کر تشریف لے جاتے۔ قدم زمین پر آہستہ پڑتا زور سے نہیں پڑتا تھا۔ آپ تیز رفتار تھے اور ذرا کشادہ قدم رکھتے چھوٹے چھوٹے قدم نہیں رکھتے تھے۔ جب آپ چلتے تو ایسا معلوم ہوتا گویا نِچان میں اُتر رہے ہیں۔ جب کسی کی طرف توجہ فرماتے تو پورے بدن سے پھر کر توجہ فرماتے۔ آپ کی نظر نیچی رہتی تھی۔ آپ کی نظر بہ نسبت آسمان کے زمین کی طرف زیادہ رہتی تھیں۔ آپ کی عادتِ شریفہ عموماً گوشۂ چشم سے دیکھنے کی تھی۔ زیادہ شرم و حیا کی وجہ سے پوری آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے تھے ۔ چلنے میں صحابہ کو اپنے آگے کردیتے تھے اور خود پیچھے رہ جاتے تھے۔ جس سے ملتے سلام کرنے میں خود ابتدا فرماتے۔

حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں جان سے کہا کہ حضورﷺ کی گفتگو کی کیفیت مجھے بتائیں۔ انھوں نے فرمایا کہ آپ (اُمت کے بارے میں) مسلسل غمگین اور ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔کسی گھڑی آپ کو چین نہیں آتا تھا۔ اکثر اوقات خاموش رہتے، بلا ضرورت گفتگو نہ فرماتے تھے۔ آپ کی تمام گفتگو شروع سے آخر تک منہ بھر کر ہوتی تھی(یہ نہیں کہ نوکِ زبان سے کٹتے ہوئے حرو ف کے ساتھ آدھی بات زبان سے کہی اور آدھی بولنے والے کے ذہن میں رہی جیسے کہ موجودہ زمانہ کے متکبرین کا دستور ہے)۔ جامع الفاظ کے ساتھ کلام فرماتے، جن کے الفاظ کم اور معنی زیادہ ہوتے۔ آپ کا کلام ایک دوسرے سے ممتاز ہوتا تھا، نہ اس میں فضول باتیں ہوتیںاور نہ ضرورت سے اتنی کم ہوتیں کہ مطلب پوری طرح واضح نہ ہو۔ آپ نرم مزاج تھے۔ آپ نہ سخت مزاج تھے اور نہ کسی کی تذلیل فرماتے تھے۔ اللہ کی نعمت خواہ کتنی ہی تھوڑی ہو اُس کو بہت بڑا سمجھتے تھے،نہ اس کی کسی طرح مذمت فرماتے تھے اور نہ اس کی زیادہ تعریف فرماتے (مذمت نہ فرمانا تو ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ کی نعمت ہے، زیادہ تعریف نہ فرمانا اس لیے تھا کہ اس سے حرص کا شبہ ہوتا ہے)۔ جب کوئی حق کے آڑے آجاتا تو پھر کوئی بھی آپ کے غصہ کی تاب نہ لاسکتا تھا اور آپ کا غصہ اس وقت ٹھنڈا ہوتا جب آپ اس کا بدلہ لے لیتے۔ اور ایک روایت میں یہ مضمون ہے کہ دنیا اور دنیاوی اُمور کی وجہ سے آپ کو کبھی غصہ نہ آتا تھا (چوںکہ آپ کو اُن کی پروا بھی نہ ہوتی تھی اس لیے کبھی دنیاوی نقصان پر آپ کو غصہ نہ آتا تھا )۔ البتہ اگر کسی دینی اَمر اور حق بات کے کوئی آڑے آتا تو اس وقت آپ کے غصہ کی کوئی شخص تاب نہ لاسکتا تھا اورکوئی اس کو روک بھی نہ سکتا تھا یہاںتک کہ آپ اس کا بدلہ لے لیں۔ اپنی ذات کے لیے نہ کسی پر ناراض ہوتے تھے، نہ اس کا انتقام لیتے تھے۔ جب کسی جانب اشارہ فرماتے تو پورے ہاتھ سے اشارہ فرماتے (کہ انگلیوں سے اشارہ تواضع کے خلاف ہے یا آپ نے انگلی سے اشارہ کو توحید کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ مخصوص فرما رکھا تھا)۔ جب کسی بات پر تعجب فرماتے تو ہاتھ کو پلٹ لیتے تھے۔ اور جب بات کرتے تو (کبھی گفتگو کے ساتھ ) ہاتھوں کو بھی حرکت فرماتے اور کبھی دا ہنی ہتھیلی کو بائیں انگوٹھے کے اندرونی حصہ پر مارتے۔ اور جب کسی پر ناراض ہوتے تو اس سے منہ پھیرلیتے اور بے توجہی فرماتے یا در گزر فرماتے، اور جب خوش ہوتے تو حیا کی وجہ سے آنکھیں جھکالیتے۔ آپﷺ کی اکثر ہنسی تبسم ہوتی تھی، اس وقت آپ کے دَندان مبارک اَولے کی طرح چمک دار اور سفید ظاہر ہوتے تھے۔
حضرت حسن ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسین بن علی ؓ سے حضور ﷺ کی ان صفات کا ایک عرصہ تک تذکرہ نہیں کیا، لیکن جب میں نے اُن کے سامنے اِن صفات کو بیان کیا تومجھے پتہ چلا کہ وہ تو ماموں جان سے یہ باتیں مجھ سے پہلے ہی پوچھ چکے ہیں۔ اور یہ بھی مجھے پتہ چلا کہ وہ اپنے والد ِمحترم سے رسولِ پاک ﷺ کے مکان تشریف لے جانے اور باہر تشریف لانے اور مجلس میں تشریف فرما ہونے اورحضور ﷺ کے طرز و طریقے کو بھی معلوم کرچکے تھے، اور ان میں سے ایک بات بھی انھوں نے نہیں چھوڑی تھی۔

چناںچہ حضرت حسینؓ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد حضرت علی ؓ سے حضورﷺ کے مکان تشریف لے جانے کے حالات دریافت کیے تو انھوں نے فرمایا کہ حضورﷺ کو مکان جانے کی (اللہ کی طرف سے) اجازت تھی۔ اور آپ مکان میں تشریف رکھنے کے وقت کو تین حصوں میںتقسیم فرماتے تھے: ایک حصہ اللہ کی عبادت میں خرچ فرماتے یعنی نماز وغیرہ پڑھتے تھے۔ دوسرا حصہ گھر والوںکے اَدائے حقوق میں خرچ فرماتے(مثلاً اُن سے ہنسنا ، بولنا ، بات کرنا، اُن کے حالات معلوم کرنا)۔ تیسرا حصہ خاص اپنی ضروریات راحت و آرام کے لیے رکھتے تھے۔ پھر اس اپنے والے حصہ کو بھی دو حصوں پر اپنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم فرمادیتے، اس طرح پر کہ خصوصی حضراتِ صحابۂ کرام ؓ اس وقت میں حاضر ہوتے۔ ان خواص کے ذریعہ سے آپ کی بات عوام تک پہنچتی۔ ان لوگوں سے کسی چیز کو اٹھاکر نہ رکھتے تھے (یعنی نہ دین کے اُمور میں نہ دنیاوی منافع میں، غرض ہر قسم کا نفع بلا دریغ پہنچاتے تھے)۔ اور اُمت کے اس حصہ میں آپ کا یہ طرز تھا کہ ان آنے والوں میں اہل فضل یعنی علم و عمل والوں کو حاضری کی اجازت میں ترجیح دیتے تھے ، اس وقت کو ان کی دینی فضیلت کے لحاظ سے ان پر تقسیم فرماتے تھے۔ کوئی ایک حاجت لے کر آتا اور کوئی دو اورکوئی بہت ساری حاجتیں لے کر حاضر ہوتا، آپ اُن کی حاجتیں پوری کرنے میں لگ جاتے اور ان کو ایسے اُمور میں مشغول فرماتے جو خود اُن کی اور تمام اُمت کی اصلاح کے لیے مفید اور کار آمد ہوں۔ آپ ان آنے والوں سے عام مسلمانوں کے دینی حالات پوچھتے اور جو اُن کے مناسب بات ہوتی وہ ان کو بتادیتے اور ان کو یہ فرمادیتے کہ جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ان مفید اور ضروری باتوں کو غائبین تک بھی پہنچا دیں۔ اوریہ بھی ارشاد فرماتے تھے کہ جو لوگ (کسی عذر، پردہ ، دُوری،یا شرم یا رُعب کی وجہ سے) مجھ سے اپنی ضرورتوں کا اظہار نہیں کرسکتے تم لوگ اُن کی ضرورتیں مجھ تک پہنچا دیا کرو، اس لیے کہ جو شخص بادشاہ تک کسی ایسے شخص کی حاجت پہنچائے جو خود نہیں پہنچاسکتا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو ثابت قدم رکھیں گے۔ حضورﷺ کی مجلس میں ضروری اور مفید باتوں کا تذکرہ ہوتاتھا اور ایسے ہی اُمور کو حضور ﷺ خوشی سے سنتے تھے، اس کے علاوہ (لایعنی اور فضول باتیں) سننا گوارا نہیں کرتے تھے۔ صحابہ حضور ﷺ کی خدمت میں دینی اُمور کے طالب بن کر حاضر ہوتے تھے اور کچھ نہ کچھ چکھ کر ہی واپس جاتے تھے (چکھنے سے مراد اُمورِ دینیہ کا حاصل کرنا بھی ہوسکتا ہے اورکسی چیز کا کھانا بھی مراد ہوسکتا ہے)۔ صحابہ حضور ﷺ کی مجلس سے ہدایت اور خیر کے لیے مشعل اور رہنما بن کر نکلتے تھے۔

حضرت حسینؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے حضورﷺ کی باہر تشریف آوری کے متعلق دریافت کیا کہ آپ باہر تشریف لاکرکیا کیا کرتے تھے؟ تو انھوں نے فرمایا کہ حضور ﷺ ضروری اُمور کے علاوہ اپنی زبان کو استعمال نہیں فرماتے تھے۔ آنے والوں کی تألیف ِقلوب فرماتے ، اُن کو مانوس فرماتے، مُتوحّش نہیں بناتے تھے (یعنی تنبیہ وغیرہ میں ایسا طرز اختیار نہ فرماتے جس سے اُن کو حاضری میں وحشت ہونے لگے، یا ایسے اُمور ارشاد نہ فرماتے جن کی وجہ سے دین سے نفرت ہونے لگے)۔اور ہر قوم کے کریم اور معزز کا اِکرام فرماتے اور اس کو خود اپنی طرف سے بھی اسی قوم پر مُتولّی ،سردار مقرر فرمادیتے۔ لوگوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے (یا مضر اُمور سے بچنے کی تاکید فرماتے یا لوگوں کو دوسروں سے احتیاط رکھنے کی تاکید فرماتے) اور خود اپنی بھی لوگوں کے تکلیف پہنچانے یا نقصان پہنچانے سے حفاظت فرماتے، لیکن باوجود خود احتیاط رکھنے اور احتیاط کی تاکید کے کسی سے اپنی خندہ پیشانی اور خوش خلقی نہیں ہٹاتے۔ اور اپنے صحابہ کی خبر گیری فرماتے، لوگوں کے حالات آپس کے معاملات کی تحقیق فرماکر اُن کی اِصلاح فرماتے۔ اچھی بات کی تحسین فرما کر اس کی تقویت فرماتے اور بُری بات کی برائی بتاکر اسے زائل فرماتے اور روک دیتے۔ حضورﷺ ہر اَمر میں اعتدال اور میانہ روی اختیار فرماتے، بات پکی اور صحیح فرماتے، نہ اس طرح کہ کبھی کچھ اور کبھی کچھ۔ لوگوں کی اصلاح سے غفلت نہ فرماتے کہ مبادا! وہ دین سے غافل ہوجائیں یا حق سے ہٹ جائیں۔ ہر کام کے لیے آپ کے ہاں ایک خاص انتظام تھا۔ اَمر حق میں نہ کبھی کوتاہی فرماتے تھے نہ حد سے تجاوز فرماتے تھے۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہونے والے خلقت کے بہترین افراد ہوتے تھے۔ آپ کے نزدیک افضل وہی ہوتا تھا جوہر ایک کا بھلا چاہنے والا ہو۔ اور آپ کے نزدیک بڑے رُتبے والا وہی ہوتا تھا جو مخلوق کی غم گساری اور مدد میں زیادہ حصہ لے۔

حضرت حسین ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ِمحترم سے حضورﷺ کی مجلس کے حالات دریافت کیے تو انھوں نے فرمایا کہ آپ کی نشست و برخاست سب اللہ کے ذکر کے ساتھ ہوتی تھی۔ اور آپ اپنے لیے کوئی جگہ مخصوص نہیں فرماتے تھے اور دوسروں کو بھی جگہ مخصوص کرنے سے منع فرماتے تھے۔ اور جب کسی جگہ آپ تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ ملتی وہیں تشریف رکھتے اور اسی کا لوگوں کو حکم فرماتے کہ جہاں جگہ خالی مل جایا کرے بیٹھ جایا کرو۔ آپ حاضرینِ مجلس میں سے ہر ایک کا حق ادا فرماتے یعنی بشاشت اور بات چیت میں جتنا اس کا حق ہوتا اس کو پورا فرماتے۔ آپ کے پاس کا ہر بیٹھنے والا یہ سمجھتا تھا کہ حضورﷺ میرا سب سے زیادہ اِکرام فرمارہے ہیں۔ جو آپ کے پاس کسی کام سےبیٹھتا یا آپ کے ساتھ کھڑا ہوتا تو آپ اس کے ساتھ رہتے یہاں تک کہ وہ خود ہی چلا جائے۔ جو آپ سے کوئی چیز مانگتا تو آپ اس کو وہ چیز مرحمت فرمادیتے یا (اگر نہ ہوتی تو) نرمی سے جواب فرماتے۔ آپ کی خندہ پیشانی اور خوش خلقی تمام لوگوں کے لیے عام تھی۔ آپﷺ تمام لوگوں سے شفقت میں والد جیسا معاملہ فرماتے۔ اور حق بات میں تمام لوگ آپ کے نزدیک برابر تھے۔ آپ کی مجلس میں حلم و حیا، صبر و امانت پائی جاتی تھیں اور یہی صفات اس مجلس سے سیکھی جاتی تھیں۔ اور آپ کی مجلس میں نہ شور و شغب ہوتا تھا اور نہ کسی کی بے عزتی اور آبرو ریزی کی جاتی تھی۔ آپ کی مجلس میں اول تو کسی سے لغزش ہوتی نہیں تھی سب محتاط ہوکر بیٹھتے تھے، اور اگر کسی سے ہوجاتی تھی تو اس کا آگے تذکرہ نہیں ہوتا تھا۔ آپس میں سب برابر شمار کیے جاتے تھے (حسب ونسب کی بڑائی نہ سمجھتے تھے، البتہ ) ایک دوسرے پر فضیلت تقویٰ سے ہوتی تھی۔ ہر شخص دوسرے کے ساتھ تواضع کے ساتھ پیش آتا تھا۔ بڑوں کی تعظیم کرتے تھے اور چھوٹوں پر شفقت کرتے تھے، حاجت مند کو ترجیح دیتے تھے اور اجنبی مسافر آدمی کی خبر گیری کرتے تھے۔

حضرت حسین ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ِمحترم سے حضورﷺ کا اپنے اہل مجلس کے ساتھ کا طرز پوچھا، تو انھوں نے فرمایا کہ آپ ہمیشہ خندہ پیشانی اور خوش خلقی سے پیش آتے تھے یعنی چہرۂ انور پر تبسّم اور بشاشت کا اثر نمایاں ہوتا تھا۔ آپ نرم مزاج تھے یعنی کسی بات میں لوگوں کو آپ کی موافقت کی ضرورت ہوتی تھی تو آپ سہولت سے موافق ہوجاتے تھے۔ آپ نہ سخت گو تھے نہ سخت دل، اور نہ آپ چِلاّ کر بولتے تھے، نہ فحش گوئی اور بدکلامی فرماتے تھے، نہ عیب گیر تھے کہ دوسروں کے عیب پکڑیں، نہ زیادہ مذاق کرنے والے۔ آپ ناپسند بات سے تغافل برتتے تھے یعنی اُدھر التفات نہ فرماتے گویا کہ سنی ہی نہیں۔ دوسرے کی کوئی امید اگر آپ کو پسند نہ آتی تو اس کو مایوس بھی نہ فرماتے اور اس کو محروم بھی نہ فرماتے (بلکہ کچھ نہ کچھ دے دیتے یا دل جوئی کی بات فرمادیتے)۔ آپ نے اپنے آپ کو تین باتوں سے بالکل علیحدہ فرما رکھا تھا: جھگڑے سے، زیادہ باتیں کرنے سے اور لا یعنی و بے کار باتوں سے ۔اور تین باتوں سے لوگوں کو بچا رکھا تھا: نہ کسی کی مذمت فرماتے تھے، نہ کسی کو عار دلاتے تھے اور نہ کسی کے عیوب تلاش فرماتے تھے۔ آپ صرف وہی کلام فرماتے تھے جو باعث ِاَجر و ثواب ہو۔ جب آپ گفتگو فرماتے تو حاضرین ِمجلس اس طرح گردن جھکا کر بیٹھتے جیسے اُن کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں (کہ ذرا بھی حرکت اُن میں نہ ہوتی تھی کہ پرندہ ذرا سی حرکت سے اُڑ جاتا ہے)۔ جب آپ چپ ہوجاتے تب وہ حضرات کلام کرتے (یعنی حضورﷺ کی گفتگو کے درمیان میں کوئی شخص نہ بولتا تھا، جو کچھ کہنا ہوتا حضورﷺ کے چپ ہونے کے بعد کہتا تھا)۔ آپ کے سامنے کسی بات میں جھگڑتے نہیں تھے۔ جس بات سے سب ہنستے آپ بھی اس بات سے تبسّم فرماتے،اور جس سے سب لوگ تعجب کرتے تو آپ تعجب میں شریک رہتے، یہ نہیں کہ سب سے الگ چپ چاپ بیٹھے رہیں بلکہ معاشرت اور طرز ِکلام میں حاضرین ِمجلس کے شریک ِحال رہتے۔ اجنبی مسافر آدمی کی سخت گفتگو اور بدتمیزی کے سوال پر صبر فرماتے (چوں کہ اجنبی مسافر لوگ ہر قسم کے سوالات کرلیتے تھے اس وجہ سے)۔ بعض صحابہ ؓ ایسے اجنبی مسافروں کو آپ کی مجلس میں لے آتے تھے (تاکہ اُن کے ہر قسم کے سوالات سے خود بھی منتفع ہوں اور ایسی باتیں جن کو ادب کی وجہ سے یہ حضرات نہیں پوچھ سکتے تھے وہ بھی معلوم ہوجائیں)۔ آپ یہ بھی تاکید فرماتے رہتے تھے کہ جب تم کسی حاجت مند کو دیکھو تو اس کی اِمداد کیا کرو۔ اگر آپ کی کوئی تعریف کرتا تو آپ اس کو گوارا نہ فرماتے، البتہ اگر آپ کے کسی احسان کے بدلہ میں بطور شکریہ کے کوئی آپ کی تعریف کرتا تو آپ سکوت فرماتے کہ احسان کا شکر اس پر ضروری تھا، اس لیے گویا وہ اپنا فرضِ منصبی ادا کررہا ہے ۔ کسی کی بات کاٹتے نہیں تھے، البتہ اگر کوئی حد سے تجاوز کرنے لگتا تو اس کو روک دیتے تھے یا مجلس سے کھڑے ہوجاتے تھے تاکہ وہ خود رُک جائے۔

حضرت حسین ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والدِ محترم سے حضورﷺ کی خاموشی کی کیفیت کے بارے میں پوچھا، تو انھوں نے فرمایا کہ آپ چار موقعوں پر خاموشی اختیار فرماتے تھے:
(1) برداشت کرنا
(2) بیدار مغز ہونا
(3) اندازہ لگانا اور
(4) غور و فکر کرنا۔
آپ دو باتوں کا اندازہ لگایا کرتے تھے کہ کس طرح سے تمام لوگوں کے ساتھ دیکھنے میں اور بات سننے میں برابری کا معاملہ ہو۔ آپ باقی رہنے والی آخرت اور فنا ہونے والی دنیا کے بارے میں غور و فکر فرمایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم و صبر دونوں صفتوں سے نوازا تھا، چناںچہ آپ کو کسی چیز کی وجہ سے اتنا غصہ نہیں آتا تھا کہ آپے سے باہر ہو جائیں۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار چیزوں کے بارے میں بیدار مغزی عطا فرمائی تھی: ایک بھلی بات کو اختیار کرنا، دوسرے اُن اُمور کا اہتمام کرنا جن سے اُمت کا دنیا و آخرت میں فائدہ ہو (اس روایت میں چار چیزوں میں سے صرف دو کا ذکر ہے) اور "کنز العمال" کی روایت کے آخر میں یہ مضمون بھی ہے:
اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار چیزوں کے بارے میں بیدار مغزی عطا فرمائی تھی: ایک نیک بات کو اختیار کرنا تاکہ اس نیک بات میں لوگ آپ کی اقتدا کریں، دوسرے بُری بات کو چھوڑنا تاکہ لوگ بھی اس سے رُک جائیں، تیسرے اپنی اُمت کی بھلائی والے کاموں کے بارے میں خوب سوچ بچار کرنا، چوتھے اُمت کے لیے اُن اُمور کا اہتمام کرنا جس سے اُن کی دنیا و آخرت کا فائدہ ہو۔

ماخوذ از کتاب: حیاۃ الصحابہ (جلد اول)
تصنیف: محمد یوسف کاندھلوی
اردو ترجمہ: مولانا محمد احسان الحق (سن اشاعت: جنوری 2003)

Ahadith regarding the attributes of Prophet Muhammad.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں